Smuggler –180–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 180

شکتی رام اور اس کے ساتھی میرے ذہن میں تھے۔ ہوٹل ہلٹن سے نکلتے وقت میں نے اندازہ لگایا تھا کہ اس نے اپنے قبیل کے کچھ اور لڑکے بھی پارٹی میں شامل کر لیے تھے اور میں ان سے بھر پور فائدہ  اٹھانا  چاہتا تھا لیکن میں یہ معمہ اب تک حل نہیں کر سکا تھا کہ شکتی اور اس کے ساتھی عین وقت پر ہلٹن کیسےپہنچ گئے تھے یہ معمہ تو اس وقت حل ہو سکتا تھا جب شکتی سے ملاقات ہوتی ۔ میں یہی سب کچھ سوچتے ہوئے صوفے پر ہی نیم دراز ہو کر سو گیا۔

صبح سب لوگ مجھ سے پہلے ہی بیدار ہو چکے تھے لیکن مجھے کسی نے نہیں جگایا تھا۔ میری آنکھ کھلی تو گیارہ بج رہے تھے۔ بارہ بجے کے قریب میں نے ناشتہ کیا اور جب میں برآمدے والے دروازے سےباہر نکلا  تو پورچ میں سرخ رنگ کی ایک ٹویوٹا  کا ر دیکھ کر چونکے بغیر نہیں رہ سکا۔ پنڈت روہن  وسیع برآمدے میں بانس سے بنی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس کے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔

یہ کار کہاں سے آگئی؟ میں نے سوالیہ نگاہوں سے روہن کی طرف دیکھا۔

پیچھے گیراج میں کھڑی تھی ۔ روہن نے جواب دیا ۔ ایک کار اور بھی ہے فیاٹ شاید رات کو جو نکالی گئی تھی اس لیے فی الحال میں نے اسے گیراج میں  بند کرا دیا ہے۔

بہت اچھا کیا۔ میں نے کہا۔

اس وقت اروی ہمارے لیے کافی لے کر آگئی۔ اب وہ مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں تھی ۔

میری طرف دیکھ کر وہ مسکرائی۔

اس وقت تو بہت خوش نظر آرہی ہو کل رات میں سمجھا تھا شاید تمہارا کر یا کرم کرنا پڑے گا۔ میں نے کہا۔

سبھی لوگ تمہاری طرح آہنی اعصاب کے مالک تو نہیں ہوتے اروی کے بجائے روہن نے جواب دیا۔ رات تو میری حالت بھی ایسی تھی کہ میرے بھی اوسان خطا ہو گئے تھے۔ میری حالت تم نے  دیکھ ہی لی تھی۔ اس نے ہلکا سا قہقہ لگایا پھر بولا ۔ ” تمہاری ہمت دیکھ کر میں نے حوصلہ پکڑا تھا اگر اکیلا ہوتا تو میرا  انتم سنسکار ہو چکا ہوتا ۔

“حوصلہ اور جرات یہی دو چیزیں ہیں جو انسان کو زندہ رکھتی ہیں ۔” میں نے روہن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ دونوں چیزیں نہ ہوں تو جیون کس کام کا ۔

 ٹھیک کہتے ہو ۔ روہن کے منہ سے گہرا سانس نکل گیا۔ ہم دونوں کافی کی چسکیاں لیتے  رہے۔

دیوی بھی باہر آگئی تھی اور پھر دیوی اور اروی اٹھ کر لان کی طرف چلی گئیں ۔

روہن کے اس بنگلے میں آئے ہوئے تین چار دن ہو چکے تھے مگر میر ا ز یادہ وقت اندر ہی گزرا تھا۔اس وقت میں بھی اٹھ کر روہن کے ساتھ برآمدے سے اتر آیا۔  

