Princess Became a Prostitute Last -69- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی آخری قسط

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی آخری قسط -- 69

وہ تینوں میری والی سائیڈ پر لپکے مجھے باہر نکالنے کے لئے کہ اتنی دیر میں اختر بائی نے فرنٹ سائیڈ کا دروازہ ڈرائیور کو ان لاک کرنے کو کہا،،ادھر ڈرائیور نے دروازہ ان لاک کیا اور ادھر اختر بائی گاڑی کے اندر،بالکل فلمی سین ہوگیا تھا،اختر بائی کے گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی ڈرائیور نے گاڑی چلا دی،اور تیزی سے بھگاتا ہوااختر بائی کی کوٹھی پہنچ گیا،میرے حواس اپنی جگہ نہیں تھے،اختر بائی مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے گئی،سب سے پہلے مجھے پانی پلایا،میں اس کے گلے سے لگ کر رو پڑی،اختر بائی نے مجھے رونے دیا،اور کسی ملازم کوآواز دے کر کھانا لا نے کو کہا،میں وہیں صوفے پر ڈھے سی گئی،اختر بائی نے مجھے دودھ پلایا،اور ساتھ کچھ کھانے کو دیا،اور ایک گولی کھلا دی،جس کو کھا کر مجھے نیند آگئی میں اختر بائی مجھے اندر بیڈ روم میں لے آئی،میں بیڈ پر گرتے ہی سو گئی،نجانے کتنی دیر سوئی رہی کوئی ہوش نہیں تھا،میری آنکھ شور سے کھلی باہر اندھیرا ہورہا تھا،باہر کافی لوگوں کے اونچا اونچا بولنے کے ساتھ اختر بائی کی بھی آواز آرہی تھی،میں نے اٹھ کر باہر نکل کر دیکھنا چاہا،اتنی دیر میں بیڈ روم کا دروازہ دھڑم سے کھلا اور پولیس والے اندر گھس آئے،جن کے ساتھ فائز بھی تھا،انسپکٹر صاحب یہی ہے میری بہن،جس کو یہ طوائف یہاں اغوا کرکے لے آئی ہے،فائز نے پولیس کے ایک آدمی کو کہا جو انسکپٹرلگ رہا تھا،اتنی دیر میں اختر بائی بھی کمرے میں نمودار ہوئی،یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے،اس لڑکی کو کسی نے اغوا نہیں کیا،بلکہ اس ظالم بھائی کی قید سے بھاگتے ہوئے یہ راستے میں مجھے ملی تو میں اس کو یہاں لے آئی،اختر بائی نے انسپکٹر کو کہا،انسکپٹر صاحب یہ طوائف جھو ٹ بول رہی ہے،بے شک آ پ میری بہن سے پوچھ لیں،آپ سب لوگ خاموش رہیں،میں بات کرتا ہوں،انسپکٹر نے کہا،ہاں لڑکی تمھارا نام کیا ہے،اور یہاں کیسے آئی۔یہ شخص تمھارا بھائی ہے کیا،انسپکٹر نے فائز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،میں نے ایک نظر فائزکی جانب دیکھا اور منہ پھیر لیا،لڑکی بولو،میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے،انسپکٹر نے دوبارہ مجھ سے پوچھا،میں نے سر اٹھایا اور بولنے لگی،انسپکٹر صاحب یہ میرا بھائی تھا اب کچھ نہیں لگتا،میں نے کل شام سے اپنے قید ہونے سے یہاں پہنچنے تک ساری روداد انسپکٹر کو سنا دی،جس کو سن کر فائز کا منہ اتر گیا،لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری،اور بولا،یہ اس طوائف کے دباؤ میں آکر ایسا کہہ رہی ہے،میں نے کہا،میں کسی کے دباؤ میں آکر یہ سب نہیں کہہ رہی،بلکہ حقیقت بیان کررہی ہوں،اگریقین نہ آئے تو جس گھرسے میں بھاگی ہو ں،اس کمرے میں جاکر دیکھیں لیں،میری بات سن کر انسپکٹر نے مجھے کہا چلو ہمارے ساتھ،اور بائی جی آپ بھی چلیں،پھر ہم سب پولیس کی گاڑی میں فائز کے گھرپہنچے،بائی جی کا ڈرائیور اپنی گاڑی ساتھ لایا تھا،میں نے راستے میں انسپکٹر کو بتایا کہ میں تو ننگے پاؤں گھر سے بھاگی تھی بنا دوپٹے کے،میری چیزیں اور جائیداد کے سارے کاغذات وہیں ہیں،اور