Smuggler –238–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 238

کرشمہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتی رہی لیکن میری گرفت خاصی مضبوط تھی۔ ایک منٹ سے بھی کم عرصہ میں وہ بے جان سی ہو کر جھول گئی۔ ایک نظر اس کی چھاتیوں پر دوڑائی لیکن اس سے پہلے کہ میرے جذبات ابھرتے میں نے اسے سمیٹ کر دروازے  کے پیچھے ہی گندے فرش پر ڈال دیا اور احتیاط سے دروازہ کھول کر باہر آگیا اور دروازہ دھڑ سے بند کر دیا تا کہ اندر پڑی ہوئی کرشمہ کسی کو نظر نہ آسکے۔

یہ سب کچھ ایک منٹ میں ہو گیا تھا۔ دروازے کے اندر کی طرف اب بھی دھکم پیل تھی۔ کچھ اور لوگ اندر گھس آئے تھے اور دو آدمی پائیدان پر بھی کھڑے تھے۔ میں جب بوگی میں سوار ہوا تھا تو  دیوی بھی میرے پیچھے ہی تھی اور اب وہ دھکے کھائی ہوئی دوسرے دروازے کے قریب پہنچ چکی تھی۔

اس وقت انجن کے وسل کی آواز فضا میں گونج اٹھی۔ اس ٹرین میں سفر کرنا اب خطرے سے خالی نہیں تھا۔ کرشمہ کم سے کم ایک گھنٹے سے پہلے ہوش میں نہیں آسکتی تھی اور یہ خطرہ بہر حال تھا کہ کوئی مسافر باتھ روم میں داخل ہونے کے لئے دروازہ کھولنے لگے تو کرشمہ کو دیکھ لیا جائے۔

دیوی سامنے والے دروازے کے قریب کھڑی تھی۔ اس نے تھیلا بھی بغل میں دبا رکھا تھا۔ اس کا واپس آنا ممکن نہیں تھا۔ انجن کے وسل کے بعد کچھ اور لوگ اندر گھسنے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ میں لوگوں کو دھکے دیتا ہوا دیوی کے قریب پہنچ گیا۔ وہ بھی کرشمہ کو دیکھ چکی تھی اور اس وقت اس کا چہرہ دھواں ہو رہا تھا۔ دیوی واحد ہستی تھی جس نے مجھے  کرشمہ کو کھینچتے ہوئے باتھ روم میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ ہجوم میں کسی شخص کو  پتا نہیں چل سکا تھا کہ کیا ڈرامہ ہو چکا ہے۔ البتہ دو آدمیوں نے مجھے باتھ روم سے نکلتے ہوئے ضرور دیکھا تھا اور ان میں سے ایک اب باتھ روم کے دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔

“اتنے رش اور گرمی میں مجھ سے سفر نہیں ہوسکتا۔ میں نے دیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”  میرا اس وقت واقعی دم گھٹ رہا تھا۔ اتر چلو  بھا گوان، کسی دوسری ٹرین سے چلیں گے۔”

“میرا بھی گھٹن کے مارے دم نکلا جارہا ہے۔ چلو اتر و ۔ دیوی نے جواب دیا ۔ ٹھیک اس وقت ٹرین حرکت میں آگئی۔ وہ دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ میں نے  دیوی  کے ہاتھ سے تھیلا لے لیا۔

اترو۔ جلدی کرو۔ “ میں نے کہا۔

دیوی دروازے سے نکل کر پائیدان پر پہنچ گئی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے باہر والے راڈ کو پکڑ لیا تھامگر اس کا منہ پیچھے کی طرف تھا۔

” آگے کی طرف رخ کر کے اتر و ورنہ گر جاؤ گی۔” میں نے کہا۔ یہ میرا زندگی بھر کا مشاہدہ تھا کہ عورتیں ہمیشہ پیچھے کی طرف رخ کر کے بس یا ٹرین سے اترتی تھیں اور اس طرح اکثر عورتوں کو چوٹ بھی لگتی تھی  دیوی  کی سمجھ میں میری بات آگئی۔ اس نے آگے کی طرف رخ کرلیا اور چھلانگ لگادی۔ ساڑھی اس کے پیروں میں الجھ گئی تھی ۔ وہ لڑکھڑائی مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ اس کے پیچھے ہی میں نے بھی چھلانگ لگا دی۔

دوسری پٹری پر ایک مال گاڑی کھڑی تھی ۔ میں نے دیوی کو اشارہ کیا اس کے نیچے سے دوسری طرف نکل چلو۔” میرا خیال تھا کہ ٹرین گزر جانے کے بعد پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے لوگ ہمیں دیکھیں گے تو ہو سکتا ہے کسی کو ہم پر شبہ ہو جائے۔ ویسے بھی میرا اندازہ تھا کہ کرشمہ اور اروند کے ساتھ ان کے کچھ اور ساتھی بھی سٹیشن پر موجود ہوں گے اور ہو سکتا ہے ان میں سے کسی نے دیوی کو ماؤنٹ آبو کے پریم نواس ریسٹورنٹ میں ویٹرس کی حیثیت سے دیکھا ہو۔ ٹرین گزرنے کے بعد ہم پلیٹ فارم پر موجود بہت سے لوگوں کی نظروں میں آسکتے تھے۔ اس لئے میں مال گاڑی کے دوسری طرف نکل جانا چاہتا تھا۔ دوسری طرف ایک اور پلیٹ فارم تھا۔ وہاں بھی کچھ لوگ موجود تھے۔ میں نے پلیٹ فارم پر چڑھ کر دیوی کو بھی اوپر کھینچ لیا اور ایک طرف چلنے لگے۔ ہم پلیٹ فارم پر مخالف سمت میں جارہے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو چونک گیا۔ وہ مسافر ٹرین پلیٹ فارم سے نکل کر تھوڑی دور جانے کے بعد رک گئی۔

