Reflection–20–عکس قسط نمبر

عکس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور بہترین کہانی ۔۔  عکس۔۔ایک ایسے لڑکے کی داستان جو اپنے والدین کی موت کے بعد اپنے چاچا چاچی  کے ظلم کا شکار ہوا اور پاگل بناکر پاگل خانے میں پہنچادیا گیا۔ جہاں سے وہ ایک ایسے بورڈنگ اسکول پہنچا  جہاں سب کچھ ہی عجیب و غریب تھا، کیونکہ یہ اسکول عام انسان نہیں چلا رہےتھے ۔ بلکہ شاید انسان ہی نہیں چلارتھے ۔چندرمکی ۔۔ایک صدیوں پرانی ہستی ۔ ۔۔جس کے پاس کچھ عجیب شکتیاں  تھی۔ انہونی، جادوئی شکتیاں ۔۔۔جو وہ  ان سے شیئر کرتی، جو اس کی مدد کرتے ۔۔۔وہ ان میں اپنی روشنی سے۔۔۔ غیرمعمولی صلاحیتیں اُجاگَر کرتی۔۔۔ جسمانی صلاحیتیں، ہزار انسانوں کےبرابر طاقتور ہونے کی ۔۔جو  وہ خاص کر لڑکوں کے  زریعےیہ طاقت حاصل کرتی ۔۔ ان لڑکوں کو پِھر دُنیا میں واپس بھیج دیا جاتا۔۔تاکہ وہ چندر مکی کی جادوئی صلاحیتوں کے ذریعے، اپنی جنسی قوتوں کا خوب استعمال کریں۔ وہ جتنے لوگوں سے ، جتنی زیادہ جسمانی تعلق رکھیں گے، ان کے اندر اتنی جنسی طاقت جمع ہوتی جائے گی ‘اور چندر مکی کو ان لڑکوں سے وہ طاقت، اس کی دی گئی روشنی کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ۔۔۔ اِس طرح چندر مکی کی جادوی قووتیں اور بڑھ جاتی ۔۔۔ اور پِھروہ ان قووتوں کا کچھ حصہ اپنے مددگاروں میں بانٹ دیتی ۔ اور صدیوں سے یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا آرہاہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عکس قسط نمبر - 20

ماضی میں جا کر مجھے ایک بار پِھر غصہ آنے لگا۔۔۔ میں نے سسٹر شیتل کی کمر کو ایک بار پِھر دونوں ہاتھوں سےپکڑا  اور دھکے پہ دھکا مار کر چودنا شروع کر دیا ۔اس کے جسم سے سنہری شعائیں نکل نکل کے سوئی کی طرح میرے جسم میں پیوست ہونے لگیں۔  مجھے ہلکی چبھن کا احساس ہوا۔لیکن ساتھ ہی ایسا لگا جیسے ان کے چُبھنے سے میرے اندرکچھ بھرا  جا رہا  ہو۔ جیسے میرے اندر کوئی ‘ ڈاونلوڈنگ ’ اسٹارٹ ہوگئی  ہو۔

ہدایات ، سکرپٹ ، اگلے کچھ دن میں کیا کرنا ہے ، اور کیا نہیں۔۔۔ سب کچھ میرے ذہن میں اُتَر رہا  تھا “

“سب یاد ہے مجھے ،سب کچھ   یاد ہے

 میں زور سے چیخا اور میں نے جھٹ سے سسٹر شیتل کا گلا پکڑ لیا۔ میں اسے زور زور سے چود رہا تھا اور اتنی ہی جان سے اس کا گلا دبا رہا تھا ۔

اس کے چہرے پہ سرور بڑھتا جا رہا تھا ، اسے کوئی تکلیف نا ہورہی تھی۔ وہ یقینا عام انسان نا تھی۔ میں جتنا چاہے جان مارتا ، اسے اتنا ہی اور مزہ
ملتا ۔۔۔شاید کسی دیوی سے سیکس کرنا  ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اس کے جسم کو یکایک  جھٹکے پہ جھٹکا سا لگا اور مجھے اپنے لن پہ اس کا پانی کسی ریلے کی طرح بہتا محسوس ہوا۔ اس کے چہرے پہ لذت اور سکون کےاثرات  ابھر آئے ۔ میں نے اس کا گلا چھوڑا اور ا بھی میں خود بھی بس چھوٹنے والا ہی تھا کہ ایک کرنٹ سا لگا اور جھماکا ہوا۔  میں اچھل کر تھوڑا سا دور ہو گیا اور میرا لن ان کی پھدی سے پھڑک کرنکل  پڑا۔

