Smuggler–118–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 118

کیا بات ہے لوگ بدحواس ہو کر ادھر ادھر کیوں بھاگ رہے ہیں ۔ میں نے ادھر ادھر دیکھتےہوئے دیوی سے پوچھا۔

وہ ادھر دیکھو۔ دیوی نے ہوٹل ہل لاک کی طرف اشارہ کیا ۔ منی لال آ رہا ہے اور لوگ اس لئے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ منی لال انسان نہیں بھوت ہے ایک بدروح جو یہاں کے لوگوں کےاعصاب پر سوار ہے ہر شخص اس سے خوفزدہ ہے ۔“

میں نے ہوٹل ہل لاک کی طرف دیکھا تین گاڑیاں ہوٹل کے سامنے آکر رکی تھیں،  آگے ایک جیپ تھی جس پر چار وحشی سوار تھے۔ ان کے ہاتھوں میں رائفلیں تھیں پیچھے سفید رنگ کی ماروتی کار تھی اور اس کے پیچھے بھی ایک جیپ تھی۔ اس میں بھی چار عدد ایسے ہی وحشی سوار تھے۔ ان میں دو کے ہاتھوں میں رائفلیں تھیں اور دو کے ہاتھوں میں تیخ ۔

سفید ماروتی کار کا دروازہ کھلا پہلے ایک آدمی برآمد ہوا اور پھر منی لال نیچے اترا میں نے صرف ایک مرتبہ اسے دیکھا تھا کرشمہ مجھے دھوکے سے ادینا تھ مندر میں لے گئی تھی اور اب منی لال کو پہچاننے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی ۔ وہی سادھوؤں والا پیلا چوغہ اور گلے میں ملاؤں کے ساتھ ایک سانپ بھی نظر آرہا تھا۔ منی لال کے بعد کار سے اترنے والی ہستی کو دیکھ کر میں چونکے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ وہ کرشمہ تھی۔ وہ اس وقت واقعی قیامت لگ رہی تھی۔

کرشمہ اور منی لال نے کار سے اتر کر ادھرادھر دیکھا اور پھر ہوٹل کے گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔؟

دوسرے آدمی بھی اس کے ساتھ ہی تھے۔ دو گن مین بھی ان کے پیچھے ہوٹل میں داخل ہوگئے تھے جب کہ دوسرے باہر ہی کھڑے رہے تھے ۔

میں آشرم سے نکلا تھا تو ارادہ یہ تھا کہ ہوٹل ہل لاک کے مالک شوشانت پنڈت سے دو دو ہاتھ کروں گا مگر اس وقت یہاں کی صورتحال کچھ تبدیل ہوگئی تھی۔ منی لال کے آجانے سے پورے علاقےمیں کھلبلی سی مچ گئی تھی ۔ اس صورتحال میں میرا ہوٹل میں قدم رکھنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔

 میں نے رسک لینے کا فیصلہ کر لیا اور دیوی کا ہاتھ پکڑ کر ہوٹل کی طرف چلنے لگا۔

کہاں جارہے ہو؟“ دیوی نے الجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا۔

ہوٹل ہل لاک۔۔۔ میں نے جواب دیا ۔ میں نے منی لال کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے ۔ آج اسے ذرا قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں ۔“

دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟ دیوی نے مجھے گھورا۔ لوگ اس بد روح سے دور بھاگ رہے ہیں ،اور تم اس کے قریب جانا چاہتے ہو ۔

“ ہم اس کے بالکل قریب نہیں جائیں گے۔ ذرا دور رہ کر دیکھوں گا کہ وہ کیا چیز ہے۔ میں نے جواب دیا۔ کچھ لوگ اب بھی ہوٹل میں آجارہے تھے۔ میں دیوی کا ہاتھ تھامے اس سے باتیں کرتا ہوا ہوٹل کی طرف چلتا رہا۔ گیٹ کے قریب کھڑے ہوئے گن مینوں نے ہماری طرف دیکھا میں نے محسوس کر لیا کہ وہ لوگ مجھ سے زیادہ دیوی میں دلچسپی لے رہے تھے۔ ایک نے تو شاید کوئی جملہ بھی کسا تھا مگرمیں اس پر توجہ دیئے بغیر دیوی کا ہاتھ تھامے چلتا رہا۔

