کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔ شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر۔۔ ہندو دیومالئی کہانیوں کے شوقین حضرات کے لیئے جس میں ماروائی طاقتوں کے ٹکراؤ اور زیادہ شکتی شالی بننے کے لیئے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا، جنسی کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔
ایک ایسے لڑکے کی کہانی جسے ایک معجزاتی پتھر نے اپنا وارث مقرر کردیا ، اور وہ اُس پتھر کی رکھوالی کرنے کے لیئے زمین کے ہر پرت تک گیا ۔وہ معجزاتی پتھر کیاتھا جس کی رکھوالی ہندو دیومال کی طاقت ور ترین ہستیاں تری شکتی کراتی تھی ، لیکن وہ پتھر خود اپنا وارث چنتا تھا، چاہے وہ کوئی بھی ہو،لیکن وہ لڑکا جس کے چاہنے والوں میں لڑکیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جاتی ، اور جس کے ساتھ وہ جنسی کھیل کھیلتا وہ پھر اُس کی ہی دیوانی ہوجاتی ،لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد اُس کو خود معلوم نہیں تھی،اور اُس کی اتنی بیویاں تھی کہ اُس کے لیئے یاد رکھنا مشکل تھا ، تو بچے کتنے ہونگے (لاتعدا)، جس کی ماروائی قوتوں کا دائرہ لامحدود تھا ، لیکن وہ کسی بھی قوت کو اپنی ذات کے لیئے استعمال نہیں کرتا تھا، وہ بُرائی کے خلاف صف آرا تھا۔
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
Raas Leela–10– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–09– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–08– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–07– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–06– راس لیلا
October 11, 2025 -
Strenghtman -35- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر
October 11, 2025
شکتی مان پراسرار قوتوں کاماہر -- 09
اسے اپنی گانڈ میں اندر بارہ ہونے والا لنڈ تھوڑا اور پھول کر موٹا ہوتا محسوس ہو رہا تھا اور ایک دم اسے اپنی گانڈ میں گرم گرم منی کی بوندوں کی بوچھاڑ محسوس ہونے لگی۔ اس موٹے تگڑے لنڈ نے اس کی گانڈ میں اتنا پانی چھوڑا تھا کہ اس کی گانڈ کے اندر بھر کر کچھ اس کی گانڈ سے نیچے ٹپک رہا تھا۔ جب اس آدمی نے اپنا لنڈ اس کی گانڈ سے باہر نکالا تو وہ بستر پر گر گئی اور اس کی گانڈ سے پانی نکل کر بستر پر گرنے لگا تھا۔
اُس آدمی نے پہلے باتھ روم میں جا کر پیشاب کیا، اپنے لنڈ کو دھویا اور کپڑے پہن کر بستر پر آ کر اس عورت کے بالوں کو پیار سے سہلانے لگا۔ اس عورت نے اُس آدمی کے ہاتھوں کو پکڑا اور پیار سے چوم لیا۔ بعد میں وہ بستر سے اٹھ کر دھیرے دھیرے قدموں سے باتھ روم جا کر نہا دھو کر باہر آئی اور اپنے کپڑے پہن کر پانی پینے لگی۔ اس نے اس آدمی کو بھی پینے کے لیے پانی دیا اور اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔
اس آدمی نے اس عورت سے پوچھا: “کامنی، تم آج کھانا کھا کر سو جاؤ، میں رات کو آج جگت رام سے ملنے مندر جانے والا ہوں۔”
