Smuggler –155–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 155

“ میں احمد آباد کا رہنے والا ہوں۔ میرا تعلق واقعی ایک معز اور شریف گھرانے سے تھا۔ مگر اب وہ خاندان ہی مٹ چکا ہے ۔ شکتی رام نے کہا۔ ہم دو بہن بھائی تھے۔ اور میری دیدی پشپا میرے پتا جی کا دیہانت تو اس وقت ہو گیا تھا جب میری عمر صرف چھ سال تھی۔ ان کا سارا کاروبار ماتا جی نے سنبھال لیا۔ وہ بڑی ہمت والی عورت تھیں ۔ احمد آباد میں ہماری کھلونے بنانے کی فیکٹری تھی جس کے تیار کئے ہوئے کھلونے پورے بھارت میں بےحدپسند کئے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم جس بنگلے میں رہائش پذیر تھے وہ محل کی طرح بہت وسیع و عریض اور  شاندار تھا۔

ایک سال بعد ماتا جی کا بھی دیہانت ہو گیا۔ سارا بزنس میرے تاؤ نے سنبھال لیا۔ انہوں میری دیدی کی شادی اپنے آوارہ اور شرابی بیٹے سے کر دی۔ اس کے چند مہینوں بعد مجھے سینکڑوں میل دور بنگلور کے ایک انا تھ آشرم میں داخل کرا دیا گیا۔ آشرم والوں کو اچھی خاصی رقم دی گئی تھی۔ وہ میری کڑی نگرانی رکھتے ۔ ایک سال تک تو مجھے بلڈنگ ہی سے نہیں نکلنے دیا گیا ۔

میں تقریباً چھ سال اس انا تھ آشرم میں رہا اور پھر مجھے ایک جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا ۔ وہ لوگ مجھے بمبئی لے گئے۔ انا تھ آشرم میں مجھے باتوں ہی باتوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی تھی کہ میں ایک بہت غریب گھرانے کا  فرد ہوں۔ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں لیکن میں اپنے سورگ باشی  ماتا  پتِا اور اپنی دیدی کو کیسے بھول سکتا تھا۔ مجھے وہ شاندار بنگلہ بھی یاد تھا جہاں میری زندگی کے ابتدائی چھ سات سال گزرے تھے۔

 بمبئی آنے کے بعد میں نے ایک دو مرتبہ بھاگنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بڑا منظم تھا۔ وہ لوگ نو عمرلڑکوں سے وارداتیں کرواتے تھے اور ہر لڑکے پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی ۔

مجھے مار پیٹ اور جیب تراشی سکھائی گئی۔ ایک روز سنیما کے سامنے ایک آدمی کی پاکٹ مارتے میں پکڑا گیا۔ بھاگنے کی کوشش میں وہ آدمی زخمی ہو گیا۔ اس کا ایک ہاتھ کلائی سے کٹ کر بازو سے بالکل الگ ہو گیا ۔ میں نے چاقو سے اس شخص پر حملہ ضرور کیا تھا مگر مجھے توقع نہیں تھی کہ میرا  وار اس قدر کارگر ثابت ہوگا۔

عدالت سے مجھے سات سال کی سزا ہوگئی۔ میں جیل میں بھی دنگے فساد کرتا رہا جس سے میری سزا  بڑھتی رہی۔ کئی وارڈن میرے ہاتھوں زخمی ہوچکے تھے اور ہر مرتبہ میری سزا میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس طرح مجھے سات کے بجائے بارہ سال جیل میں گزارنے پڑے۔

جب میں جیل سے رہا ہوا تو میری عمر پچیس سال ہو چکی تھی۔ بچپن کی یادیں اب بھی میرے ذہن میں تازہ تھیں۔ جیل سے باہر آتے ہی کئی گروہوں کے لوگوں نے مجھے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی مگر میں ان سے دور ہٹتا رہا۔ چند روز بمبئی میں گزارنے کے بعد میں احمد آباد آ گیا ۔