مرکزی ہال میں زندگی کے ہنگامے عروج پر تھے۔ رقص و سرور کی محفل جاری تھی۔ مستیاں  شباب تھیں۔ میں دیوی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ منی لال کے ساتھ اندر آنے والا آدمی اور دونوں گن مین ایک میز پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس سے آگے ایک راہداری تھی۔ دائیں طرف ایک بار کاؤنٹر تھا  اس کے ساتھ بھی ایک راہداری تھی۔ میں نے ایک دو  ویٹروں کو ٹرے اٹھائے اس طرف جاتے دیکھا تھا۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ میزوں پر سرو کرنے کے لئے شراب اندر سے لائی جارہی تھی جب کہ کاؤنٹر سے شراب صرف ان لوگوں کو سرو کی جارہی تھی جو وہیں بیٹھ کر پینا چاہتے تھے۔ چند منٹ بعد میں نے دیوی کو وہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور اٹھ کر کاؤنٹر کے ساتھ والی راہداری میں داخل ہو گیا ۔ یہ راہداری خاصی طویل تھی کچن بھی اسی طرف تھا۔ ایک ویٹر کوآخری دروازے سے نکلتے دیکھ کر میں رک گیا۔ ویٹر نے دونوں ہاتھوں میں ایک ٹرے اٹھا رکھی تھی جس میں ویٹر نے ٹرے اٹھا رکھی تھی جس میں وھسکی ، سوڈے کی بوتلیں اور بڑے نازک سے تین لمبے گلاس رکھے ہوئے ۔

ا ےکہاں جاوت ہو بھئیا ؟ میں نے نے ویٹر کو روک کر پوچھا۔

دفتر  ما  منی لال آیو ہے عیش کرت ہے سالا۔ ویٹر نے سالا کہہ تو دیا تھا لیکن اس کےساتھ ہی اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔

ایک منٹ  ادھر آؤ ۔ میں اسے لے کر جلدی سے ایک کھلے ہوئے   دروازے میں لے گیا۔

 یہ لانڈری اسٹور تھا  دیواروں کے ساتھ ریکس میں دھلی ہوئی چادریں، میز پوش، پردے اور اسی قسم کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ سائیڈ میں ایک میز بھی تھی۔

دیکھو بھئیا۔ میں نے ویٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ” میں منی لال سے ملنا چاہتا ہوں

میری زندگی اور موت کا سوال ہے مگر کوئی مجھے اس تک پہنچنے نہیں دیتا۔“ یہ میرے لئے ایک اچھا موقع ہے تم میری مدد کر سکتے ہو۔

میں تمہاری مدد کیسے کر سکتا ہوں۔ ویٹر نے الجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا۔

میں نے اس سے ٹرے لے کر میز پر رکھ دی اور اپنی جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر اس کےہاتھ میں تھما دیا۔  یہ لو تم اپنا کوٹ اور پگڑی مجھے دے دو یہ ٹرے میں دفتر میں لے جاتا ہوں، مجھے منی لال کے سامنے اپنی فریاد پیش کرنے کا موقع مل جائے گا میرا کام ہو جائے گا۔ ساری زندگی تمہیں دعا ئیں دوں گا۔

ویٹر کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا۔

ابے میجر کو پتہ چل گیا تو وہ مجھے نوکری سے نکال دیوے گا۔ وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔

 کسی کو پتہ نہیں چلے گا تم اس کمرے میں رکنا بس میں پانچ منٹ میں لوٹ آؤں گا۔ لو یہ پانچ سو اور رکھ لو اور اب جلدی سے پگڑی اور کوٹ اتار دو۔ میں نے پانچ سو کا ایک اور نوٹ اس کے ہاتھ تھما دیا اور ساتھ ہی اپنا کوٹ اتار کر جیبوں کی چیزیں پتلون کی جیبوں میں منتقل کرنے لگا۔

ویٹر چند لمحے ہچکچایا پھر اس نے پہلے پگڑی اتار کر میز پر رکھی اور پھر کوٹ بھی اتار دیا۔ میں جلدی سے اس کا سفید کوٹ پہن کر اوپر تک بٹن بند کر لئے اور پگڑی سر پر جمالی۔ یہ غنیمت تھا کہ ویٹروں کی پتلون بلیک کلر کی تھی ورنہ مجھے اس کی پتلون بھی اتروانی پڑتی۔ دروازہ کھولو اور میری واپسی تک تم اسی کمرے میں رہنا۔ مجھے پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے میں نے ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا۔

 جلدی آجایو   بھئیا  ناہیں تو اپنی شامت آجاوے گی۔ ویٹر نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔

میں نے باہر نکلنے سے پہلے ادھر ادھر جھانک لیا تھا۔  میرے باہر آتے ہی ویٹر نے دروازہ بندکرلیا تھا۔