وہ بولی: “ٹھیک ہے، لیکن جلدی آنا وجے جی، آپ کو پتا ہے کہ اس گھر کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے۔ ہمیں کچھ دن یہاں رہنا ہے۔ اگر سلطان بھائی کو پتا چلا تو وہ ناراض ہو جائے گا کہ آپ اس کے بغیر گاؤں میں گئے تھے۔ وہ آپ سے کچھ نہیں کہے گا، لیکن مجھ سے جھگڑا کرنے لگے گا کہ میں نے آپ کو کیسے جانے دیا۔”
“بھیما گاڑی لے کر باہر آیا ہے، تم فکر مت کرو۔ سلطان کو بتائے بغیر بھیما نہیں آیا ہوگا۔
منو کے بارے میں سوچ کر مجھے بہت دُکھ ہو رہا ہے۔ اس کی دکھ سے بھری آنکھیں دیکھ کر دل کرتا ہے کہ اسے جا کر بول دوں کہ اس کے ماں باپ مرے نہیں، زندہ ہیں، لیکن تیری قسم نے مجھے روک رکھا ہے۔”
“کامنی، میں نے یہ سب اپنے لیے نہیں، اپنے بچوں کی جان بچانے کے لیے ہی کیا ہے۔ اگر ہم دونوں کے زندہ ہونے کی بات ہمارے دشمنوں کو معلوم ہوئی تو سب کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔”
“آپ جلدی کچھ کیجیے وجے جی، میں اپنے بچوں سے زیادہ دن دور نہیں رہ سکتی۔ جگت بھیا تو کتنے گرنتھوں کو پڑھے ہیں، انہیں تو معلوم ہی ہوگا نا کہ مندر میں ایسی کون سی معجزاتی چیز ہے، جس کے پیچھے ہمارے دشمن پڑے ہیں؟”
“نہیں کامنی، اسے بھی کچھ معلوم نہیں ہے۔ اس کے بارے میں صرف ہمارے والد اور جگت کے والد ہی جانتے تھے۔ انہوں نے بس اس سے نکلنے والا پانی ہی ہم دونوں کو پلایا تھا، تاکہ جب تک اس چیز کا اصلی مالک نہیں آتا، تب تک ہم دونوں اس کی حفاظت کر سکیں۔ اس سے نکلنے والے پانی سے ہم دونوں میں کتنے بدلاؤ آئے، یہ تم نے دیکھا ہے نا۔ آج بھی تم اور میں دادا دادی بننے کے بعد بھی جوان کے جوان ہیں۔ ہمارے برابر کی عمر والے اب بوڑھے نظرآنے لگ گئے ہیں بلکہ بوڑھے ہی ہوگئے ہیں ، لیکن ہم اب تک جوان ہیں ۔”
“وجے جی، ہم دونوں کی خوبیاں ہمارے بچوں میں کیا نہیں آئیں، یہ بات میں سمجھ نہیں پائی۔”
“کامنی، یہ بات آج تک میں بھی سمجھ نہیں پایا اور جو یہ بات جانتے تھے، وہ اب ہمارے بیچ نہیں رہے۔”
“آپ کو کچھ یاد تو ہوگا نا کہ آپ کو وہ پانی مندر میں ہمیں دینے کے لیے والد نے کہاں سے لاکر دیا تھا ؟”
“نہیں کامنی، میں تو تمہارے ساتھ ہی تھا مندر میں، والد اکیلے ہی گئے تھے۔”
“آپ کے والد نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ معجزاتی چیز کیا ہے؟”
“نہیں کامنی، کبھی نہیں بتائی یہ بات، اور میں تمہیں کئی بار یہ سب بتا بھی چکا ہوں۔”
“اچھا، ٹھیک ہے، میں کھانا بناتی ہوں، آپ آرام کیجیے تب تک، اور بھیما کو بھی کھانے کے لیے اندر بلا لیجیے۔”
کامنی نے جلدی سے کھانا بنا دیا۔ بھیما کے ساتھ وجے جی نے مل کر باتیں کرتے ہوئے تینوں نے مل کر کھانا کھایا۔ وجے جی بھیما کو لے کر نکل گئے۔ کامنی کچن میں سب کام سمیٹ کر اپنے کمرے میں بستر پر آ کر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اسے نیند تو آنے والی نہیں تھی جب تک وجے جی گھر پر صحیح سلامت نہیں آ جاتے، اسے چین نہیں آنے والا تھا۔
