Smuggler –211–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 211

منی لال میں پاکستان کے خلاف اتنا  زہر بھرا ہوا ہے کہ تم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ اس نے پہلے ہیروئن کی تیاری میں استعمال ہونے والا کیمیکل تیار کیا جو پاکستانی سمگلروں کو برائے نام قیمت پر فراہم کیا جاتا۔ اس کا مقصد پاکستان کی نوجوان نسل کو ہیروئن کا عادی بنا کر ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کرنا تھا۔“ منی لال اس پر بھی مطمئن نہیں تھا وہ سانپ کے زہر سے ایسا انجکشن تیار کرنے کے تجربات کر رہا تھا، جس سے موت کو زیادہ سے زیادہ اذیت ناک بنایا جاسکے اس دوران تم ٹپک پڑے اور تم نے آج تک جو کچھ کیا وہ شروع سے آخر تک میری نظروں میں ہے۔ میں اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ تم دہشت گرد نہیں ہو تم اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں کی بھلائی کے لیےیہ جنگ لڑ رہے ہو۔ اس میں تمہارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے منی لال جیسے لوگوں کو واقعی ختم ہو جانا چاہئے۔ ایسے لوگوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے جو دوسروں کی تباہی کا باعث بن رہے ہوں۔“

 

“یہ کایا پلٹ میرے لیے حیرت انگیز ہے۔ میں نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئےکہا۔” کہیں ایسا تو نہیں کہ تم اب بھی میرے گرد کوئی جال بچھا رہی ہو!”

میں جانتی ہوں کہ تمہیں مجھ پر مشکل ہی سے وشواس ہو گا ۔“ کرشمہ نے کہا۔ لیکن میں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ سچ ہے اور ایک بات تمہیں اور بھی بتا دوں۔

میں اب بھی اپنے دیش کی وفادار ہوں۔ اسے غداری مت سمجھنا میری یہ باتیں دیش کے خلاف نہیں صرف ایک آدمی کے خلاف ہیں جو دوسروں کے لیے اور اپنے دیش کے لیے بہت خطرناک ہے۔ وہ اب تک کتنے لوگوں کو مروا چکا ہے۔

 کیا اپنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار کر دیش کی خدمت ہوسکتی ہے بھلا؟ نہیں نہیں”

 

ان لوگوں کی وطن سے وفا اور غداری کی منطق عجیب تھی۔ جو لوگ میرا ساتھ دے رہے تھے وہ سب یہی کہتے تھے کہ وہ اپنے دیش سے غداری نہیں کر رہے۔ غداری نہ سہی لیکن اتنا میں سمجھتا تھا کہ ان سب کا کوئی نہ کوئی مفاد وابستہ تھا۔ بہر حال مجھے اس سے غرض نہیں تھی ان لوگوں کی وجہ سے میرا کام ہو رہا تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ روہن نے میرا بہت ساتھ دیا تھا اس کی موت کا مجھے افسوس ہوا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں غلطی خود اس کی تھی اگر وہ میری بات مان لیتا تو شاید اس وقت میرے ساتھ بیٹا چائے پی رہا ہوتا۔

 

مجھے تفصیل سے بتاؤ منی لال کون سے مندر میں ہے۔” میں نے  کرشمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

تم دل واڑہ روڈ پر جاچکے ہو۔ کرشمہ نے کہا۔ کیمپ والے راستے پر مڑنے کے بجائے مین روڈ پر سیدھا آگے نکل جاؤ اس سے تقریباً ڈیڑھ میل آگے دائیں طرف شمشان گھاٹ کا بہت بڑا بورڈ لگا ہوا ہے اس طرف کسی زمانے میں شمشان گھاٹ ہوا کرتا تھا، لیکن اب ختم ہو چکا ہے اس بورڈ کے ساتھ ہی پہاڑیوں میں ایک تنگ سا راستہ ہے۔ پہاڑیوں میں بل کھاتے ہوئے اس راستے پر تقریباً دو میل آگے ایک مندر کے کھنڈرات میں اس مندر کا صرف ایک کلس بچا ہے باقی سب کچھ ڈھیر ہو چکا ہے اس کھنڈرات کے نیچے ایک بہت بڑا تہہ خانہ ہے۔

