Smuggler –228–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 228

“اپنے پلے کچھ ہوتا تو تب گھاس ڈالتی ہیں”۔ میں نے کہا ” بہر حال اب کہاں ہیں وہ لوگ ؟”

 “سردار جی وقت گزارنے کیلئے کوئی چھوکری چاہیے تو اپن سے کھل کر بات کرو نا ۔ للو رام نے کہا۔”

“او نہیں یار۔۔۔ میں کوئی عیاش آدمی نہیں ہوں۔ وہ لڑکی بس اس پر ذرا دل آ گیا تھا تم صرف اتنا بتا  دوکہ وہ لوگ ہیں کہاں؟ میں نے کہا۔

“وہ سب لوگ تو ختم ہو گئے سردار جی اب تو ان کا نشان بھی نہیں رہا۔ ”  للو رام نے گہرا سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔

ختم ہو گئے کیا مطلب؟” میں نے اسے گھورا۔ ” انہیں زمین کھا گئی کیا؟

ایسا ہی سمجھیں سردار جی” للو رام نے کہا شکتی، بھانو  اور سب مارے گئے ۔ شکتی کو ایک گرومل گیا تھا میں اسے سمجھاتا بھی رہا کہ یہ گرو انہیں کسی مصیبت میں ڈال دے گا مگر ان لوگوں نے میری بات نہیں مانی۔ میں اس لیے ان سے الگ ہو گیا تھا۔ منی لال جیسے آدمی سے پنگا لینا کوئی معمولی بات تو نہیں تھی۔ وہ سب لوگ ایک ایک کر کے  مارے گئے ۔

مگر سنا ہے  منی لال  بھی مارا گیا ہے؟” میں نے کہا۔

ہاں وہ بھی  مارا گیا ۔ للو رام نے کہا۔ ” اس رات مٹھو اور کونال میرے پاس آئے تھے۔ ا نہوں نے مجھے بتایا تھا وہ شہر سے نکلنا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر وہ لوگ اپنی جان بچانا

چاہتے ہیں تو صبح کا انتظار کرنے کے بجائے رات ہی رات میں ہی یہاں سے نکل جائیں۔ انہوں نے میرا مشورہ مان لیا اور رات ہی کو یہاں سے بھاگ گئے مگر موت نے جسے تاک لیا ہو وہ بچ نہیں سکتا ۔ وہ چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔ ”

وہ دونوں یہاں سے بیس کوس دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں پہنچ گئے مگر بد قسمتی سے امرت ٹھا کرے پہلے سے وہاں موجود تھا۔ وہ دونوں اس کے ہاتھ لگ گئے ۔ ٹھا کرے ان سے شکتی کے گرو  کا پتہ معلوم کرنا چاہتا تھا تا کہ اس کے ذریعے پنڈت روہن کے خزانے تک پہنچ سکے۔ گرو نے پتہ نہیں انہیں کیا گھول کر پلا دیا تھا وہ اس کے بارے میں زبان کھولنے کو تیار نہیں تھے۔ مٹھو تو اس کے ہاتھوں مارا گیا اور ٹھاکرے کونال کو لے کر غائب ہو گیا۔ پتہ نہیں وہ زندہ ہے یا ٹھاکرے نے اسے بھی  مارڈالا۔

بڑا افسوس ہوا یار ۔ میں نے تاسف کا اظہار کیا۔اچھا چائے پی اور میری ایک بات مان لے۔

وہ کیا سردار جی ؟ اس نے کپ اٹھاتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔

یہ دھندہ چھوڑ دے ورنہ کسی دن تو بھی مارا جائے گا۔ میں نے کہا ” تم جوان آدمی ہو۔ ہٹے کٹے ہو۔ محنت مزدوری کر سکتے ہو۔ ہمارے پنجاب میں کہتے ہیں۔ ” کر مزدوری تے کھا چوری”۔ محنت سے کما کر جو روٹی کھاؤ گے نا بڑا مزہ ہے اس میں “۔

“سردار جی”  للو رام نے گہرا سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔ ” منہ کو حرام کی لگ چکی ہو تو حلال کی کھانے میں مزہ نہیں آتا ۔ حلال پچتا ہی نہیں ہم جیسے لوگوں کو “۔

” ہاں ٹھیک کہتے ہو۔ کسی کو حرام نہیں پچتا اور کسی کو رام نہیں پچتا۔ مگر میری ایک بات سمجھ لے۔ حلال کھانے میں بڑا سواد ہے”۔ میں نے کہا۔

 کوشش کروں گا سردار جی”۔ اس نے خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔

اچھا اب تو جا میں تھوڑی دیریہاں بیٹھوں گا ۔ میں نے کہا۔ وہ چند لمحے اچھی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا پھر اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے بعد میں بھی زیادہ دیر وہاں نہیں بیٹھا تھا۔ میرا مقصد پورا ہوچکا تھا۔ اس لیے بازاروں میں گھومتے رہنا بیکار تھا۔ میں نے پھل اور کچھ اور چیزیں خریدیں اور واپسی کیلئے چل پڑا۔

اس رات میں لاؤنج میں صوفے پر سو رہا تھا کہ دیوی نے مجھے جھنجوڑ کر جگا دیا۔ جلدی چلو۔ وہ مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولی۔ ” کرشمہ روہن کے بنگلے میں آئی ہے۔ میں ایک جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور پھر اس کمرے میں پہنچنے میں ایک منٹ سے زیادہ نہیں لگا۔ اروی  مانیٹرنگ سیٹ کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ اسکرین پر ہال کمرے کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ کرشمہ کمرے کے وسط میں کھڑی ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ میرا خیال ہے وہ ابھی ابھی اندر داخل ہوئی تھی۔

اس کے ساتھ اور کون ہے؟ میں نے اروی سے پوچھا۔ کوئی نہیں” اروی نے جواب دیا۔ بنگلے کے باہر کوئی ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتی لیکن اندر وہ اکیلی ہی آئی ہے۔

تو پھر وہ  یقینا  اکیلی ہی ہو گی”۔ میں نے کہا۔ اور اسکرین کی طرف دیکھنے لگا۔ کرشمہ راہداری کی طرف جارہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ اروی کیمرے کو حرکت دیتی رہی۔ کرشمہ روہن کے کمرے سے ہوتی ہوئی تہہ خانے میں آگئی۔ وہ کچھ دیر کھڑی الجھی ہوئی نگاہوں سے ادھر ادھردیکھتی رہی اور پھر اس دن کی طرح دیوار میں ٹھونک بجا کر دیکھنے لگی۔ اس دن  کرشمہ کے ساتھ اروند کے علاوہ دو آدمی اور تھے۔ اس سے پہلے وہ یقینا  بنگلے کی نگرانی کرواتی رہی تھی اور کسی کے بنگلے میں داخلے کی اطلاع پا کر ہی  اروند وغیرہ کو لے کر یہاں پہنچی تھی۔ اس نے سوچا ہوگا کہ شاید ہم ہوں گے لیکن غیر متوقع طور پر اس کا مقابلہ ٹھاکرے سے ہوا تھا۔ ٹھا کرے دو لاشیں چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اور  کرشمہ جس طرح روہن والے کمرے کا دروازہ بند کر کے تہہ خانے میں گئی تھی اس سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اروند  وغیرہ کو اس نے خزانے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا اور آج وہ اکیلی آئی۔ اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں بڑی شدید قسم کی الجھن تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کمرہ کہاں غائب ہوگیا۔

اسے گھیر نہ لیا جائے؟ دیوی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

“کیا مطلب؟” میں نے اسے گھورا۔

 کرشمہ اس بنگلے میں اکیلی آئی ہے۔ دیوی نے وضاحت کی ۔ “ہم سرنگ کے راستے تہہ خانے میں گھس کراسے پکڑ لیں۔

تمہارا  دماغ خراب ہو گیا ہے۔ دیوی”۔  میں نے کہا۔ ” کیا اب تک تمہیں اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کس قدر عیار عورت ہے۔ وہ اندر تو اکیلی آئی ہے لیکن باہر یقینا اس کا کوئی نہ کوئی آدمی موجود ہوگا اور پھر تم  دونوں نے ایک اور بات پر غور نہیں کیا۔

وہ کیا۔۔۔ ؟  اس مرتبہ اروی نے بھی سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ اس روز پولیس یہاں صبح سات بجے پہنچی تھی ۔ حالانکہ فائر نگ چار بجے کے قریب ہوئی تھی۔میں نے کہا۔ پولیس نے آج تک اس بنگلے کا رخ نہیں کیا کرشمہ بہت اونچی شے ہے۔ اروی تم تو اس رات کھنڈر کے تہہ خانے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی ہو ۔ کرشمہ منی لال  کی رکھیل نہیں تھی۔ وہ اس سے بہت اوپر کی چیز ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس کے پاس کوئی بہت بڑا سرکاری عہدہ بھی ہے۔ اس نے  پولیس  کو اس بنگلے سے دور رکھا ہو گا اور اب جبکہ ہمارا مشن مکمل ہو چکا ہے۔ تمام کام پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ ہمیں اس موقع پر ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہیے کہ پھر کسی الجھن میں پڑ جائیں۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page