Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 224

تقریباً پندرہ منٹ بعد خاموشی چھا گئی اور اس کے دو تین منٹ بعد دو آدمی دوڑتے ہوئے برآمدے والے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں گنیں تھیں۔ وہ تیزی سے ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔ اروی  بڑی مشکل سے باری باری انہیں فوکس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس بھاگ دوڑ سے مجھے اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ وہ اس طرح دوڑتے ہوئے مکان کو چیک کر رہے تھے۔ پھر ان میں سے ایک کونال کی لاش کے قریب رک گیا اور دوسرا دوڑتا ہوا باہر چلا گیا۔

تین  منٹ بعد سکرین پر جو چہرہ نظر آیا ، اسے دیکھ کر ہم تینوں ہی اچھل پڑے۔

ہااں۔۔۔وہ کرشمہ تھی ۔ اس نے ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ اور جینز پہن رکھی تھی۔ وہ قدرے لنگڑا کر چل رہی تھی۔ اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا جس کا چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگ رہا تھا لیکن یہ یاد نہیں آ رہا تھا کہ اسے کب اور کہاں دیکھا تھا۔

کرشمہ کے ہاتھ میں بھی پستول تھا۔ وہ ہاتھ سے اشارے کرتے ہوئے اپنے آدمیوں کو احکامات جاری کر رہی تھی ۔ ایک آدمی تو کونال کی لاش کے قریب ہی کھڑا رہا۔ دوسرا بر آمدے والے دروازے پر جم گیا اور تیسرا  راہداری میں آگیا۔ کرشمہ اسے راہداری میں چھوڑ کر روہن کے کمرے میں داخل ہو گئی اور دروازہ بند کر کے اندر سے نہ صرف لاک کر دیا بلکہ اوپر کا بولٹ بھی چڑھا دیا۔ وہ مڑ کر باتھ روم کی طرف بڑھی۔

ہمیں سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ تہہ خانے میں جائے گی۔ اروی نے پینل پر ایک اور بٹن دبا کر تہہ خانے والا کیمرا آن کر دیا اور پھر ٹھیک ایک منٹ بعد کرشمہ تہہ خانے میں نظر آئی۔ وہ چند لمحے ایک جگہ پر کھڑی رہی۔ پھر تیز تیز قدم اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے ادھر ادھر گھومنے لگی۔ اس کے چہرے پر شدید حیرت کے تاثرات ابھر آئے تھے ۔ آنکھوں میں وحشت سی بھرگئی۔

کرشمہ کی اس حالت پر میں مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ اسے اس کمرے کی تلاش تھی جس میں روہن کا خزانہ بھرا ہوا تھا۔ لیکن اب وہ کمرہ غائب تھا۔ کرشمہ کو شاید اپنے آپ پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں اسے اسی کمرے میں لے کر گیا تھا۔ اس نے ایک ایک چیز اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اور اب نہ صرف وہ تمام چیزیں بلکہ پورا کمرہ ہی غائب تھا۔ وہ دیواروں کو ٹھونک بجا کر دیکھ رہی تھی۔

“اس کی حالت دیکھ کر مزا آ رہا ہے” ۔ اروی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

 ہاں واقعی مزا آرہا ہے میں نے کہا ” روہن  واقعی عقلمند تھا  اگر یہ انتظام نہ ہوتا تو وہ ساری دولت ہاتھوں سے نکل چکی ہوتی۔

“مگر روہن کو اس کا کیا فائدہ ہوا”۔ اروی نے کہا۔ وہ تو اس سے کوئی فائدہ اٹھائے بغیر نرک میں چلا گیا۔

ایسے آدمیوں کا انجام تو یہی ہوتا ہے”۔ میں نے کہا ” بہر حال یہ دولت اب تمہارے کام آئے گی ۔ تم نے روہن کے لیے اپنا سب کچھ تیاگ دیا تھا اور روہن تمہارے لیےیہ دولت چھوڑ گیا ۔ چند روز بعد حالات پر سکون ہو جائیں تو یہاں سے کسی دوسرے شہر منتقل ہو جانا اور آرام سے باقی زندگی گزار دینا۔ اروی نے عجیب سی نگاہوں سے میری طرف دیکھا تھا۔