 

” اس تہہ خانے کا راستہ کہاں سے ہے؟“ میں نے پوچھا۔

 

مندر کے اس مینار سے تقریباً سو گز مشرق کی طرف چٹان سے ملی ہوئی ایک شکستہ سی چاردیواری ہے۔ یہ چار دیواری ایک کمرے کی باقیات میں سے ہے اور وہ چٹان کمرے کی ایک دیوار کا کام دیتی تھی۔ اس چٹان میں ایک تنگ سی کھوہ کے اندر تقریباً دس فٹ آگے سیاہ رنگ کا ایک پتھر نظر آئے گا اس پتھر کے نیچے اس تہہ خانے کا راستہ ہے۔“

 

” کیا وہ پتھر اتنا بڑا ہے کہ۔۔۔۔۔

 

وہ پتھر اتنا بڑا نہیں ہے۔ کرشمہ نے میری بات کاٹ دی۔ تم اسے آسانی سے اٹھا سکتے ہو اس پتھر کے نیچے تہہ خانے کا میکنزم ہے۔

 

” بڑا پیچیدہ راستہ ہے۔ میں نے کہا۔ ” بہر حال وہاں منی لال کے ساتھ کتنے آدمی ہیں۔“

 

تین ۔ کرشمہ نے جواب دیا ۔ کالی پنڈت اور دو اور آدمی جو منی لال کے کام میں اس کی مدد کرتے ہیں۔

 

باہر سے حفاظت کا کوئی انتظام ہے میرا مطلب ہے کوئی ایسا آدمی جسے نگرانی کے لیے رکھا گیا ہو؟

 

نہیں۔۔۔ کرشمہ نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ محفوظ ترین جگہ ہے۔۔۔ کوئی دن کے وقت بھی اس طرف نہیں جاتا۔

 

ٹھیک ہے۔” میں کہتے ہوئے اٹھ گیا۔ ایک بات ذہن نشین کر لو اگر کوئی دھو کہ ہوا تو تم زندہ نہیں بچ سکو گی ۔

میں جانتی ہوں تمہیں دھوکہ دینا بہت مشکل ہے۔” کرشمہ کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ  آگئی۔

اگر تمہاری اطلاع درست نکلی اور میرے ساتھ کوئی دھوکہ نہ ہوا تو حسب وعدہ روہن کی دولت میں سے آدھی تمہاری جھولی میں ڈال دوں گا اور باقی آدھی اروی کا حق ہے۔” میں نے کہا۔

 

تم تو اس طرح بات کر رہے ہو جیسے جائیداد کا بٹوارہ کررہے ہو۔ کرشمہ کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

 

میں چند لمحے اس کے چہرے کو تکتا رہا پھر کمرے سے باہر آ گیا۔ دروازہ میں نے کھلا چھوڑ دیا تھا۔

 

اروی، دیوی اور کونال ہال کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان تینوں کے چہرے پر سوگواری تھی۔ ہم لوگ کئی مینوں سے اس قسم کے حالات کا شکار تھے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی لاش دیکھنی پڑتی تھی۔ ابھی اپنے کسی ساتھی کی اور کبھی دشمنوں میں سے کسی کی۔ میں اور کونال، شکتی کو ہسپتال سے نکالنے گئے تھے اور اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے تھے مگر عین آخری لمحوں میں شکتی موت کا شکار ہوگیا تھا اور واپس آتے ہی روہن کو مجھے اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتارنا پڑا تھا۔ ان تینوں لڑکیوں کو کرشمہ اور روہن والے واقعہ نے زیادہ متاثر کیا تھا۔ انہیں روہن کی موت کا زیادہ افسوس نہیں تھا۔کرشمہ کی حالت نے انہیں دہلا کر رکھ دیا تھا اور اسی وجہ سے یہ تینوں افسردہ تھیں۔

