Reflection–12–عکس قسط نمبر

عکس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور بہترین کہانی ۔۔  عکس۔۔ایک ایسے لڑکے کی داستان جو اپنے والدین کی موت کے بعد اپنے چاچا چاچی  کے ظلم کا شکار ہوا اور پاگل بناکر پاگل خانے میں پہنچادیا گیا۔ جہاں سے وہ ایک ایسے بورڈنگ اسکول پہنچا  جہاں سب کچھ ہی عجیب و غریب تھا، کیونکہ یہ اسکول عام انسان نہیں چلا رہےتھے ۔ بلکہ شاید انسان ہی نہیں چلارتھے ۔چندرمکی ۔۔ایک صدیوں پرانی ہستی ۔ ۔۔جس کے پاس کچھ عجیب شکتیاں  تھی۔ انہونی، جادوئی شکتیاں ۔۔۔جو وہ  ان سے شیئر کرتی، جو اس کی مدد کرتے ۔۔۔وہ ان میں اپنی روشنی سے۔۔۔ غیرمعمولی صلاحیتیں اُجاگَر کرتی۔۔۔ جسمانی صلاحیتیں، ہزار انسانوں کےبرابر طاقتور ہونے کی ۔۔جو  وہ خاص کر لڑکوں کے  زریعےیہ طاقت حاصل کرتی ۔۔ ان لڑکوں کو پِھر دُنیا میں واپس بھیج دیا جاتا۔۔تاکہ وہ چندر مکی کی جادوئی صلاحیتوں کے ذریعے، اپنی جنسی قوتوں کا خوب استعمال کریں۔ وہ جتنے لوگوں سے ، جتنی زیادہ جسمانی تعلق رکھیں گے، ان کے اندر اتنی جنسی طاقت جمع ہوتی جائے گی ‘اور چندر مکی کو ان لڑکوں سے وہ طاقت، اس کی دی گئی روشنی کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ۔۔۔ اِس طرح چندر مکی کی جادوی قووتیں اور بڑھ جاتی ۔۔۔ اور پِھروہ ان قووتوں کا کچھ حصہ اپنے مددگاروں میں بانٹ دیتی ۔ اور صدیوں سے یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا آرہاہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عکس قسط نمبر - 12

 اچانک میرے عقب سے ایک سایہ ابھرا اورچلتا ہوا میرے سامنے آگیا ۔ اس نے ہاتھ اٹھایا اور آگ کا دائرہ یکدم ٹھنڈا  ہو گیا۔ سائے نے پِھر ہاتھ اٹھایا تو دیواروں پہ لگی مشغلیں جیسے زور سے بھڑک اٹھیں۔ ہال میں اچانک خوب روشنی ہو گئی۔ میری نظر اس سائے پہ پڑی تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ مکروہ چہرے والی سسٹرکترین تھیں۔ میں نے سَر گھوما کرسرد پڑتے آگ کے دائرے میں دیکھا تو ایک قدرے چھوٹا سا وجود،  سُرخ اور سیاہ لبادے میں لپٹا کھڑا تھا۔۔۔ ہال میں موجود سب لوگوں کے چہرے واضح ہوگئے۔ سسٹر کترین نے ایک دم اپنےحلق سے سِیٹی جیسی آواز نکالی اور تمام لوگ جیسے کچھ سرگوشیاں کرنے لگے ۔

ایک ساتھ ، ایک آواز میں ۔۔۔آہستہ آہستہ یہ سرگوشیاں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔
جیسے کوئی منتر پڑھا جا رہا ہو۔ اِس منتر کی آواز گویا میرے دماغ میں گونجنے لگی۔ مجھ پہ ایک نیم مدہوشی سی طاری ہونے لگی۔ میری آنکھیں پلکوں کے اُوپر ہوگئیں۔۔۔میرے جسم میں ایک زلزلہ سا آگیا۔ میں بےقابو سا ہوتاگیا اور میں نے کھڑے کھڑے کسی نشئی کی طرح جھومنا  شروع کر دیا۔
اچانک ہال کے ایک کونے سے سنہری روشنی سی اُبھَرنا شروع ہوگئی۔ یہ روشنی گول گھومتے ہوئے ایک گولے کی شکل اختیار کر گئی ۔


سنہری روشنی کا یہ گولا ہوا میں تیرتا ہوا سب لوگوں کے سروں پہ چمکنے لگا۔ سرگوشیوں کی آوازیں رک گئیں۔

اور ایک دم سے سب نے اپنے کالے چوغیں اُتار دیئے۔۔۔سب نے اندر کچھ نہ پہنا تھا۔ سب برہنا تھے۔ اسکول کا تمام سٹاف ، اور کچھ غیر شناسا  سے چہرے۔۔۔۔یہ سب چندر مکی کے مددگار تھے۔

