Smuggler–121–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 121

مجھے پوجا کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ کاوری نے مجھے پناہ دی تھی۔ مجھے موت کے منہ سے بچایا تھا۔ وہ جب بھی چاہتی مجھے منی لال کے حوالے کر سکتی تھی لیکن اس نے مجھے اس ناگ کی نگاہوں سے بچائے رکھا تھا۔ میری حفاظت کی تھی یہ بات تو میں ماننے کو تیار تھا کہ وہ مجھ سے پہلے کئی نو جوانوں کو کھا مکاچکی ہوگی ۔ بیوہ ہونے کے باوجود اس نے جس طرح اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لئے مجھے استعمال کیا تھا اس سے اس بات پر یقین کر لینے کو جی چاہتا تھا کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی ایسے ہی گلچھرے اڑاتی ہوگی مگر دوسری باتیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ کاوری اس دن شام سے پہلے ہی لوٹ آئی تھی ۔ پوجا اس کے آنے سے پہلے ہی اپنی اوقات میں گئی تھی یعنی وہی ساڑھی اور بلاؤز جو وہ عام طور پر پہنا کرتی تھی۔

کیا بات ہے تم میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ کاوری نے پوچھا اس وقت ہم تہہ خانے والے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔

کچھ نہیں ۔ میں گڑ بڑا گیا وہ واقعی ذہین عورت تھی جس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ میں اس کے بارے میں کچھ سوچ رہا ہوں ۔

تمہارے نہ ہونے سے بڑی بوریت ہوئی۔

 کیوں پوجا سے گپ شپ کر لیتے ویسے اس نے کوئی حرکت تو نہیں کی ۔“

آخری الفاظ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ آگئی تھی۔

پوجا۔۔۔میں نے ہلکا سا قہقہ لگایا۔ وہ تو کھانا یا چائے میز پر رکھ کر ایسے بھاگتی تھی جیسے اگر وہ رک گئی تو میں اسے کھا جاؤں گا۔“

حیرت ہے ۔ کاوری بولی۔ ” جب تم پہلی مرتبہ یہاں آئے تھے تو تمہیں دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک ابھری تھی اس سے مجھے تو اس کے ارادے کچھ خطرناک لگتے تھے۔“

میں جو شاید وہ جان گئی ہے کہ تم مجھے شکار کر چکی ہو ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کاوری بھی مسکرادی تھی۔

اس رات میں بے چین ہی رہا۔ کبھی کاوری کے بارے میں سوچنے لگتا اور کبھی یہ سوچتا کہ پوجا نےمجھے کاوری کے بارے میں سب کچھ کیوں بتایا تھا لیکن کوئی بات سمجھ میں نہیں آسکی ۔ جیسے جیسے سوچتا ذہن الجھتا مزید دو دن گزارنے کے بعد میں آشرم سے نکل گیا ۔ کاوری سے میں نے کہہ دیا تھا کہ شاید دو چار دن واپس نہ آسکوں۔

میں شام کا اندھیرا پھیلنے کے بعد آشرم سے نکلا تھا ،مجھے کاوری نے خبردار کر دیا تھا کہ منی لال کے آدمی اب بھی میری تلاش میں ہیں۔ میں دوسروں کی نگاہوں سے بچتا ہوا پیدل ہی چلتا رہا اور تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ بعد اچال شوار مندر سے ملحق بنگلے میں پہنچا تو بری طرح تھک چکا تھا۔ یہاں کچھ مزید انکشافات ہوئے ۔ اس رات ہوٹل ہال لاک میں میرے ہاتھوں شوشانت پنڈت کے قتل اور منی لال کے زخمی ہوئے تھے۔ انہوں نے دو مرتبہ اچال شوار مندر پر چھاپہ مارا تھا اور دونوں مرتبہ ایک ایک پجاری کو پکڑ کر لے گئے تھے۔ انہیں شبہ تھا کہ پنڈت روہن سنگھ نے مجھے مندر میں کہیں چھپا رکھا ہے۔ انہوں نے پنڈت روہن سنگھ کو بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں ۔

اس رات ایک بجے کے قریب پنڈت روہن بھی خفیہ راستوں سے ہوتا ہوا مجھ سے ملنے کے لئے آگیا۔ باتوں کے دوران میں، میں نے کاوری کے بارے میں دریافت کیا تو وہ بھڑک اٹھا۔ تم اسے کیسے جانتے ہو؟ وہ میرے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے بولا ۔ ” وہ عورت نہیں ناگن ہے۔ اس کا ڈسا تو پانی بھی نہیں مانگتا اس کے قریب بھی مت جانا۔ اور پھر اس نے کاوری کے بارے میں جو کچھ بتایا اس سے پوجا کی باتوں کی تصدیق ہوگئی۔ میرے دماغ میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ مجھے حیرت تھی کہ کاوری نے اب تک میرے سامنے کوئی حرکت نہیں کی تھی جس سے مجھے اس پر کسی قسم کا شبہ ہو سکتا۔

