Smuggler –187–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 187

تم نہ ہوتے تو صورت حال کچھ اور ہوتی۔ تمہاری وجہ سے اس کے سارے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مجھے معلوم تھا کہ ایسا وقت ضرور آئے گا جب مجھے وہ مندر چھوڑنا پڑے گا۔ اس لیے اس بنگلے کی تعمیر کے فوراً  ہی بعد میں نے مندر کی سونے چاندی کی مورتیاں ، زیورات اور دوسری چیزیں یہاں منتقل کرنا شروع کر دی تھیں۔ یہ میری زندگی  بھر کی کمائی ہے۔ لیکن لگتا ہے میں اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکوں گا۔ پوری زندگی اس بنگلے میں قیدی بن کر ہی گزر جائے گی۔

 

” مایوس کیوں ہو۔” میں نے اس کے خاموش ہونے پر کہا۔ ”اس بنگلے میں تم عیش تو کر رہے ہو۔

منی لال کا  ٹنٹا ختم ہو جائے تو باہر بھی آزادی سے عیش کرو گے۔”

مجھے تو اب امرت ٹھاکرے کی بھی فکر ہوگئی ہے۔ یہ بھی حرامی آدمی ہے اور منی لال سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ روہن نے کہا۔

ٹھا کرے کی تو فکر ہی مت کرو۔ میں نے کہا۔ اس کا بندوبست تو ایک دو  روز میں ہی ہو جائے گا۔

بھگوان کرے ایسا ہی ہو ۔ ” روہن نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔

ایسا ہی ہوگا۔ میں نے کہتے ہوئے ایک بار پھر گھڑی کی طرف دیکھا چار بجنے والے تھے۔

میرا خیال ہے تم یہ بوتل ختم کر کے ہی اٹھو گے۔ میں جارہا ہوں مجھے نیند آ رہی ہے۔“ روہن نے سر ہلا دیا۔ میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تو دروازے ہی میں ٹھٹک کر رک گیا۔

کمرے کی بتی جل رہی تھی اور بیڈ پر اروی  اور دیوی نائٹی پہنے سورہی تھیں  اروی ا ور دیوی کےجسم نائٹی میں قیامت لگ رہی تھیں۔ نائٹی کے اندر بکنی  کے نظارے میرے لن میں ترنگیں بجانے لگیں۔ جیسے جیسے میرے قدم  ان کی طرف قریب آرہے تھے میری دھڑکنیں تیز  ہوتی ہوگئیں۔  

قریب ہوکر  مستی چڑھنے سے پہلے ٹائم  پر نظر مارکےمیں نے دماغ جھٹک دیا کیونکہ صبح ہونے والی تھی۔اور میں دوسرے کمرے میں آگیا اور بستر پر گرتے ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔

 

دوپہر بارہ بجے اروی نے مجھے جھنجوڑ کر جگایا۔ وہ تمہارے چیلے کا فون آیا ہے۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔ہاں۔۔۔شکتی ۔

میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھ گیا۔ رات کو میں نے ہی شکتی سے کہا تھا کہ وہ آج دوپہر بارہ بجے کےقریب مجھے فون کرے میں کمرے سے نکل کر ہال کمرے میں آ گیا ۔جہاں ٹیلی فون رکھا ہوا تھا۔

ہیلو۔ میں نے ریسیور کان سے لگاتے ہوئے کہا۔ ہیلو۔۔۔ گرو شکتی کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔

ہاں۔۔۔ تم ایسا کرو مجھے تین بجے کے قریب بس اسٹینڈ پر بمبئی کا لیا ریسٹورنٹ میں ملو۔ ہم اطمینان سے بات کریں گے ۔ میں نے کہا۔ میں اس وقت واقعی نیند میں تھا اور کوئی بات ٹھیک طرح سے سمجھ میں نہیں آسکتی تھی۔

جانا چاہتا تھا۔

ٹھیک ہے گرو۔۔۔ویسے ہم نے اس جگہ کا پتہ چلا لیا ہے جہاں گزشتہ رات  نہرو سنگھ تمہیں لے جانا چاہتا تھا۔

 