سنہری روشنی کا گولا پورے ہال میں سنہری روشنی پھیلاتا ہوا میرے پاس آکر رک گیا۔ کچھ سیکنڈ ہوا میں معلق رہنے کے بَعْد اچانک جیسے اس میں سے  سنہری کرنوں کی بارش شروع ہو گئی۔

نیچے کرنیں جمع ہوتی گئیں اور ایک وجود شکل لینے لگا۔۔۔ چند سیکنڈز میں روشنی کا گولا سسٹر شیتل میں تبدیل ہو چکا تھا ! سسٹر شیتل اِس وقت
کسی دیو مالائی کہانی کی کوئی دیوی لگ رہی تھی ۔

اس کے جسم کا ایک ایک حصہ جیسے پرفیکٹ تھا۔۔۔ اس کا حُسْن سنہری روشنی میں کسی شیشے کی طرح چمک رہا تھا۔۔۔ بہت دلفریب ،  اور بہت پراسرار ! میں مست ہوکر جھوم رہا تھا لیکن سسٹر شیتل کے حَسِین وجود پہ نگاہ پڑتے ہی مجھے ہوش سا آنے لگا۔۔۔ وہ ہوا میں تیرتی میری طرف آئیں اور انہوں نے ہاتھ بڑھا کر میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا ۔

وہ جھکی اور اس نے اپنے ہونٹ میرے کان کے قریب لاکر سرگوشی کی۔

آج مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ آج تم میرے اور میرے مددگاروں کی طاقت کا ذریعہ بن جاؤ گے۔ کیا تم تیار ہو ؟

ہاں ں ں۔۔۔  میری زبان نہیں، بلکہ میرے ذہن نے جواب دیا ۔

سسٹر شیتل نے ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ میرے لبوں پہ ایک بوسہ دیا۔ ذہن پہ پِھر سے مستی  چانے لگی ، جسم میں پِھر زلزلہ آگیا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا  کہ جیسے مجھے سب پتہ ہو کہ آگے کیا ہوگا ، اور مجھے کیا کرنا ہے ۔

سسٹر شیتل مجھے بوسہ دینے کے بَعْد پیچھے ہوئی اور دوبارہ سے سنہری کرنوں کے گولے میں تبدیل ہونے لگی۔ وہ گولا ہوا میں تیرتا ہوا اس جگہ پہنچ گیا جدھر آگ کا دائرہ بنا تھا اور اس کے اندر سرخ ، کالی چادروں میں کوئی لپٹا نظر آرہا تھا۔۔۔ سنہری گولا اس کے اُوپر آکر رک گیا۔ ایک دم سے ہوا سی چلی اور کالا سرخ کپڑا پھڑپھڑاتا  ہوا نیچے گرا۔۔۔ اندر ایک چبوترے پہ ایک لڑکی لیٹی ہوئی تھی۔ یہ نوشی تھی ۔ اس کاآدھا جسم سفید سے کپڑے میں لپٹا  ہوا تھا ۔۔۔ جو کافی  زیادہ ٹرانسپیرینٹ تھا ۔ اس کی آنکھیں یوں بند تھیں جیسے وہ بڑےسکون سے سو رہی ہو۔ چہرے پہ سوتے ہوئے بھی  بلا  کی معصومیت تھی۔

سنہرا گولا اس کے بالکل اُوپر معلق ہو گیا ۔۔۔ اور اس پہ اپنی کرنیں برسانے لگا۔۔۔ مجھے ایک بار پِھر اپنے بازوں پہ گرفت محسوس ہوئی تو دیکھا کہ مس کُنایہ اور مس فریال مجھے بازوں سے پکڑ کر نوشی اور سنہری گولے کے پاس لے جا رہی تھیں۔  جیسے ہی کرنیں نوشی پہ گرنا شروع ہوئی تو وہ ہڑ بڑا کے نیند سے بیدار ہوگئی۔۔۔ اس کی نظر سامنے کھڑے لوگوں پہ گئی تو میں،مس کُنایہ اور اس کی ماں ، مس فریال نظر آئے۔۔۔ اس نے اپنی  ماں کو دیکھ کے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ، لیکن اس کے برعکس اس کی چیخیں نکلنی شروع ہو گئیں۔

