Strenghtman -16- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر

شکتی مان

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔ شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر۔۔ ہندو دیومالئی کہانیوں کے شوقین حضرات کے لیئے جس میں  ماروائی طاقتوں کے ٹکراؤ اور زیادہ شکتی شالی بننے کے لیئے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا،  جنسی کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

ایک ایسے لڑکے کی کہانی جسے  ایک معجزاتی پتھر نے اپنا وارث مقرر کردیا ، اور وہ اُس پتھر کی رکھوالی کرنے کے لیئے زمین کے ہر پرت تک گیا ۔وہ معجزاتی پتھر کیاتھا جس کی رکھوالی ہندو دیومال کی طاقت ور ترین ہستیاں تری شکتی کراتی  تھی ، لیکن وہ پتھر خود اپنا وارث چنتا تھا، چاہے وہ کوئی بھی ہو،لیکن وہ لڑکا  جس کے چاہنے والوں میں لڑکیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جاتی ، اور جس کے ساتھ وہ جنسی کھیل کھیلتا وہ پھر اُس کی ہی دیوانی ہوجاتی ،لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد اُس کو خود معلوم نہیں تھی،اور اُس کی اتنی بیویاں تھی کہ اُس کے لیئے یاد رکھنا مشکل تھا ، تو بچے کتنے ہونگے (لاتعدا)، جس کی ماروائی قوتوں کا دائرہ لامحدود تھا ، لیکن وہ کسی بھی قوت کو اپنی ذات کے لیئے استعمال نہیں کرتا تھا، وہ بُرائی کے خلاف صف آرا تھا۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شکتی مان پراسرار قوتوں کاماہر -- 16

شفی: “تو نے کبھی اسے کھانا بھی کھلایا کیا؟ اِسے تو میری بیوی نے پالا ہے ، ورنہ یہ اب تک زندہ بھی نہ رہتا۔” 

بھیکو: “شفی، چل ہمیں منڈی جانا ہے، یہ تو روز کی کٹ کٹ ہے سالے کی۔” 

بھیکو اور شفی کے جانے کے بعد شیوا نے سوچا کہ اب اسکول جاؤں یا ناصر بھائی کے پاس۔ وہ اب اتنے سالوں سے سمجھ چکا تھا کہ بھیکو اس کا باپ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک لاوارث ہے۔ اگر وہ یہاں رہا تو اس کی زندگی کبھی نہیں بدلے گی۔ اسے اسکول میں ماسٹر پڑھنے لکھنے کے فائدے بتایا کرتے تھے۔ اور جس اسکول میں شیوا پڑھتا تھا، اس میں فیس نہیں لگتی تھی۔ وہاں یتیم بچوں کے رہنے کا بھی انتظام تھا۔ اس نے پھر اپنا اسکول کا بستہ اٹھایا اور شفی چاچا کے گھر چلا گیا۔ شفی چاچا کی بیوی کا نام زینت تھا، اس نے ہی شیوا کو ماں کا پیار دے کر پالا تھا۔ اسے شیوا نام بھی انہوں نے ہی دیا تھا۔ آج اس سے مل کر وہ یہ بتانے جا رہا تھا کہ وہ بھیکو کا گھر چھوڑ کر یتیم خانے میں رہنے جا رہا ہے۔ زینت کی چار بیٹیاں تھیں، اس کا کوئی بیٹا نہیں تھا، تو وہ شیوا کو ہی اپنا بیٹا مانتی تھی: 

– صنم: 20 سال 

– نیلوفر: 19 سال 

– سلمہ اور بینظیر: دونوں جڑواں تھیں 

شیوا جب شفی چاچا کے گھر پہنچا، صنم باہر ہی کھڑی تھی۔ 

اس نے اپنی ماں کو آواز دی: “امی، باہر آ جاؤ، دیکھ تیرا کتا آیا ہے روٹی کھانے۔” 