کامنی اپنے بیٹوں سے بہت پیار کرتی تھی۔ تینوں کو بڑے لاڈ پیار سے اس نے بڑا کیا تھا۔ اس نے اور وجے جی نے مل کر انہیں اچھے سنسکار دیے تھے۔ ان کے بیٹے بھی اپنے ماں باپ کے عادات پر ہی گئے تھے۔ نہ انہیں اپنے پیسے کا گھمنڈ تھا، نہ کوئی بری عادت تھی ان میں۔ تینوں بیٹوں کی ایک دوسرے میں جان بستی تھی۔ مکیش کی شادی شانتی سے انہوں نے ہی کروائی تھی، جو ان کی سہیلی شوبھا کی بیٹی تھی۔ شانتی بھی ایک اچھی لڑکی تھی۔اور کامنی اسے کسی بہو کی طرح نہیں ، اپنی بیٹی کی طرح سمجھ کر پیار کرتی تھی ۔ شادی کے کچھ دنوں کے اندر ہی شانتی خاندان کا ایک اٹوٹ حصہ بن گئی تھی۔ ملند اور منو کو اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح پیار دیتی تھی۔ جب اس نے پونم کو جنم دیا تھا تو کامنی کو لگا جیسے وہ خود ماں بن گئی ہو۔ پونم کو تو وہ ہر وقت اپنے پاس ہی رکھتی تھی۔ لیکن جب وجے جی نے بتایا کہ انہیں اپنی موت کا ناٹک کر کے خاندان سے دور رہنا ہوگا تو انہیں بہت برا لگا تھا۔ لیکن وجے جی کا فیصلہ انہیں ماننا ہی پڑا تھا۔
آج تک وجے جی نے بہت سی باتیں اپنے بیٹوں سے چھپا کر رکھی تھیں۔ ان کے خاندان پر بہت بار حملے کرنے کی کوششیں ہوئی تھی، لیکن وجے جی نے سب کو ناکام بنا کر حملہ کرنے والوں کو مار دیا تھا۔ ان کے خاندان پر ہونے والے ہر خطرے کو انہوں نے پہلے ہی بھانپ کر مٹا دیا تھا۔ ان کے بیٹے بھی کوئی ڈرپوک نہیں تھے، وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ اپنے باپ کی طرح وہ بھی کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ ان کے خون میں بھی باپ کی طرح گرمی اور جوش تھا۔ ایک وقت میں دس آدمیوں کو ایک ساتھ مارنے کی قابلیت ان میں بھی تھی۔ بچپن سے وجے جی نے محنت کر کے انہیں اس قابل بنایا تھا کہ وہ کسی بھی خطرے کا سامنا آسانی سے کر سکیں۔ لڑائی کا ہر طریقہ سکھا کر انہیں کسی فولاد کی طرح ہی بنایا تھا۔ ان کے اندر کے دم خم کو پرکھنے کے لیے ہر سال گاؤں میں ماتا کے مندر میں کشتی کا دنگل ہوتا تھا۔ اس میں حصہ لے کر وہ بڑے سے بڑے پہلوانوں کو دھول چٹھاتے تھے۔ پچھلے 100 سالوں سے گاؤں میں میلہ ہوتارہا تھا اور اس میلے میں پورے ہماچل سے لوگ آتے تھے۔ ماتا کے مندر کے پاس نورتری کی بہت بڑی پوجا ہوتی تھی۔ اس پوجا میں حصہ لینے اور ماتا کا آشیرواد لینے ہزاروں لوگ وہاں آتے تھے۔ بھوانی ماتا کا مندر تو بہت پرانا تھا، وہ کب بنا، یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ کم از کم 400 سال پرانا یہ مندر ہے، لیکن یہ بات بھی ایک افواہ ہی تھی۔
اسے اپنی گانڈ میں اندر بارہ ہونے والا لنڈ تھوڑا اور پھول کر موٹا ہوتا محسوس ہو رہا تھا اور ایک دم اسے اپنی گانڈ میں گرم گرم منی کی بوندوں کی بوچھاڑ محسوس ہونے لگی۔ اس موٹے تگڑے لنڈ نے اس کی گانڈ میں اتنا پانی چھوڑا تھا کہ اس کی گانڈ کے اندر بھر کر کچھ اس کی گانڈ سے نیچے ٹپک رہا تھا۔ جب اس آدمی نے اپنا لنڈ اس کی گانڈ سے باہر نکالا تو وہ بستر پر گر گئی اور اس کی گانڈ سے پانی نکل کر بستر پر گرنے لگا تھا۔
