Smuggler –160–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 160

پوجا”۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ یہ جگہ اب ہمارے لئے محفوظ نہیں ہے۔ ہمیں شام  سے پہلے کسی دوسری جگہ منتقل ہوجانا چاہیئے مگرکوئی کہ میری مجھ میں نہیں آ رہی۔

ایک اور محفوظ جگہ ہے میرے ذہن میں۔ پوجا نے کہا۔

کونسی جگہ میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

ڈاکٹر آردھا”۔ پوجا نے جواب دیا۔

ڈاکٹرآردھا؟؟؟  میں چونک گیا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ وہ جگہ محفوظ نہیں ہے کیمپ میں دھماکوں کے بعد کنیا نے انہیں پنڈت روہن کے مندر کے بارے میں بتا دیا تھا۔ ڈاکٹر آردھاکے بارے میں بھی بتا دیا گیا ہوگا۔ کنیا  میرے ساتھ وہاں جا چکی ہے۔

 کنیا نے نہیں بتایا۔ پوجا نے کہا۔ اگر بتایا ہوتا تو وہ لوگ مندر کی طرح ڈاکٹر آردھاکے مکان کو بھی جلا کر راکھ کر ڈالے۔”

لیکن کیا آردھا  پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ وہ کاوری کی دوست تھی اور کاوری  ہمارے ہاتھوں ماری گئی ہے۔ میں نے کہا۔

ڈاکٹر آردھا۔۔۔ کاوری  کی نہیں میری دوست تھی۔ پوجا کے ہونٹوں پر پہلی بار خفیف سی مسکراہٹ آگئی۔ آردھا سے پہلے میری ہی دوستی ہوئی تھی۔ پھر کاوری سے بے تکلفی بڑھتی گئی۔ آردھا  اب بھی میری دوست ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس موقع پر وہ ہماری مدد ضرور کرے گی اور یوں بھی وہ تم سے بہت متاثر ہے۔

تو ٹھیک ہے۔“ میں نے کہا۔ اب تم جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ ہمیں جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہئے ۔

اس وقت دن کی روشنی میں ؟”  پوجا نے الجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا۔

 ہاں۔ ہم شام ہونے کا انتظار نہیں کر سکتے ۔ میں نے جواب دیا۔

پوجا اٹھ کر باتھ روم میں گھس گئی۔ منہ ہاتھ دھو کر اپنا حلیہ درست کیا اور فرش پر پھیلے ہوئے کپڑے اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگی اور آخر کار پیٹی کوٹ بلاؤز پہن کر اور نج رنگ کی ساڑھی لپیٹنے لگی۔پھر ضروری چیزیں سمیٹ کر ایک بیگ میں ڈال لیں ۔

میرا خیال تھا کہ اس وقت بھی کہیں دور سے کاٹیج کی نگرانی ہورہی ہوگی۔ ہم نے دروازے بند کر دیئے لیکن اندر کی بتیاں جلتی رہنے دی تھیں ۔

اس وقت پانچ بجنے والے تھے۔ سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر تھی ۔ نرم دھوپ بڑی بھلی لگ رہی تھی۔ کا ٹیج سے نکل کر سڑک پر آ کر دو چار قدم اٹھاتے ہی میں ٹھٹک کر رک گیا۔ میرے چہرےپر چمک سی پڑی تھی اور آنکھیں ایک لمحہ کو چندھیائی گئی تھیں۔ میں اس جگہ رک کر محتاط انداز میں ادھر ادھر دیکھنے لگا اور پھر میرے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ آگئی۔

دائیں طرف سڑک کے ساتھ پہاڑی پر ذرا او پر قد آدم جھاڑیوں میں شاید کوئی موٹر سائیکل کھڑی تھی۔ موٹرسائکل تو دکھائی نہیں دے رہی تھی البتہ اس کے ہینڈل پر لگا ہوا آئینہ جھاڑیوں کی شاخوں سےقدرے او پر کونکلا ہوا تھا جس پر دھوپ پڑ رہی تھی اور اس آئینے کی چمک ہی میرے چہرے پر پڑی تھی۔

 