صنم شیوا سے بہت نفرت کرتی تھی، اسے شیوا بالکل پسند نہیں تھا۔ 

شیوا کو اس کی ایسی باتوں کی عادت تھی، وہ باہر ہی کھڑا رہا۔ زینت باہر آئیں، سب سے پہلے اس نے صنم سے کہا: “بیٹی، یہ تیرا بھائی ہے، تجھے کتنی بار کہا ہے کہ اس طرح نہ بولا کر۔” 

اپنی ماں کی باتوں سے وہ بہت غصے میں آ گئی اور اندر چلی گئی۔ 

شیوا نے زینت کو اپنا فیصلہ بتا یا کہ وہ بھیکو کا گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔ اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں جا رہا ہے، اسے پتا تھا کہ شفی چاچا اسے اپنے گھر میں رہنے کے لیے یتیم خانے سے واپس لے آئیں گے۔ اسے ان کی آمدنی کا پتا تھا کہ ان کا گھر شفی چاچا کی کمائی سے نہیں چلتا تھا۔ اس لیے زینت چاچی کچھ بڑے لوگوں کے گھروں میں کھانا بنانے کا کام کرتی تھیں۔ زینت چاچی نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ نہ مانا۔ صنم بھی ساری باتیں سن رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا، اسے پتا ہی نہ چلا۔ جیسے ہی اسے شیوا کی آواز آنا بند ہوئی، وہ دوڑ کر باہر آئی۔ اس نے دیکھا کہ شیوا جا رہا ہے۔ وہ اس کے پیچھے بھاگی۔ زینت کو اس بات کا پتا بھی نہ چلا، وہ تو اپنے ہی غم میں تھی۔ 

شیوا کو پیچھے سے آواز آئی: “کہاں جا رہا ہے کتے؟” 

شیوا نے مڑ کر دیکھا، صنم تھی۔ اس کی روتی ہوئی صورت دیکھ کر اسے دُکھ ہوالیکن وہ کچھ نہ بولا۔ 

صنم پھر بولی: “تو نے میری بات کا جواب نہیں دیا کتے۔” 

شیوا: “صنم دیدی، میں اسکول جا رہا تھا۔” 

صنم: “دیدی کسے کہا کتے؟ میں تیری دیدی نہیں ہوں، نہ تو میرا بھائی ہے۔ کتنی بار کہا ہے تجھے۔ واپس کب آ رہا ہے اسکول سے؟” 

شیوا نے کچھ جواب نہ دیا۔ 

صنم: “سن کتے، تو واپس نہ آیا نا، دیکھ لینا میں تیری دونوں ٹانگیں توڑ دوں گی۔” 

شیوا کچھ دیر چپ رہا، پھر بولا: “میں واپس آؤں گا، تب تک تم سب کا خیال رکھنا۔” 

صنم کے پاس آ کر اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کر کے شیوا بولا: “صنم، تو رو مت، میں تیری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ یہ شیوا کا وعدہ ہے کہ وہ واپس ضرور آئے گا۔” 

اتنا کہہ کر وہ بغیر پیچھے مڑے چلا گیا۔ 

صنم بس اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی، جب تک وہ اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہوا، وہ اسے دیکھتی رہی۔ 

**تین سال بعد** 

ممبئی کے ایک ہوٹل میں ایک لڑکا مینیجر کے کیبن کے باہر کھڑا تھا۔ وہاں پر آج ایک اخبار میں نوکری کا ایڈ دیکھ کر آیا تھا۔ جب وہ اندر داخل ہوا تو مینیجر اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ ساڑھے 6 فٹ سے لمبا قد، چوڑا سینہ، مضبوط ہاتھ، خوبصورت چہرہ جو کسی کا بھی دل موہ لے، گورا رنگ، سلیقے سے کٹے ہوئے بال، کسی پہاڑ کی طرح وہ مضبوط لگ رہا تھا۔ 

مینیجر: “تمہارا نام کیا ہے جی؟” 

لڑکا: “جی سر، شیوا۔” 

مینیجر: “صرف شیوا؟ میں نے پورا نام پوچھا ہے۔ ماں باپ نے کچھ نہیں سکھایا تمہیں؟ تمہاری فائل کہاں ہے؟” 