ہم ایک بار پھر اسکرین کی طرف دیکھنے لگے۔ کرشمہ اب واپس آ رہی تھی۔ تہہ خانے سے باہر آ کر کرشمہ چند لمحے روہن والے کمرے میں رکی اور پھر دروازہ کھول دیا۔

“تم دروازہ بند کرکے کمرے میں کیا کر رہی تھی؟ راہداری میں کھڑے ہوئے شخص نے مشتبہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

کپڑے اتار کر ایک منتر کررہی تھی۔ تم سے مطلب ! کرشمہ نے اسے گھورا۔ تمہیں مجھ سے سوال کرنے کا حق کیسے مل گیا اروِند ؟”

میرے دماغ میں جھما کا سا ہوا ۔ اس نام سے مجھے یاد آ گیا کہ اس شخص کو کب اور کہاں دیکھا تھا۔ کرشمہ اور اس کے ساتھی جب مجھے تھر سے اغوا کرکے لا رہے تھے تو ہم نے بلکہ میں نے اور کرشمہ نے چند گھنٹے صحرا میں اس پہاڑی میں واقع کالی کے مندر میں گزار ے تھے اور وہیں پر موقع پا کر کرشمہ نے ٹرانسمیٹر پر  منی لال سے بات کی تھی۔ اس کی با تیں میں نے بھی سن لی تھیں اور ٹرانسمیٹر پر اسی گفتگو میں کرشمہ نے اروِند  کا نام بھی لیا تھا اور پھر ایک موقع پر ماؤنٹ آبو میں کرشمہ کے ساتھ اروند سے آمنا سامنا بھی ہوا تھا۔ منی لال کے تقریباً سارے ہی ساتھ اگر چہ ختم ہو چکے تھے مگر یہ اروند  بچا ہوا تھا۔

 ممیرایہ مطلب نہیں تھا۔ مجھے تم پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ اروند گڑ بڑا سا گیا۔ ” میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا تھا۔

ٹھیک ہے کرشمہ نے جواب دیا ” مجھے حیرت ہے یہ لوگ کہاں غائب ہو گئے”۔  

وہ ٹھاکرے تھا کرشمہ جی” اروندنے کہا۔ ” میں نے خود اسے پچھلی طرف سے بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ لاش اس کے ساتھی کی ہے۔ اس نے دروازے کے قریب ہوئی ہوئی کالیا کی لاش کی طرف اشارہ کیا۔

“مگریہ کونال”۔ یہ تو مانے  کے ساتھ تھی۔ کرشمہ نے کونال کی لاش کی طرف دیکھا۔

ہو سکتا ہے وہ لوگ یہاں ہوں اور ٹھا کرے نے یہاں حملہ کیا تو وہ کونال کی لاش چھوڑ کر بھاگ گئے اور ہمارا مقابلہ صرف ٹھا کرے اور اس کے آدمیوں سے ہوا”۔

شاید تم ٹھیک کہتے ہو لیکن کونال کی یہ لاش میرا مطلب ہے اس حالت میں پھٹا ہوا  لباس  ٹھا کر ے انسان نہیں راکھشس ہے۔

اروند نے اس کی بات کاٹ دی۔ کونال ان لوگوں کے ساتھ بھاگنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہوگی۔ وہ ٹھا کرے اور اس کے آدمیوں کے ہاتھ لگ گئی۔ اس کی یہ حا لت ٹھا کرے اور اس کے آدمیوں نے ہی کی ہوگی ۔ کونال کے ہاتھ میں رائفل سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے کچھ کرنے کا موقع مل گیا ہو گا”۔

