Smuggler –239–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 239

میں نے اور دیوی نے ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل پڑے۔ ہم مال گاڑیوں کے نیچے سے گزرتے ہوئے وہاں سے کسی قدر دور ریلوےیارڈ سے باہر آگئے۔ یہاں ریلوے لائن اور سڑک کے درمیان کی جگہ پر بیس پچیس جھونپڑے بنے ہوئے تھے۔ یہ بھیل خانہ بدوش تھے جو ہر جگہ کو اپنی ملکیت سمجھ کر جھونپڑے ڈال لیتے تھے۔ ہم لوگ جھونپڑوں سے نکل کر سڑک کے کنارے پر آگئے۔ دائیں طرف ریلوے سٹیشن تھا اور بائیں طرف کافی آگے ایک چوراہا تھا۔

تم لوگ یہاں رکھو۔ میں گاڑی لے کر آتی ہوں۔ “گیتا نے کہا۔

ہم ایک جھونپڑے کی آڑ میں کھڑے ہو گئے۔ جھونپڑوں کے درمیان کھلی جگہ پر ایک گنجان شاخوں والا درخت تھا جس کے سائے میں بیٹھی ہوئی بھیل عورت مشکوک سی نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہی تھی ۔ مجھے تو یہ عورت کچھ مشتبہ ہی لگتی ہے۔ ایسا نہ ہو کسی مصیبت میں پھنس جائیں ۔ بہتر ہوگا کہ یہاں سے کسی طرف بھاگ چلو ۔ “دیوی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

مشتبہ تو مجھے بھی لگتی ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کا تعلق کرشمہ سے نہیں ہوسکتا۔ میں نے کہا۔ اگر ٹرین کرشمہ کی وجہ سے رکی ہے تو سمجھو کہ اس علاقے میں بہت بڑا طوفان آنے والا ہے۔ ہم اگر یہاں سے بھاگ بھی لیں تو زیادہ دور نہیں جاسکیں گے۔ ہمیں کسی محفوظ جگہ کی ضرورت ہے اور ایسی جگہ ہمیں یہ گیتا ہی فراہم کرسکتی ہے۔ یہ کون ہے اور اسے یکایک ہم سے ہمدردی کیوں ہوگئی ہے۔ اس کا بھی پتا چل جائے گا۔ اگر اس نے ہمارے ساتھ کوئی دھوکا کرنے کی کوشش کی تو یہ زندہ نہیں بچ سکے گی۔”

ہم ان جھونپڑوں کے پاس تقریباً دس منٹ تک کھڑے رہے۔ اس دوران دیوی نے ایک بھیل عورت سے پانی لے کر بھی پیا تھا۔ وہ عورت اپنے آپ کو اچھوت سمجھتے ہوئے پانی دینے میں کچھ پس و پیش کر رہی تھی مگر جب دیوی نے کہا کہ وہ کسی ذات کو اچھوت نہیں سمجھتی تو اس عورت نے ایلومنیم کے کٹورے میں مٹکے سے پانی بھر کر دے دیا۔ اسی کٹورے میں سے چند گھونٹ میں نے بھی پئے تھے۔

جس جگہ ہم کھڑے تھے وہاں دھوپ تھی۔ پسینے سے میری قمیص جسم سے چپک گئی تھی۔ ان بھیل عورتوں نے ہمیں کہا بھی تھا کہ ہم درخت کے سائے میں کھڑے ہو جائیں مگر ہم نے اس جگہ پر کھڑے ہونے کو ترجیح دی  جہاں گیتا  ہمیں چھوڑ کر گئی تھی۔

سڑک پر ٹریفک کی آمدورفت جاری تھی۔ دس منٹ بعد سلور کلر کی ایک مرسڈیز جھونپڑوں کے سامنے آکر رکی تو میں نے اور دیوی نے معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ مرسڈیز کے اسٹیئرنگ کے ساتھ ہم دونوں نے گیتا کو بیٹھےہوئے دیکھ لیا تھا۔ کار میں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ کار ایئر کنڈیشنڈ تھی کیونکہ اس کے تمام شیشے چڑھے ہوئے تھے۔ آگے والی کھڑکی کا شیشہ آدھا نیچے سرک گیا اور گیتا نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے آواز دی۔

آجاؤ شریمان جی۔

میں اور دیوی کار کی طرف بڑھ گئے۔ پچھلا دروازہ کھول کر پہلے میں اندر داخل ہوا اور پھر دیوی  بیٹھ گئی اور دروازہ بند کر دیا۔ کار میں بیٹھتے ہی یوں لگا تھا جیسے ہم جہنم سے نکل کر جنت میں آگئے ہوں۔ کار کا ایئر کنڈیشنر فل اسپیڈ پر چل رہا تھا۔

 بڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے شریمان جی ۔ گیتا نے کار کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ” میں ٹرین رکنے کی وجہ معلوم کرنے کے لئے رک گئی تھی۔ اس لئے دیر ہوگئی۔ ٹرین پلیٹ فارم پر واپس آگئی ہے اور شاید اب اس کی روانگی میں دو چار گھنٹوں کی تاخیر ہوجائے۔ ٹرین کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیرلیا ہے اور کسی مسافر کو نیچے اترنے کی اجازت نہیں۔

” کیوں کیا ہوا؟” میں نے اپنی اندرونی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔ ٹرین میں ڈاکو گھس گئے ہیں کیا ؟”

معاملہ اس سے بھی زیادہ کھتر ناک لگتا ہے۔گیتا نے سامنے لگے ہوئے آئینے کا زاویہ درست کرتے ہوئے کہا۔ ٹرین کی نو نمبر بوگی کے ٹائلٹ سے ایک عورت بے ہوش پڑی ہوئی ملی ہے۔ اسے شاید گلا گھونٹ کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر وہ جو کوئی بھی تھا اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔

” کاش! میں نے کرشمہ کا گلا گھونٹ کر مار ہی دیا ہوتا ۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا اور گیتا کی بات پر غور کرنے لگا۔ اس نے بات کرتے ہوئے نو نمبر بوگی پر خاصا زور دیا تھا۔ اس سے مجھے اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ اس نے ہمیں اس بوگی میں سوار ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔

وہ کون تھا، پکڑا گیا ؟ میں نے کہا اور جواب کا انتظار کئے بغیر بولا ۔ وہ عورت کون ہے؟ کیا وہ آدمی اسے لوٹنا چاہتا تھا یا ریپ کرنا چاہتا تھا۔ آج کل ٹرینوں میں عورتوں کے ساتھ ایسی بہت سی وارداتیں ہو رہی ہیں۔

تم نے ایک دم سے کئی سوال کر ڈالے۔گیتا نے سامنے لگے ہوئے آئینے میں میرے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ” اس عورت کے ساتھی بھی اسٹیشن پر موجود ہیں۔ وہ مقامی پولیس کو بتا چکے ہیں کہ کرشمہ نام کی وہ عورت سرکار میں ایک بہت بڑے عہدے پر ہے۔ اتنے بڑے عہدے پر کہ اگر وہ چاہے تو چیف منسٹر بھی اس کے پیر چاٹنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ وہ عورت ابھی ہوش میں نہیں آئی تھی ۔ میں زیادہ دیر وہاں نہیں رکی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اس کے ہوش میں آنے کے بعد ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوگا اور پھر تم لوگوں کے لئے یہاں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔”

” کیوں؟ ہمیں کیوں مشکل پیش آئے گی۔ کرشمہ نام کی اس عورت سے ہمارا کیا تعلق ہوسکتا ہے؟

میں نے دل کی دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

“تمہارا کرشمہ نام کی اس عورت سے کوئی تعلق نہ بھی ہو لیکن بہت سے لوگ بتا سکتے ہیں کہ تم لوگ بھی نو نمبر بوگی میں سوار ہوئے تھے ۔ ہوسکتا ہے میری طرح کسی اور نے بھی تمہیں دوسری طرف ٹرین سے اترتے ہوئے دیکھ لیا ہو۔ اس بوگی کے مسافر تو یہ بتاہی سکتے ہیں کہ تم لوگ ٹرین چلنے کے بعد اس بوگی سے اتر گئےتھے۔

“اوہہہہہ”۔ میرے منہ سے گہرا سانس نکل گیا۔ گیتا بہت گہری اور ذہین عورت تھی۔ اس کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا تھا کہ اس نے ہمیں پلیٹ فارم پر ہی تاڑ لیا تھا کہ ہم کسی پریشانی میں مبتلا ہیں اور وہ شاید میرے پاس بنچ پر بیٹھی بھی اس لئے تھی کہ باتوں کا سلسلہ شروع کرتی اور ہمارے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتی لیکن اسی وقت ٹرین آگئی تھی اور ہم بنچ سے اٹھ گئے تھے مگر اس نے ہمیں نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا تھا۔

 اس نے پلیٹ فارم پر ہماری نگرانی کیوں شروع کی تھی اور ہماری مدد کو ریلوےیارڈ میں کیوں پہنچ گئی تھی؟ اس کا پتا تو بعد میں چلتا لیکن مجھے کچھ ہلکا سا اندازہ تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ  دیوی کے چکر میں تھی۔ دیوی کم بخت تھی ہی ایسی حسین کہ۔۔۔۔ خوامخواہ اس کی طرف دیکھتے رہنے کو دل چاہتا تھا۔  

 جاری ہے  اگلی قسط بہت جلد

کہانیوں کی دنیا ویب  سائٹ پر اپلوڈ کی جائیں گی 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page