بہر حال میرا ارادہ اب دہشت گردی کے کیمپ میں ڈپٹی کمانڈر سکھ میت سنگھ سے دو دو ہاتھ کرنے کا تھا اس کے لئے مجھے کچھ تیاری کی ضرورت تھی اور کاوری اور وشواس کا تعاون بھی درکار تھا اور مجھے یقین تھا کہ وہ انکار نہیں کریں گے۔ کاوری نے اس رات پروجیکٹر پر مجھے جن چار آدمیوں کو تصویر میں دکھائی تھیں ان میں سکھ میت سنگھ بھی شامل تھا۔ شوشانت پنڈت کو میں ٹھکانے لگا چکا تھا میرا خیال تھا کہ سکھ میت سنگھ سے آخر میں نمٹوں گا لیکن پوجا اور پنڈت روہن سے کاوری کے بارے میں باتیں سن کر میں نے اپنا پروگرام  بدل دیا تھا اور اب سب سے پہلے میں سکھ میت سنگھ سے ہی نمٹنا چاہتا تھا اور اس کی تیاری میں نے اسی روز سے شروع کردی اس کے لئے مجھے کچھ چیزوں کی ضرورت تھی۔ میں نے ان چیزوں کی لسٹ پنڈت روہن کے حوالے کر دی۔ یہ چیزیں مندر کے کسی پجاری سے مت منگوانا بلکہ ایسی عورتوں کو استعمال کرنا جن پر کسی قسم کاشبہ نہ ہو سکے۔“ میں نے پنڈت کولسٹ تھماتے ہوئے کہا۔ تم پھکر مت کرو سب چیزیں آ جاویں گی ۔ پنڈت نے جواب دیا۔

اور پھر وہ چیزیں جمع کرنے میں دو دن لگ گئے ۔ تمام چیزیں مکمل ہوتے ہی میں ایک الگ تھلگ کمرے میں آ گیا اور پھر مجھے دشواری پیش نہیں آئی تھی۔ میرا تیار کردہ ہر ٹائم بم بچوں کے سکول کے لنچ باکس سے بڑا نہیں تھا۔ ایک ٹائم بم سے اس بنگلے جیسی عمارت تو تباہ ہو ہی سکتی تھی۔

اس سے اگلے روز میں نے اپنے سر کے پچھلے حصے پر ایک پتلی سی چٹیا چھوڑ کر پورا سرمنڈوا دیا۔ بھنویں بھی صاف کروائیں البتہ داڑھی اور مونچھیں بے ترتیب رہنے دیں۔ یہ کام اروی اور کنیا نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا تھا۔ سر پر صرف ایک جگہ کٹ سا لگا تھا جس پر پھٹکری مل کر پاؤڈر ڈال دیا گیا تھا۔

 ماتھے پر کشکا ، بدن پر صرف دھوتی اور اوپر کندھوں پر میں نے پیلے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر جگہ جگہ ہندی میں اوم ، چھپا ہوا تھا اس چادر کے دونوں کناروں کو آگے لاکر میں نے ایک ہاتھ سے لا پکڑ لیا تھا۔ دوسرے ہاتھ میں ترشول تھا۔ ہندومت، میں اس ترشول کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ اسےطاقت کی علامت بھی سمجھا جاتا تھا اور حقیقت یہ ایک خوف ناک ہتھیار بھی تھا۔ اگلے سرے پر ہاتھ کی انگلیوں کی طرح نکلی ہوئی تین شاخیں جن کی دھار چاقو سے زیادہ تیز تھی پچھلا سرا بھی نیزے کی طرح نو کیلا تھا۔ گویا اس ہتھیار کو دونوں طرف سے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ خالص ہندوانہ انداز میں دھوتی باندھنے میں پنڈت روہن نے مدد کی تھی۔ دو تین مرتبہ کھول کر میں نے بھی سمجھ لیا تھا کہ یہ دھوتی کیسے باندھی جاتی ہے۔ اس کا انداز بالکل ایسا ہی تھا جیسے شلوار پہن رکھی ہو ۔ دھوتی کی ڈب ( کمر پر بل) میں، میں نے ریوالور بھی چھپا لیا۔

جسے ضرورت کے وقت میں آسانی سے نکال سکتا تھا۔ تر شول والے ڈنڈے کے ساتھ تقریبا بیچ میں ایک کیل لگی ہوئی تھی جس پر میں نے پیتل کا ایک چہوٹا سا ڈول لٹکا لیا تھا اس میں،میں نے تین چار روپے کی ریز گاری کے علاوہ برفی کے چند ٹکڑے بھی رکھے ہوئے تھے۔ میرے گلے میں کئی رنگ برنگی  مالائیں تھیں ۔