نگرانی کے بارے میں میرا خیال درست نکلا تھا۔موٹر سائیکل تھی تو اس کے ساتھ یقینا کوئی جھاڑیوں میں چھپا ہوا ہوگا جو نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے سڑک پر رک کر اس طرح ادھر ادھر دیکھا تاکہ نگرانی کرنے والے کو کسی قسم کا شبہ نہ ہو سکے۔

میں پوجا کے ساتھ سڑک پر چلنے لگا۔ اس کی چال میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ تھی اور کسی وقت وہ بھی اٹھتی تھی۔

میں نے پوجا کو اپنے چہرے پر پڑنے والی شیشے کی چمک اور پہاڑی پر جھاڑیوں میں چھپی ہوئی موٹرسائیکل کے بارے میں بتا دیا۔

اگر وہ ہمارے پیچھے لگارہا تو ؟ پوجا نے کہا۔

شانت رہو۔ میں اس کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔ میں نے اسے جواب دیا۔

ہم تقریبا دو سو گز کے فاصلے پر تھے اور جیسے جیسے چلتے جا رہے تھے فاصلہ بڑھتا جارہا تھا۔ اس دوران ہم نے ایک مرتبہ بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔

 تقریبا سو گز آگے ایک موڑ تھا۔ وہ موڑ گھومنے کے تھوڑی ہی دیر بعد مجھے موٹر سائیکل کی آواز سنائی دی ۔

آرام سے چلتی رہو اور پیچھے مڑکرمت دیکھنا۔ میں نے پوجا سے کہا۔

تین چار منٹ بعد موٹر سائیکل کی آواز کچھ اور واضح ہوگئی۔ مجھے اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ اب وہ موٹر بائیک بھی اس سڑک پر مڑگئی تھی جس پر ہم جا رہے تھے۔ یہ سڑک دور دور تک ویران تھی۔ موٹر بائیک کی آواز قریب محسوس کرکے میں نے  جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا۔

موٹر سائیکل سوار اس طرح ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جیسے محض آؤٹنگ کیلئے نکلا ہو۔ بائیک کی رفتار بہت ہلکی تھی۔ میں نے پوجا کی طرف دیکھا اور سڑک کے بیچ میں آکر موٹر سائیکل کو رکنے کا اشارہ کردیا۔

موٹر سائیکل ہمارے قریب آ کر رک گئی۔ پوجا اسی دوران سڑک کے کنارے بیٹھ چکی تھی۔

“ایک دیا کر دیو ہم پر بھایا ۔”

میں نے موٹر سائیکل سوار کی طرف دیکھتے ہوئے مسکین سے لہجے میں کہا۔ وہ درمیانے قد کا قدرے بھاری بھر کم آدمی تھا۔

کیا بات ہے۔ اس نے چھبتی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر گردن گھما کر ر پوجا کی

کیطرف دیکھنے لگا۔

ہمیں ادینا تھ مندر جانا ہے۔ میں نے کہا۔ یہاں تو کوئی سواری نجر نہ آوے۔ میری جورو ہے تم مہربانی کرو ہمیں اپنی پھٹ پھٹیا پر بٹھا کر آگے کسی جگہ چھوڑ دو جہاں سے ہمیں کوئی سواری مل جائے۔“

اس نے ایک بار پھر چھبتی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا اور سیٹ سے کھسک کر آگے پیٹرول  والی ٹینکی پر پہنچ گیا۔

اپنی جورو کو میرے پیچھے بٹھا دو اور خود اس کے پیچھے بیٹھ جائیں ۔ اس نے کہا۔

میں دل ہی دل میں مسکرا دیا۔ میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ اکیلا آدمی آخر تک ہماری نگرانی کرے گا اگر میں اسے نہ بھی روکتا تو آگے کسی جگہ یہ کسی اور کو اشارہ کر دیتا اور وہاں سے دوسرا آدمی ہمارا تعاقب شروع کر دیتا لیکن میں اسے وہاں تک پہنچنے نہیں دینا چاہتا تھا۔

