Reflection–03–عکس قسط نمبر

عکس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور بہترین کہانی ۔۔  عکس۔۔ایک ایسے لڑکے کی داستان جو اپنے والدین کی موت کے بعد اپنے چاچا چاچی  کے ظلم کا شکار ہوا اور پاگل بناکر پاگل خانے میں پہنچادیا گیا۔ جہاں سے وہ ایک ایسے بورڈنگ اسکول پہنچا  جہاں سب کچھ ہی عجیب و غریب تھا، کیونکہ یہ اسکول عام انسان نہیں چلا رہےتھے ۔ بلکہ شاید انسان ہی نہیں چلارتھے ۔چندرمکی ۔۔ایک صدیوں پرانی ہستی ۔ ۔۔جس کے پاس کچھ عجیب شکتیاں  تھی۔ انہونی، جادوئی شکتیاں ۔۔۔جو وہ  ان سے شیئر کرتی، جو اس کی مدد کرتے ۔۔۔وہ ان میں اپنی روشنی سے۔۔۔ غیرمعمولی صلاحیتیں اُجاگَر کرتی۔۔۔ جسمانی صلاحیتیں، ہزار انسانوں کےبرابر طاقتور ہونے کی ۔۔جو  وہ خاص کر لڑکوں کے  زریعےیہ طاقت حاصل کرتی ۔۔ ان لڑکوں کو پِھر دُنیا میں واپس بھیج دیا جاتا۔۔تاکہ وہ چندر مکی کی جادوئی صلاحیتوں کے ذریعے، اپنی جنسی قوتوں کا خوب استعمال کریں۔ وہ جتنے لوگوں سے ، جتنی زیادہ جسمانی تعلق رکھیں گے، ان کے اندر اتنی جنسی طاقت جمع ہوتی جائے گی ‘اور چندر مکی کو ان لڑکوں سے وہ طاقت، اس کی دی گئی روشنی کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ۔۔۔ اِس طرح چندر مکی کی جادوی قووتیں اور بڑھ جاتی ۔۔۔ اور پِھروہ ان قووتوں کا کچھ حصہ اپنے مددگاروں میں بانٹ دیتی ۔ اور صدیوں سے یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا آرہاہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عکس قسط نمبر - 03

میں عجیب حیران پریشان بیٹھا رہ گیا۔ کتنا عجیب لڑکا تھا  یہ ۔۔۔میرا  ہم عمُر ہی ہوگا لیکن کیسی بڑے بوڑھوں  والی  باتیں کر رہا تھا ۔۔۔پہیلیوں جیسی۔

سچ پوچھیں تو مجھے بہت ڈر لگنے لگا تھا۔مشکل سے خود کو یکجا کیا اورباتھ روم میں جا  گھسا۔۔۔ نہاتے ہوئے میں جمال کی باتوں پہ غور کرتا رہا۔ جیسے ہی للی پہ ٹھنڈا پانی گرا  تو مجھے سسٹر شیتل کا  لمس  یاد آگیا۔

اتنے میں ہی لنڈسخت ہونے لگا اور مجھے مزہ سا آگیا۔

نہانے کے بعد میں تاول لپیٹ کرباتھ روم سے باہر نکلا تو دیکھا کہ سسٹر شیتل میرے بستر پہ  ہی بیٹھی تھی۔ میں ایک دم  ہڑ بڑا گیا اور ایک قدم پیچھے ہوا تو میرا پاؤں کسی چیز میں الجھا  گیا اورمیں فرش  پہ گرتے گرتے بچا ، لیکن اِس دوران میرے جسم  پہ لپٹا  تولیہ ضرور گرگئی۔ اور میرا  ادھ کھڑا لنڈ سسٹر شیتل کے سامنے تھا۔ ہلکی روشنی میں وہ میرے بستر پہ بیٹھی بڑی پراسرار لگ رہی تھی۔ اس  کا  ڈھیلا  ڈھالا لباس اور اس میں سے اُبھرتا اس کا چہرہ آج  بڑا مختلف دِکھ رہا  تھا۔

اس کی آنکھوںمیں میں وہ مقناطیسی چمک نہیں تھی۔ آج میں نے غور سے پہلی بار اس کو دیکھا تھا۔ وہ کافی پرکشش عورت تھی۔

28 سال سے زیادہ بڑی  نہ ہوگی۔۔۔  وہ اٹھی اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے  میرے پاس آگئیں۔ میں بُت  بنا کھڑا تھا۔۔۔اس نے میری آنکھوں سے نظر ہٹا کر میرے لنڈکو دیکھا اور ایک عجیب سی سمائل دی۔

مجھے ایک دم سے اپنے ننگے ہونے کا احساس ہوا ۔ میں نے عام طور پہ فوراً اپنے ہاتھوں سے اپنے لنڈ کو کوچھپانے کی کوشش کی۔۔۔اس پر سسٹر شیتل زور سے ہنسی اور بولی :

آئی تھنک  ہم لیٹ ہو رہے ہیں شانی ، چلو ، 9 بج چکے ہیں . ” اتناکہہ کر وہ  پلٹی اور دروازے کے پاس جاکر کھڑی ہو گئی۔