 

کوئی پھاوڑہ وغیرہ ہوگا ؟“ میں نے اروی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

 

کیا کرنا ہے؟ اروی نے یہ سوال بے خیالی میں کر ڈالا تھا۔

روہن کی لاش کو کمرے ہی میں سجا کر رکھنا ہے یا اس کا کوئی اور بندوبست کرنا ہے۔“ میں نے کہا۔

او وہ۔۔۔وہ  ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

ہم دونوں بنگلے کے پچھلی طرف آگئے جہاں کاروں کے لیے گیراج بنے ہوئے تھے۔ ایک خالی گیراج میں باغبانی میں استعمال ہونے والی چیزیں پڑی تھیں۔ گھاس کاٹنے کی مشین، پھاوڑے، کھر پیاں اور ایسی ہی بہت سی چیزیں تھیں۔ میں نے ایک پھاوڑہ اٹھا لیا اور اروی کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتا ہوا ایک طرف بڑھنے لگا اور پھر ایک مناسب جگہ دیکھ کر رک گیا۔ یہ نرم جگہ تھی۔ میں پھاوڑے سے زمین کھودنے لگا۔ اروی ایک طرف کھڑی دیکھتی رہی تقریباً دو گھنٹوں میں اتنی گہری قبر تیار ہوگئی کہ روہن کی لاش کو اس میں دفن کیا جا سکتا تھا۔ اب دیوزاد کی لاش کو کمرے سے اٹھا کر یہاں لانا بھی ایک مسئلہ تھا۔ لاش کو ایک چادر میں لپیٹ کر ہم چاروں اسے تقر یا گھسیٹتے ہوئے اس گڑھے تک لائے تھے اور پھر چادر سمیت لاش کو گڑھے میں دھکیل کر اس پر مٹی ڈال دی گئی۔

 

“خس کم جہاں پاک” میں ہاتھ جھاڑتے ہوئے بڑبڑایا۔ “تمہارے دھرم کے مطابق اس کا انتم سنسکار چتا پر ہونا چاہئے تھا مگر۔۔۔۔

 

جو شخص جیون بھر دھرم کو دھوکہ دیتا رہا ہو اس کا انتم سنسکار تو اس سے بھی برا ہونا چاہئے تھا۔ لاش تو پہاڑیوں میں پھینک دینی چاہئے تھی۔ کتے اور گدھ کھا جاتے۔ اروی نے کہا۔

مجھے اروی کی اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی اس نے روہن کے بارے میں جو کچھ بتایا اس کے پیش نظر اس کا یہ ردعمل ہونا ہی چاہئے تھا۔

ہماری وہ رات جاگتے ہوئے بھی گزری تھی۔ زیادہ تر روہن کی باتیں ہوتی رہیں۔ اروی  ایسے ایسے انکشاف کر رہی تھی کہ مجھے شدید حیرت ہو رہی تھی ۔ نتاشہ بارے میں بھی اس نے حیرت انگیز انکشافات کیے تھے۔“