سسٹر شیتل میری طرف ستائشی نظروں  سے دیکھتے ہوئے بولی

 “تم مجھے اپنی منی دے چکے ہو۔۔۔ ان کی نظریں میرے لن پہ مرکوز ہوئی۔۔۔ تمہارے پانی سے اِس وقت کسی اور کی پیاس بجھانا ہوگی۔۔۔جس کو اس کی ضرورت ہے۔

 اتنا کہہ کر انہوں نے آنکھ سے مس کُنایہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ ابھی بھی فرش پہ پڑی لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی۔

ان کا ایک ہاتھ اپنی پھدی پر تھا اور ان کی آنکھیں بند تھیں ۔

مجھے ابھی بس فارغ ہونا تھا۔ میرا مزہ بیچ میں ادھورہ رہ گیا تھا۔

 میں نےہاتھ بڑھا کر مس کُنایہ کو بالوں سے پکڑا اور اُوپر اٹھایا، تو وہ بدستور آنکھیں بند کیے، تکلیف سے بلبلاتے ہوئے کھڑی ہونے لگی۔ وہ ابھی بھی بے جان سی ہوکر جھوم رہی تھی۔ میں نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کے ان کے منہ میں گھسیڑ ڈَالا۔ ان کی آنکھیں ابل پڑیں۔  اور میری آنکھیں بند ہوگیئں۔
میں نے اپنا سَر پیچھے کیا اور دونوں ہاتھوں سے ان کا سَر پکڑ کے ایک بار پِھر ان کا منہ چودنے لگا۔ جو چیز اسٹارٹ کی جائے اس کو فنِش کرنا ضروری ہوتا ہے۔
نیچے مس کُنایہ کی غوں غوں غورڑڑ-لانائی” کی آواز آرہی تھی اور میں مزے سے ان کے منہ کی پھدی بنا رہا تھا۔
مجھے اب جلد اَز جلد وہ سب کرنا تھا جو چندر مکی کی روشنی نے مجھے سمجھا پڑھا دیا تھا۔ میری سپیڈ تیز ہوگئی اور ساتھ ہی مس کُنایہ کی آوازیں بھی۔ جیسے ہی میں چھوٹنے کے قریب ہوا تو میں نے ان کا منہ اپنے لن پہ دبا کر اس کی ٹوپی انکے حلق تک پہنچا دی۔۔۔ میرے ہاتھوں نے ان کا سَر کس کر اپنے لن پہ دبا لیا۔

مس کُنایہ پھڑپھڑاتے ہوئے بدستور میری رانوں پہ ہاتھ مار مار کے میری گرفت ہلکی کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان کی سانس رک رہی تھی۔ اور انہی روکتی سانسوں کے بیچ میں نے اپنی منی کی پچکاریاں ان کے حلق میں مارنا شروع کردیں۔

 جیسے ہی میری منی ان کے حلق سے  اتری، وہ شانت ہوتی گئیں۔  میں نے ایک ایک قطرے سے ان کا حلق سیراب کرنے کے کچھ دیر بَعْد تک بھی اپنے لن  پہ ان کا منہ دبائے رکھا ۔میں نے آنکھیں کھولیں اور مس کُنایہ کے منہ سے اپنا لن نکل کر سسٹر شیتل کی طرف بڑھا ۔ سسٹر شیتل ہوا میں تیرتی میرے پاس آئی اور میرے سَر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے میرے لبوں کو ایک بوسہ دیا۔اور پِھر سنہری شعاعوں میں تبدیل ہوکر دوبارہ ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں سامنےلگی ایک جھماکہ سا ہوا ، اور سنہری روشنی غائب ہوگئی۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو مس کُنایہ اٹھ کے واشروم میں جا رہی تھیں۔ ان کی مٹکتی، ننگی گانڈ کو تاڑتے ہوئے، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔

مجھے نہلانے کا ان کو اب کافی تجربہ ہو چکا تھا۔

دوپہر کے کھانے کے بَعْد مس کُنایہ نے مجھے تیار ہونے کو بولا۔

ہم دونوں پِھر ڈرائیور کے ساتھ شہر کی جانب روانہ ہوگئے۔ مس کُنایہ نے پرپل کلر کا فٹ شلوار کرتا پہن  رکھا تھا۔ جس میں ان کا ورزشی بدن زور زور سے دُنیا کو اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا۔ ہم دونوں پیچھے بیٹھے تھے اور آگے ایک بوڑھا ڈرائیور۔

میں بار بار ان کی گانڈ کے نیچے ہاتھ گھساتا جاتا اور وہ سمائل دے کر مجھے ایسے دیکھتی رہیں جیسے میں کوئی بہت کیوٹ سی شرارت کر رہا ہوں ۔ انہی اٹکیلیوں میں ہم پاگل خانےپہنچ گئے۔