میں آگے جاکر دوسری راہداری میں مڑگیا۔ اس راہداری میں بھی کمرے تھے۔ ایک دروازے کے سامنے پروپرائٹر کی تختی لگی ہوئی تھی اور ایک دربان بھی موجود تھا۔ میں دروازے کے سامنے رکا تو اس نےایک لمحہ کو میری طرف دیکھا  اور دروازہ کھول دیا۔ میں ٹرے سنبھالے اندر داخل ہو گیا۔  بہت  وسیع وعریض کمرہ تھا۔ فرش پر دبیز قالین بچھا ہوا تھا دائیں طرف شیشے کے ٹاپ والی بہت بڑی میزرکھی ہوئی تھی، جس پر دو ٹیلی فون اور ایک انٹر ا  کام سیٹ رکھا  تھا۔ ایک طرف سنگ مرمر سے تراشی ہوئی پھر اونچی ایک مورتی بھی رکھی ہوئی تھی۔ دیواروں پر خوب صورت فریموں میں مختلف ڈانسرز کی نیم عریان تصاویر آویزاں تھیں اور  ان میں ایک تصویر کرشمہ کی بھی تھی۔ اس تصویر کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کرشمہ اچھی ڈانسربھی تھی۔ تصویر میں اس کے بدن پر لباس برائے نام ہی تھا اور پوز در پوز نہایت شرم ناک تھا۔ منی لال میز کے سامنے والے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر کرشمہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھی ہوئی تھی اور لباس اپنی جگہ سے سرکا ہوا تھا۔ صوفے کے سامنے تین فٹ کے فاصلے پر شوشانت پنڈت نہایت مودبانہ انداز میں کھڑا تھا۔

 

پر مجھے اپنی قوت مشاہدہ پر ہمیشہ ناز رہا ہے۔ میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی نہ صرف ہر چیز کا جائزہ لے لیا تھا بلکہ اپنے فرار کا راستہ بھی تلاش کر لیا تھا۔ آفس ٹیبل کے بائیں طرف والی کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور دوسری طرف اندھیرا تھا جس کا مطلب تھا کہ باہر کوئی کھلی جگہ تھی۔ میں نے ٹرے میز پر رکھ دیا اور ایک طرف کھڑا ہو گیا ۔ اس وقت میرے دل کی دھڑکن خطر ناک حد تک تیز ہورہی تھی۔ میں نے منی لال کا سامنا کرنے کا فیصلہ فوری طور پہ اور بغیر پلاننگ کے کیا تھا۔  منی لال کے چھ مسلح محافظ باہر کھڑے تھے دو اندر موجود تھے۔ کسی ایسے ہوٹل یا کلب میں بھی چار پر غنڈے موجود رہتے تھے ناکامی کی صورت میں میرے لئے بچ نکلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن میں نے کبھی ناکامی کا سوچا ہی نہیں تھا۔ میں نے ہمیشہ اپنی ذہانت اور خود اعتمادی پر بھروسہ کیا تھا اور کٹھن ترین حالات میں بھی ہمیشہ کامیاب رہا تھا اور اس وقت بھی میں نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں بھی ذہانت اور خود اعتمادی کا زیادہ دخل تھا۔

جب میں اندر داخل ہوا تھا تو کرشمہ نے سرسری کی نگاہوں سے میری طرف دیکھا تھا پھر شوشانت پنڈت کی طرف متوجہ ہوگئی تھی جو منی لال سے کچھ کہہ رہا تھا۔ میں ایک طرف کھڑا ہوا تو کرشمہ اٹھ کر میز کے قریب پہنچ گئی اور اسکاچ کی بوتل کھولنے لگی۔ اس موقع پر اس نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا اور کھاجانے والے لہجے میں بولی۔

تم یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو۔ جاؤ۔“

میں دروازے کی طرف بڑھ گیا ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور اسے گھمانے کے بجائے لاک ناپ دبادی اور اس کے ساتھ ہی کنڈے کا راڈ بھی کھینچ دیا اور اوپر والی چٹکنی بھی لگادی۔ کرشمہ نے مجھے کنڈا اور چٹکنی لگاتےہوئے دیکھ لیا تھا وہ ایک دم چیخی۔

یہ کیا کر رہے ہوتم ۔ دروازہ کیوں لاک کر دیا ۔ کرشمہ کے چیخنے پر منی لام اور شوشانت پنڈت بھی میری طرف متوجہ ہوگئے۔ شوشانت پنڈت نے پہلی مرتبہ مجھے غور سے دیکھا وہ یقینا اپنے ہوٹل اور کلب کے تمام ویٹروں کو پہچانتا تھا۔ جب میں اندر آتا تو وہ منی لال سےباتوں میں مصروف تھا اور مجھ پر توجہ نہیں دی تھی۔ لیکن اب وہ سمجھ گیا تھا کہ میں اس کے ہوٹل کا ویٹر نہیں ہوں۔