سنہری کرنوں کی بارش جیسے اس کے چھوٹے سے نیم برہنا جسم کو جگہ جگہ سے جلا رہی تھی ۔  اس کے جسم پہ کوئی جلنے کا داغ تو نہیں آرہا تھا ، لیکن اس کی چیخوں اورجسم کی پھڑ پھڑاہٹ سے صاف لگ رہا تھا۔کہ وہ تکلیف میں ہے۔  اچانک مجھے کسی جانور کو غراتے ہوئے سنائی دیا۔ میں نےگردن گھوما کے دیکھا تو سسٹر کترین  جیسے زبان نکالے کھڑی تھیں۔ اس کا مکروہ چہرہ اب کئی گنا زیادہ ہیبت  ناک لگ رہا تھا۔۔۔ اس کے دانت ہونٹوں سے باہر آرہے تھے اور آنکھیں پھیل کر کانوں  سے جا ملی تھیں ۔ وہ نوشی کی جانب دیکھ کر اپنے موٹے ، ٹپکتے ہونٹوں پہ اپنی لمبی لال زبان پھررہی تھی۔ اسی دوران اچانک اس کی آنکھیں مجھ سے ملیں اور اس کے خوفناک چہرے پہ اس سے کہیں زیادہ خوفناک سمائل سی پھیل گئی ۔

میں نے گھور گھور کے دوبارہ چیختے نوشی کو دیکھا تو وہ چابوترے سے اٹھ کے بھاگنے لگی تھی۔۔۔ مس فریال نے فوراً میرا  بازو چھوڑا اور اس کی طرف لپکی۔ اس نے نوشی کو پکڑ كے دوبارہ چابوترے پہ لٹا دیا۔ ادھر مس کُنایہ نے مجھے کھینچا اور مجھے دائرے میں دکھیل دیا۔ میں جیسے ہی دائرے میں داخل ہوا تو میری مستی کئی گناہ بڑھ گئی  اور مجھ پہ جنون طاری ہونے لگا۔

میں نے گھوم کر مس کُنایہ کو دیکھا۔ ان کا برہنا ، چست ، ورزشی بدن دیکھ کر میرے اندر طوفان آگیا۔ میں کسی جانور کی طرح غُرا کر ان کی طرف بڑھا۔ مجھے ایسا لگا جیسےمجھ میں اور سسٹرکترین  میں زیادہ فرق نہ ہو۔ میں نے جیسے  ہی  اپنا  پاؤں دائرے سے نکالنے کی کوشش کی تو محسوس ہوا جیسے میں کسی اندیکھی دیوار سے ٹکرا گیا ہوں۔  ہاتھ، پاؤں مارے لیکن میں دائرے سے نہ نکل سکا ۔

مس کُنایہ اِس دوران فوراً سے مڑ کر باقی لوگوں کی طرف بھاگ گئیں تھی۔ میں غُرا کر مس فریال اور نوشی کی جانب مڑا تو دیکھا مس فریال اپنی بیٹی کو چابوترے سے زبردست چپکا رہی تھیں۔
جب کے نوشی پہ بدستور سنہری گولا کرنیں برسا کر اسے جھلسا رہا تھا۔
نوشی کے جسم پہ سفید کپڑے جل جل کے گر رہے تھے۔۔۔ وہ نیم برہنا ، جسم پہ لٹکتے کپڑوں میں، اپنی مکمل برہنا ماں سے آزاد ہونے کی تگ و دو میں مصروف تھی ۔ ان کو یوں دیکھ کر ، نا چاہتے ہوئے بھی میرے لن میں گہما گہمی شروع ہوئی اور میں غراتا ہوا  ان کی جانب بڑھا ۔ اسی لمحے
سنہرا گولا اپنی تمام کرنیں نوشی پہ برسا چکا تھا۔ نوشی اچانک رک سی گئی ،  اور اس نے مزاحمت چھوڑ دی ۔

 مس فریال فوراً پیچھے ہو گئیں۔ نوشی کسی روبوٹ کی طرح خود ہی چابوترے پہ دوبارہ لیٹ گئی ۔ اس نے آنکھیں گھوما کر میری طرف دیکھا۔ اس کی شکل پہ اب بھی معصومیت تھی لیکن آنکھوں میں خوف بھی تھا۔۔۔ میں اس کے پاس پہنچا تو اسکا جوانی کی جانب مائل جسم مجھے جیسےاپنی جانب کھینچنے لگا۔

شاااانی ، تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ ماما۔۔۔ دیکھیں ۔۔۔ پلیز  ماما

 نوشی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا بدن اس کے قبضے میں نہ ہو ، لیکن اس کا ذہن جاگ رہا  ہو۔
مس فریال اس کے پاس آگئی۔

تو اَمر ہو جائے گی۔ چندر مکی پہ نثار ہونے جا رہی ہے تو۔۔۔ ہمت کر میری بچی”  مس فریال اس کو عجیب جھوٹے دلاسے دیئے جا رہی تھی ، لیکن ان کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے ۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page