Smuggler–53–سمگلر قسط نمبر

سمگلر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا  کہانی سمگلر

سمگلر۔۔  ایکشن ، سسپنس  ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی  ہے ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی  کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو  کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سمگلر قسط نمبر- 53

کار کا انجن اچانک ہی ہچکولے کھانے لگا۔ میں نے گیئر بدل بدل کر اس کا ردھم برقرار رکھنے کی کوشش کی۔مگر کامیاب نہ ہو سکا اور پھر فیول بتانے والے ڈائل پر نظر پڑتے ہی میرے منہ سے گہرا سانس نکل گیا۔ پٹرول ختم ہو چکا تھا۔ میں نے کار روک لی اور اپنے زخمی بازو کو دیکھنے لگا۔ خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ میں نے جس کپڑے سے پٹی باندھی تھی وہ بہت ہی غلیظ اور گندہ تھا۔ وہ کپڑا دراصل میں نے اندھیری گلی میں چلتے ہوئے زمین سے اٹھایاتھا اگر روشنی میں اس کپڑے کو دیکھا ہوتا تو اسے چھونا بھی پسند نہ کرتا ۔

کار کے ڈیش بورڈ والے خانے میں پیلے رنگ کا فلالین کا ایک ڈسٹر رکھا ہوا تھا وہ ڈیش بورڈ وغیرہ صاف کرنے کے لیے تھا اور اتنا بڑا نہیں تھا کہ پٹی باندھنے کے کام آ سکتا۔

میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ سیٹ کے نیچے ایک اور کپڑا مل گیا جو خاصا بڑا تھا، میں نے بازو پر بندھی ہوئی پٹی کھول کر وہ گندہ کپڑا کار سے باہر پھینک دیا اور دوسرا کپڑا بازو پر لپیٹنے لگا۔ میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں اور دانتوں سے گرہ لگا رہا تھا کہ پیچھے آنے والی ایک کار بڑی تیز رفتاری سے میرے قریب سے گزر گئی، لیکن تقریبا  پچاس گز آگے جا کر وہ کار بریکوں کی تیز چرچراہٹ کی آواز سے رک گئی۔ میں چونک کر اس کی طرف دیکھا، اس کار کے اندر کی بتی جل رہی تھی۔ اس میں دو آدمی نظر آرہے تھے۔ ایک ڈرائیو ، ڈرائیونگ سیٹ پر اور دوسرا اس کے ہاتھ والی سیٹ پروہ دونوں پیچھے مڑ کر دیکھ رہے تھے اور پھر وہ کاربڑی تیزی سے ریورس گیئر میں پیچھے آنے لگی۔

میری چھٹی حس نے فورا ہی خطرے کی گھنٹی بجادی۔ میں کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترا اور پہاڑی والےمندر کی طرف دوڑ لگا دی۔ بائیں طرف والی پہاڑی پر کسی قسم کی آبادی نہیں تھی مگر مندر والی پہاڑی پر لا تعداد مکان بھی تھے اور جانے کے لیے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دوسڑکیں تھیں۔ میں جس سڑک پر دوڑ  رہا تھا اس کے دونوں طرف مکان تھے۔

اے رک جاؤ ورنہ گولی مار دوں گا۔

پیچھے سے ایک گونجتی ہوئی آواز سنائی دی۔ میں نے ایک مرتبہ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ کار میرے والی کارسے چند گز کے فاصلے پر رک چکی تھی اور دونوں آدمی نیچے اتر آئے تھے انہیں میں سے ایک نے مجھے للکارا تھا۔ میں دوڑتا رہا۔ بتدریج بلندی کی طرف دوڑتے ہوئے میرا سانس پھولنے لگا، لیکن رکنے کا مطلب اپنےآپ کو موت کے حوالے کرنا تھا اس آدمی نے ایک مرتبہ وارننگ دینے کے بعد گولی چلا دی تھی۔ قسمت اچھی تھی گولی میرے سرسے چند انچ کے فاصلے سے گزرگئی میں نے مکانوں کے بیچ ایک تنگ سی گلی میں چھلانگ لگا دی اور دوڑتا چلاگیا میں ایک بار پھر کشادہ گلی میں نکل آیا اور پھر اچانک ہی دائیں طرف سے دوڑتا ہوا ایک آدمی سامنےآگیا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا وہ بھی مجھے اچانک اپنے سامنے دیکھ کر ٹھٹکا۔ میرے اور اس کے درمیان تین چارفٹ کا فاصلہ تھا اس نے ریوالور والا ہاتھ اوپر اٹھایا۔ موت آنکھوں کے سامنے ہو تو بزدل سے بزدل آدمی کے دل میں بھی تھوڑا بہت حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔

اور میں تو بہت عرصہ سے موت سے پنجہ آزمائی کر رہا تھا۔ اب میں موت سے نہیں ڈرتا تھا اور ویسے بھی میں نے اصول اپنا رکھا تھا کہ خود زندہ رہنا ہے تو اپنے دشمنوں کو ختم کر دو۔

میں اپنی جگہ کھڑے کھڑے طاقتور اسپرنگ کی طرح اچھلا اور اس سے پہلے کہ وہ شخص گولی چلاتا ہیں؟

میں اڑتا ہوا اس شخص کے اوپر گرا اور اسے ساتھ لیتا ہوا ز مین پر ڈھیر ہو گیا۔ ریوالور اس شخص کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا تھا۔ اس شخص نے سنبھلتے ہی ریوالور کی طرف چھلانگ لگادی ۔ شاید وہ ریوالور ہی کو اپنی زندگی کی ضمانت سمجھتا تھا، لیکن میں نے اسے ریوالور تک پہنچنے کا موقع نہیں دیا۔ میرےپیر کی ٹھو کر کچھ اس زورسے اس کے سر پر لگی کہ وہ بلبلاتا ہوا دور جا گرا اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھاما تھا۔ میں نے دوسری ٹھو کر رسید کر دی۔ یہ ٹھو کر اس کی پسلیوں پر لگی تھی وہ پیچھے الٹ گیا میں نے لپک کر ریوالور  اٹھائی۔

اور گلی میں دوڑ لگا دی میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اس پر ہاتھوں، پیروں کی پریکٹس کرتا رہتا اور پھر یہ اندیشہ بھی کہ اس کا دوسرا ساتھی بھی کسی لمحہ یہاں پہنچ جائے گا اور پھر میرے لیے اپنے آپ کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔یہ راستہ ذرا سا گھوم کر مجھے مندر کے دروازے کی طرف لے گیا۔ گلی کے اختتام پر کچھ کھلی جگہ تھی۔ دائیں طرف ایک سنگل سٹوری چھوٹی سی عمارت تھی۔ اس سے آگے ملی ہوئی عمارت دو منزل تھی۔ اس کے ساتھ ہی ملی ہوئی دومنزلی اوپر جانے کے لیے کشادہ سیڑھیاں تھیں جن پر تین کا سائبان سا بنا ہوا تھا

سیڑھیوں کے بائیں طرف ایک اور دیوار سی اٹھی ہوئی تھی جس کے دوسری طرف کھڈ وغیرہ تھے جن میں چند درخت اور جھاڑیوں کی بھر مارتھی اور مندر کی سیڑھیوں پر اکا دکا لوگوں کی آمد ورفت تھی میں سیڑھیوں پر دوڑتا چلا گیا۔

سیڑھیوں کے اختتام پر  بہت بڑا ہال تھا جہاں کچھ لوگ نظر آ رہے  تھے میں دائیں طرف دوڑتا چلا گیا اور پھر ایک جگہ رک کر ادھر ادھردیکھنے لگا.

جیسے کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہ جین مندرساتھ ساتھ جڑی ہوئی کئی عمارتوں پر مشتمل پہاڑی سلسلے پر دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور وہ عمارتیں بتدریج بلند ہوتی چلی گئی تھیں۔ باہر سے تو لگتا تھا جیسے ایک دوسرے سے ملی ہوئی سفید رنگ کی وہ عمارتیں الگ الگ ہوں مگر وہ ساری عمارتیں ایک ہی تھیں۔ اندر سے یہ مندر عجیب سی   بھول بھلیوں کا منظر پیش کر رہا تھا کسی اجنبی کے لیے یہ اندازہ لگانا دشوار تھا کہ کون سا راستہ کس طرف جاتا ہے۔ مندر میں اس وقت زیادہ لوگ نہیں تھے، میں وہاں کھڑا ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس مندر کے دوسری طرف نکلنے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ تو ضرور ہوگا، لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مجھے کس طرف جاناچاہئے۔

چند گز دور کھڑا ہوا ایک پجاری میرا حلیہ اور میرے ہاتھ میں ریوالور دیکھ کر چیخ اٹھا۔ او مورکھ ہے ۔

میں اس کی پوری بات نہ سن سکا۔ مندر کے داخلی راستے کی طرف کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی۔ ایک عورت کی چیخ سنائی دی۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے آگے کی طرف دوڑ لگا دی۔ داخلی راستے کی طرف سے بھی دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز میں سنائی دے رہی تھیں۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page