Smuggler –205–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 205

“پہلے میں نے ایک کو زیر کیا اور پھر دوسرے کو۔”اروی کہہ رہی تھی۔

اس وقت یہ کتیا شاید اپنی تمام تر توجہ تم پر مرکوز کیے ہوئے تھی یا  شاید دوسرے کیمرے بند کر رکھے تھے۔ اس لیےیہ مجھے نہیں دیکھ سکی اور میں آسانی سے یہاں پہنچ گئی ۔”

وہ چند لمحوں کو خاموش ہوئی پھر بولی۔ ”یہاں پھر ایک سورما نے مجھ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی تھی مگر ایک ہی گولی نے اسے ٹھنڈا کر دیا اور پھر اس کتیا پر قابو پانے میں بھی مجھے خاصی محنت کرنا پڑی تھی۔ اگر مجھے یہاں پہنچنے میں چند منٹ دیر ہو جاتی تو تم گھڑیالوں کی خوراک بن جاتے۔ بہر حال اب کیا کرنا ہے اس کا؟ وہ خاموش ہوکر سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگی۔

 

“منی لال تو یہاں ہے نہیں ۔ میں نے کہا۔ اس کا پتہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے اور اس کا پتہ یہی بتا سکتی ہے اس لیے اسے ساتھ لے چلنا ہوگا۔

 

تو پھر جلدی کرو۔ “اروی ایک ٹی وی سکرین کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ پانی اب اس کمرے سے باہر بہنا شروع ہو گیا ہے۔ کچھ ہی دیر میں یہ پورے پیلس میں پھیلنے لگے گا۔

میں نے سکرین کی طرف دیکھا پانی اس دروازے سے باہر نکل کر فرش پر پھیل رہا تھا۔

 

یہ پانی کیسے بند ہوگا ؟” میں نے سوالیہ نگاہوں سے کرشمہ کی طرف دیکھا۔

 

پانی بند کرنے کی ضرورت نہیں۔ کرشمہ سے پہلے اروی بول پڑی۔ ٹھاکر  ونود سنگھ کو جب پتہ چلے گاکہ اس کا محل پانی سے تباہ ہو رہا ہے تو وہ منی لال کے شریر کے اتنے ٹکڑے کر دے گا کہ گنتی مشکل  ہوجائے گی ۔

 

تو ٹھیک ہے۔” میں نے کہا اور کرشمہ کی طرف گھوم گیا۔

اٹھیئے شریمتی جی۔ کرشمہ کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا اگر اس کے ہاتھ کھلے ہوتے تو وہ میرا منہ نوچ لیتی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر ہاتھ پشت پر بندھے ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی اور دھڑام سے نیچے گر گئی۔

 

“ابھی چند روز پہلے ہی تم زندگی کے ایک نازک مرحلہ سے گزری ہو۔ میں نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے کہا۔ “تمہیں تو بیڈ ریسٹ کرنا چاہئے تھا مگر تم ہو کہ کدکڑے لگاتی پھر رہی ہو بری بات ہے۔ تمہیں خود سوچنا چاہئے یہ تمہاری زندگی کا سوال ہے۔ چند روز آرام کر لیتیں تو کیاحرج تھا۔ جان ہے تو جہان ہے میں کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا تھا۔

 

“ تمہارا وقت ہے۔ کرشمہ کا لہجہ حیرت انگیز طور پر پرسکون تھا۔ ” تم ایسی باتیں کر سکتے ہو لیکن جب میری باری آئے گی تو تمہاری بولتی بند ہو جائے گی۔

 

امید پر دنیا قائم ہے۔ میں نے کہا اور اسے اٹھا کر کھڑا کرتے ہوئے اس کے پچھواڑے پر ہاتھ پھیرایا ۔ اب ہم ساری رات یہاں بیٹھ کر باتیں تو نہیں کر سکتے کسی اور جگہ اطمینان سے بیٹھ کر باتیں کریں گے اور مجھے امید ہے کہ راستے میں تم کوئی ایسی حرکت نہیں کرو گی جو تمہارے لیے نقصان دہ ثابت ہو۔

 

میں بھاگنے کی کوشش نہیں کروں گی ۔ کرشمہ نے کہا ۔

 

میں کونال کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر زندگی کا رنگ لوٹ آیا تھا آنکھوں میں پہلے جیسے چمک دکھائی دینے لگی تھی۔ میں نے  کرشمہ کو بازو سے پکڑ رکھا تھا۔ ہم بیرونی خوابگاہ میں آ کر راہداری میں آگئے ۔ اروی نے تمام ٹی وی سیٹ کھلے چھوڑ دیئے تھے وہ ہمارے آگے آگے چل رہی تھی اور رائفل کو اس نے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا تھا تا کہ کسی نا گہانی صورت حال سے نمٹا جا سکے۔