میری میرے بڑے بھائی سے بات کروائی جائے،ہم لوگ گھرکے اندر پہنچے،جب بیڈ روم میں داخل ہوئے تو وہ فائل اوراشٹام پیپرز وہیں فر ش پر پڑے تھے جیسے میں نے پھینکے تھے میرا دوپٹہ اور چپل بھی وہیں تھی،انسپکٹر یہ سارا منظر دیکھ کر سمجھ گیا،کہ اصل قصور وار کون ہے،میں نے دوسرے کمرے میں جا کر اپنی جائیداد کے کاغذات والی فائل لا کر انسپکٹر کو دکھائی،جس کو دیکھ کر اس نے فائز سے پوچھا،ہاں بھئی اب بولو کیا کہتے ہو،فائز کا منہ چھوٹا سے بن گیا،میں نے کہا انسپکٹر صاحب مجھے میرے بڑے بھائی سے بات کرنی ہے،انسپکٹر نے کہا،جی ٹھیک ہے کرلیں،میں نے ہال میں جا کر حویلی کا نمبر ملایا،کافی دیر بعد کسی نے اٹھایا،شاید کوئی ملازمہ ہو گی،میں نے اس سے فائق بھائی کا پوچھا،تو اس نے بتایا کہ ان کا تو دو دن سے کوئی اتہ پتہ نہیں،ہر جگہ تلاش کررہے ہیں،آپ لوگوں کو بھی فون کئے،مگر کسی نے اٹھایا ہی نہیں،یہ سن کر میں پریشان ہوگئی اور میں نے فون بند کردیا،میرے ذہن میں فائز کی با ت آگئی کہ جب وہ مجھ سے لڑ رہا تھا تو میں نے کہا تھا کہ فائق بھائی کو سب بتا دوں گی اس نے کہا تھا وہ اب کچھ سننے قابل نہیں رہا،میں نے آگے بڑھ کر فائز کا گریبان پکڑ لیا،اورروتے ہوئے پوچھنے لگی،فائق بھائی کہاں ہیں،تم نے ان کے ساتھ کچھ کیا تو نہیں،یہ دیکھ سن کر انسپکٹر بولا،بی بی کیا بات ہے،کچھ ہمیں بھی بتاؤ میں نے انسپکٹر کوفائز کی دھمکی اور حویلی کی ملازمہ کی بات بتا دی،انسپکٹر کوئی بھلا آدمی تھا،اس نے اسی وقت فون اٹھایا اور کسی سے بات کرنے لگا،کچھ دیر بعد اس نے بتایاکہ ہمارے گاؤں کے تھانے میں فائق بھائی کی گمشدگی کی رپورٹ درج ہے،جو ہماری جاگیرکے منشی نے درج کروائی ہے،اب تو فائزکے رہے سہے ہوش بھی اُڑ گئے،انسپکٹرنے فائز کا کہا تم اپنے آپ کو زیر حراست سمجھو،فائز ان کو دھمکیاں دینا لگا،لیکن پولیس والوں نے اس کی ایک نہ سنی اور لے کر چلتے بنے،اب میں اور اختر بائی ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے،مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں،کچھ دیر بعد اختر بائی نے کہا،سیما یہاں تمھارا رہنا اب مناسب نہیں،حویلی بھی نہیں جا سکتی،اگر کہو تو میرے ساتھ چلو،جب تک فائق کا پتہ نہیں چلتا،میں نے بھی یہی مناسب سمجھااور اپنا ضروری سامان لے کر گھر کو لاک کردیا اور اختر بائی کی کوٹھی منتقل ہوگئی،وہ ساری رات اسی پریشانی میں گزر گئی کہ نجانے فائق بھائی کہاں ہوں گے،میں نے حویلی جانے کا فیصلہ کیا،دوسرے دن ابھی ہم ناشتہ کرکے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ملازم نے اندر آکر بتایاکہ انسپکٹر صاحب آئے ہیں،اختر بائی میری وجہ سے آج کل رات کو یہاں ہی رہ رہی تھی،اس نے انسپکٹر کو اندر بلا لیا،انسپکٹر کی شکل پر پریشانی عیاں تھی،اس نے میری طرف دیکھا،اور پھر اختر بائی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا،بائی جی میرے پاس آپ کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں،سیما بی بی آپ کا بڑا بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہا،انسپکٹر کے منہ سے جیسے ہی یہ الفاظ ادا ہوئے،میرے اوپر تو سمجھو پہاڑ گر گیا ہو،میں نے ایک چیخ ماری،اور بولی نہیں انسپکٹر صاحب یہ جھوٹ ہے،ایسا نہیں ہوسکتا،فائق بھائی کو کچھ نہیں ہوسکتا،لیکن میرے رونے چیخنے سے کوئی حقیقت بدل تھوڑی سکتی تھی،سیما صبر