بنگلے کی عمارت کے ارد گرد بہت وسیع و عریض کمپاؤنڈ تھا۔ میرا اندازہ  درست تھا۔ دس ایکٹر  رقبہ جس میں طرح طرح کے درخت لگے ہوئے تھے ان میں کئی پھل دار درخت تھے۔

جھاڑیاں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے دیکھ بھال نہ ہونے کا نتیجہ یہی  نکلنا تھا۔ بنگلےعمارت کے بائیں پہلو میں کڈنی شپ کا ایک بہت بڑا سوئمنگ پول بھی تھا مگر اس میں پانی نہیں تھا۔

سوئمنگ پل کے ارد گردلان کی دبیز گھاس بےتحا شا بڑھی ہوئی تھی ۔ اس لان کے اطراف میں درختوں نے حصار بنا رکھا تھا۔ چوڑے اور گنجان پتوں والے ان درختوں کا پھیلاؤ زیادہ نہیں تھا بالکل سید ھے اوپر تک چلے گئے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہونے کی وجہ سے ایک مضبوط دیواری بن گئی تھی اور اس طرح سوئمنگ پل کے گرد ایک پردہ بن گیا تھا۔ اس بنگلے تک پانی پہنچانے کے لیے خاص طور پر پائپ لائن بچھائی گئی تھی۔ یہ بنگلہ چونکہ بلندی پر تھا۔اس لیے پانی اوپر تک پہنچانے کے لیے اس پائپ لائن میں طاقتور سکشن پمپ لگا ہوا تھا۔ ٹیلی فون اور بجلی لائنیں تو  تھیں ہی۔

یہ زمین میں نے تقریبا دس سال پہلے خرید لی تھی۔ “پنڈت روہن میرے ساتھ چلتے ہوئے بتا رہا تھا۔ اس زمین کی خریداری اور اس پر ہونے والی تعمیر کو میں راز میں رکھنا چاہتا تھا۔ میں پنڈت روہن سنگھ کی حیثیت سے یہ سب کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے اس وقت بھی مجھے اس طرح بھیس بدل کر سامنے آنا پڑا وہ چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ  پہاڑی  ایک ٹھا کر نے خریدی ہے۔ تقریباً چھ سال تک یہ پہاڑی ایسے ہی پڑی رہی اور پھر میں نے اس کیلئےٹھیکیدار کلکتہ سے بلوایا تھا۔ تمام مزدور اور کاریگر بھی باہر سے بلوائے گئے تھے اگر میں اس احتیاط سے کام نہ کرلیتا تو آج ہم آزادی سے یہاں نہیں رہ سکتے تھے ۔

روہن نے بنگلے کی تعمیر کے سلسلے میں رازداری کی جو احتیاط برتی تھی وہ مجھے اروی بتا چکی تھی۔ ہم تقریباً ایک گھنٹے تک گھومتے رہے۔ روہن مجھے بتا رہا تھا کہ اس نے اگرچہ بنگلے کی حفاظت کے لئے بہت معقول انتظامات کر رکھے تھے۔ رات کے وقت چار دیواری کے اوپر لگی ہوئی خاردار تاروں میں کرنٹ چھوڑ دیا جاتا تھا مگر وہ ان انتظامات سے مطمئن نہیں تھا ۔ منی لال کا خوف اس کے دل و دماغ پر حاوی تھالیکن اب اسے امید پیدا ہو چلی تھی کہ اسے جلد ہی اس راکھشش سے نجات مل جائے گی۔

شام کا اندھیرا پھیلتے ہی میں اور  دیوی باہر جانے کے لیے تیار ہوگئے۔۔۔ یوں تو میں اروی کو ساتھ لے جانا چاہتاتھا لیکن وہ گزشتہ رات منی لال، کرشمہ اور پنڈت کالی کی نظروں میں آچکی تھی ۔ اس کا چہرہ ابھی ان ذہنوں میں تازہ ہو گا۔ فوری طور پر پہچان لی جائے گی حالانکہ یہ بات بھی طے تھی کہ وہ تینوں ہماری  طرح سڑکوں پر نہیں پھر رہے ہوں گے کہ ہم ان کی نظروں میں آجاتے جبکہ دیوی کے بارے میں، میں یقین سے کہہ سکتا تھا کہ اب تک میرا اور اس کا کوئی تعلق سامنے نہیں آسکا تھا۔