میرا تاؤ اگر چہ ساٹھ سال کا ہو چکا تھا لیکن وہ اب بھی اس طرح ہٹا کٹا تھا جیسا میں نے اسےبچپن سے دیکھا تھا۔ اس نے مجھے پہچاننے سے  ہی انکار کر دیا۔ اس وقت یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا کہ شادی کے ڈیڑھ سال بعد میری دیدی کا بھی دیہانت ہوگیا کچن میں کام کرتے ہوئے اس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی تھی اور وہ جل کر مر گئی تھی۔ دیدی کی موت کے بعد تاؤ نے ساری جائیداد اپنے نام منتقل کر والی تھی اور میرے بارے میں یہ مشہور کر دیا تھا کہ میرا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا اور لوگوں کے سامنے میرا کریاکرم بھی کر دیا گیا تھا۔

تاؤ اور اس کے بیٹے نے جس طرح مجھے دھکے دے کر گھر سے نکالا تھا وہ میں آج تک نہیں بھول سکا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ جس طرح مجھے اناتھ آشرم میں داخل کرا دیا گیا تھا اس طرح میری دیدی کو بھی قتل کر دیا گیا تھا تاکہ تاؤ ہماری جائیداد پر قبضہ کر سکتے۔“

 میں نے تاؤ اور اس کے بیٹے کیخلاف مقدمہ کر دیا مگر اس کا حشر وہی ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔ میں قلاش تھا تاؤ کے پاس دولت۔۔۔ اس نے ثابت کر دیا کہ اس کے بھتیجے کا انتقال بچپن میں ہی ہوگیا تھا اور میں فراڈیہ ہوں ۔

مقدمہ ختم ہونے کے بعد میں بمبئی واپس چلا گیا۔ وہاں میں نے اپنے کچھ حمایتی پیدا کر لئے ۔ یہ بھانو  راجو اور مٹھو رام میرے اس وقت کے دوست ہیں۔ انہوں نے ہر برے وقت میں میرا ساتھ دیا۔ دو تین مہینوں کے بعد میں ایک روز چپکے سے احمد آباد آگیا اور اپنے تاؤ کو قتل کر دیا۔

تاؤ کے بیٹے نے پولیس میں میرا نام لکھوا دیا تھا۔ تیسرے دن مجھے بمبئی سے گرفتار کرلیا لیکن میں نے عدالت میں ثابت کر دیا کہ جس رات احمد آباد میں میرے تاؤ کا قتل ہوا اور اس رات میں بمبئی میں موجود تھا۔ مجھے قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا مگر پولیس میرے پیچھے پڑگئی تھی۔ مجھے بمبئی میں بھی چین سے نہیں  ٹکنے دیا گیا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ مختلف شہروں میں پھرتا ہوا جے پور آگیا۔ ہم چاروں محنت مزدوری کرکے شرافت کی زندگی بسر کرنا چاہتے تھے مگر ہمارے ہاتھوں پر جرائم پیشہ ہونے کےٹھپے لگ چکے تھے۔ ہمارے دامن داغدار  ہو چکے تھے۔

آخر کار ہم نے اس دلدل میں اترنے کا فیصلہ کرلیا۔ چار سال پہلے ہم یہاں آئے تھے۔ یہاں سیزن چل رہا تھا۔ بڑی رونق تھی۔ یہاں ہماری دادا گیری چل گئی اور پھر ہم ہر سال سیزن میں یہاں آتے تھے۔ یہاں کے چھوٹے چھوٹے مقامی غنڈوں نے بھی ہماری برتری مان لی تاہم ایک دو بڑے غنڈے ایسے تھے جو ہمارے لئے خطرہ تھے مگر ہم نے ان کے منہ لگنے کی کوشش نہیں کی ۔