کیا ؟ میں چونک گیا۔ تمہیں کیا معلوم کہ وہ مجھے کہاں لے جانا چاہتا تھا۔

“ ہم بھی اسی گندے تالاب میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں گرو۔۔۔ شکشی کی آواز سنائی دی۔ ” میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ تمہیں گن پوائنٹ پر اس طرف لے گیا ہوگا لیکن راستے میں تمہیں اس پر حاوی ہونے کا موقع مل گیا اور وہ فرار کی کوشش میں تمہارے ہاتھوں مارا گیا۔

یہاں تک تو تمہارا تجزیہ بالکل درست ہے لیکن آگے بتاؤ میں نے کہا۔ وہ تمہیں ہنومان مندر لے جانا چاہتا تھا۔ شکتی نے جواب دیا۔

جہاں امرت ٹھا کرے میرا انتظار کر رہا تھا۔ میں اس کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی بول پڑا۔

گر و۔۔۔!  شکتی میری بات سن کر غالباً اچھل  ہی پڑا تھا۔

زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ بقول تمہارے میں بھی اسی تالاب میں ہوں۔” میں نے کہا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ تین بجے بمبئی کالیا ریسٹورنٹ میں ملاقات ہوگی۔ میں نے ریسیور رکھ دیا اور وہیں ایک صوفے پر بیٹھ گیا کچھ ہی دیر بعد اروی میرے لیے چائے لےآئی۔

 

تمہارا گرو ابھی تک سورہا ہے کیا؟” میں نے کپ لیتے ہوئے پوچھا۔

 ہاں وہ تو صبح دن چڑھنے کے بعد سویا ہے اور شام سے پہلے اس کے اٹھنے کی توقع نہیں اور دیوی بھی ابھی تک سو رہی ہے۔ ” اروی کہتے ہوئے میرے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گئی ۔ وہ اس طرح میری طرف جھکی تھی کہ میرے ہاتھ میں پرچ میں رکھا ہوا کپ ہلنے لگا۔ میں نے کپ جلدی سے میز پر رکھ دیا اور اروی کو کندھوں سے پکڑ کر پیچھے ہٹا دیا۔

میں مندر والے بنگلے میں تقریباً ڈھائی مہینے رہا تھا۔ ان دنوں پوجا بھی میرے ساتھ تھی۔ اروی کو ہماری سیوا کے لیے اس بنگلے میں چھوڑ دیا گیا تھا اس کی عمر انیس بیس سال سے زیادہ نہیں تھی ۔ بے حد حسین اور بھر پور شباب تھا مگر پوجا کی وجہ سے میں اس کے حسن سے سیراب نہیں ہو سکا تھا اور اب جو وہ میرے اوپر آئی۔۔۔ تو مجھے اپنے بدن پر چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہونے لگیں لیکن یہ کوئی موقع تھا  نہ جگہ۔۔۔ دیوی کسی بھی وقت آجاتی اور بلاوجہ مجھے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی لیے میں نے اروی کو کندھوں سے پکڑ کر سیدھا بٹھا دیا تھا۔ ۔۔وہ شاید میرا مطلب سمجھ گئی تھی  اور اٹھ کر سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔ چائے پی کر میں کچھ دیر وہاں بیٹھا پھر اپنے کمرے میں آگیا۔

دیوی بیڈ پر آڑھی ترچھی آرام سے سورہی تھی۔ اس کی نائٹی اوپر چڑھ چکی تھی اور اس کی  گول مٹول گانڈ نمایاں تھی۔  میں اس کی طرف دیکھتا ہوا  باتھ روم میں گھس گیا اور تقریبا آدھے گھنٹے بعد تیار ہو کر باہر آ گیا۔

میری داڑھی اور مونچھیں بے تحاشہ بڑھ گئی تھیں لیکن میں نے انہیں صاف نہیں کیا ۔مجھے اس حلیے میں پہچاننے والے ایک دو ہی رہ گئے تھے۔ میں چاہتا تھا وہ بھی سامنے آجا ئیں تو ان سے بھی نمٹ لیا جائے۔ دو بجے کے قریب میں نے اروی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔  روہن بھی اس وقت تک سو رہا تھا اور  دیوی بھی۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے اروی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

فیاٹ نکال دو آج میں اس پر جاؤں گا ۔“ اروی چند لمحے الجھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھتی رہی پھر باہر نکل کر عقبی گیراج کی طرف چلی گئی۔ میں بھی پورچ میں آگیا۔ دس منٹ بعد اروی فیاٹ  ڈرائیو کرتی ہوئی پورچ میں آگئی اور نیچے اتر کر مجھے رُکنے کا اشارہ کر کے اندر چلی گئی اس کی واپسی میں پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے۔ اس کے ہاتھ چنری قسم کا کوئی کپڑا تھا۔

