Reflection–36–عکس قسط نمبر

عکس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور بہترین کہانی ۔۔  عکس۔۔ایک ایسے لڑکے کی داستان جو اپنے والدین کی موت کے بعد اپنے چاچا چاچی  کے ظلم کا شکار ہوا اور پاگل بناکر پاگل خانے میں پہنچادیا گیا۔ جہاں سے وہ ایک ایسے بورڈنگ اسکول پہنچا  جہاں سب کچھ ہی عجیب و غریب تھا، کیونکہ یہ اسکول عام انسان نہیں چلا رہےتھے ۔ بلکہ شاید انسان ہی نہیں چلارتھے ۔چندرمکی ۔۔ایک صدیوں پرانی ہستی ۔ ۔۔جس کے پاس کچھ عجیب شکتیاں  تھی۔ انہونی، جادوئی شکتیاں ۔۔۔جو وہ  ان سے شیئر کرتی، جو اس کی مدد کرتے ۔۔۔وہ ان میں اپنی روشنی سے۔۔۔ غیرمعمولی صلاحیتیں اُجاگَر کرتی۔۔۔ جسمانی صلاحیتیں، ہزار انسانوں کےبرابر طاقتور ہونے کی ۔۔جو  وہ خاص کر لڑکوں کے  زریعےیہ طاقت حاصل کرتی ۔۔ ان لڑکوں کو پِھر دُنیا میں واپس بھیج دیا جاتا۔۔تاکہ وہ چندر مکی کی جادوئی صلاحیتوں کے ذریعے، اپنی جنسی قوتوں کا خوب استعمال کریں۔ وہ جتنے لوگوں سے ، جتنی زیادہ جسمانی تعلق رکھیں گے، ان کے اندر اتنی جنسی طاقت جمع ہوتی جائے گی ‘اور چندر مکی کو ان لڑکوں سے وہ طاقت، اس کی دی گئی روشنی کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ۔۔۔ اِس طرح چندر مکی کی جادوی قووتیں اور بڑھ جاتی ۔۔۔ اور پِھروہ ان قووتوں کا کچھ حصہ اپنے مددگاروں میں بانٹ دیتی ۔ اور صدیوں سے یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا آرہاہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عکس قسط نمبر - 36

اور کچھ ایسا ہی حال گلفام کا بھی تھا۔ ہنسیکا چاچی کیطرح انہوں نے بھی لال رنگ کا تنگ سا لباس پہنا ہوا تھا۔ جس میں ان کے سینے کے بڑے اُبھار چٹانوں کی طرح کھڑے تھے۔ لیکن شکل پہ وہی طنزیا سمائل اور آنكھوں میں حقارت بھری تھی۔  انہوں نے مجھےبرتھ ڈے کی مبارکبادبھی نہ دی، بس آنکھیں چڑھا کے منہ بنایا اور شاکا گارنیٹ کے ساتھ جا کر لگ گئیں۔

میں نے ان سب کو اگنور کیا اورٹیبل کی سائڈ پہ بیٹھ گیا۔ سپنا میرے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔گلفام، شاکا گارنیٹ ، اکرم چاچا اور ہنسیکا چاچی ٹیبل کے دوسری طرف آپس میں کوئی بات کر رہے تھے۔

کیسی لگی تمہیں اپنی برتھ ڈے یہاں پہ ؟ ” سپنا نے پلیٹ ٹیبل پہ رکھتے ہوئےکہا۔
اٹ واز نائس… آئی تھنک ۔”

میں اِس کا کیا جواب دیتا ؟ نہایت بھونڈی سالگرہ تھی یہ اورمیرے پاس اس کے لیے زیادہ اچھے الفاظ نہیں تھے۔ تو بس ایسے ہی جو منہ میں آیا بول دیا ۔

یوو تھنک ؟کیوں تمہیں اچھی نہیں لگی ؟سپنا نے پوچھا۔

نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا…” میں نےکور کرتے ہوئے کہا “بہت سال میں بورڈنگ اسکول میں گزارنےکے بَعْد پہلی دفعہ اِسطرح میری سالگرہ منائی گئی ہے تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا…”