کرو،موت سے کوئی بچ نہیں سکتا،انسپکٹر صاحب کیا ہوا ہے،پوری بات بتائیں،انسپکٹر کی زبانی معلوم ہوا کہ کل رات گاؤں کے قریب پہاڑوں سے ایک نعش برآمد ہوئی جس کو جنگلی جانوروں نے بری طرح ادھیڑ ڈالا تھا،نعش کو تھانے لا کر جب شناخت کے لئے گاؤں کے لوگوں کو بلایا گیا تو منشی نے نعش کو کپڑوں سے پہچان لیا،اور فائق بھائی تھے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے،پولیس نے ضروری کارروائی کرکے نعش کو منشی کے حوالے کردیا،کیونکہ فائز تو تھانے میں بند تھا،انسپکٹریہ بتا کر چلا گیا،میں زاروقطار رو رہی تھی،پھر اختر بائی نے کہا،چلو گاؤں کے لئے نکلیں،مجھے کچھ ہوش نہیں تھا،پہلے ابا کا قتل،پھر اماں کی موت،اب فائق بھائی کا قتل،ابھی میری عمر تھی کیا ان سب جان لیوا دکھوں کو سہنے کی،ہم گاؤں پہنچے،ایک خلقت جمع تھی حویلی میں،فائق بھائی کی نعش کو باکس میں بند کردیا گیا تھا کیونکہ اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی،مجھے کچھ ہوش نہیں تھا،کس کس نے مجھے گلے لگا کر افسوس کیا،کوئی خبر نہیں،گو بچپن سے میری دوستی فائز کے ساتھ تھی،اور فائق بھائی سے اتنا کھل کر بات نہیں کی کبھی،لیکن گزشتہ چند دنوں کے واقعات سے مجھے فائز کے مقابلے میں فائق بھائی زیادہ ذمہ دار اور باشعور لگے،لیکن افسوس ان کا ساتھ بس یہیں تک تھا،شام تک ان کو سپردخاک کردیا گیا،اور پھر مجھے بھی حویلی سے ناجانے کیوں وحشت سی ہونے لگی،کہ میں وہاں رکنے کی بجائے شہر واپس آگئی،تین دن بعد رسم۔۔۔۔کے لئے ہم گاؤں گے،فائز نے اپنا جرم قبول کرلیا تھا،اس نے ایک تیر سے دوشکار کھیلنے کا سوچا تھا، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا،لیکن میری باری میں مار کھاگیا،اصل میں فائز نے فائق کو میرے شہر چھوڑکر واپس جاتے ہوئے راستے میں ہی قتل کروا کر نعش گاؤں کے پاس پہاڑوں میں پھینکوا دی تھی،تاکہ الزام ہمارے دشمنوں پر آئے،اور دوسری طرف میرے حصے کی جائیداد بھی ہڑپ کرنے کے درپے تھا،تاکہ ساری جائیداد خود حاصل کرکے عیش کرسکے،وہ فائق بھائی کی جان لینے میں تو کامیا ب رہا،لیکن اپنا گھناؤنا منصوبہ پورا نہ کرسکا،میرا حویلی سے دل بھر گیا تھا،فائز نے اپنا شہر والا گھر اور باقی اپنے حصے کی جائیداد فروخت کرکے پیسہ اپنے مقدمہ پر لگا دیا،لیکن سزا سے نہ بچ سکا اس کو عمر قید ہو گئی،میں مستقل اختر بائی کے ساتھ رہنے لگی،حویلی اور جاگیر کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے حصے کی جائیداد بھی فروخت کرکے گاؤں سے مستقل ناطہ توڑ دیا،اور سارا پیسہ بازار کی مجبور اور بیمار طوائفوں کی فلاح کے لئے ایک ٹرسٹ بنا کر خود اختر بائی کی جگہ سنبھال لی،اور یوں اختر بائی کے مرنے کے بعد میری باقاعدہ رسم کرکے مجھے سیما سے سیمابائی بنا دیا گیا،جوانی سے لے کر ادھیڑ عمر تک زندگی رنگ رلیوں میں گزر گئی،کتنے آئے کتنے گئے،کوئی گنتی یادنہیں،جب کبھی اکیلی ہوتی ہوں تو اپنی پچھلی زندگی کے بارے میں سوچ کر عجیب سے حالت ہو جاتی ہے،یہ تھی میری کہانی،جو صرف ایک سیکس سٹوری نہیں،بلکہ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھامردوں کے اس معاشرے کا بھیانک پہلو ہے،جہاں سگے رشتوں نے محض مال ودولت کے لئے میرے ارمانوں کا خون کردیا،اور میں کئی بار بن بیاہی ماں بنتے بنتے رہ گئی

 

ختم شد

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page