اے بھگوان۔۔۔ جلد آجا۔ شریمان ہمیں اپنی پھٹ پھٹیا پر آگے چوک پر چھوڑ دیں گے۔ میں نے پوجا کی طرف دیکھتے ہوئے آواز لگائی۔ پوجا اٹھ کر موٹر سائیکل کے قریب آگئی اور اس شخص کے پیچھے اس طرح بیٹھ گئی کہ اس کی ایک ٹانگ ایک طرف اور دوسری’ دوسری طرف تھی۔ جس سے پوجا کی چھاتی اس کے پیٹھ سے ٹچ ہونے لگے۔ اور اسی لمحے موقع کا فائدہ اٹھاکر میں پوجا کے پیچھے بیٹھنے کے بجائے موٹرسائیکل کے سامنے آگیا اور اچانک ہی جیب سے پستول نکال لیا۔

“اب تم موٹر سائیکل سے اتر جاؤ بھایا۔”

میں نے غراتے ہوئے کہا۔ اب ہمیں تمہاری ضرورت نہیں رہی۔

اس شخص کا چہرہ دھواں ہو گیا، لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ میں نے بڑی تیزی سے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر الٹے ہاتھ کا گھونسہ جڑ دیا۔ وہ کراہتا ہوا پیچھے پوجاسے  ٹکر ایا۔

اگر تم نے نیچے اترنے میں  لمحہ کی دیر کی تو گولی مار دوں گا۔ میں نے پستول اس کے سینے کی طرف اٹھا دیا۔

یہ مت سمجھنا کہ تم بچ کر نکل جاؤ گے ۔ وہ موٹر سائیکل سے اترتے ہوئے بولا ۔ ہمارے آدمی چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ پاتال تک تمہارا پیچھا کریں گے ۔

” فی الحال تم تو ہمارا پیچھا چھوڑ دو تمہارے آدمیوں سے بعد میں نمٹ لوں گا۔ میں نے کہا۔

وہ نیچے اترا تو موٹر سائیکل پوجا نے سنبھال لی۔ اب تم اس پہاڑی کی طرف دوڑ لگا دو ۔ میں نے اس شخص کو پستول سے اشارہ کیا۔

وہ میرے حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور تھا۔ وہ سڑک سے ہٹ کر جیسے ہی چند گز آگے بڑھا میں نےپستول کا ٹرائیگر دبا دیا۔ گولی اس کی کھوپڑی میں لگی اور وہ چیختا ہوا  ڈھیر ہو گیا۔

فائر کی آواز دور تک پھیل گئی تھی۔ میں نے پستول جیب میں ڈالا اور پوجا کو پیچھے ہٹا کر موٹرسائیکل پر بیٹھ گیا ۔ پوجا نے بھی اب دونوں ٹانگیں ایک طرف کر لی تھیں۔ میں نے ایک ہی کک میں موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور اسے واپس موڑ کر تھوڑا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد پہاڑیوں میں ایک تنگ کی پگڈنڈی پر ڈال دیا۔ مجھے یقین تھا کہ ہر سڑک پر ان کا کوئی نہ کوئی آدمی موجود ہوگا۔ اس لئے میں بیچ کا راستہ اختیار کرنا چاہتا تھا۔

تقریباً آدھے گھنٹے تک پہاڑیوں میں گھومنے کے بعد ہم ایک سڑک پر نکل آئے۔ اس وقت سورج غروب ہونے میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی۔ یہ کوئی شانگ ایریا تھا اور یہاں اچھی خاصی چہل پہل تھی۔

ہوشیار نا جی ۔ پوجا آگے جھکتے ہوئے میرے کان کے قریب چیخی۔

موٹر سائیکل پر دو آدمی ہمارے پیچھے لگ گئے ہیں۔ انہوں نے یہ موٹر سائیکل پہچان لی ہے اور مجھے  بھی پہچان لیا ہے۔

ان میں ایک سنگم ہے۔ میں بھی اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔”

میں نے موٹر سائیکل کے ہینڈل پر لگے آئینے کا زاویہ درست کر کے دیکھا۔ وہ موٹر سائیکل تقریباً پچاس گز دور تھی۔ میں نے جیب سے پستول نکال کر پوجا کے ہاتھ میں تھما دیا۔