 

یہ کیا ہے؟ میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

اس نے وہ کپڑا پٹکے کی طرح میری کمر کے گرد لپیٹ کر ایک گرہ لگا دی اور مسکراتے ہوئے بولی۔

اب تم لگتے ہو را جپوت۔

میری داڑھی مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں۔ راجستھانی لباس پہن رکھا تھا۔ سر پر بل دار سیندوری رنگ کی پگڑی بھی تھی۔ صرف ایک پٹکے کی کسر رہ گئی تھی جو  اروی نے پوری کر دی۔

میں نے فیاٹ پر بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کر دیا اور کار جیسے ہی حرکت میں آئی اروی اندر پہنچ گئی اور جب میری کارگیٹ کے قریب پہنچی۔ گیٹ خود بخود کھل گیا۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اروی نے اندر جا کر انٹر کوم کے قریب لگا ہوا سوئچ آن کر دیا تھا ۔۔۔جس سے گیٹ کھولا اور بند کیا جا سکتا تھا۔ یہ انٹر کوم برآمدے والے دروازے کے اندر کی طرف لگا ہوا تھا اور کھڑکی سے گیٹ کی طرف دیکھا بھی جاسکتا تھا میں نے ہاتھ باہر نکال کر ہلا دیا اور گیٹ سے نکلتے ہوئے کار کی رفتار بڑھا دی۔ یہ فیاٹ کار دیکھنے میں اگرچہ پرانی سی لگتی تھی لیکن اس کا انجن بہترین حالت میں تھا۔ ڈیش بورڈ کا جائزہ لیتے ہوئے میری نظر فیول بتانے والے ڈائل کی طرف اٹھ گئی۔ ٹینکی میں پٹرول کم تھا۔

کچھ آگے نکل کر میں نے کار ایک پٹرول پمپ پر روک لی اور ٹینکی فل کروالی ۔ اس رات ہم بلٹن میں اس کار پر آئے تھے۔ ہوٹل کے پارکنگ گیٹ میں داخل ہوتے ہوئے تو شاید کسی نے نوٹس نہیں لیا ہو گا لیکن چھٹی منزل پر ہنگامے کے بعد جب ہم لوگ واپس بھاگے تھے تو شکتی رام کے ایک آدمی نے گیٹ پر قبضہ کر رکھا تھا اور ہوٹل میں آنے والوں کو باہر ہی روکا ہوا تھا۔ ہم اس فیات پربڑی تیزی سے ہوٹل سے نکلے تھے۔ ممکن ہے باہر کھڑے ہوئے لوگوں نے اس کار کو دیکھا ہو مگر میں دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ اس کا نمبر کسی نے نوٹ نہیں کیا ہوگا۔ ویسے شہر میں اس رنگ کی کئی کاریں تھیں اور ضروری نہیں تھا کہ اس کار کو پہچان لیا جائے اس لیے آج میں نے اس کار پر آنے کا فیصلہ کیا تھا گزشتہ رات ہمارے پاس سفید ٹویوٹاتھی۔ پولیس نے اس کار کا پیچھا بھی کیا تھا تعاقب کرنے والی پولیس کی گاڑی بہت دور تھی ظاہر ہے اتنی دور سے وہ کار کا نمبر نوٹ نہیں کرسکے ہوں گے ۔ مگر ان کے ذہن میں سفید کارضرور ہوگی۔ ہوسکتا ہے سفید کاروں کو چیکنگ کے لیے روکا جارہا ہو اس لیے میں نے آج اس سفید ٹویوٹا کے بجائے اس فیاٹ کو ترجیح دی تھی۔

جب میں بس اسٹینڈ کے علاقے میں پہنچا تو پونے تین بجے تھے۔ میں کار کو مختلف چھوٹی سڑکوں پر گھماتا رہا اور پھر ٹھیک تین بجے اسے بمبئی کالیا ریسٹورنٹ کے سامنے والے پارکنگ پلاٹ پر روک لیا۔ نیچے اتر کر میں نے اپنے آپ کا تنقیدی جائزہ لیا اور راجپوتی شان سے ریسٹورنٹ کی طرف چلنے لگا۔