اُس آدمی نے پہلے باتھ روم میں جا کر پیشاب کیا، اپنے لنڈ کو دھویا اور کپڑے پہن کر بستر پر آ کر اس عورت کے بالوں کو پیار سے سہلانے لگا۔ اس عورت نے اُس آدمی کے ہاتھوں کو پکڑا اور پیار سے چوم لیا۔ بعد میں وہ بستر سے اٹھ کر دھیرے دھیرے قدموں سے باتھ روم جا کر نہا دھو کر باہر آئی اور اپنے کپڑے پہن کر پانی پینے لگی۔ اس نے اس آدمی کو بھی پینے کے لیے پانی دیا اور اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔
اس آدمی نے اس عورت سے پوچھا: “کامنی، تم آج کھانا کھا کر سو جاؤ، میں رات کو آج جگت رام سے ملنے مندر جانے والا ہوں۔”
وہ بولی: “ٹھیک ہے، لیکن جلدی آنا وجے جی، آپ کو پتا ہے کہ اس گھر کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے۔ ہمیں کچھ دن یہاں رہنا ہے۔ اگر سلطان بھائی کو پتا چلا تو وہ ناراض ہو جائے گا کہ آپ اس کے بغیر گاؤں میں گئے تھے۔ وہ آپ سے کچھ نہیں کہے گا، لیکن مجھ سے جھگڑا کرنے لگے گا کہ میں نے آپ کو کیسے جانے دیا۔”
“بھیما گاڑی لے کر باہر آیا ہے، تم فکر مت کرو۔ سلطان کو بتائے بغیر بھیما نہیں آیا ہوگا۔
منو کے بارے میں سوچ کر مجھے بہت دُکھ ہو رہا ہے۔ اس کی دکھ سے بھری آنکھیں دیکھ کر دل کرتا ہے کہ اسے جا کر بول دوں کہ اس کے ماں باپ مرے نہیں، زندہ ہیں، لیکن تیری قسم نے مجھے روک رکھا ہے۔”
“کامنی، میں نے یہ سب اپنے لیے نہیں، اپنے بچوں کی جان بچانے کے لیے ہی کیا ہے۔ اگر ہم دونوں کے زندہ ہونے کی بات ہمارے دشمنوں کو معلوم ہوئی تو سب کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔”
“آپ جلدی کچھ کیجیے وجے جی، میں اپنے بچوں سے زیادہ دن دور نہیں رہ سکتی۔ جگت بھیا تو کتنے گرنتھوں کو پڑھے ہیں، انہیں تو معلوم ہی ہوگا نا کہ مندر میں ایسی کون سی معجزاتی چیز ہے، جس کے پیچھے ہمارے دشمن پڑے ہیں؟”
“نہیں کامنی، اسے بھی کچھ معلوم نہیں ہے۔ اس کے بارے میں صرف ہمارے والد اور جگت کے والد ہی جانتے تھے۔ انہوں نے بس اس سے نکلنے والا پانی ہی ہم دونوں کو پلایا تھا، تاکہ جب تک اس چیز کا اصلی مالک نہیں آتا، تب تک ہم دونوں اس کی حفاظت کر سکیں۔ اس سے نکلنے والے پانی سے ہم دونوں میں کتنے بدلاؤ آئے، یہ تم نے دیکھا ہے نا۔ آج بھی تم اور میں دادا دادی بننے کے بعد بھی جوان کے جوان ہیں۔ ہمارے برابر کی عمر والے اب بوڑھے نظرآنے لگ گئے ہیں بلکہ بوڑھے ہی ہوگئے ہیں ، لیکن ہم اب تک جوان ہیں ۔”
“وجے جی، ہم دونوں کی خوبیاں ہمارے بچوں میں کیا نہیں آئیں، یہ بات میں سمجھ نہیں پائی۔”
“کامنی، یہ بات آج تک میں بھی سمجھ نہیں پایا اور جو یہ بات جانتے تھے، وہ اب ہمارے بیچ نہیں رہے۔”
“آپ کو کچھ یاد تو ہوگا نا کہ آپ کو وہ پانی مندر میں ہمیں دینے کے لیے والد نے کہاں سے لاکر دیا تھا ؟”
“نہیں کامنی، میں تو تمہارے ساتھ ہی تھا مندر میں، والد اکیلے ہی گئے تھے۔”
“آپ کے والد نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ معجزاتی چیز کیا ہے؟”
“نہیں کامنی، کبھی نہیں بتائی یہ بات، اور میں تمہیں کئی بار یہ سب بتا بھی چکا ہوں۔”
“اچھا، ٹھیک ہے، میں کھانا بناتی ہوں، آپ آرام کیجیے تب تک، اور بھیما کو بھی کھانے کے لیے اندر بلا لیجیے۔”