یہ سیزن ہمارے لئے بہت برا ثابت ہوا یہاں کے حالات ایک دم بگڑ گئے تھے۔ رونق اجڑ گئی۔ منی لال کے آدمیوں نے خوف وہراس پھیلا دیا۔ سیر و تفریح کے لئے آنے والے لوگ واپس جانےلگے۔ یہی لوگ دراصل ہماری آمدن کا ذریعہ بنتے تھے اور اس روز تمہیں دیکھا تو میرا ہاتھ ٹھنکا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ہماری روزی میں لات مارنے کی کوشش کروگے۔ اس لئے میں نے تم سے الجھنے کی کوشش کی تھی مگر کیا پتہ تھا کہ تم میرے بہترین دوست ہو گے۔ میں نے تو واقعی تمہیں گرو  مان لیا ہے ۔ وہ چند لمحوں کو خاموش ہوکر پھر بولا ۔

اس میں شبہ نہیں کر منی لال واقعی دنیا کا سب سے خطر ناک آدمی ہے کوئی اس کے سامنے نظریں نہیں اٹھا سکتا مگر تم نے اسے تگنی کا ناچ نچا  رکھا ہے۔”

وہ دھرتی پر بوجھ ہے اور دھرتی کو اس بوجھ سے نجات دلانی ہے۔“

میں نے اسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی کہ میں دراصل منی لال کو قتل کیوں کرنا چاہتا ہوں۔

ٹھیک ہے۔” میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ “تم اپنا علاج کراؤ اور آرام کرو میں ایک دو دن بعد تم سے ملوں گا۔

” اپن تو ہر وقت حاضر ہوں گرو ۔ شکتی رام نے کہا۔

اس وقت بھانو بھی واپس آگیا۔ میں نے ان دونوں سے ہاتھ ملایا اور اس قدیم اصطبل سےباہر آ گیا۔

راجندر مارگ پہنچنے میں مجھے چند منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے۔ اس وقت سوا  نو بج رہے تھے۔ میں پریم نورس ریسٹورنٹ میں دیوی سے ملنا چاہتا تھا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے وہ دیر تک ڈیوٹی پر رہ رہی تھی۔

اس رات جب پہلی مرتبہ دیوی سے ملاقات ہوئی تھی تو میں اسے ایک نائٹ کلب میں لے گیا۔۔۔جہاں منی لال کو آتے دیکھ کر میں نے اپنا پروگرام بدل دیا تھا اور اسے ہال ہی میں چھوڑ کر ایک ویٹر کے بھیس میں دفتر والے کمرے میں گھس گیا تھا جہاں منی لال سے دو  دو ہاتھ کرنے کے بعد پچھلی کھڑکی سے فرار ہو گیا تھا۔ دیوی کلب ہی میں رہ گئی تھی۔ بعد میں مجھے خیال آیا تھا کہ چونکہ دیوی کو میرے ساتھ کلب میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا اس لئے ہو سکتا ہے کہ بعد میں اسے پکڑ لیا گیا ہو اور تشدد کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو لیکن کئی روز بعد دیوی کو زندہ سلامت دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا تھا۔

پچھلے ان چند دنوں کے دوران میں تین چار مرتبہ پریم نورس ریسٹورنٹ  میں گیا تھا اور جان بوجھ کر ایسی ٹیبل پر بیٹھا تھا جہاں دیوی گاہکوں کو سرو کرتی تھی۔ صرف ایک مرتبہ اس نے گہری نظروں سے میری طرف دیکھا تھا مگر وہ مجھے پہچان  نہیں سکی اور مجھے یقین تھا کہ وہ آج بھی مجھے نہیں پہچان پائے گی۔ میں ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو دیوی کو دیکھ کرمجھے اطمینان سا ہوا لیکن میں اس کی مخصوص میزوں میں سے کسی پر بیٹھنے کے بجائے دوسری میز پر بیٹھ گیا جہاں ناٹے قد کی ایک اور سانولی سی لڑکی سرو کر رہی تھی۔ ریسٹورنٹ میں اس وقت زیادہ رش نہیں تھا، کئی میزیں ایسی تھیں جن پر صرف ایک یا  دو  دو گا ہک بیٹھے ہوئے تھے۔

میں چائے کے ساتھ سینڈوچ اور دیوی کی طرف دیکھتا رہا جو انہیں اپنی میزوں پر گاہکوں کو سرو کرنے میں مصروف تھی۔

