smuggler–03–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 03

ایک دو مکے سر پر بھی لگے تھے جس سے دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے۔ اس وقت مجھے اس تاریک کمرے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا لیکن میرے خیال میں اس کی پچھلی دیوار میں کوئی روشندان بھی تھا جہاں سے ہوا آ رہی تھی ۔ اگر دروازہ لکڑی کا ہوتا تو بند کمرے میں گھٹن ہوتی مگر اس وینٹی لیشن کی وجہ سے گھٹن تو نہیں تھی البتہ گرمی کا احساس ہو رہا تھا۔ میری قمیض پسینے میں تر ہونے لگی تھی اگر بات صرف گرمی کی ہوتی تو قابل برداشت تھی مگر اس اندھیرے میں تو مجھ پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔۔۔ مچھر  جو بے دردی سے میرا خون چوس رہے تھے۔ مچھروں کو مارنے کے چکر میں، میں نے تھپڑ مار مار کر اپنی گردن بھی سجائی تھی ۔ ہاتھوں کی پشت کا بھی یہی حال تھا اور چہرے کا بھی۔

 جسم سے چپکی ہوئی قمیض بھی ان کم بختوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکی تھی ۔ تقریبا ایک گھنٹے بعد کمپاؤنڈ میں وین کا انجن سٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی اور پھر وہ آوازبتدریج مدھم ہوتی چلی گئی۔ مجھے ساتھ لانے والے یا تو دونوں واپس چلے گئے تھے یا ان میں سے کوئی ایک رہ گیا تھا ۔

تھوڑی ہی دیر بعد راہداری کی طرف سے باتوں کی آواز سنائی دی تو اندازہ ہو گیا کہ ایک آدمی سجاول کے پاس رہ گیا تھا اور دوسرا واپس چلا گیا تھا، لیکن ان کے ایک یا دو ہونے سے فی الحال مجھ پر کوئی فرق پڑنے والانہیں تھا۔ وہ دونوں شاید اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔

 کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ایک دم سناٹا چھاہ گیا تھا۔ گہرائیوں میں اتر جانے والا سناٹا لیکن شاید میں غلط کہہ گیا، مچھروں کی للکار بدستور میرے کانوں اور روح  میں گونج رہی تھی اور ان سے بچنے کی کوشش میں، میں اپنے آپ کو طمانچے مار رہا تھا۔

وقت کی رفتار جیسے تھم گئی تھی۔ لمحے صدیاں بن کر بیت رہے تھے۔ میں دعائیں مانگتا رہا کہ جلد رات بیت جائے لیکن نظام قدرت کسی کی خواہشات کا تابع نہیں ہوتا ۔ وقت کا پہیہ تو اپنی رفتار سے چلتا ہے اس میں کبھی فرق نہیں آتا ۔

کسی سیانے نے ٹھیک کہا ہے کہ نیند تو پھانسی کے تختے پر بھی آجاتی ہے اور میں  اس وقت نہ تو پھانسی کے تختے پر تھا اور نہ ہی میرے گلے میں پھندا۔۔۔نیند نے آخر کار مجھے دبوچ ہی لیا اور میں دیوار کے قریب کی گرد پر دراز ہوگیا۔ میری آنکھیں خودبخود بند ہوتی چلی گئیں  آنکھوں پر چمک پڑتے ہی میں ہڑ بڑا کر اٹھ گیا، میرا خیال تھا کہ کسی نے میرے چہرے پر ٹارچ کی تیز روشنی ڈالی ہے مگر وہ ٹارچ کی روشنی نہیں دھوپ کی کرنیں تھیں جو اس کمرے کی عقبی دیوار کے روشندان سے براہ راست میرے چہرے پر پڑ رہی تھیں ۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا ایک زور دار قسم کی انگڑائی لی اور کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ کمرے کے بارےمیں، میں آپ کو بتا چکا ہوں لیکن اس وقت یہاں پانی کی بالٹی نہیں تھی وہ بعد میں آئی تھی۔میں دو چار منٹ اپنی جگہ بیٹھا رہا اور پھر دروازے کے قریب تر آگیا۔

دونوں ہاتھوں سے سلاخوں کو پکڑ کر ہلانے جلانے کی کوشش کی۔ خاصا مضبوط دروازہ تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ کمرہ عمارت کی تعمیر کے وقت سے ہی قید خانے کے طور پر استعمال ہوتا رہا تھا۔ میں نے سلاخوں سے منہ لگا کر راہداری میں جھانکنے کی کوشش کی مگر زیادہ دور تک نہیں دیکھ سکا۔