کامنی نے جلدی سے کھانا بنا دیا۔ بھیما کے ساتھ وجے جی نے مل کر باتیں کرتے ہوئے تینوں نے مل کر کھانا کھایا۔ وجے جی بھیما کو لے کر نکل گئے۔ کامنی کچن میں سب کام سمیٹ کر اپنے کمرے میں بستر پر آ کر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اسے نیند تو آنے والی نہیں تھی جب تک وجے جی گھر پر صحیح سلامت نہیں آ جاتے، اسے چین نہیں آنے والا تھا۔
کامنی اپنے بیٹوں سے بہت پیار کرتی تھی۔ تینوں کو بڑے لاڈ پیار سے اس نے بڑا کیا تھا۔ اس نے اور وجے جی نے مل کر انہیں اچھے سنسکار دیے تھے۔ ان کے بیٹے بھی اپنے ماں باپ کے عادات پر ہی گئے تھے۔ نہ انہیں اپنے پیسے کا گھمنڈ تھا، نہ کوئی بری عادت تھی ان میں۔ تینوں بیٹوں کی ایک دوسرے میں جان بستی تھی۔ مکیش کی شادی شانتی سے انہوں نے ہی کروائی تھی، جو ان کی سہیلی شوبھا کی بیٹی تھی۔ شانتی بھی ایک اچھی لڑکی تھی۔اور کامنی اسے کسی بہو کی طرح نہیں ، اپنی بیٹی کی طرح سمجھ کر پیار کرتی تھی ۔ شادی کے کچھ دنوں کے اندر ہی شانتی خاندان کا ایک اٹوٹ حصہ بن گئی تھی۔ ملند اور منو کو اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح پیار دیتی تھی۔ جب اس نے پونم کو جنم دیا تھا تو کامنی کو لگا جیسے وہ خود ماں بن گئی ہو۔ پونم کو تو وہ ہر وقت اپنے پاس ہی رکھتی تھی۔ لیکن جب وجے جی نے بتایا کہ انہیں اپنی موت کا ناٹک کر کے خاندان سے دور رہنا ہوگا تو انہیں بہت برا لگا تھا۔ لیکن وجے جی کا فیصلہ انہیں ماننا ہی پڑا تھا۔
آج تک وجے جی نے بہت سی باتیں اپنے بیٹوں سے چھپا کر رکھی تھیں۔ ان کے خاندان پر بہت بار حملے کرنے کی کوششیں ہوئی تھی، لیکن وجے جی نے سب کو ناکام بنا کر حملہ کرنے والوں کو مار دیا تھا۔ ان کے خاندان پر ہونے والے ہر خطرے کو انہوں نے پہلے ہی بھانپ کر مٹا دیا تھا۔ ان کے بیٹے بھی کوئی ڈرپوک نہیں تھے، وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ اپنے باپ کی طرح وہ بھی کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ ان کے خون میں بھی باپ کی طرح گرمی اور جوش تھا۔ ایک وقت میں دس آدمیوں کو ایک ساتھ مارنے کی قابلیت ان میں بھی تھی۔ بچپن سے وجے جی نے محنت کر کے انہیں اس قابل بنایا تھا کہ وہ کسی بھی خطرے کا سامنا آسانی سے کر سکیں۔ لڑائی کا ہر طریقہ سکھا کر انہیں کسی فولاد کی طرح ہی بنایا تھا۔ ان کے اندر کے دم خم کو پرکھنے کے لیے ہر سال گاؤں میں ماتا کے مندر میں کشتی کا دنگل ہوتا تھا۔ اس میں حصہ لے کر وہ بڑے سے بڑے پہلوانوں کو دھول چٹھاتے تھے۔ پچھلے 100 سالوں سے گاؤں میں میلہ ہوتارہا تھا اور اس میلے میں پورے ہماچل سے لوگ آتے تھے۔ ماتا کے مندر کے پاس نورتری کی بہت بڑی پوجا ہوتی تھی۔ اس پوجا میں حصہ لینے اور ماتا کا آشیرواد لینے ہزاروں لوگ وہاں آتے تھے۔ بھوانی ماتا کا مندر تو بہت پرانا تھا، وہ کب بنا، یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ کم از کم 400 سال پرانا یہ مندر ہے، لیکن یہ بات بھی ایک افواہ ہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے