Smuggler –225–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 225

رانا شیرسنگھ کا چاکر ہوں مہاراج۔ میں نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ ” وہ لوگ جودھ پور سے آون  والے ہیں۔ ہم کا پہلے بھیج دیا صفائی ستھرائی کرن  واسطے

تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟” ایک اور سوال کیا گیا۔

نہیں مہاراج۔ اکیلا ہوں۔ میں نے جواب دیا ۔ وہ دونوں باری باری مجھ سے اس فائرنگ کے بارے میں سوال کرتے رہے اور پھر رخصت ہو گئے ۔ فائرنگ رات کو تین بجے ہوئی تھی اور پولیس اس کے بارے میں معلوم کرنے اب آئی تھی۔ ویسے میں نے اپنے بارے میں جو بتایا تھا اس پر مجھے خوف زدہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔ یہ بنگلہ تھا تو اس پہاڑی پر مگر روہن کے بڑے بنگلے سے اس کا فاصلہ نصف میل کے قریب تھا اور دوسرا قریب ترین بنگلہ بھی ایک ڈیڑھ فرلانگ کے قریب تھا۔ اس لیے میں مطمئن تھا کہ پولیس والے کسی اور سے ہمارے اس بنگلے کے بارے میں نہیں پوچھیں گے۔ ویسے بھی رانوں اور ٹھاکروں کے نام میں بڑی تاثیر تھی ۔ ایسے بھاری بھر کم  ناموں کے بارے میں کوئی زیادہ تحقیقات بھی نہیں کرتا تھا۔

دیوی گہری نیند سو رہی تھی ۔ اروی نے اسے جگایا تو تھا مگر وہ پھر سوگئی تھی۔ میں بھی صرف تین گھنٹے ہی سو سکا تھا۔ میری آنکھوں میں شدید جلن ہو رہی تھی لیکن اب میرا سونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

اروی میرے انتظار میں دروازے کے قریب ہی کھڑی تھی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ بلاٹل گئی ہے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا اور کچن میں گھس گئی۔

میں لاؤنج ہی میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اروی چائے بنا کر لے آئی۔ اس نے دونوں کپ سنٹر ٹیبل پر رکھ دیئے اور سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ بھی صرف تین گھنٹے ہی سوئی تھی اور اس کی آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھیں۔

ہم رات کے واقعات کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ حیرت اس بات پر تھی کہ کل رات روہن کے بنگلے پر ٹھاکرے نے ریڈ کیا اور اس کے ایک گھنٹے بعد کرشمہ بھی اپنے آدمی لے کر پہنچ گئی تھی۔ اسے اتفاق سمجھا جائے یا کرشمہ کا کوئی آدمی بنگلے کی نگرانی کر رہا تھا۔ جس نے ٹھاکرے وغیرہ کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر  کرشمہ کو اطلاع کر دی تھی۔ مزید حیرت اس بات پر تھی کہ پولیس کئی گھنٹوں بعد پہنچی تھی اور ادھر ادھر سے فائرنگ کے بارے میں پوچھ کر چلی گئی تھی مگر پولیس روہن والے بنگلے میں داخل نہیں ہوئی تھی۔

چائے پیتے ہوئے میری نظر اروی کی طرف اٹھ گئی۔ اس کا ایک پیر تو نیچے ہی تھا اور دوسرا پیر اس نے صوفے پر رکھ لیا تھا۔ وہ رات والا راجستھانی لباس ہی پہنے ہوئے تھی۔ گھاگھرا کھڑے گھٹنے پر سے نیچے کھسک گیا تھا۔ وہ پرسوں  ہی میں نے چودی تھی۔ لیکن اس وقت نجانے کیوں اسے دیکھ کر میری سانس تیز ہونے لگی۔ اس نے بھی شاید میری نگاہوں کے مرکز کو  تاڑ لیا تھا لیکن گھاگھرا  درست کرنے کے بجائے وہ کچھ اور پھیل گئی اور اس پر ستم یہ کہ اس نے ایک تو بہ شکن انگڑائی بھی لے ڈالی۔ مجھے اپنی گردن پر چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔

اروی کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ آگئی اور پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ میرے قریب آکر بیٹھ گئی اور صوفے پر نیم دراز ہو کر سر میرے گھٹنے پر رکھ دیا۔

” مجھے تو نیند آ رہی ہے۔ آنکھوں میں بہت شدید جلن ہورہی ہے۔

”  وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

“تو پھر اندر جا کر آرام سے سو جاؤ   نااا” ۔ میں نے اسے اپنے اوپر سے ہٹاتے ہوئے کہا۔

تم بھی سو جاؤ تم بھی تو رات بھر جاگے ہو”۔ اس نے اٹھ کر میرا بازو پکڑ لیا۔ اور جب میں دیوی والے کمرے کی طرف بڑھا تو اروی مجھے ہاتھ سے پکڑ کر دوسری طرف کھینچنے لگی۔

دیوی کی نیند خراب ہوگی۔ اسے سونے دو دوسرے کمرے میں آجاؤ“۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے سرگوشیانہ لہجے میں کہا۔