پنڈت روہن مجھے تیار کر کے تنقیدی نظروں سے میرا جائزہ لینے لگا۔

اوم نمش رام هری اوم ہری اوم ۔۔۔ میں دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔ پنڈت روہن اچھل پڑا۔ اگر تم مندر میں چلے جاؤ تو میری گدی خطرے میں پڑ جاوے گی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

میں بھی مسکرا دیا۔ یہ اشلوک میں نے ایک سادہو کو پڑھتے ہوئے دیکھا تھا جو مجھے یاد رہ گیا تھا۔ میں مندر والے بنگلے سے نکلا تو ننگے پیر تھا چند گز چلنے سے میرے پیر گرد آلود ہو گئے ۔ میں ہری اوم ہری اوم کا ورد کرتا ہوا سڑکوں پر چلتا رہا۔ در یودن کا بنگلہ تلاش کرتے ہیں مجھے زیادہ دشواری پیش نہیں آئی تھی۔ وہ اس وقت ہے بنگلے پر ہی ہو سکتا تھا اور میرا اندازہ درست نکلا۔

رام لال سیٹھ سے کیا کام ہے تمہیں؟‘ گیٹ کے چوکیدار نے مجھے گہورا۔

سنا ہے بڑا دھن وان اور دیا لو ہے۔ ہم اس کی چرچا سن کر ہی آیا ہوں۔ جا با لک۔ رام لال کو بلا۔ سادہو پاجی چوکیدار نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔

بلاکر لےاسے بولنا سادہو مانی آیا ہوں آشیر واد دینے کے لئے اسے ہمارا آشیرواد ملے گا تو اس کی ساری سمسیائیں مٹ جاویں گی۔

ہاں سادہو کرشمہ رام کا متر” میں نے کہا۔ ” جا جلدی سے اسے بتا دیر نہ کر ورنہ شبھ سمے نکل جائے گا۔ ہم تمہارے لئے بھی بھگوان سے پرارتھنا کریں گے۔

چوکیدار الجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھتا ہوا چلا گیا۔

مجھے یقین تھا کہ مانی اور کرشمہ رام  کے حوالوں سے رام لال سمجھ جائے گا کہ میں کون ہوں۔

 ٹھیک تین منٹ بعد چوکیدار مجھے اندر لے گیا۔رام لال شاندار ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا مجھے دیکھ کر اٹھ گیا۔ نمشکار مہاراج! دھن بھاگ ہمارے ۔ پدھاریئے مہاراج ، پدھا ریئے“

اس نے خاص انداز میں دونوں ہاتھ جوڑ کر میرا استقبال کیا۔ میرے پیر گرد آلود ہو رہے تھے۔ میں بڑی بے تکلفی سے قالین پر چلتا ہوا صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ تر شول بھی میں نے صوفے کے ساتھ ہی ٹکا دیا تھا۔رام لال میرے سامنے قالین پر بیٹھ گیا اس نے ابھی تک دونوں ہاتھ جوڑ رکھے تھے میں نےبرفی کا ایک ٹکڑا ڈول میں سے نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔

ہم ادینا ناتھ مندر کی یاتراکر کے آیا ہوں یہ بھگوان کا پرساد ہے۔“ ادیناتھ یاترا کرکے میں نے کہا اور پھر دروازے میں کھڑے چوکیدار کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ”

لے بالک تو بھی بھگوان کا پرساد لے ۔ ساری سمسیا ئیں مٹ جائیں گی۔ چوکیدار نے بھی آگے بڑھ کر بڑے احترام سے بھگوان کا پرسادلے لیا۔ رام لال نے اسے باہرجانے کا اشارہ کیا۔  چوکیدار کے جانے کے بعد وہ میری طرف دیکھتے ہوئے سرگوشی میں بولا ۔

یہاں کیوں آئے ہو اگر کس کوجب شک ہو گیا تو تمہارے ساتھ میری گردن بھی ماری جائے گی۔” ۔

 مجبوری تھی ویسے مجھے کوئی پہچان نہیں سکتا ۔ میں نے کہا۔

یہ درست ہے۔ میں بھی تمہیں نہیں پہچان سکا تھا  مانی اور کرشمہ کے نام سے سمجھ گیا تھا۔

ویسے تم نے نام خوب چنا۔ عمران سے مانی ۔ وہ بولا ۔

” میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔” میں نے کہا ۔ تم ابھی سکھ میت سنکھ کو فون کر کے بتاؤ کہ سادہو مانی رام ایک بڑی زور دار قسم کی لونڈیا لے کر آرہا ہے آج رات کل دوپہر کو لونڈیا جیسلمیر واپس چلی جائے گی –

