Smuggler –231–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 231

وکرم چند مدہم لہجے میں اس سے بات کرتا رہا۔ منیجر کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

موہن سنگھ کا کوئی بندو بست کرنا ہی پڑے گا۔ اس نے کہا۔ پھر میری طرف دیکھنے لگا۔ ” تمہارے پاس ڈرائیور نگ لائسنس ہے ۔

” آہو جی” میں نے جیب سے بلدیو سنگھ والا لائسنس نکال لیا اور اس کا صرف لشکارہ دے کر

دوبارہ جیب میں ڈال لیا۔

ٹھیک ہے سردار جی۔” وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ اس وقت اڈے پر کوئی اور ڈرائیور نہیں ہے مجبوری ہے آج تم ہی گاڑی لے جاؤ۔ مگر سنبھال کے چلانا۔ راستہ خطرناک ہے۔

میں نے بڑے بڑے خطرناک راستوں پر گاڑی چلائی ہے جناب۔” میں نے کہا۔

 ٹھیک ہے۔ جاؤ ٹائم ہو رہا ہے۔ منیجر بولا۔

ہم دونوں دفتر سے باہر آ گئے کنڈیکٹر تو واؤچر لینے کے لئے اسسٹنٹ منیجر کے کمرے کی طرف چلا گیا اور میں بس میں سوار ہوگیا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے میں نے مسافروں پر نگاہ  ڈالی۔

دیوی چوتھی سیٹ پر کھڑکی کی طرف بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے چادر سے گھونگھٹ سا نکال رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ایک بھاری بھر کم ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ انجن اسٹارٹ کرنے سے پہلے گیئر بکس اور ڈائلز وغیرہ کا اچھی طرح جائزہ لیا اور اللہ کا نام لے کر اگنیشن کی گھمادی۔ چھوٹی گاڑیاں چلانے میں تو میں اپنے آپ کو بہت ماہر سمجھتا تھا مگر کار اور بس میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وکرم چند بھی بس میں آگیا۔ اس نے سرسری سے انداز میں بس کے اندر کا جائزہ لیا اور دروازہ بندکر کے مجھے روانگی کا اشارہ کر دیا۔

میں اللہ کا نام لے کر بس کو حرکت میں لے آیا۔ شہر سے بسوں کی آمد ورفت کا راستہ مجھے معلوم تھا۔ میں بہت محتاط انداز میں اور بہت ہلکی رفتار سے بس کو مختلف سڑکوں پر گھماتا ہوا دل داڑہ روڈ پر لے آیا۔ یہی سڑک آبو روڈ ریلوے سٹیشن کی طرف چلی گئی تھی اور وہاں سے مختلف شہروں کی طرف سڑکیں نکلتی تھیں ۔ شہر سے نکلتے ہی ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔ آسمان پر بادل تو پچھلے دو تین دنوں سے نظر آرہے تھے اور اب انہوں نے اچانک ہی برسنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

 ماؤنٹ آبو سے پندرہ میل آگے کسی دیہات کی طرف ایک راستہ پھوٹتا تھا۔ اس موڑ پر پولیس کی عارضی چو کی بنی ہوئی تھی۔ لوہے کی زنجیر لگاکر سڑک بند کردی گئی تھی۔ میں نے بیریئر کے قریب پہنچ کربس روک لی۔ وکرم چند نے دروازہ کھول دیا۔ دو پولیس والے اندرگھس آئے اور مسافروں کا جائزہ لینے لگے۔ دو چار آدمیوں سے انہوں نے کچھ سوالات بھی کئے تھے ان کے انداز اور لہجے میں بڑی بد تمیزی تھی۔ ایک ادھیٹر عمر مسافر تو ان سے الجھ بھی پڑا تھا۔

“آتنک وادیوں کی تلاش ہے۔ انہیں تو پکڑ نہیں سکے سالے جنتا کو پریشان کرتے ہیں۔ وہ شخص بڑبڑا رہا تھا۔”

ایک پولیس والا تو اسے بس سے اتارنے پر تیار ہوگیا تھا اس موقع پر دوسرے مسافروں کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔ میں خاموشی سے اپنی سیٹ پر بیٹھا رہا۔

پولیس والوں نے مجھ پر کوئی توجہ نہیں دی تھی بلکہ میری طرف دیکھا تک نہیں تھا۔ ڈرائیوروں  کو شاید وہ مستثنی سمجھتے تھے۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد بیریئر ہٹا لیا گیا۔ میں نے انجن اسٹارٹ کر کے بس آگے بڑھا دی۔ بوندا باندی کا فائدہ مجھے ہوا تھا اگر بارش نہ ہوتی تو مجھے بس تیز چلانا پڑتی اور وہ صورت حال خطرناک ہوتی میرے لئے بس کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ بارش کی وجہ سے میں بس کو ہلکی رفتار سے چلاتا رہا اس طرح بس بھی میرے کنٹرول میں رہی۔