شاید ایسا ہی ہوا ہو ۔ بہر حال یہ دونوں لاشیں اٹھوا کر بنگلے کے پچھلی طرف پھینکوا دو  اور یہاں سے نکلنے کی تیاری کرو”۔ کرشمہ نے کہا۔

 اروند اور اس کے ساتھی باری باری کونال اور کالیا کی لاشیں اٹھا کر باہر کسی جگہ ڈال آئے اور پھر اس کے تقریبا پندرہ منٹ بعد  کرشمہ بھی باہر چلی گئی اور دروازہ بند ہو گیا ۔

اروی نے گہرا سانس لیتے ہوئے کیمرا آف کر دیا۔ مانیٹرنگ سیٹ کی اسکرین تاریک ہوئی مگر اس کے نچلے پینل پر ننھی سی سرخ بتی جلتی رہی۔

کرشمہ دوبارہ آئے گی۔ میں نے اروی  کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ” اس نے  اروند  وغیر ہ کو اس خزانے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس لیے روہن کے کمرے میں داخل ہو کر اس نے دروازہ اندر سے بند کیا تھا لیکن تہہ خانے میں جاکر اسے خود بھی بڑی مایوسی ہوئی۔ لیکن یہ مایوی ایسی نہیں کہ وہ امید چھوڑ ے۔ وہ دوبارہ بنگلے میں آئے گی۔

لیکن میرا خیال ہے اس سے پہلے پولیس جنگلے میں آئے گی“۔  اروی نے کہا  بنگلے میں فائر نگ کی آوازیں دور دور تک سنی گئی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے کچھ دیر میں پولیس بھی پہنچنے والی ہو”۔

پولیس کو بنگلے کے کمپاؤنڈ میں دو لاشوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ میں نے کہا۔ بہر حال ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہاں ہم بھی محفوظ ہیں اور وہاں تہہ خانے میں وہ خزانہ بھی۔”

ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ہم کسی بھی لمحہ مانیٹر نگ سیٹ سے سگنل کے منتظر تھے مگر خاموشی  چھائی ہوئی تھی۔ چار بج گئے۔ میں بیڈ پر آڑھا  ترچھا ہو کر لیٹ گیا ۔ مجھے حیرت تھی کہ روہن کے بنگلے میں اتنی شدید فائرنگ کے باوجود پولیس کیوں نہیں پہنچی تھی ۔

یہی سب کچھ سوچتے ہوئے میری آنکھیں بند ہونے لگیں اور میں نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔ اور پھر صبح سات بجے کے قریب اروی نے مجھے جھنجوڑ کر جگا دیا۔ باہر پولیس کھڑی ہے۔ اروی نے کہا۔ شاید وہ لوگ رات والی فائرنگ کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔

 “اوہ۔۔۔”  میں ایک جھٹکے سے اٹھ گیا ۔ تم لوگ باہر تو نہیں نکلیں۔ میرا مطلب ہے پولیس والوں نے تمہیں دیکھا تو نہیں؟

نہیں میں نے کال بیل کی آواز سن کر کھڑکی سے جھانکا تھا۔ اروی نے کہا۔

ٹھیک ہے تم لوگ یہیں ٹھہرو۔ میں دیکھتا ہوں۔ ” میں کہتے ہوئے پلنگ سے اٹھ گیا۔ جسم پر ایک چادر لپیٹ لی اور دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ گیٹ کے سامنے دو پولیس والے کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے گھور کر مجھے دیکھا اور پھر فائرنگ کے بارے میں پوچھنے لگا۔

مہاراج۔ رات کو گولیاں تو بہت چلتی رہی تھیں۔ پر ہم  ڈر کے مارے باہر نہیں نکلا تھا۔ دل کا کمزور ہوں مہاراج۔ بہت ڈر لاگت ہے۔ ہم کا تو تمام دروجے بند کر بیٹھا ر ہیو تھا۔ سویرے آنکھ لاگت تھی۔

یہاں اس بنگلے میں کون رہتا ہے۔ چند روز پہلے تک تو یہ خالی تھا۔ اس پولیس والے نے پوچھا۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page