Reflection–37–عکس قسط نمبر

عکس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور بہترین کہانی ۔۔  عکس۔۔ایک ایسے لڑکے کی داستان جو اپنے والدین کی موت کے بعد اپنے چاچا چاچی  کے ظلم کا شکار ہوا اور پاگل بناکر پاگل خانے میں پہنچادیا گیا۔ جہاں سے وہ ایک ایسے بورڈنگ اسکول پہنچا  جہاں سب کچھ ہی عجیب و غریب تھا، کیونکہ یہ اسکول عام انسان نہیں چلا رہےتھے ۔ بلکہ شاید انسان ہی نہیں چلارتھے ۔چندرمکی ۔۔ایک صدیوں پرانی ہستی ۔ ۔۔جس کے پاس کچھ عجیب شکتیاں  تھی۔ انہونی، جادوئی شکتیاں ۔۔۔جو وہ  ان سے شیئر کرتی، جو اس کی مدد کرتے ۔۔۔وہ ان میں اپنی روشنی سے۔۔۔ غیرمعمولی صلاحیتیں اُجاگَر کرتی۔۔۔ جسمانی صلاحیتیں، ہزار انسانوں کےبرابر طاقتور ہونے کی ۔۔جو  وہ خاص کر لڑکوں کے  زریعےیہ طاقت حاصل کرتی ۔۔ ان لڑکوں کو پِھر دُنیا میں واپس بھیج دیا جاتا۔۔تاکہ وہ چندر مکی کی جادوئی صلاحیتوں کے ذریعے، اپنی جنسی قوتوں کا خوب استعمال کریں۔ وہ جتنے لوگوں سے ، جتنی زیادہ جسمانی تعلق رکھیں گے، ان کے اندر اتنی جنسی طاقت جمع ہوتی جائے گی ‘اور چندر مکی کو ان لڑکوں سے وہ طاقت، اس کی دی گئی روشنی کے ذریعے منتقل ہوتی رہتی ۔۔۔ اِس طرح چندر مکی کی جادوی قووتیں اور بڑھ جاتی ۔۔۔ اور پِھروہ ان قووتوں کا کچھ حصہ اپنے مددگاروں میں بانٹ دیتی ۔ اور صدیوں سے یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا آرہاہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عکس قسط نمبر - 37

انہوں نے جس طرح یہ سیٹ اپ کیا تھا ، مجھےلگائے گئے زخموں کو دوبارہ ہرا کرنے کے لیے، وہ کسی عام انسان کو ڈپریس کرنے کے لیے بہت تھا، لیکن
میں۔۔۔مافوق الفطرات تھا۔ میں نے اپنی ایکٹنگ ویسے ہے جاری رکھی۔

 کھچا کھچا، تھوڑا ریزرو سا۔

میں سپناسے پِھر بات کرنا شروع ہو گیا۔ اکرم چاچا نے دو تِین بار مجھے غور سے دیکھا تھا، شاید جج کرنا چاہ رہے تھے کہ مجھ پہ کچھ اثر ہوا ہو۔ تھوڑی
دیر اور ایسے ہی سب کچھ باتیں کرتے رہے اور پِھر 30 : 1 بج گئے۔

شام کی طبیعت تھوڑی خراب سی ہونے لگی۔ دوائی نے شاید کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ مجھے ایک دو بار جمال کی بےچین آہٹیں بھی محسوس ہوئی۔ ہنسیکا چاچی شام کو لیکر اپنے روم میں چلی گئیں۔ باقی سب بھی واپس اندرجانے لگے اور ملازم نے آکر سارا سیٹ اپ ہٹانا شروع کیا۔

میں آج کے سارے حالات و واقعات کے بارے میں سوچتا ہوا اُوپر جانے لگا۔

کمرے میں انٹر ہو کر میں نے سیدھا واش روم کا رخ کیا اور شاور لینے گھس گیا۔
ٹھنڈا پانی میرے جسم پر گرنا شروع ہوا تو دنیا جیسے تھم سی گئی۔ میں پرسکون ہوتا گیا۔
کیسی وہیت برتھ ڈے تھی۔ سڑے ہوئے منہ لے کر آئے۔ تالیاں پیٹیں، اپنے مطلب کی باتیں کیں، الو بنایا اور پھر چل میرے بھائی، واپس اپنے راستے۔