کون ہو تم اور یہ دروازہ کیوں بند کیا ہے تم نے؟ وہ غرایا تا کہ کوئی اور مداخلت نہ کر سکے۔ میں نے اطمینان سے کہتے ہوئے پگڑی اتار کر منی لال کی گود میں اچھال کر پھینک دی وہ بھی اچھل پڑا اس کے چہرے پر ایک دم سفا کی طاری ہو گئی اور آنکھوں کی سرخی کچھ اور بھی گہری ہوگئی۔

کون ہو تم اس بدتمیزی کا مطلب جانتے ہو؟‘ شوشانت پنڈت پھر غرایا۔ میں نے کوٹ اتار کر منی لال پر ہی اچھال دیا اور عینک اتار کر میز پر پھینک دی۔

مجھے اپنا تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ۔ میں نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔ میں وہ ہوں جس کی تلاش میں تم لوگ دو مہینوں سے پاگل کتوں کی طرح دوڑتے پھر رہے ہو اور مجھے حیرت ہے۔کرشمہ نے مجھے ابھی تک نہیں پہچانا حالانکہ یہ تومیرے بہت قریب رہی ہے اتنا قریب کہ۔۔۔۔۔۔

تتتت  تم  یہاااااں۔۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ آگے بول پاتاکرشمہ اچھل پڑی۔ اور بوتل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر شیشے کے گلاس  سے ٹکرائی۔۔۔

نازک سا گلاس ٹرے میں ہی گر کر چکنا چور ہوگیا۔ بوتل بھی اس طرح اوندھی گری تھی کہ شراب میز کے شیشے پر بہنے لگی۔

بوتل اٹھاؤ شراب ضائع ہو رہی ہے۔” میں نے کرشمہ کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئےکہا۔

کرشمہ نے بوتل پکڑ لی اس نے بوتل کو گردن کی طرف سے پکڑا تھا، میں اس کی نیت بھانپ گیا۔ میرا اندازہ درست نکلا اس نے اچانک ہی بوتل میری طرف دے ماری تھی، میں پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ بوتل میرے عقب میں دیوار کے سامنے لگے ہوئے خوبصورت پردے پر لگی پردہ محض خوب صورتی سے لگایا گیا تھا ،پردہ نہ ہوتا تو بوتل دیوار سے ٹکرا کر دھما کا ضرور پیدا کرتی۔ بوتل میرے قریب سے گزری تھی اس لئے شراب کے کچھ چھینٹے میرے اوپر بھی گرے تھے۔

اپنے حواس پر قابو رکھو خوبصورت ناگن ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اتنی قیمتی شراب ضائع کر دی اب اپنے اس گرو گھنٹال کو کیا پلاؤ گی۔“

میں تمہارا خون پینا پسند کروں گا مورکھ ،منی لال سانپ ہی کی طرح پھنکارا۔ ” تمہاری قسمت اچھی تھی کہ اب تک بچتے رہے لیکن اب قسمت کی دیوی تمہارا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔ تم نے شیروں کی کچھار میں آکر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے۔

‘شیروں کی کچھار نہیں یہ ڈاگ ہاؤس ہے جہاں پاگل کتے رہتے ہیں اور میں ان پاگل کتوں سے بچنا جانتا ہوں ۔ میں نے طیش دلانے والے انداز میں کہا۔

اس دوران شوشانت پنڈت نے جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی مگر میں نے اس سے زیادہ پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جیب سے ریوالور نکال لیا۔ ہاتھ اپنی جیب  سے  دور رکھو ۔ میں اسے ریوالور کی زد پر لیتے ہوئے غرایا۔ ورنہ تم وقت سےپہلے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔

 شوشانت پنڈت کا ہاتھ جیب سے دور ہٹ گیا۔ میں دو قدم اٹھا کر اس کے پیچھے پہنچ گیا اور اس کا لباس تھپتھپانے لگا پستول اس کی پتلون کی جیب میں تھا۔ کرشمہ اس  وقت میرے دائیں طرف تھی۔ میں اس پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھا لیکن اسے موقع مل ہی گیا میں شوشانت پنڈت کی جیب سے پستول نکالنے کے لئے جیسے ہی  ذرا سا آگے کو جھکا اس نے سوڈے کی بوتل اٹھا کر میرے سر پر مارنے کی کوشش کی میں تیزی سے جھک گیا بوتل شوشانت پنڈت کے کندھے پر لگی وہ کراہ اٹھا۔ میں نے اسے زور دار دھکا بھی دے دیا تھا وہ منی لال سے ٹکرایا اور وہ دونوں صوفے پر گر گئے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page