کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی سمگلر
سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
سمگلر قسط نمبر- 157
میں اٹھ کر کھڑا ہو ا اور دیوی کو بھی بیڈ سے اتار کر کھڑا کیا۔۔۔میں دیوی کے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کرتا ان کا چہرہ ہاتھوں میں لیے انہیں تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک بار پھر میری نظر دیوی سے ملی اور ان کی نظروں میں مجھے ان کا دَرد نظر آیا اور پیار سے تڑپتی ان کی آتما کا وہ فریاد جو میرے دِل کو چیرتے ہوئے جا رہا تھا۔۔۔ میں انکار میں سر ہلا رہا تھا مگر ان کی بات کا جواب مجھ سے دیتے نہ بنا۔ دیوی لگاتار میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جیسے وہ امید لگا رہی تھی مجھ سے۔۔۔ میرا دِل بھی ان کی نظروں کے آگے پگھل سا گیا اور ان کے لرزتے ہونٹوں پر آہستہ سے میرے ہونٹ آ لگے۔ آنكھوں سے بہتے آنسوؤں کا نمکین پانی پھولوں سے کومل ہونٹوں پر جیسے ٹہرا تھا اور میرے ہونٹ دیوی کے ہونٹوں سے جوڑتے ہی وہ پانی میرے منہ میں آیا تو ان کے دکھ سے بھرا میرا دِل سب حدوں کو توڑتا اور میری سوچ کے دیوار کو ٹوٹتا ہوا بہہ گیا۔ میں دیوی کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھامے ان کے ہونٹ پینے لگا اور دیوی کے ہاتھ بھی میرے سر پر آئے۔ دیوی بھی اب میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر اچھے سے کِس کرنے لگی۔۔۔ دونوں کے اندر عمدہ دَرد کا طوفان ہر سوچ کو ختم کرتا ہوا ہم دونوں کو اپنے ساتھ بہاتا چلا گیا۔۔۔ لگاتار ایک دوسرے کو ہونٹوں کو کس کرتے ہوئے ہم اب ایک دوسرے سے پوری طرح سے جڑ چکے تھے اور ایک دوسرے کو اپنے میں سمانے کی کوشش کرتے بانہوں میں ایک دوسرے کو کَس رہے تھے۔ میرے ہاتھ دیوی کی گردن سے نیچے جاتے ان کی پیٹھ اور کمر کو کس کر اپنے ساتھ لگائے تھے۔۔۔ دیوی بھی کچھ اسی طرح سے جواب دے رہی تھی اور اب ہم دونوں ایک دوسرے کے چہرے کو لگاتار اِس طرح چوم رہے تھے جیسے برسوں بعد بچھڑنے کے بعد دو پریمی واپس ملے ہو۔۔۔ دیوی کے چہرے کو بےتحاشہ چومنے کے بعد میں ان کی گردن پر کس کرنے لگا تو دیوی کے منہ سے سسکی نکلی اور وہ میرے سر کے بال نوچنے لگی۔ میرا چہرہ وہ اپنی گردن پر زور سے دبانے لگی اور میں بھی جذباتی ہو کر ان کی گردن کے کومل احساس کو چومتا اپنے دانت ہی گاڑھا بیٹھا مگر دیوی نے مجھے نہ روکا بلکہ اور زیادہ جذباتی ہو کر وہ اپنی ٹانگ اٹھا کر میری ران سے اپنی ران رگڑنے لگ گئی۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ اور نیچے کیے اور دیوی کی اُٹھی ہوئی ران کو سہلاتے ہوئے اپنا ہاتھ ان کے چوتڑوں پر رکھا۔۔۔ دونوں ہاتھوں سے دیوی کے چوتڑوں کو تھام کر میں نے انہیں اوپر کو اٹھایا تو اپنی دوسری ٹانگ بھی اٹھا کر دیوی نے دونوں ٹانگیں میری کمر پر قینچی جیسے لپٹ لی۔۔۔ اب دیوی میری گود میں تھی اور میں انہیں اوپر اٹھائے اب ان کی گردن سے نیچے آتا ہوا ان کے سینے پر چومنے لگا۔۔۔ میں نے پلٹ کر دیوی کو وہیں دیوار سے لگا لیا اور دیوی کے دونوں ہاتھ دیوار سے لگا ان کے سینے کو چومنے لگا۔۔۔ دیوی لگاتار اب سسکیاں نکال رہی تھی۔