میرا دماغ اپنے آپ سے بحث کرنے لگا۔ ایک برتھ ڈے یہ تھی، اور ایک برتھ ڈے وہ۔۔۔۔۔

پانی گرتا رہا، اور میں دو سال پیچھے جاتا رہا۔
میری سولہویں برتھ ڈے تھی۔

سولہواں سال اپنی جوانی کا تھا۔ چندر مکی کی طاقتیں پوری طرح سر اٹھا رہی تھیں۔ اور اسی وجہ سے میری جسمانی اور دماغی اٹھان بہت تیزی سے نشوونما پا رہی تھی۔ مس کنایہ میری ان ابھرتی طاقتوں کو نکھارنے میں میری ہر لمحے کی ساتھی تھیں۔

سسٹر شیتل اور دیگر سٹاف مجھ پر ہر وقت مہربان تھا۔ دوپہر کو سکول کے تمام سٹوڈنٹس کے سامنے میری سالگرہ منائی گئی۔ سسٹر شیتل نے میرے ساتھ کیک کاٹا تھا۔
سب خوش تھے، سب چیخ رہے تھے۔ تھوڑا ہلہ گلہ ہوا،  خوش گپیاں ہوئیں۔ اور پھر مس کُنایہ مجھے ہجوم سے لے کر سکول کے عقب میں جانے لگیں جہاں ٹیچرز کے کوارٹرز تھے۔ میں نے پوچھا بھی کہ کہاں لے جا رہی ہیں تو بس اتنا بتایا کہ ایک سرپرائز دینا ہے مجھے۔

میں تھوڑا ایکسائٹڈ سا ہو گیا اور ان کے ساتھ ہوتا ان کے کوارٹر میں آ گیا۔ میں پہلی بار یہاں نہیں آیا تھا۔ میری اکثر راتیں اس کوارٹر میں رنگین ہوئیں تھیں۔ لیکن آج تمام ریکارڈ ٹوٹنے والے تھے۔

کوارٹر میں آتے ہی مس کُنایہ نے لائٹس جلائے بغیر دروازہ جلدی سے لاک کیا اور اپنی بانہیں میرے گرد ڈالتے ہوئے میرے ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا۔

میں نے بھی ریسپانس دیا اور جوشیلے انداز میں کسنگ کرنے لگا۔ اچانک مس کُنایہ نے کس توڑتے ہوئے مجھے پیچھے دھکا دیا۔ میں ہڑبڑا کے اندھیرے میں پیچھے ہوا اور ان کے بیڈ پر جا گرا۔

تھوڑی جھلاہٹ بھی ہوئی کہ اگر بیڈ پر نہ گرتا تو سر پھٹ گیا ہوتا۔ لیکن اگلے ہی لمحے مجھے اپنی کمر پر دو ہاتھوں کا احساس ہوا۔
میری پیٹھ سے سرکتے ہوئے یہ ہاتھ میرے کندھوں کی طرف آ رہے تھے۔ میں فطری طور پر تھوڑا الرٹ ہو کر بستر سے بجلی کی طرح اٹھا اور اندھیرے میں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن بس ایک سایہ سا ہلتا ہی نظر آیا۔

مس کُنایہ کی آواز ایک دم سے کمرے میں گونجی۔
سولہواں سال تمہیں مبارک شانی…”
میں کچھ بولنے ہی والا تھا کہ یکدم مجھے اپنے اندر سے سنہری روشنی ابلتی محسوس ہوئی۔ مجھے اپنے پہنے کپڑوں سے ایک دم الجھن ہونے لگی، جیسے وہ روشنی کو روک رہے ہوں۔
میں نے اپنے کپڑے فوراً اتار دیئے۔
میرا جسم ننگا ہوتے ہی کمرا ایک دم سے کچھ روشن ہو گیا۔ اور ہر طرف ذہن کو معطل کر دینے والی سنہری روشنی پھیل گئی۔ اس روشنی کا مرکز میں تھا۔ میں نے بستر پر نگاہ ڈالی تو وہاں پھیلتی روشنی میں مجھے ایک ادھ ننگا سا جسم نظر آیا۔