اروی کے کہنے کے مطابق نتاشہ کا تعلق ہریانہ کے ایک بہت بڑے زمیندار گھرانے سے تھا اس نے سوشیالوجی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ وہ کالج میں پروفیسر بننا چاہتی تھی مگر باپ نے اجازت نہیں دی اس کے خیال میں اتنے بڑے زمیندار کی بیٹی کو ملازمت کی ضرورت نہیں تھی۔ چند سال پہلے نتاشہ اپنے خاندان کے بعض افراد کے ساتھ جین مندروں کی یاترا کے لیے آئی تھی۔ لوگ راجستھان کے مختلف شہروں میں گھومتے ہوئے ماؤنٹ ابو پہنچے تھے ان کا خیال تھا کہ چند روز یہاں رہ کر پالی بیکانیر اور راج گڑھ سے ہوتے ہوئے ہریانہ واپس چلے جائیں گے۔ ماؤنٹ ابو میں مختلف مندروں کی یاترا کرتے ہوئے وہ لوگ اچال شوارمندر پہنچے تو یہاں ان لوگوں کی ملاقات پنڈت روہن سے ہو گئی۔ روہن نے نتاشہ پر نجانے کیا جادو کیا تھا کہ وہ لوگ جتنے روز ماؤنٹ ابو میں رہے نتاشہ روزانہ اچال شوار مندر جاتی رہی اور جب اس کے گھر والے واپس جانے لگے تو  نتاشہ نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا اور وہ مندر کی گوپیوں میں شامل ہو گئی۔

نتاشہ کے گھر والے پریشان ہوگئے اس کے باپ کو بھی ہریانہ سے بلا لیا گیا مگر نتاشہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ ہندو دھرم کے مطابق جو ناری گوپی بن کر مندر کی سیوا کرنا چاہتی ہے اسے زبر دستی واپس نہیں لے جایا جا سکتا اور قانون تو ہمیشہ ہی دھرم کے سامنے بے بس رہا ہے۔ پھر اروی بھی روہن کے جادو کا شکار ہو گئی۔ اروی اب بھی حیران تھی کہ روہن کے پاس نجانے کون سی پر اسرار قوت تھی کہ جس لڑکی پر وہ نگاہ ڈالتا وہ اس کے چرنوں میں ڈھیر ہو جاتی حالانکہ شکل صورت کے لحاظ سے روہن ایسا نہیں تھا کہ کوئی عورت ایک مرتبہ اس کی طرف دیکھنے کے بعد دوسری بار دیکھنا  پسندکرتی۔

اروی کے کہنے کے مطابق اس نے کئی حسین لڑکیوں کو پنڈت روہن کے پیر چاٹتے ہوئے دیکھا۔ ان میں کئی لڑکیوں کا تعلق تو بڑے بڑے معزز اور دولت مند گھرانوں سے تھا وہ عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر مندر کی داسیاں بن گئی تھیں اور روہن کی ہوس کی آگ بجھا رہی تھیں ۔ کتنی لڑکیاں آئیں اور چلی گئیں کم از کم تین لڑکیاں ایسی تھیں جنہیں روہن نے بھیڑیوں کی طرح دانتوں سے بھنبھوڑ ڈالا تھا اور وہ تڑپ تڑپ کر ختم ہوئی تھیں۔

 

اروی کے خیال میں اگر مندر کو نذر آتش نہ کیا جاتا اور وہ لوگ وہیں رہتے تو نتاشہ اس بھیا تک انجام سے دوچار نہ ہوتی۔ مندر میں تو کئی لڑکیاں روہن کی ہوس کی آگ بجھانے کے لیے موجود تھیں مگر اس بنگلےمیں محصور ہوجانے سے صرف یہی دو  روہن کے پاس رہ گئی تھیں اور اس رات  نتاشہ کے رقص کے دوران روہن اپنے جنون پر قابو نہیں رکھ سکا تھا اور اس نے  نتاشہ کو دانتوں سے بھنبھوڑ کر مار ڈالا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اروی چند روز تک سہمی رہی پھر اس کا خوف آہستہ آہستہ دور ہوتا چلا گیا کہ چونکہ وہ اکیلی رہ گئی تھی اس لیے شاید روہن اس کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک نہ کرے۔

اور پھر اس رات  کرشمہ اس کے قابو میں آگئی اور یہ کرشمہ کی خوش قسمتی تھی کہ میں بر وقت پہنچ گیا تھا۔

کرشمہ تو بچ گئی مگر روہن کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page