بمبئی کالیا ایک معیاری ریسٹورنٹ تھا۔ شیشے والے دو دروازے پر ہندی اور انگریزی حروف میں “داخلہ حقوق محفوظ” لکھا ہوا تھا جس کا مطلب تھا کہ یہ ریسٹورنٹ شرفا کے لیے مخصوص تھا اور ہوٹل کی انتظامیہ کسی بھی شخص کو نا پسندیدہ قرار دیتے ہوئے کان سے پکڑ کر باہر نکال سکتی تھی۔ میں ایک دو مرتبہ پہلے بھی یہاں آچکا تھا اور شرافت کی آڑ میں یہاں جو کچھ ہوتا تھا اس سے بھی واقف تھا۔ ہوٹل کی طرف بڑھتے ہوئے اچانک ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ شکتی رام کو یہاں بلا کر غلطی تو نہیں کی ممکن ہے اس کے حلیے کی وجہ سے اسے اندر ہی نہ داخل ہونے دیا جائے لیکن پھر اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ شکتی جیسے لوگ اپنا راستہ بنانا جانتے ہیں۔ میں جیسے ہی قریب پہنچا دربان نے دروازہ کھول دیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے راجپوتانہ شانہ سے سر ہلایا اور اندر داخل ہو گیا۔ بہت وسیع و عریض ہال تھا۔ میزیں ایک دوسرے سے قدرے فاصلہ پر بڑے سلیقے سے لگی ہوئی تھیں آخر میں جھونپڑے کی طرز کے بنے ہوئے کئی پرائیویٹ کیبن تھے۔ بائیں طرف اوپر جانے کا زینہ تھا زینے کے ساتھ دیوار پر فیملی رومز کی پلیٹ لگی ہوئی تھیں اوپر بھی اسی طرح کے کیبن تھے۔ اس لیے زینے پر صرف ان ہی لوگوں کو جانے کی اجازت تھی جن کے ساتھ خواتین ہوں اور میں جانتا تھا کہ اوپر ان فیملی کیبن میں کیا ہوتا ہے۔

میں دروازے سے دو قدم آگے بڑھ کر رک گیا اور متجسس نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ہال میں بہت مدہم روشنی تھی۔ بہت ہلکی موسیقی عجیب سا تاثر دے رہی تھی۔

دائیں طرف پانچویں میز پر ایک عورت اور مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے سرسری سے انداز میں ان کی طرف دیکھا تھا۔ لیکن اس شخص کا ہاتھ ہلاتے دیکھ کر میں نے دوبارہ اس طرف دیکھا اور میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ۔

 

وہ شکتی تھا۔ پہلی نظر میں واقعی اسے نہیں پہچان سکا تھا۔ سلیقے سے تراشے ہوئے بال درمیان سے مانگ نکلی ہوئی تھی۔ ہندو ہونے کی خاص نشانی ماتھے پر سرخ ٹیکا کلین شیو، سفید شرٹ اور گہرے نیلے رنگ کی جینز ، پیروں میں نئے جوگرز۔۔۔ اسے دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کوئی بدقماش اور بدمعاش آدمی ہے۔ بڑا شریفانہ چہرہ تھا اور اس کے ساتھ لڑکی بھی بڑی پوپٹ قسم کی تھی۔ اس کی عمر چوبیس پچیس کے لگ بھگ رہی ہوگی ۔ دراز قامت ، سڈول جسم، بڑے تیکھے نقش ، گردن تک کٹے ہوئے کتھئی رنگ کے لہریے دار بال، گلابی رنگت اور غزال جیسی موٹی آنکھیں جن میں ستاروں جیسی چمک تھی۔ مجھے یاد آیا کہ شکتی نے پہلے بتایا تھا کہ اس کی پارٹی میں چند افراد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ جن میں دو چھو کریاں بھی شامل ہیں اور مجھے حیرت تھی کہ اس جیسی حسین چھوکری شکتی کے ہاتھ کیسے لگ گئی تھی جبکہ ایک روز پہلے تک شکتی کا حلقہ بھی ایسا تھا کہ کوئی شریف آدمی اس کے قریب پھٹکنا بھی پسند نہیں کرتا تھا لیکن پھر یہ خیال آیا کہ یہ لڑکی اگر شریف ہوتی تو شکتی جیسے آدمی کے قریب نہ آتی۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page