میری نگاہیں اس کی ننگی ٹانگوں سے ہوتی، اس کے بدن پر پڑی،  چادر سے ہو کر اس کے چہرے پر پہنچی۔ یہ مس سرینا تھیں۔ مجھے بائیولوجی پڑھاتی تھیں۔ ان کی ہائٹ تھوڑی چھوٹی تھی، شاید میرے کندھوں تک۔
لیکن ان کا جسم بہت متناسب تھا۔ ان کے چہرے پر ایک عجب سا بھولا پن بھی تھا جو ان کی چھوٹی ہائٹ کی وجہ سے ان کی عمر بڑی اچھی طرح چھپاتا تھا۔ دیکھنے میں کہیں سے وہ انیس بیس سے کم کی نہیں لگتی تھیں،لیکن میں جانتا تھا کہ ان کی عمر اس سے کہیں زیادہ ہے… یہ سب چندر مکی کے کرشمے تھے۔

میں نے آگے بڑھ کر مس سرینا کی ننگی ٹانگوں پر ہاتھ پھیرا۔ مجھے وہ دن یاد آ گیا تھا جب مس سرینا نے میرا چوپا لگایا تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ کبھی میرے پاس، یا میرے ہاتھ نہ آئیں تھیں۔ سچ پوچھیں تو مجھے ان کی چھوٹی سی متناسب گانڈ بہت خوار کرتی تھی۔ عورت کی گانڈ چیز ہی ایسی ہے۔ مرد کیا، خود عورتیں خوار ہو جاتی ہیں۔

مس سرینا کو جیسے ہی میرا ٹچ محسوس ہوا تو انہوں نے اپنی ٹانگیں سمٹ کر چادر میں کر لیں۔ میں نے آگے بڑھ کر ان کے جسم سے چادر کھینچ لی۔ اور ان کا چھوٹا خوبصورت سا جسم میری آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا۔ کسی گڑیا کی طرح وہ بیڈ پر سمٹی پڑی تھیں۔
ان کی ننگی گانڈ ان کے سمٹنے سے نمایاں ہوگئی۔

انہوں نے شرارتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور مسکرانے لگیں۔ ان کے ممے مس کُنایہ کے مقابلے میں چھوٹے تھے۔ لیکن ان کی گول گول شکل، ٹین ایج لڑکیوں کی طرح کھڑے کھڑے نپلز بہت شاندار دکھ رہے تھے۔

ہیپی برتھ ڈے شانی…”

مس سرینا نے کہا۔ اور کسی چوپائے کی طرح چلتی ہوئی وہ بستر کے سرے پر آگئی۔

 میرے ننگے جسم کو وہ پیاسی نگاہوں سے تاڑتی ہوئی اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھیں۔

پسند آیا میرا سرپرائز۔”

میرے پیچھے سے مس کُنایہ کی آواز آئی۔
میں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا تو وہ اپنا لباس تقریباً اتار چکی تھیں۔ وہ آگے بڑھیں اور اپنی طرف دیکھتے ہوئے میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر لیا۔ ان کے ہونٹ ایک بار پھر میرے ہونٹوں سے آ لگے اور میں پھر سے ان میں گم ہونے لگا۔

ادھر بستر پر مس سرینا گھٹنوں پر کھڑی ہو کر اپنے ہاتھ میرے سینے پر پھیر رہی تھیں۔ پھر مجھے ان کے گیلے ہونٹ اپنے سینے سے ٹچ ہوتے محسوس ہوئے۔ میرے نپلز کو وہ اپنے منہ میں لے کر ان پر اپنی زبان پھیر رہی تھیں۔

زندگی بھر میں نے ممے چوسے ہی تھے، آج پہلی بار کوئی میرے نپلز پر زبان لگا رہا تھا تو مجھے ایک عجیب سا احساس ہونے لگا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page