بڑے ہال سے گزر کر باہر جانے والی راہداری کی طرف مڑتے ہوئے میں نے دوسری طرف مڑ کر دیکھا اور اس کے ساتھ ہی میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ پانی اب اس تنگ سی راہداری میں پھیل رہا  تھا۔ پانی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے مجھے اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ صبح ہونے تک پانی پیلس کے تمام کمروں میں پھیل جائے گا اور ہر چیز کو تہس نہس کر کے رکھ دے گا اور جب ٹھاکر  ونود سنگھ اپنے پیلس کی حالت دیکھے گا تو وہ واقعی منی لال کی بوٹیاں نوچ لے گا۔

 

باہر آتے ہوئے ہمیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی اس پیلس میں واقعی تین محافظ تھے اور چوتھا کرشمہ کا وہ ساتھی تھا جو اس کمرے میں اروی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ حیرت اس  بات پر تھی کہ اتنے بڑے پیلس میں صرف تین محافظ لیکن وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ سب لوگوں کو منی لال کے کہنے پر وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ صرف تین محافظ رہنے دیئے گئے تھے۔ وہ اپنے گرد زیادہ ہجوم پسند نہیں کرتا تھا۔

منی  لال  دو دن وہاں رہا تھا۔ پھر اسے کسی طرح پتہ چل گیا کہ مجھے رانا پیلس میں اس کی موجودگی کاپتہ چل گیا ہے۔  وہ خاموشی سے کسی اور جگہ منتقل ہو گیا اور کرشمہ کو یہاں چھوڑ دیا گیا تا کہ میں یہاں پہنچوں تو اس سے نمٹ لیا جائے۔ کرشمہ نے بڑے اچھے انداز میں میرا استقبال کیا تھا۔ میرا  انت کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن عین آخری لمحوں میں اروی  کی مداخلت سے بازی پلٹ گئی اور کرشمہ ہماری قیدی بن گئی۔

وسیع و عریض برآمدوں سے ہوتے ہوئے ہم باہر آگئے۔ اجالا سحر نمودار ہو رہا تھا۔ ہم رات گیارہ بجے کے بعد آئے تھے اور پوری رات یہاں موت و حیات کی کشمکش میں گزرگئی تھی اس خوفناک رات کی صبح  بہت بھلی لگ رہی تھی۔

گیٹ کے قریب سے گزرتے ہوئے میں نے گارڈ روم میں جھانک کر دیکھا۔ وہ محافظ پہلو کے بل پڑا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔میں نے اس کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا دیا اور کرشمہ وغیرہ کے ساتھ گیٹ سے باہر آ گیا۔

سڑک سنسان تھی ہم تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے درختوں کے اس جھنڈ میں آگئے جہاں اروی کی کارکھڑی تھی۔ اروی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور میں کرشمہ اور کونال کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کرشمہ ہم دونوں کے بیچ سینڈوچ بن کر رہ گئی تھی۔ کرشمہ کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی تھی۔ اروی سے رائفل بھی میں نے لے لی تھی۔

کار درختوں کے جھنڈ سے نکل کر تیز رفتاری سے سڑک پر دوڑنے لگی شہر کی تمام سڑکیں ابھی سنسان پڑی تھیں۔ اروی کار کو ان راستوں پر دوڑا رہی تھی جہاں کسی پولیس پارٹی سے آمنا سامنا ہونے کا اندیشہ نہیں تھا۔ یوں بھی اس وقت موسم میں خاصی خنکی تھی۔ پولیس والے بھی سڑک پر گشت کرنے کے بجائے کہیں کونوں کھدروں میں دبکے ہوئے تھے۔

چالیس منٹ میں ہم بنگلے میں پہنچ گئے۔ کرشمہ کی آنکھوں سے پٹی کمرے میں آنے کے بعد ہی کھولی گئی تھی۔ میں نے پشت پر بندھے ہوئے اس کے ہاتھ بھی کھول دیئے۔

 

اگر تم شراف کا ثبوت دو تو یہاں آزادی سے گھوم پھر سکتی ہو۔ لیکن اگر تم نے کوئی چالا کی دکھانےکی کوشش کی تو مجبوراً مجھے تمہارے ہاتھ پیر باندھنے ہوں گے۔ ویسے اس وقت تم آرام کرو۔ باتیں تھوڑی دیر بعد ہوں گی چائے کے ساتھ ۔ میں نے کرشمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

 

بہت ظالم ہو تم۔ کرشمہ بستر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

 

 تمہیں آج پتہ چلا ؟” میں مسکرا دیا۔

 

نہیں۔۔۔ پتہ تو مجھے اس دن چل گیا تھا جب تھر کے صحرا میں اس تپتی ہوئی چٹان پر تم نے پہلی بار۔۔۔۔۔۔

 

یادداشت بہت تیز ہے تمہاری ۔ میں نے اس کی بات کاٹ دی۔ ٹھیک ہے تم یہاں بیٹھو۔ ہم تھوڑی دیر بعد تم سے بات کریں گے ۔”