آئی کین انڈر اسٹیند ، سمجھ سکتی ہوں میں۔ ” سپنا نے میرے جھوٹ کو سچ کرتےہوئے سَر ہلایا۔

میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ اُوپر راہدری میں جب سے اس نے مجھے ہگ کیا تھا، اس کے چہرے پہ ایک عجیب سا ایکسپریشن تھا۔ جیسے وہ کچھ ڈھونڈ رہی ہو ، ایک تجسس تھا جیسے اس کو میرے بارے میں۔

آااپ کے سامنے والا روم میرا ہے ، اور اس کے ساتھ ماما کا” سپنا نے میری آنکھوں میں دیکھتےہوئے بتایا “

“ہاں میں جانتا ہوں ، ہنسیکا چاچی نے بتایا تھا۔” میں نے جواب دیا۔

ایک دو لمحے کے سائلینس کے بَعْد وہ بولیویسے تم سہی کہہ رہے ہو ایک طرح سے  ”

کس چیز کے بارے میں ؟ ” میں نےپوچھا۔

یسس برتھ ڈے کے بارے میں۔ ”اس نے ایک ہلکی سی سمائل دیتے ہوئے کہا” بلکل مزہ نہیں آرہا۔ لگ رہا ہے جیسےبرتھ ڈے نہیں ، کوئی بزنس میٹنگ ہو۔بہت بورنگ …” اس نے بڑی معصومیت سےاپنا موقوف بیان کیا۔

مجھے ایک دفعہ پِھر نوشی کی جھلک اس میں دکھی ۔

آااپ کو بُکس پسند ہیں  نا ؟ ” اس نے رک کر مجھ سے سوال کیا۔

ہاں ، بہتمیں بولا “

“بس تو پِھر آپ سے بہت ساری بکس ایکسچینج ہونگی۔۔۔ مجھے بھی بہت شوق ہے” اس کی آنکھوں میں ایک روشنی سی تھی۔

ارے آپ میرا نمبر تو لیںمیں آپ کو اپنی بکس کی لسٹ بھیجوں گی۔ اورمیں نے ابھی روم میں نیا شیلف بھی بنوایا ہے اپنی بکس کے لیے۔ اس کی بھی پکچر بھیجوں گی ! ” سپنا بڑی معصومیت
سے بن روکے بولے جا رہی تھی۔

آاپ کا روم تو میرے سامنے ہے ، پِھرپکچر بھیجنے کی کیا ضرورت ؟ ” میں نے اس کوہلکا سا پُش کیا۔

آاپ میرے روم میں آ کر دیکھیں گے ؟ ” اس نے ایسے حیرت سے سوال کیا جیسےمیں نے کوئی بہت ہی عجیب بات بول دی ہو۔

آئی  مِین۔۔۔اگر آپ اِجازَت  دیں۔  میں تھوڑا گھبرا کے بولا۔

ہی ہی ہی۔وہ بچوں کی طرح کھلکھلا کے ہنسی۔
آااپ گھبرائے ہوئے کیوٹ لگتے ہیں۔ ڈونٹ وری ، ہم تو اب ایک گھر کے ممبرز ہیں تو آپ کبھی بھی آجائیں۔ بس وہ  ماما۔۔۔۔۔” اس نےاپنا آخری جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

کیا ہوا ماما کو ؟ ” میں نے سوال کیا
وہ ابھی جواب دینے ہے والی تھی کہ اکرم چاچا کے زور سے ہنکارہ بھرنے کی آواز آئی۔ سب لوگ اپنی کھونے والی میتوں سے فارغ ہو چکے تھے اور ٹیبل کے اِسطرف آکر کرسیوں پہ بیٹھ رہے تھے۔  سپنانے اپنی کرسی سیدھی کر کے ٹیبل کی جانب کرلی۔ ہنسیکا چاچی میرے ساتھ آکر بیٹھ گئیں اور انہوں نے مسکرا کر مجھےدیکھا۔