آبو روڈ تک انتیس کلومیٹر کا راستہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا تھا۔ بس میں بیٹھے ہوئے تمام مسافر بڑبڑا رہے تھے لیکن میں کسی کی پروا کئے بغیر بڑے آرام سے بس چلاتا رہا۔ میرا دھیان دیوی کی طرف بھی تھا۔ اگر ب موہن سنگھ اس کے قبضے سے نکل گیا تو صورت حال ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔ ٹیلی فون پر آگے اطلاع دیدی جاتی اور ہمیں روک لیا جاتا مگر مجھے اروی کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ تھا۔  روہن سنگھ کو میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کسی فطرت کا آدمی ہے۔  دیوی  اگر تین دن تک بھی اسے روکے رکھے تو وہ اف نہیں کرے گا بلکہ اس حسین جال سے خود بھی نہیں نکلنا چاہے گا۔

آبو روڈ ریلوے سٹیشن کے اسٹاپ پر ہم صرف پانچ منٹ رکے تھے یہاں سے کچھ اور مسافر بس میں سوار ہوئے تھے۔ یہاں سے چند میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نے بس روک لی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر وکرم چند کو بٹھا دیا اور خود کنڈیکٹر کی ڈیوٹی سنبھال لی۔ وکرم چند واقعی اچھا ڈرائیور تھا۔ وہ بس کو مناسب رفتار سے سڑک پر دوڑاتا رہا۔ بس کی رفتار سےمسافر بھی اب مطمئن ہو گئے تھے۔ لیکن بارش بدستور ہوتی رہی۔ وکرم چند بڑی مہارت سے بس چلا رہا تھا راستے میں کئی چھوٹی چھوٹی بستیاں بھی تھیں۔ میں کئی مہینے پہلے کرشمہ کے ساتھ تھر کی طرف سے کدھالیہ سے ہوتا ہوا آیا تھا اس طرف بھی کہیں وسیع و عریض ریگستان تھے اور کہیں پہاڑیاں تھیں۔ بھاگ دوڑ میں مجھے وہ علاقہ اچھی طرح دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا ۔لیکن اس وقت بس پر سفر کرتے ہوئے میں پوری طرح لطف اندوز ہو رہا تھا۔ کہیں پہاڑیاں اور کہیں میلوں دور تک پھیلے ہوئے صحرا۔

دو پہر کے وقت ہم پالو پہنچ گئے۔ شہر کے پھیلاؤ سے لگتا تھا کہ اس کی آبادی دو ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ رہی ہوگی ۔ یہاں ریلوے سٹیشن بھی تھا۔ یہاں سے ایک لائن جو دلا پور اور دوسری مارواڑ کی طرف چلی گئی تھی۔ مارواڑ زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ ریلوے جنکشن تھا ایک لائن جے پور دوسری آیوروڈ تیسری کنگرول سے ہوتی ہوئی اودھ پور کی طرف چلی گئی تھی۔

اس سفر کے دوران میں۔۔۔ میں نے ایک مرتبہ بھی دیوی کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ پالی شہر میں داخل ہونے کے بعد ایک جگہ بس رکی تو میں نے دیوی کو اشارہ کیا۔ وہاں اترنے والے دو مسافروں کے ساتھ وہ بھی اپنا تھیلا سنبھالتی ہوئی اتر گئی۔ تقریباً سو گز آگے جا کر میں نے بس رکوالی۔

“وکرم چند ۔” میں نے نیچے اتر کر ڈرائیونگ سائیڈ کی طرف آتے ہوئے کہا۔ بس کو اڈے پر لے جاؤ۔

 چند منٹ میرا انتظار کرنا مجھے ایک ضروری کام ہے میں نمٹا کر آتا ہوں۔

” ٹھیک ہے سردار جی ۔ پر ذرا جلدی آجانا ہم پالی کے اڈے پر دس منٹ سے زیادہ نہیں رکتے۔ وکرم چند نے کہا۔

بس میں یوں چٹکی بجاتے ہوئے پہنچ رہا ہوں۔“ میں نے کہتے ہوئے چٹکی بجائی اور سڑک پار کرکے ایک بازار میں داخل ہو گیا۔

یہ شہر کا نواحی علاقہ تھا۔۔دیوی بھی سڑک پار کر کے اس طرف آرہی تھی۔ میں اس کے انتظار میں گلی کے موڑ پر رک گیا اور پگڑی اتار کر سر کھجانے لگا۔ پگڑی اتارنے سے میرے بال گردن پر پھیل گئے تھے۔ کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی۔ چند قدم چلنے کے بعد میں نے اپنی پگڑی اس کے حوالے کر دی جو اس نے تھیلے میں ڈال لی۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page