و ،   و، و  وہ سس ، ، ، سسسسس ، ، ، ، مممم،،،،مم، ، م،،،، میں  کک کپپ،،، کپر کپڑ ، ، ،   پپپپپ ہننن لوننں ؟ ؟ ”

جتنی مشکل آپ کو  یہ جملہ پڑھنے میں ہو رہی ہوگی ، سمجھیں اتنی ہی مجھے یہ جملہ بولنے میں ہو رہی تھی۔

اس نے مجھے دیکھا اور ایک دم سے اس کی آنکھوں میں وہی مقناطیسیت ابھرآئی۔  اور غصے سے بولی :

پاگل لڑکے !کپڑوں کا ٹائم نہیں ۔ یہ تاول ویسے ہی لپیٹو اور چلو میرے ساتھ۔۔۔ 9 بج چکے ہیں  ”

میں کسی کٹھ پتلی کی طرح ،نا  چاہتے ہوئے بھی اس کے کہنے پہ عمل کرنے لگا۔  تولیہ لپیٹا اور سسٹر شیتل کے پیچھے ہو لیا۔۔۔تنگ  راہداریوں کی دھیمی روشنی میں اس کا  کھلا ڈھیلا چوغہ نما سیاہ  ڈریس راہداریوں کے فرش کوچھو رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ چل نہیں ، ہوا میں تیر رہی ہو۔

کچھ منٹ گھومنے کے بعد ہم اسی ہال نما روم میں آچکےتھے۔۔۔لیکن اِس وقت یہاں کچھ الگ ماحول تھا۔۔۔اندر  دیواروں سےہلکی ہلکی روشنی پھوٹ رہی تھی اور اِس روشنی میں اس کمرے کے بیچ  میں وہی بدروح  چہرے  والی سسٹرکترین کھڑی تھی۔اس کے ہاتھ میں ایک جلتا  ہوا مشغل تھی ۔اس کے ساتھ وہی دوپہر والے 2 لڑکے اپنے پاجاماؤںمیں ،سہمے ہوئے کھڑے تھے۔۔۔ جبکہ اسکول کی دیگر سسٹرز اور ٹیچرز اسی طرح کےلباس میں ملبوس ان کے گرد دائرہ بنائے کھڑی تھیں۔ سسٹر شیتل نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھسیٹتے  ہوئی مجھے سسٹر کترین کے پاس لے آئی۔۔۔کترین ہمیشہ کی طرح ہولناک لگ رہی تھی۔

جو تم سے پوچھیں گے۔۔۔ تم جواب دو گے۔بولو منظور ہے ؟ ” اس کی خوفناک آواز میرے کانوں تک پہنچی۔ میں نے بولنا چاہا لیکن خوف سے بول نہ پایا۔۔۔میں نے ہاں میں سَر ہلایا ۔

سسٹرکترین نے 2 بار اور مجھ سے یہی سوال پوچھا  اور پِھر اپنے ہاتھ میں پکڑی مشغل ، سسٹرشیتل کو دیتے ہوئے مجھ سے بولی۔

تیرا  چاچا اکرم۔۔۔ تیرا سب سے بڑا دشمن  ہے۔ کیا یہ سہی ہے ؟ ” میں تھوڑا سا حیران ہوا کہ  اس کو یہ کیسے پتہ ، لیکن پِھر مجھے ایک دم سے اکرم چاچا  پہ غصہ آنےلگا اور میں نے زور سے اسبات میں سَر ہلایا۔ “

تیری  ماں  باپ کی موت کا سب سےبڑا فائدہ کس کو ہوا ؟  کیا تو جانتا ہے ؟

عجیب سوال تھا ۔میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا۔ اور کیسے سوچتا ؟ ایک تو میں چھوٹا تھا ،  دوسرا  اتنی سی عمر میں ذہنی مریض بنا دیا گیا تھا ۔۔۔ مجھے اِس کا جواب سمجھ نہیں آرہا تھا۔

کیا تو جانتا ہے ؟سسٹرکترین کی ہولناک آواز پِھر گونجی۔۔۔میں نے نفی میں سَر ہلا دیا ۔سسٹر کترین نے سسٹر شیتل کو دیکھا اور پِھر دوبارہ مجھ سے بولی “اگر تجھے موقع ملے تو کیا تو اپنے چاچا سے بدلہ لے گا ؟

میں اکثر ایسا سوچا کرتا کہ کیسے اکرم چاچا کو سزا دوں۔ لیکن مجھے لگتا تھا کہ میں بے بس ہوں اور ایسا میرے  اختیار میں نہیں۔۔۔مگر سسٹرکترین کے اِس سوال پہ جیسے میرے اندر ایک انگارہ سا بھڑکا تھا۔میں نےجنونی انداز میں سر ہلاتے ہوئے  ‘ ہاں میں جواب دیا۔