ٹھیک دس بجے دیوی کاؤنٹر پر حساب دینے کے بعد ریسٹورنٹ کے پچھلے ایک دروازے میں داخل ہوگئی۔ میں سمجھ گیا کہ اس کی ڈیوٹی ختم ہوگئی تھی۔ میں نے ویٹریس کو بلا کر بل ادا کیا اور ریسٹورنٹ سے باہر آ کر مڑ کے دوسری طرف کھڑا ہو گیا۔

تقریباً دس منٹ بعد دیوی  ریسٹورنٹ سے برآمد ہوئی اس نے شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ بیگ کندھے پر لٹکا ہوا تھا۔ دراز قد اور گداز و سڈول جسم ہونے کی وجہ سے یہ لباس بھی دیوی پر خوب جچ رہا تھا۔ ان کی  گول مٹول کولہوں کی تھرتھراہٹ  جان لیوا تھا۔  اور میں وہاں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ وہ تقریباً بیسں گز آگے نکل گئی تو میں بھی حرکت میں آگیا اور اگلے موڑ تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کے برابر پہنچ گیا۔

ہیلو سو ہنیو۔۔۔ کلے کلے کتھے سیراں ہون ڈیاں نے؟“  میں نے اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پنجابی میں کہا۔

وہ چونک گئی۔ اس نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔

میرا کلیاں جانا پسند نئی تے تسی وی میرے نال چلو ۔ ” اس نے بھی پنجابی میں ہی بات کی تھی۔

ویری گڈ کہاں چلنا ہے۔“ میں نے مسکرا کر کہا۔

 جہاں کہو۔ مگر دو سو روپے ہوں گے۔ رات بھر اپنے پاس رکھنا چاہوتو ایک ہزار ” اس نے دو لوک الفاظ میں اپنی فیس بتادی۔

نو پرابلم ” میں نے کہا۔ مگر میں گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا ہوں جس کی بدصورت مالکہ خوبصورت لڑکیوں سے الرجک ہے، تمہیں وہاں نہیں لے جاسکتا تمہارا گھر کیسا رہے گا۔ میں رات تمہارےساتھ ہی گزارنا چاہتا ہوں ۔

ایسی صورت میں سورو پیہ گھر کا کرایہ بھی ہوگا۔ دیوی نے کہا۔

میں دل ہی دل میں مسکرا دیا۔ وہ سو فیصد کاروباری لہجے میں بات کر رہی تھی۔

نو پر ابلم ۔۔۔ میں نے پھر وہی الفاظ دہرائے۔

ہم کناٹ ہاؤس پیلس ہاؤس کے پہلوسے گزرتے ہوئے عقبی گلی میں آگئے اور پھر ایک اور گلی میں مڑ کر دیوی ایک خوبصورت مکان کے سامنے رک گئی۔ اس نے بیگ میں سے چابی نکال کر باہر کا دروازہ کھولا اور پہلے مجھے اندر داخل ہونے کیلئے راستہ دیا پھر خود اندر آ کر دروازہ بند کر دیا۔ یہ نہایت مختصر سا آنگن تھا۔ بائیں طرف کی دیوار سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس آنگن کو دو حصوں کے میں تقسیم کیا گیا تھا اور جب ہم مکان میں داخل ہوئے تو میرا اندازہ درست نکلا۔ مکان کو اندر سے بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اس طرف دو کمرے تھے۔ پچھلی طرف باتھ روم تھا اور ایک چھوٹا کچن بھی تھا۔

دیوی مجھے جس کمرے میں لے کر آئی اس میں ایک ڈبل بیڈ دو کرسیاں ایک چھوٹی ٹیبل اور ضرورت کی صرف چند چیزیں تھیں۔ ایک طرف دیوار میں ہضمی الماری بھی بنی ہوئی تھی۔ ردیوی نے تالا کھول کر اپنا بیگ الماری میں رکھا اور بیڈ کے قریب کرسی پر پڑا ہوا شب خوابی کا لباس اٹھا کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page