سانسوں کا طوفان سا کمرے میں اٹھ چکا تھا اور ہر طرف بس ہماری سانسوں کی ہی آواز تھی۔۔۔ نہ میں کچھ بول رہا تھا نہ دیوی۔
میں نے دیوی کے ہاتھ چھوڑ کر جب اپنے ہاتھ دیوی کے پستانوں پر رکھے تو دیوی زور سے سسکی اور میرا سر زور سے اپنی چھاتی پر دبانے لگی۔
ااممممم افففف سسسسس ام
دیوی کے پستان بالکل ٹین ایج لڑکیوں کی طرح اِس عمر میں بھی کٹھور تھے۔۔۔ دیوی کے پستان ہاتھ میں کستے ہی میرے ہاتھ جیسے خود ہی ان پستانوں کو اپنے آپ ہی مسلنے لگ گئے۔۔۔ جتنا میں ان کے پستانوں کو دباتا وہ اتنے سخت ہوئے جا رہے تھے۔ دیوی میری گود میں لگاتار مچل رہی تھی اور اپنی کمر ہلا رہی تھی۔ کچھ دیر میں دیوی کی گردن اور چھاتی کو چومتا ان کے پستانوں کا مروڑنا جاری رکھا اور پھر دیوی نے میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں کس کر جنگلی طریقے سے میرے ہونٹ لگ بھگ کِس کرنے شروع کر دیئے تو میں انہیں گود میں لیے بیڈ کی طرف ہو لیا اور انہیں اپنے ساتھ لگائے ایسے ہی بیڈ پر گر گیا۔
دیوی لگاتار مجھ پر جیسے حملہ آور تھی اور میں ان کے اِس روپ کے آگے بے بس سا ہوا جا رہا تھا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اب کٹ پتلی سا بن گیا ہوں جس کا اپنے اوپر ہی بس نہیں تھا اب۔۔۔ دیوی نے ایک دم سے مجھے پلٹ دیا اور میرے اوپر آگئی۔۔۔۔ میرے ہاتھ دیوی کے کولہوں پر تھے اور میں انہیں دبا رہا تھا دیوی کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ الجھائے۔۔۔ دیوی مجھ سے الگ ہوئی اور میری ٹی شرت کھینچنے لگی میں نے بھی تھوڑا سا اٹھ کر ان کا ساتھ دیا اور اگلے ہی پل میرا اوپر دھڑ ننگا ہوچکا تھا۔
دیوی میری چھاتی پر پاگلوں کی طرح کس کرنے لگی اور ان کی اِس حرکت سے میرے ریڑھ کی ہڈی تک مجھے جھرجھری سی محسوس ہوئی۔ میرے لن کے اوپر اب دیوی کی پھدی والا حصہ تھا جسے وہ رگڑ رہی تھی اور لگاتار میری چھاتی کو چُومتے ہوئے وہ میرے دونوں ہاتھ بیڈ پر دبا دیئے جیسے وہ میرے ساتھ زبردستی کر رہی ہو۔۔۔ حالانکہ شریر کے مقابلے میں، میں ان سے کہیں زیادہ طاقتور تھا مگر اب ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے جسم میں کوئی شکتی ہے ہی نہیں جو دیوی کو روک سکوں یا پھر میرا جسم میرے بس میں ہی نہیں تھا۔ دیوی نے میری چھاتی کو چومتے ہوئے دانت ہی گاڑھ دیئے میری چھاتی پر۔۔۔ پتہ نہیں یہ کیا اثر ہو رہا تھا کہ دَرد کے باوجود بھی مجھے مزہ آ رہا تھا اور میرے منہ سے بھی مزے کی سسکاریاں نکل رہی تھی۔۔۔ مجھ سے اور برداشت نہ ہوا تو میں نے دیوی کو پلٹ کر اپنے نیچے کر لیا اور دیوی کے پستانوں پر ٹوٹ پڑا۔۔۔ زور زور سے ان روئی کے گولوں کو دباتا میں ان کی شب خوانی کا لباس اوپر کھینچنے لگ گیا اور گلے تک اٹھا کر میں نے برا کو اوپر کھینچ کر ان کے پستان باہر نکال لیے۔۔۔ دیوی کے پستان نہ بہت بڑے تھے نہ چھوٹے ، ایک دم پرفیکٹ شیپ میں گول۔ اور دودھ سے سفید جن پر گلابی رنگ کے نِپل مٹر کے دانے جتنے بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے۔ میں نے بدحواسی میں ایک پستان کو منہ میں بھر لیا اور زبان سے ان کے نپل کو سہلاتا زیادہ سے زیادہ پستان کو منہ میں بھرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ جس وجہ سے دیوی شہوت سے بھر کر اپنے ناخن میری پیٹھ پر چُبھ رہے تھے اور میں ایک پستان کو منہ میں لیے دوسرے کو دبا رہا تھا۔۔۔ دیوی کے پستان چُوستے ہوئے میں پاگل سا ہوتا جا رہا تھا اور باری باری سے اب دونوں پستانوں کو منہ میں لیکر چُوسنے لگا۔
دیوی لگاتار سسکیاں لے رہی تھی اور اپنی ٹانگیں میری کمر پر لپٹ کر مجھے اپنے سینے سے کس کر اپنا جسم اوپر اٹھا اٹھا کر رگڑ رہی تھی۔
نتیجہ یہ تھا کہ میرے لن کا برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ دیوی کی اسکن ایسی تھی کہ جتنا میں اسے مسلتا اتنا زیادہ مزہ آتا اور میں لگاتار بس اسی کام میں لگا تھا۔
پھر میں نے ایک ہاتھ نیچے لے جا کر دیوی کی پینٹی کھینچ کرلی۔
میں بےصبر ہوتا جا رہا تھا اور دیوی بھی اپنے پیروں سے میرا ٹراؤز نیچے کھسکا رہی تھی۔
جلد بازی میں۔۔۔ میں نے لن کو باہر نکالا اور ایک ہاتھ سے پکڑ کر دیوی کی پھدی پر سیٹ کیا۔
میں جب کسی کے ساتھ سیکس کرتا تھا تو پُورا مزہ لیتے ہوئے پستانوں کے ساتھ ساتھ پھدی کو بھی پیار دے کر تیار کرتا تھا مگر یہاں تو اتنی جلدبازی میں تھا میں۔۔۔ جیسے کہ وقت ہی نہ ہو یہ سب کرنے کے لیے۔ جیسے ہی لن کو پھدی کا نشانہ ملا۔۔۔ میں نے وقت ضائع کیے بنا ہی زور کا دھکا دیتے ہوئے لن کو پھدی میں گھسا دیا۔۔۔دیوی ایک دم سے چلا پڑی۔
آااااہ ہ ہ ہ ممممممم
دیوی دَرد سے چیخی ضرور مگر اپنا منہ بند کرکے انہوں نے چیخ دبانے کی کوشش کرتے ہوئے مجھے بالکل بھی روکنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر ان کی اِس چیخ نے مجھے نیند سے جیسے جگایا اور مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔۔ لن بہت ہی ٹائیٹ پھدی میں پھنسا ہوا لگ رہا تھا۔ دیوی شائد اتنے موٹے ٹوپے والے لن سے چودی نہیں تھی اِس لیے ان کی پھدی شاید سکڑ گئی تھی اور میرے لن کے سائز نے انہیں دَرد سے بھر دیا تھا۔۔۔ حالانکہ ابھی لن ایک تہائی ہی گھسا تھا۔ میں وہیں رک گیا اور دیوی کے اوپر سے اٹھنے کی کوشش کی تو دیوی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روک دیا۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر تو وہ آنکھیں بند کیے اپنے ہونٹ دانتوں میں دبائے تھی۔
آئی ایم سسو سوری دیوی میں ۔۔۔۔
آج رکنا مت اممم ، ، ، مجھے میرے مرضی سے پیار کرو اُمممم
دیوی نے اپنا چہرہ آگے کرکے میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں کس لیے اور اپنے اوپر کھینچ لیا۔۔۔ میں دیوی کے ہونٹ چومتا خود کو ان کے حوالے کرکے ان کے پستانوں کو دباتا ہوا اپنی کمر اتنے میں ہی آگے پیچھے ہلانے لگا۔۔۔ دیوی کی پھدی سچ میں بہت ٹائیٹ تھی اور اندر سے بھٹی کی طرح تپ رہی تھی۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے لن وہیں پگھل جائیگا اور میری کمر جیسے دیوی کے ان کہے آرڈر مانتے ہوئے اب ہلنے لگی۔ ساتھ ہی میں نے دیوی کی ٹانگوں سے ان کی پینٹی پوری نکال دی۔