سسٹر کترین کے مکروہ چہرے پہ اس سے بھی کہیں زیادہ مکروہ سمائل پھیل گئی۔

دیر آئد ، درست آئد ” اس کے منہ سے نکلا اور پِھر اس نے مجھے کندھے سے پکڑ کرسسٹر شیتل کے حوالے کر دیا اور خود ان دونوں لڑکوں کی جانب بڑھی۔۔۔ ان دونوں کی آنکھیں ایک دم سے پھیل گئیں جیسےانہوں نے کوئی خوفناک چیز دیکھ لی ہو۔

اچانک دو ہاتھ میرے پیچھے سے آئے اور کسی نے میری آنکھوں پہ ایک پٹی  سی باندھ دی۔

یہ یقینا ً سسٹر شیتل تھی ۔۔۔ اسی دوران غُرانے کی آوازیں آئیں۔۔۔ ایسا لگا کہ جیسے کوئی جنگلی جانور یہاں آگیا ہو۔ ساتھ ہی ان دونوں لڑکوں کی دلخراش چیخیں بلند ہوئی۔۔۔ ابھی میں غور کر ہی  رہا

تھا کہ مجھے سسٹر شیتل کی گرفت اپنے بازو پہ فیل ہوئی  اور مجھے ایسا لگا جیسے میں ہوا میں  اُڑ رہا  ہوں۔

ان لڑکوں کی ہولناک چیخیں دور ہوتی گئیں اور پِھر ایک دم سے ایسا لگا جیسےمیں نیچے گر رہا ہوں۔ اسی دوران میری آنکھوں کی پٹی کھل گئی اور میں نے خود کو سسٹر شیتل کے روم میں پایا۔

وہ میرے ساتھ ہی کھڑی تھی اور میرا بازو ابھی بھی اس کی گرفت میں تھا۔

 کیا ہوا سسٹر ؟ سب کہاں گئے ؟ وہ دونوں لڑکے ؟

و ، ، و،،  و،،، و و ہ ۔۔۔۔۔ وو

لاتعداد سوالات میرے منہ سے اُبلنے لگے۔

ریلیکس” وہ میرا بازو چھوڑتے  ہوئےبولی  “سب بتا دیا جائیگا ۔۔۔لیکن ابھی تم پسینے میں بھیگ رہے ہو ۔ نہا لو جا کر  ” اتناکہہ کراس نے اپنے واش روم کی طرف اشارہ کیا اور خود وہ الماری کی جانب مڑ گئی۔ میں واقعی پسینے پسینے ہو رہاتھا ۔۔۔ دماغ میں ان لڑکوں کی چیخیں اور پِھر وہ اُڑنے کا احساس گھوم رہا تھا۔ جمال کی باتیں بھی بیچ میں یاد آنےلگیں۔ یہ میں کہاں پھنس گیا تھا ؟ ان ہی سوچوں میں  جلدی نہا کر باہرنکلا تو سسٹر شیتل کرسی پہ بیٹھی تھی۔۔۔ اس کا چوغہ سَر اور کندھوں سے کھلا ہواتھا جہاں سے اس کے شانو کی جلد ہلکی روشنی میں چمک رہی تھی۔

ادھرآ کر کھڑے ہو  ” اس نے اشارے سےمجھے بستر کے پاس کھڑا ہونے کا کہا میں بیٹھ گیا تو اس نے کہا۔

پوچھو ، کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟

مجھے سمجھ نہ آیا  کہاں سے شروع کروں۔میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ ایک دم سے کرسی سے اٹھی اور اس نے ایک جھٹکے سے اپنا  چوغہ اپنے جسم سے  الگ کر دیا ۔

سسٹر شیتل نے اندر کچھ نہیں پہنا تھا !وہ الف ننگی حالت میں میرے سامنےکھڑی تھی ۔۔۔میں نے آج  تک کسی عورت کو ایسی مادرزاد ننگی حالت میں نہ دیکھا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ اپنی آنکھوں پہ رکھنےچاہے تو اس نے کہا ۔

 شرم کو اپنی روح سے نوچ کر پھینک دو۔۔ جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم۔۔۔کیا سمجھے ؟ ” اتنا کہہ کر وہ کھلکھلا کے ہنسی۔

وہ اِس  وقت کہیں سے سسٹر شیتل نہیں لگ رہی تھی اس کے  بال  بکھرے ہوئے شانو تک پھیل چکے تھے اس کا چہرہ اور بدن چمک رہا تھا ۔۔۔ایک سنہری روشنی سی اس کے جسم سے پھوٹ رہی تھی جو اسے نہایت پراسرار اور پرکشش بنا رہی تھی ۔ وہ اور قریب آگئیں۔ اس کے ممے میری آنکھوں کے سامنے تھے۔گول اور تنے ہوئے جیسے خربوزے  ہوں۔ان پہ ہلکے براؤن سے نپلز مجھے متوجہ کر رہے تھے اس سے نیچے میری نظر دوڑ انے کی ہمت نہیں ہوئی۔

آاؤو ،  پہلے میں تمہیں سیراب کردوں۔ تمہارے اندر کا خوف اورجھجک،  مٹا  دوں” وہ اتنا کہہ کر بستر پہ بیٹھ گئی اور میرے ٹاول کو دیکھتے ہوئے بولی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page