میں نے اس کی طرف دیکھا۔ ہم دوسرے کمرے میں آگئے ۔ اروی نے مجھے دھکا دے کر بستر پر گرایا اور خود بھی میرے اوپر ڈھیر ہوگئی۔  وہ بےتحاشہ مجھے کس کرنے لگی۔  اروی  بہت پیاسی تھی۔ ویسے تو وہ دیوی سے کچھ بھی چھپ کے نہیں کرسکتی تھی۔ لیکن وہ کبھی اکیلے میں  بھی میرے ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھی۔ اسی لیے وہ اِس وقت  بھی جاگ کر ویٹ کر رہی تھی میرا۔

میرے  جوابی کس کرتے ہی وہ بھی مجھ پر ٹوٹ پڑی۔۔۔میں کس کرتا ہوا ساتھ میں ان کے  پستان مسلنے لگا۔ جس سے اروی اور بھی  بھڑک اٹھی۔

اب جلدی کرو  مانے۔۔۔مجھ سے اور برداشت نہیں ہو رہا۔ جب سے آپ نے جانے کی بات کی ہے میرا دل ڈوبتا جا رہا ہے۔  لیکن یہ کچھ دن مجھے دے دو  ماانے۔۔۔آؤ جلدی کرو میری پیاس بجھا  دو۔ اروی تڑپتی ہوئی بولے جارہی تھی۔

میں نے بھی دیر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔کیونکہ دیوی دوسرے کمرے میں ہی سو رہی تھی۔ کہیں ان کی آنکھ کھل گئی۔ تو اس نے یہیں پر ہی آنا  تھا۔ لیکن اروی میرے ساتھ اکیلے وقت گزارنا چاہتی تھی جس وجہ سے میرے لئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری تھا۔

میں نے جلدی سے اروی کے نیچے سے نکل کر اس کو گھوڑی بنایا ۔ اور ان کی   ڈھیلی قمیض کمر تک اٹھا کر ان کی  پینٹی کو اُتَار دیا ۔

 میں نے ان کی پھدی میں انگلی  پھیری تو دیکھا ان کی پھدی سے پانی  بہہ رہی تھی ۔ جس سے پتہ چل رہا تھا کہ۔۔۔وہ کب سے مجھے پیار کرنے کا سوچ سوچ کر ترس رہی ہوں گی۔

میں نے جلدی سے اپنا  ٹراوزر  جو رات کو پہنا ہوا تھاجھٹکے سے نیچے کیا۔اور اپنا لن جو پہلے ہی کھڑا ہو چکا تھا۔ اروی کی پھدی پر سیٹ کیا۔  اور ان کی کمر پکڑ کر ایک دھکا  مار دیا ۔ میرا آدھا لن پھدی میں گھس گیا ۔  لن اندر جاتے ہی  اروی نے مزے سے سسکی  لی۔

میں نے لن تھوڑا باہر نکالا۔ اور ایک تیز دھکا  مار کر ۔۔۔ پُورا لن اندر  تک گھسا دیا ۔ اروی ایک دم آگے کو گرنے کو ہوئی مگر میں نے انہیں تھام لیا ۔ اروی کے پاؤں کی ایڑیاں اٹھ گئی تھی ۔ اور جسم کانپنے لگا تھا۔  اتنے دنوں کی چدائی کے بعد  بھی وہ میرے لن کی سختی  کو برداشت نہیں کرسکی۔

آاہ ۔۔۔ آہستہ آرام سے کر  مااانے۔۔۔کہیں میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔تو  دیوی جاگ جائیں گی ۔۔۔آ اہہہہ ۔۔۔ سسس۔۔۔ اروی سسکتی ہوئی بولی۔

میں نے ان کی بات مانتے ہوئے۔ لن آدھے سے زیادہ باہر نکال لیا۔ اور پھر دھیرے دھیرے دھکے مارنے لگا۔ میں اِس بات کا پُورا دھیان رکھ رہا تھا کہ۔۔۔میں آرام سے دھکے ماروں ۔ اور پُورا لن اندر نہ گھساؤں ۔ تھوڑی ہی دیر میں اروی  اب خود اپنی کمر کو پیچھے دھکیلنے لگی اور مجھے تیز دھکے مارنے کو کہنے لگی۔میں نے ان کے لٹکتے پستان کھینچتے ہوئے تیز دھکے مارنے شروع کر دیئے۔ اروی مستی میں آ گئی تھی ۔ اور تیز سسکیاں لیتے ہوئے ۔۔۔ چدائی کا مزہ لینے لگی ۔  پھدی گیلی ہونے کی وجہ سے پچک پچک کی آوازیں کمرے میں گونجنے لگی تھی۔ اروی زیادہ دیر خود کو روک نہیں پائی۔ اور جھٹکے کھاتے ہوئے ان کی پھدی نے پانی کی برسات کر دی  اروی کی ٹانگیں کانپنے لگی تھی۔ اس لیے وہ نیچے گرنے کو ہوئی تو ۔۔۔ میں نے انہیں پکڑ کر بستر پر لیٹا دیا ۔۔۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page