میں کمرے سے باہر آ گیا  دیوی بھی ہماری آوازیں سن کر جاگ چکی تھی اور اروی  اور کونال کے ساتھ ہال کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی اور پھر وہ چائے بنانے کے لیے کچن میں چلی گئی۔ کونال چائے تیار ہونے سے پہلے ہی صوفے پر نیم دراز ہو کر سو گئی تھی۔ اروی اور میں بھی رات بھرجاگے تھے۔ اروی کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اور میری آنکھوں میں بھی شدید جلن ہو رہی تھی۔

 

” تم وہاں کیسے پہنچ گئی تھیں ؟” میں نے اروی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ “

 

 تم نے کہا تھا کہ دو ڈھائی گھنٹے تک واپس آ جاؤ گے ۔ “اروی نے جواب دیا۔ دو ڈھائی گھنٹوں تک تو میں مطمئن رہی لیکن جیسے جیسے دیر ہوتی گئی، میری پریشانی بھی بڑھتی گئی اور آخر کار تین بجے کے قریب میں نے پیلس میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ وہ چند لمحوں کو خاموش ہوئی پھر بولی ۔ باہر والا محافظ گارڈ روم میں بندھا ہوا تھا۔ پیلس کی ایک راہداری میں ایک محافظ سے سامنا ہو گیا اس نے مجھے رائفل کی زد پر لے لیا۔ اس موقع پر میں نے وہی حربہ استعمال کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ مرد کیسا بھی ہو عورت کے سامنے ڈھے ہے وہ محافظ بھی کچھ ایسا ہی نکلا۔ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیا وہ خوش تھا کہ رات عیش کرتے ہوئے گزرے گی مگر دو ہی جھٹکوں میں، میں نے اس کا جھٹکا کر دیا اور اسے باندھ کر کمرے سے باہر آ گئی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم لوگ کہاں ہو۔ اس قسم کے محل بڑے پر اسرار ہوتے ہیں کسی کو تلاش کرلینا آسان نہیں ہوتا۔ میں اگر چہ بہت محتاط انداز میں گھوم رہی تھی مگر ایک اور محافظ کے ہتھے چڑھ گئی۔ وہ اپنی ذمے داری اور فرض بھول کر مجھے نعمت غیر مترقبہ سمجھا لیکن اس کا بھی وہی حشر ہوا جو پہلے کا ہو چکا ۔میں نے اس کی رائفل پر بھی قبضہ کر لیا اور ایک بار پھر تم لوگوں کی تلاش شروع کر دی اس مرتبہ کسی محافظ سے سامنا نہیں ہوا تقریباً آدھے گھنٹے بعد میں اس کمرے تک پہنچ گئی جہاں کرشمہ موجود تھی۔ ایک ٹی وی سکرین پر تم لوگوں کو دیکھ کر میں بدحواس سی ہو گئی کرشمہ پینل کے سامنے کرسی پر بیٹھی رنگ برنگ بٹنوں کو دبا رہی تھی۔ اس دوران کمرے میں موجود دوسرے آدمی نے مجھے دیکھ لیا۔ وہ چیختا ہوا میری  طرف بڑھا ۔مگر میں نے گولی چلا دی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ کرشمہ کرسی سے اٹھ کر میری طرف لپکی اس نے رائفل کی پروا کیے بغیر مجھ پر چھلانگ لگا دی۔ رائفل میرے ہاتھ سے گر گئی وہ حرامزادی لڑنے میں بڑی تیز ہے ۔لیکن میں نے بھی اسے ایسی پٹخیاں دیں کہ یادکرے گی اور پھر میں نے اسے رائفل کی زد پر لے کر دروازہ کھلوایا۔ جس سے تم لوگ باہر آسکے۔

“ کونال ہلکان ہو رہی تھی ۔ ” میں نے کہا۔ ” خوفزدہ تو میں بھی تھا مگر مجھے اپنے خدا پر بھروسا تھا۔ مجھےیقین تھا کہ وہ مجھ گناہگار کی دعا ضرور سنے گا اور پھر اس نے تمہیں ہماری مدد کے لیے بھیج دیا ۔

 

اب اس کا کیا کرنا ہے۔ اروی نے پوچھا۔

 

پہلے تو اس سے منی لال کے ٹھکانے کا پتہ پوچھا جائے گا اور اس کے بعد سوچا جائے گا کہ اس کا کیا کرنا ہے۔” میں نے جواب دیا۔

اس وقت دیوی چائے بنا کر لے آئی اس نے تمام کپ میز پر رکھ دیئے۔

ایک کپ اسے دے آؤ۔ وہ تمہارے ساتھ والے کمرے میں ہے ۔” میں نےدیوی سے کہا۔ وہ ایک کپ اٹھا کر  کرشمہ والے کمرے کی طرف چلی گئی اور پھر کسی اندیشے کے تحت میں بھی اٹھ کر اس کےپیچھے چل دیا۔ دیوی مجھ سے پہلے کمرے میں داخل ہو چکی تھی۔ میں باہر ہی رک گیا۔

 

اوہ ۔ کرشمہ کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی ۔ ” تو تم بھی اس کے ساتھ ہو۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page