شاکا گارنیٹ اور گلفام ہمارے آگے کرسیوں پہ بیٹھ گئے۔ اکرم چاچا سب کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ میرے والدین کی تصویریں ان کے پیچھے
تھیں ۔اور پِھر انہوں نے ایک چھوٹی سی تقریر اسٹارٹ کی ۔

شانی بیٹا ۔ آپ 7 / 8 سال بَعْد اپنے گھر دوبارہ آئے ہو۔ ہم سب کو اس کی یہاں بڑی خوشی ہے، اُدھر کچھ ہمارے غم بھی تازہ ہوگئے ہیں۔ ” انہوں نے ایک لمحےپیچھے لگی امی ابو اور بھائی کی تصویروں کو دیکھا اور دوبارہ کہنا شروع کیا۔

میرے بھائی بھابھی اور۔۔۔۔حسین، کی ناگہانی موت نے ہم کو بڑا صدمہ پہنچایا ہے۔ ہمارا خاندان ایک دم سے جیسے بکھر سا گیا تھا۔ ہم سے زیادہ سب سے
بڑا اثر آپ پر ہوا اس کا شانی بیٹا۔ آپ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے اور ایک ذہنی مریض بن گئے تھے۔ اور رہی سہی کسر آپ کے بھائی کی ڈیتھ نے پوری
کردی۔ اس نے جو بھی کیا۔اس کو ہم نے دِل سےمعاف کر دیا ہے ۔گزرے ہوئے لوگوں سے کوئی گلہ کیا کرے ؟

شانی بیٹا۔۔۔آپ کی طبیعت اتنی بگڑ گئی تھی کہ آپ کو مینٹل ہسپتال بھیجوانے کےعلاوہ کوئی چارا نہیں تھا۔ اور ایسا کرتے ہوئے جتنا افسوس ہمیں ہوا ہے۔ اس کا شاید آپ کو اندازہ نہ ہو۔ مینٹل وارڈ پاگل خانہ… مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آپ  نے اتنا عرصہ وہاں کیسے گزارا۔ اور پِھر آپ پہ ایک نئی ڈرگ یا دوائی یوز کی
گئی۔ ہم سے پوچھے بغیر۔۔۔اور آپ کو کسی انجان بورڈنگ اسکول میں قید کر دیا گیا

اکرم چاچا نے اتنا کہہ کر تھوڑا آنکھیں خشک کرنے کی ایکٹنگ کی۔ میرے ساتھ بیٹھی ہنسیکا چاچی نے اچانک سے میرا ہاتھ  پکڑ لیا۔

میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے ایک سیکسی سی سمائل دی۔ سپنا کامنہ آگے تھا اور اس کے لیے پیچھے مڑکےدیکھنا تھوڑا مشکل تھا تو ہنسیکا
چاچی کو میرا ہاتھ پکڑے ہوئے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ہنسیکا چاچی نے بدستور  مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ دبایا اور چھوڑ دیا۔ اتنی دیر میں اکرم چاچا نے اپنے ڈرامے ختم کئے اور پِھر تقریر  جاری رکھی،
آئی ہوپ کہ آپ ہم کو اپنا سمجھتے ہو۔ ہم آپ کے ماں باپ تو نہیں بن سکتے ، اوع نہ ان کی جگہ لے سکتے ہیں۔ ان کی جگہ تو بلکہ کوئی بھی نہیں لے سکتا۔ لیکن
ہم کو غیر نا سمجھو۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ابھی بھی بہت وقت پڑنے پر دکھ محسوس کر رہے ہوں گے۔ آپ ہم پہ بھروسہ کرو۔ اور ہم مل کر آپ کےزخم بھریں گے۔ صرف ہم۔ کیونکہ فیمیلیز ایسا ہے کرتے ہیں۔

“ہیپی برتھ ڈے بیٹا۔ ”

اکرم چاچا بہت اچھے سیاستدان بن سکتے تھے۔جس طرح سے انہوں نے سب کچھ نا کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہا تھا ، وہ یقینا میری جگہ کوئی اور ہوتا ، تو اس کے دِل پہ جاکے لگتا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page