میں نے پنڈت روہن سے ایک خطیر رقم لے لی تھی اور اس نے مجھے ٹویوٹا کی چابی بھی دے دی۔ پستول میں نے کپڑے کے تھیلے میں لپیٹ کر کار کے ڈیش بورڈ والے خانے میں رکھ دی اور ایک کارا کوف پچھلی سیٹ کے آگے فٹ سیٹ کے نیچے ڈال دی اور اس پر دیوی نے پیر رکھ لیے۔ یہ رائفل دیوی کےلئے ہی تھی۔ میرے پاس پستول موجود تھی۔ روانہ ہونے سے پہلے پنڈت روہن نے ہمیں آشیر واد دیا ۔

 کار کی ٹنکی فل تھی اس لیے مجھے پیڑول کی فکر نہیں تھی۔ شہر رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ میں کار کو مختلف سڑکوں پر گھماتا رہا اور پھر ایک شاپنگ ایریا کے سامنے روک لیا۔ جہاں پانی پوری کا ایک ٹھیلا بھی کھڑا تھا۔ میں نے ٹھیلے والے کو اشارہ کر کے پانی پوری لانے کو کہا۔

کھانے پینے کی چیزوں میں کھٹائی کو عورت کی سب سے بڑی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ دیوی نے بھی بڑے شوق سے درجن بھر گول گپے کھائے اور پیالے میں بھرا ہوا  املی کا پانی غناغٹ پی گئی۔ یہاں کھڑے ہونے کا میرا مقصد محض گول گپے کھانا ہی نہیں تھا میں اس طرح شہر کے مختلف مقامات پر رک کر صورت حال کا جائزہ لینا چاہتا تھا اس طرح مختلف جگہوں پر رُکتے ہوئے ہم ہوٹل ہلٹن کی طرف بھی گئے۔ ہوٹل کے گیٹ پر دو مسلح پولیس والے نظر آ رہے تھے۔ میں رکے بغیر کار کو آگے بڑھالے گیا۔

تقریباً نو بجے کے قریب میں نے کار ریڈ لائٹ ایریا کے قریب ایک نیم تاریک گلی کے موڑ پر روک لی۔

تم کار میں بیٹھی رہو ۔ میں چند منٹ میں آتا ہوں۔ ” میں نے اپنی طرف کا دروازہ بند کر دیا۔ دیوی نے اس طرف جھک کر لاک ناب دبا دی تھی۔ میں ادھر ادھر دیکھتا ہوا  ریڈ لائٹ ایریا کی طرف چلنے لگا۔ میں  دو گلیاں اوپر سے گھوم کر اس اندھیری گلی میں داخل ہو گیا جہاں انجلی  کا کوٹھا تھا۔ میں مختلف دروازوں کے سامنے اس طرح رکتا ہوا چل رہا تھا جیسے یہاں میری آمد کا مقصد عیاشی کے سوا کچھ نہ ہو۔ میں نے اس گلی کے دو چکر لگا لیے لیکن انجلی والا دروازہ مجھے بند ہی نظر آیا۔ اندر اندھیرا بھی تھا۔ تیسری مرتبہ اس طرف سے گزرتے ہوئے دروازے کے سامنے رکا تو سامنے والے دروازے میں کھڑی ہوئی طوائف نے مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔

“اے۔۔۔ ادھر کیا دیکھت ہو ۔ ہمار دوار آ جاؤ نا۔ پانچ رو پلی میں کھس کر دیویں گی۔”