میں نے کل دوپہر کو کھانا نہیں کھایا تھا اور ان کم بختوں نے بھی رات کو یہاں مار ہی کھلائی تھی اور ظاہر ہے مارسے پیٹ نہیں بھرتا اس وقت پیٹ میں کچھ اینٹھن سی محسوس ہو رہی تھی۔

“سجاول۔۔۔سریش

میں زور زور سے پکار نے لگا، گزشتہ رات ان کی باتوں سے یہی دو نام معلوم ہوئے تھے۔

اوئےکیا بات ہے چریا۔۔۔ کیوں شور مچاتا ہے؟

ایک منٹ ! بعد ہی سجاول نام کا وہ شخص دروازے کے سامنے آ گیا۔

 کچھ کھانے کو تو دو سائیں ۔ پیٹ میں آگ سی لگی ہوئی ہے تم لوگ اپنے مہمانوں کو ایسے ہی بھوکا رکھتے ہو کیا؟“ میں نے کہا۔

خود تو نواب صاحب دس بجے تک سویا ہے اور بات ہم کو سناتا ہے ۔ سجاول نے کھاجانے والی نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

 ادھر بیٹھو میں ابھی تیرے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔

سجاول واپس چلا گیا۔ میں سلاخوں سے لگا کھڑا رہا تقریبا دس منٹ بعد وہ دونوں واپس آگئے۔

سجاول نے رائفل سریش کے حوالے کر دی، جس نے رائفل ہی سے مجھے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا۔ میں روشندان والی دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔سجاول نے دروازہ کھول کر رائفل خود سنبھال لی اور سریش کو اشارہ کیا۔ وہ پانی سے بھری ہوئی بالٹی اٹھا کر کمرے میں آ گیا۔ اس کی نظریں میری طرف تھیں اور سجاول نےبھی مجھے رائفل کی نوک پر لے رکھا تھا، اس کا خیال تھا کہ میں کوئی حرکت کرنے کی کوشش کروں گا لیکن میں اطمینان سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا رہا۔

بالٹی کھرے میں رکھ کر سریش نے اس کا ہینڈل نکال لیا اور باہر چلا گیا۔ شاید اس کا خیال تھا کہ  میں بالٹی کے ہینڈل کو کسی وقت ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کروں گا لیکن کمرے کے کونے میں پڑے ہوئے چولہے کے پتھروں کو وہ دونوں ہی بھول گئے تھے۔

سجاول نے بڑی تیزی سے دروازہ بند کرکے تالا لگا دیا اور دونوں واپس چلے گئے۔

میں مسکراتا ہوا کھرے کی طرف بڑھ گیا۔ ہونٹوں پر جما ہوا خون صاف کیا منہ پر پانی کے دو تین چھنٹے مارے اور گلاس بھر کر پی بھی لیا۔ میں نے منہ پونچھنے کیلئے پینٹ میں اڑوسی ہوئی قمیض کھینچ کر باہر نکالی چہرہ نیچے جھکایا پھر ارادہ بدل دیا ۔ گرد آلود فرش پر سونے سے قمیض بہت گندی ہو رہی تھی۔

اس مرتبہ ان کی واپسی میں تقریباً بیس منٹ لگ گئے۔ سریش نے گیہوں کے تنکوں سے بنی ہوئی چنگیر اٹھا رکھی تھی جس میں توے کی پکی ہوئی ایک موٹی سی روٹی اور بہت گندے پلاسٹک کے مگے میں قہوہ تھا۔

میں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ دروازے میں کھڑے ہوئے سجاول نے مجھے رائفل کی زد پر لے رکھا تھا۔ میں گہری نظروں سے باری باری دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایسی صورتحال میں کچھ کرنا خودکشی کے مترادف تھا لیکن میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر کوئی موقع ملا تو اسے ضائع نہیں کروں گا۔

سریش میری طرف دیکھتا ہوا آگے بڑھا۔ کمرے کے وسط میں پہنچ کر وہ رک گیا۔

کمرے کےاندر تک چلے آنا اس کی بہت بڑی غلطی تھی وہ چنگیری فرش پر رکھنے کیلئے جھکا۔

اب یا کبھی نہیں ۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page