 تم جانتے ہو حالات بہت خراب ہیں اگر اس نے انکار کر دیا  تو ؟“ رام لال نے کہا۔ سکھ میت سنگھ جیسا آدمی انکار نہیں کرسکتا۔” میں نے کہا۔ پچھلی مرتبہ کاوری کو وہاں بھیجنے سے پہلےبھی تم نے ہی اسے فون کیا تھا۔“ پروگرام کیا ہے ۔رام لال نے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔

ابھی تک ذہن میں کوئی بات واضح نہیں ہے ۔ میں نے جواب دیا۔ میں جلد سے جلد اس بکھیڑے کو نمٹا دینا چاہتا ہوں تا کہ تم لوگ شانت رہو اور میں بھی یہاں سے جاسکوں ۔

“ تم نے کاوری سے بات کی ہے؟“ اس نے پوچھا۔ اس کی آنکہوں میں عجیب سی چمک ابھر آئی-

نہیں ۔ میں نے نفی میں گردن ہلائی ۔ میں چار پانچ روز سے اس سے نہیں ملا۔ تم اسے بھی بتا دو بلکہ میرا خیال ہے اسے بتانے کی ضرورت بھی نہیں۔ بعد میں اسے پتہ تو چل ہی جائے گا۔ مجھے یاد آیا کاوری تو یہاں ہے بھی نہیں وہ جے پور گئی ہوئی ہے کل دوپہر تک واپس آئے گی ۔ رام لال نے کہا۔

ٹھیک ہے۔ تم سکھ میت سنگھ سے بات کرو۔“ میں نے کہا۔

رام لال وہاں سے اٹھ کر ٹیلی فون کے قریب بیٹھ گیا اور ریسیور اٹھا کر نمبر ڈائل کرنے لگا۔ وہ چھ سات منٹ تک فون پر بات کرتا رہا۔ ایک دوبار قہقہے بھی لگائے تھے۔ پھر فون بند کر کے میرے قریب آگیا۔

وہ آج رات گیارہ بجے تمہارا انتظار کرے گا۔ وہ بولا۔

میرا نہیں لونڈیا کا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا وہ بھی مسکرا دیا۔ اس کے بعد میں زیادہ دیر!وہاں نہیں رکھا تھا۔ رام لال مجھے رخصت کرنے کے لئے گیٹ تک میرے ساتھ آیا تھا۔ اس وقت دو غنڈے بھی مجھے ادھر ادھر گہومتے نظر آئے ۔ رام لال نے مجھے چند نوٹ دیئے تھے جو میں نے ترشول کے ساتھ لٹکےہوئے ڈول میں ڈال لیے تاکہ دوسرے بھی دیکھ لیں کہ میں یہاں دان لینے کے لئے ہی آیا تھا۔ ڈرائنگ روم سے نکلتے ہی میں نے اوم نمس رام ۔ ہری اوم ، ہری اوم کا ورد شروع کر دیا تھا جو گیٹ سے نکلنے کے بعدبھی جاری رہا۔

رام لال کے بنگلے سے نکلنے کے بعد میں نے اچال شوار مندر کا ہی رخ کیا تھا۔ لیکن اس بات کا خیال رکھا تھا کہ میرا تعاقب تو نہیں کیا جا رہا۔ بنگلے پر پہنچ کر میں نے کنیا کو بتا دیا کہ آج رات ہمیں سکھ میت سنگھ کا دل بہلانا ہے۔

ساڑھے نو بجے تک کنیا تیار ہوگئی ۔ اسے دیکھ کر مجھے اپنا دل حلق میں دھڑکتا ہوا محسوس ہونےلگا ۔ اس کے حسین ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا اور اس مختصر سے لباس میں تووہ قیامت بن گئی تھی۔ کمپاؤنڈ میں گہرے نیلے رنگ کی ایک ڈانسن کار کھڑی تھی۔ میری ہدایت کے مطابق یہ کار کہیں سے چوری کرکے یہاں لائی گئی تھی اور واپسی پر میں نے اسے کہیں بھی چہوڑ دینا تھا۔ میں نے اس کمرے سے وہ تھیلا نکال لیا جس میں ٹائم بم رکھے ہوئے تھے۔ کنیا کو علم نہیں تھاکہ اس تھیلے میں کیا ہے اور نہ ہی اسے یہ پتا چل سکا تھا کہ میں دو دن تک اس کمرے میں بند کیا کرتا رہا تھا۔

تھیلا میں نے پچھلی سیٹ پر رکھ دیا تھا کنیا پیسنجر سیٹ پر بیٹھی تھی اور میں نے اسٹیرنگ سنبھال لیا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page