میں اس دروازے کے سامنے پہنچ گیا۔ وہ دراز قامت طوائف بھی خاصی حسین تھی میں نے جیب سے دس کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس وقت ایک آدمی میری طرف دیکھتا ہوا قریب سے گزر گیا تھا۔

آؤ۔۔۔ بھیتر آؤنا ” طوائف نے دس کا نوٹ گریبان میں ٹھونستے ہوئے کہا وہ مجھے راستہ دینے کے لیے ایک طرف ہٹ گئی تھی۔

میں بھیتر نہیں آؤں گا۔ صرف یہ بتادو کہ تمہارے سامنے والا دروازہ آج کیوں بند ہے۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے پوچھا۔

یہ درو جا  تو اس روز بند ہو گیا تھا جب انجلی بائی کی ہتیا کر دی گئی تھی۔ طوائف نے جواب دیا۔

 ارے ! یہ کب کی بات ہے؟” میں اچھل پڑا۔ ” جس روز اس نے چوک پر نرنجن کی ہتیا کی تھی اس رات تو وہ گائب رہی تھی۔ اگلے روز رات واپس آئی تو اس کے تھوڑی ہی دیر بعد نرنجن کے آدمیوں نے اس کی ہتیا کردی وہ لاس یہاں پھینک کر چلے گئے تھے ۔ اس نے گلی کے فرش کی طرف اشارہ کیا۔ انجلی بائی کی ایک لونڈیا بھی ماری گئی تھی دوسری کو وہ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔  دو دن تو یہ باجار بھی بند رہا تھا۔ وہ چند لمحے خاموش رہی اور ایک بار پھراندر آنے کی دعوت دی۔

میں دھنے باد کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ میرا رخ گلی کے مخالف سمت میں تھا ابھی میں چند ہی قدم چلا تھا۔

کہ اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سن کر چونک گیا میں نے مڑ کر دیکھنا چاہا مگر اس لمحہ  کوئی سخت چیز میرے پہلو کو چھونے لگی اوراس کے ساتھ یہ ایک غراتی ہوئی آواز میرے کان سے ٹکرائی۔

خاموشی سے چلتے رہو۔ اگر شور مچایا یا کوئی حرکت کی تو گولی چلا دوں گا ۔

میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ میرے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ آگئی یہ وہی آدمی تھا جو اس رات میرے قریب سے گزرا تھا جب میں اس طوائف کو دس روپے کا نوٹ دے رہا تھا۔ میں خاموشی سے چلتا رہا۔ ہم اس گلی سے نکل کر دوسری گلی میں آگئے۔ جو سنسان بھی تھی اور زیادہ تاریک بھی تھی۔

یہاں رک جاؤ ۔ اس شخص نے غرا کر حکم دیا ۔ اور جیب میں جو کچھ ہے نکال کر میرے حوالے

کردو۔

میری جیب میں ایک عدد پستول بھی ہے جس میں چھ کی چھ گولیاں موجود ہیں۔ ” میں نے پرسکون لہجے میں جواب دیا ۔ “میرے پاس رقم بھی تمہاری توقع سے بہت زیادہ ہے میں سب کچھ تمہارے حوالے کردوں گا لیکن پہلے مجھے شکتی رام کے پاس لے چلو۔۔۔ کہاں ہے وہ ۔

 شکتی۔۔۔؟کون ہو تم ۔۔۔وہ شخص گڑ بڑا سا گیا۔ پھر ایک دم سے آکر میرے پیر چھوے اور دونوں ہاتھ جوڑتا ہوا  بولا۔۔۔ شما کر دو گرو۔ میں نے پہچانا نہیں تھا۔ میں تو موٹی اسامی سمجھ کر تمہارے پیچھے لگا تھا۔

میں نے غور سے اس شخص کو دیکھا یہ شکتی کا وہ چوتھا ساتھی تھا جو نرنجن پر حملے والے دن ان کے ساتھ تھا۔ اس نے مجھے آواز سے پہچان لیا تھا۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page