7 سال پہلے میں اسی جگہ سے کتنا ٹوٹا پھوٹا نکلا تھا۔۔۔اور آج ایک بار پِھر میں اِس جگہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔لیکن وقت نے بہت بَدَل دیا تھا ، آج میں نہ ٹوٹنے والا اسٹیل تھا۔ اسی دوران مس کُنایہ نے میرا ہاتھ اپنی گانڈ کے نیچے سے نکالتے ہوئے مجھے اترنے کا اشارہ کیا۔ ہم گاڑی سے اُترے اور عمارت میں داخل ہوگئے۔ یہاں کے دَر و دیوار ویسے ہی تھے جیسے میرے ذہن کے کسی گوشے میں۔۔۔ زیادہ نہ بدلہ تھا۔
ہم ایڈمنیسٹرشن میں پہنچے۔ ایک ایک عملے کا شخص مس کُنایہ کو گھور گھور کے دیکھ رہا تھا۔۔۔پِھر ہم آتے جاتے لوگوں سے بھری ایک راہدری میں داخل ہوئے اور ایک روم کے سامنے رک گئے۔ اس کے دروازے کے ہینڈل پہ ایک چٹ لگی ہوئی تھی جس پہ لونچ” لکھا تھا۔۔۔ مس کُنایہ نے ایک سمائل کے ساتھ دستک دی تو اندر سے کرخت سی آواز آئی۔

کون ہے ؟ دیکھ نہیں رہے ابھی میں لنچ کر رہا ہوں ؟ ؟ ؟ ؟ ! ! بولو بھی ! کون ہے بہن چود . . . ؟ ”

مس کُنایہ نے آگے سننے سے پہلے زور سے دھکا دیا اور دروازہ کھل گیا۔ راہدری میں کھڑے لوگ ایک دم سے چُپ ہوگئے۔ مس کُنایہ نےچاروں طرف ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور پِھر میرا ہاتھ پکڑ کے اندر داخل ہوگئی ۔اور داخل ہوتے ہی دروازہ زور سے بند کر دیا۔

اندر سے یہ روم کافی کشادہ تھا۔ ایک کونے میں بڑی سی سرکاری دفتروں جیسی میز لگی تھی اور اس کے سامنے ایک موٹا ، گنجا سا آدمی بیٹھے تھے جس کے آگے کئی کھانے سجے ہوئے تھے۔

ولیمہ توڑ رہے تھے یہ موصوف۔ مس کُنایہ کی شکل دیکھتے ہی وہ سب چھوڑ کے کھڑا ہوا اور تقریباً گرتا پڑتا مس کُنایہ تک پہنچا۔ اس نے جھک کر مس کُنایہ کے ہاتھ تھامے اور ان کو احترام سے بوسہ دیتے ہوئے بولا۔

آااپ یہاااں۔۔۔اتنے اچانک ؟ مجھے اطلاع کردی ہوتی ، میں آجاتا

 ساری کراختگی اُڑ  گئی تھی اور وہ کسی مانوس ، پالتو کتے جیسے مس کُنایہ کے سامنے دم ہلا رہا تھا ۔

ضرورت ہے شمروز۔ورنہ تو جانتا ہے چندر مکی کے مددگاروں کو تجھ سے اتنا پیار نہیں کہ وہ تجھے اپنے پاس بلائیں۔۔۔”  مس کُنایہ نے سردلہجے میں کہا اور اپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لیے۔

وہ گنجا موٹا آدمی ، جس کا نام شمروز تھا، فوراً سے مس کُنایہ کے پیروں میں گر گیا۔

ایسا نہ کہیں ۔۔۔ میں آپ کی پراستش کرتا ہوں۔۔۔ جو کہو گی وہ کروں گا۔آپ ایک بار ۔۔۔ بس ایک بار مجھے بلالیں  ”
اٹھو شمروز، اپنا وقت ضائع نہ کرو ۔۔۔تم اچھی طرح جانتے ہو کہ جب تک چندر مکی کا دِل تمہاری طرف سے صاف نہیں ہوجاتا ، ہم تمہیں اپنے آس پاس بھی نہیں پھٹکنے دیں گے۔۔۔” مس کُنایہ بدستور قہر برسا رہیں تھیں۔ میں نے ان کو ایسا سرد بہت کم دیکھا تھا پِھرانہوں نے میری طرف اشارہ کیا۔
پہچانتے ہو اسے ؟ ” شمروز نے اپنی جیب سے عینک نکال کر لگائے اور بولا۔

“کیا یہ۔۔۔یہ وہی ہے ؟”

 “ہاں وہی ہے۔۔۔ اور سونو۔۔۔یہ اب امیدوار نہیں رہا۔ سمجھے ؟ ” مس کُنایہ نے اسے پِھر جھٹکا دیا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page