شیوا نے اپنے ہاتھ میں پکڑی  فائل اسے دے دی۔ مینیجر نے اس کی فائل کھول کر دیکھنا شروع کیا۔ اس کی دسویں کی مارک شیٹ میں نام لکھا تھا “شیوا منوج دسائی”۔ اس کےمارکس  دسویں میں 92% اور بارہویں میں 95% تھے۔ اس کی پوری فائل میں کھیلوں کے سرٹیفکیٹ تھے: کشتی، کبڈی، باکسنگ، ہر کھیل میں وہ کالج کا اسٹیٹ لیول کا گولڈ میڈلسٹ تھا۔ اس کی فائل دیکھ کر مینیجر کو بہت خوشی ہوئی۔ اس نے اپنے سامنے کھڑے شیوا کو بیٹھنے کو کہا۔ 

مینیجر: “بیٹا، تیری عمر کتنی ہے؟” 

شیوا: “جی سر، 19 سال۔” 

مینیجر: “تمہارا نام شیوا منوج دسائی ہے، تو تم نے مجھے اپنا پورا نام کیوں نہیں بتایا؟” 

شیوا: “جی سر، میں ایک یتیم ہوں۔ جس یتیم خانے میں بڑا ہوا، اسے چلانے والے منوج دسائی صاحب ہیں۔ وہی ہم یتیم لوگوں کو باپ بن کر اپنا نام دیتے ہیں۔” 

مینیجر: “بیٹا، میں تمہیں یہاں کام تو دے دوں گا، لیکن اگر تم آگے کی پڑھائی کرتے اور آگے جاتے تو بہت اچھا ہوتا۔ صرف بارہویں تک پڑھ کر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔” 

شیوا: “سر، مجھے یہیں ممبئی میں انجینئرنگ کے فرسٹ ایئر میں فری سیٹ پر ایڈمیشن مل گئی ہے۔ میں کام کے ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھنے  والا ہوں۔” 

مینیجر: “یہ تو بہت اچھی بات ہے، تو سمجھو تمہارا کام یہاں پکا۔” 

شیوا: “ٹھیک ہے سر، صرف میں آپ سے ایک گزارش کروں گا کہ آپ مجھے نائٹ ڈیوٹی ہی دیجیے، اس سے مجھے صبح کالج جانے میں  آسانی ہوگی۔” 

مینیجر: “نہیں بیٹا، تم روز دوپہر 4 بجے سے رات 12 بجے تک ڈیوٹی کرنا۔” 

مینیجر کی اچھائی دیکھ کر شیوا کو بہت اچھا لگا۔ شیوا کو اس ہوٹل میں ایک اکاؤنٹنٹ کی نوکری مل گئی۔ اسے ہر مہینے 12,000 روپے ملنے والے تھے۔ وہاں سے نکل کر شیوا شفی چاچا کے گھر کی طرف چل دیا۔ ان کے گھر جاتے ہوئے اسے شام ہو گئی تھی۔ 

شیوا نے ان کے گھر کا دروازہ بجایا اور آواز دی: “شفی چاچا۔” 

دروازہ صنم نے ہی کھولا۔ جب اس نے شیوا کو دیکھا تو پہلے اسے بغیر بولے دیکھتی رہی اور بعد میں زور سے چلائی: “کتے!” اور اس کے گلے لگ کر رونے لگی۔ شیوا کو صنم کی آغوش میں ایک الگ ہی سکون مل رہا تھا۔ اسے آج تک اس طرح کسی نے گلے نہیں لگایا تھا۔ صنم کی گداز چھاتیاں اس کے سینے سے لگنے سے اور صنم کے بدن سے آنے والی خوشبو سے ایک الگ ہی نشہ چھا رہا تھا۔ اس نے بھی اپنے دونوں ہاتھوں سے صنم کو اپنے سینے میں کس لیا تھا۔ تبھی اس کے کانوں میں زینت کی آواز آئی: “شیوا بیٹا، تم؟” شیوا نے صنم کو اپنے سے دور کرنا چاہا، لیکن وہ شیوا کو چھوڑ کر دور ہی نہیں ہو رہی تھی۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page