ٹرین کیوں رک گئی ۔ دیوی کے لہجے میں تشویش تھی ۔

بڑے سٹیشنوں پر اکثر ایسا ہوتا ہے۔” میں نے جواب دیا۔ کوئی مسافر اپنا سامان پلیٹ فارم پر بھول جاتا ہے اور کوئی اپنا بچہ ،بعض اوقات کوئی مسافر ہی رہ جاتا ہے تو دوسرے ہمدردی میں زنجیر کھینچ کرٹرین رکوا دیتے ہیں ۔ ایسا ہی کوئی مسئلہ ہوا ہو گا۔“

“ایسا تو نہیں کہ کسی مسافر نے باتھ روم میں کرشمہ کو پڑے دیکھ لیا ہو یا وہ خود ہی ہوش میں آگئی ہو۔ دیوی نے کہا۔

وه از خود تو ایک ڈیڑھ گھنٹے سے پہلے ہوش میں نہیں آسکتی ۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ کسی مسافر نے ٹرین روانہ ہوتے ہی باتھ روم جانا چاہا ہو اور کرشمہ اس کی نظروں میں آگئی ہو۔ ممکن ہے اسے لاش ہی سمجھ لیا گیا ہو۔ میں نے کہا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دوبارہ بولا۔ وہ سامنے مال گاڑیوں کے پیچھے کوئی کچی آبادی نظر آرہی ہے ۔ اس آبادی سے نکل کر ہم کسی اور طرف نکل جائیں گے۔ تمہارا اندیشہ غلط نہیں ہوسکتا۔ اس لئےذرا تیز چلو۔

ہم اس پلیٹ فارم کی آخری حد پر ریلوےیارڈ پر پہنچے ہی تھے کہ دائیں طرف ایک مال گاڑی کے نیچے سے وہی عورت نمودار ہوئی جو پلیٹ فارم پر میرے ساتھ بنچ پر بیٹھ گئی تھی اور بعد میں جاتے وقت اس نے عجیب سی نگاہوں سے ہماری طرف دیکھا تھا۔

شریمان جی ۔ اس نے ہماری طرف آتے ہوئے مجھے آواز دی۔ اس طرف جانا  کھترے سے کھالی نہیں ، ادھر کو آ جاؤ۔”

میں چونک گیا۔ اس نے کیسے سمجھ لیا کہ ہم کسی خطرے سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ یہاں تک ہمارے پیچھے کیسے آگئی تھی۔ میں رک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ جیسےیہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہاں ہمارے علاوہ کوئی اور بھی ہے اور اس عورت نے اس کو پکارا تھا۔

میں نے آپ ہی کو آواز دی ہے شریمان جی اور شریمتی جی۔ ” اس نے باری باری ہم دونوں کی

طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ادھر کو آ جاؤ۔”

میں نے دیوی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں بھی الجھن تھی ۔ ایک لمحہ کو میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا تھا کہ وہ کرشمہ کی ساتھی تو نہیں لیکن اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا اگر وہ کرشمہ کی ساتھی ہوتی اور اس نے ہم میں سے کسی کو پہچان لیا تھا تو ہمیں پلیٹ فارم پر بنچ سے اٹھنے کا موقع نہ ملتا۔ ہم دونوں اس کے قریب آگئے۔

میرا  نام گیتا ہے، مجھے اپنا ہمدرد سمجھو ۔ اس نے باری باری ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ تھی۔ میں نے جب تم دونوں کو پلیٹ فارم پر دیکھا تھا تو اس وقت سمجھ گئی تھی کہ کوئی گڑبڑ ہے اور نجانے مجھے یہ وشواس بھی کیوں تھا کہ تم لوگ اس ٹرین سے رہ جاؤ گے اور میرا اندازہ درست نکلا۔ ٹرین جانے کے بعد میں نے تم دونوں کو دوسری  پٹری پر مال گاڑی کے نیچے سے گزرتے ہوئے دیکھا تو میں سمجھ گئی کہ تم لوگوں کو اس وقت کسی مدد کی ضرورت ہے۔ اس لئے میں بھی اس پلیٹ فارم سے اتر کر اس مال گاڑی کے پیچھے چلتی رہی۔ اب وہ ٹرین بھی رک گئی ہے۔ کسی نے زنجیر کھینچ دی ہے۔ کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے؟ اس کا پتا تو بعد میں چل جائے گا۔ فی الحال تو تم لوگوں کو ایسی جگہ کی ضرورت ہے جہاں محفوظ رہ سکو ۔ میرے ساتھ آؤ۔

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page