کچھ ہی پلوں میں پھدی میں لن کے لیے گیلا پن آ گیا اور پھدی گیلی ہو کر اس نے لن کو جگہ دی آگے بڑھنے کی۔ دھیرے دھیرے دھکے لگاتا میں تھوڑا تھوڑا آگے بڑھ رہا تھا اور اب آدھا لن دیوی کی پھدی میں سماں چکا تھا۔۔۔ دیوی کا جسم ایک دم سے اکڑنے لگا اور وہ میرے ہونٹ نوچتے ہوئی میری پیٹھ پر ناخن چُبھا رہی تھی۔۔۔ اپنی کمر خود ہی وہ اوپر اُٹھاتی میری کمر پر ٹانگیں زور سے لپیٹتے ہوئی مجھے جکڑنے لگی اور ایک دم سے تیز سانسیں لیتی وہ کمر کو اتنی تیز ہلانے لگی کہ مجھے ہلنے کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔۔۔اور اس وجہ سے لن پوری گہرائی میں غوطہ مار رہا تھا۔۔۔ اگلے ہی پل دیوی کا جسم جھٹکے کھانے لگا اور ان کی پھدی سے گرم پانی کا فوارہ سا چھوٹتا محسوس ہوا جس نے میرے لن کو پوری طرح بھگو دیا۔۔۔5 منٹ بھی نہیں ہوئے تھے اور دیوی نڈھال پڑ گئی ، پتہ نہیں کب سے اپنے اندر وہ گرمی سمیٹے تھی جو اتنی جلدی وہ نڈھال ہوگئی اور آنکھیں بند کیے ایک دم بےجان سی بیڈ پر گر گئی۔ ان کا جسم ڈھیلا پڑا تو میری کمر پر بندھی ان کی ٹانگوں کی پکڑ بھی ڈھیلی ہوئی۔
دیوی ایسے آنکھیں موندی پڑی تھی جیسے وہ بے ہوش سی ہوگئی ہو۔۔۔ پُورا جسم پسینے سے بھر چکا تھا اور آنکھیں اوپر کو اُلٹ گئی تھی۔۔۔ میں نے ان کے چہرے سے پسینہ صاف کیا اور انہیں آواز دی۔
دیوی ! ! ! آپ ٹھیک تو ہیں۔
کچھ دیر دیوی خاموش رہی اور پھر دھیرے سے انہوں نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں گلابی پن صاف نظر آ رہا تھا ساتھ ہی اپنے لیے بہت سارا پیار۔ دیوی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان جھلکی اور پھر انہوں نے مجھے بانہوں میں کستے ہوئے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔ شاید انہیں شرم آرہی تھی جو وہ مجھ سے نظریں چرانے کے لیے ایسا کر رہی تھی۔
میں کچھ دیر یوں ہی دیوی کے گلے لگا رہا اور ان کے پیار کو محسوس کرتا رہا۔۔۔ آخر آج ان کے من کو کچھ راحت ملی تھی اور وہ مجھ سے وہ پیار چاہ رہی تھی جو انہیں شاید کبھی ملا ہی نہیں تھا۔۔۔ میں نے بھی ان کی اِس پیار کو دِل سے اپنا لیا اور ان کا چہرہ ہاتھوں میں لیکر ان کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔ دیوی نے جلدی سے آنکھیں بند کر لی۔
جاری ہے اگلی قسط بہت جلد
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

-
Smuggler –220–سمگلر قسط نمبر
March 4, 2025 -
Smuggler –219–سمگلر قسط نمبر
March 4, 2025 -
Smuggler –218–سمگلر قسط نمبر
February 3, 2025 -
Smuggler –217–سمگلر قسط نمبر
January 16, 2025 -
Smuggler –216–سمگلر قسط نمبر
January 16, 2025 -
Smuggler –215–سمگلر قسط نمبر
January 16, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