وہ قریب پہنچیں تو گولی چلا دینا۔ میں نے کہا اور موٹر سائیکل کی رفتار بڑھا دی۔ دوسری موٹر سائیکل بھی قریب آرہی تھی۔ سڑک پر ٹریفک تھا اور میں بڑی ہوشیاری سے اپنی موٹر سائیکل کو اس ٹریفک سے نکال رہا تھا اور پھر دفعتا فضا  فائر کی آواز سے گونج اٹھی۔ ہمارا تعاقب کرنے والوں نے ٹریفک اور لوگوں کی پروا کئے بغیر گولی چلا دی تھی۔ گولی ہمارے سروں کے اوپر سے گزرگئی تھی۔

گولی چلا دو  پوجا۔ میں چیخا۔

پوجا نے فوراً  ہی میری ہدایت پر عمل کر ڈالا اور پیچھے کی طرف گھوم کر پستول کا ٹائیگر دبا دیا۔

یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ پوجا کی چلائی ہوئی گولی موٹر سائیکل چلانے والے کے سینے پر لگی تھی۔ وہ چیخا  اور موٹر سائیکل لہراتی ہوئی ایک کار سے ٹکرا گئی۔ دونوں نیچے گرے۔ دوسرے آدمی کی ٹانگیں کار کے نیچے آئی تھی۔ اس کی چیخ مرنے والے کی چیخ سے زیادہ خوفناک تھی۔

میرے سامنے ایک آٹو رکشا آ گیا۔ اس سے بچنے کیلئے میں نے موٹر سائیکل کو بریک لگایا تو پوجا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی۔ وہ اچھل کر سڑک پر گر گئی اس کی چیخ سن کر میں نے پوری قوت سے بریک دبا دیا۔ موٹر سائیکل کے ٹائر چیخ اٹھے اور بائیک لہراتی ہوئی تقریباً دس گز آگے جا کر الٹ گئی۔ میں نے بڑئی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا تھا۔

گولیاں چلنے سے افراتفری مچ گئی تھی ۔ لوگ ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ میں موٹر سائیکل سڑک پر گری ہوئی چھوڑ کر پوجا کی طرف دوڑا اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھانے لگا۔ گرنے سے پوجا کے بازو اور کو لہے پر اچھی خاصی چوٹ لگی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں پستول اب بھی موجود تھا۔ میں اسے دوسرے ہاتھ سے  پکڑ کر  کھینچنے لگا۔ وہ اٹھ کر لنگڑاتی ہوئی میرے ساتھ چل رہی تھی۔ میں اسے تقریباً گھسیٹتا ہوا لے جارہا تھا۔ لوگوں نے فائرنگ کی آواز سنی تھی۔ ایک موٹر سائیکل کو کار سے ٹکراتے اور دوسری سے ایک عورت کو گرتے دیکھا تھا لیکن اصل بات شاید کسی کی سمجھ میں نہیں آئی تھی ۔ اگر ہمیں ویسے کوئی حادثہ پیش آیا ہوتا اب تک سینکڑوں لوگ ہمدرد بن کر ہمیں گھیرے میں لے چکے ہوتے لیکن فائر نگ نے خوف و ہراس پھیلا دیا اور لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

بیٹھو جلدی کرو میں پوجا کی طرف دیکھ کر چیخا۔ پوجا ساڑھی سنبھالتی ہوئی میرے پیچھے مردوں کی طرح بیٹھ گئی۔ اس نے میرے ساتھ چپک کربایاں بازو میرے سینے پر لپیٹ دیا تھا۔ پستول والا ہاتھ اس نے میرے کندھے پر رکھ لیا تھا۔ پوجا واقعی حوصلہ مند عورت تھی۔ وہ پہلے ہی زخموں سے چور تھی موٹر سائیکل سے گرنے سے بھی اسے اچھی خاصی چوٹیں آئی تھیں مگر اب بھی وہ ہر قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کو تیار تھی۔ ٹریفک جام ہونے لگا تھا۔ میں بڑی تیزی سے موٹر سائیکل کو نکالتا ہوا لے گیا اور جلد ہی اس علاقے سے نکل گیا۔ یہ سب کچھ دو تین منٹ کے اندر اندر ہو گیا تھا اور ہم اس نازک ترین صورتحال  سےزندہ سلامت نکل آئے تھے۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page