جدوجہد کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے ۔
جدوجہد کہانی ہے ایک کمپیوٹر انجینئر کی جو کریٹیو دماغ کا حامل تھا ۔ اُس نے مستقبل کا کمپیوٹر بنایا لیکن حکومت وقت نے اُس کی کوئی پزیرائی نہیں کی ۔ تو اُس کو ایک اور شخص ملا جس نے اُس سے اُس کے دماغ کی خریدنے کا سودا کیا ، اور اُس کی زندگی کے 4 خرید لیئے ۔ کس لیئے ؟ ۔ کمپیوٹر انجینئر نے اُس کے لیئے آخر ایسا کیا کام کیا۔ دیکھتے ہے کہانی پڑھ کر ۔
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
جدوجہد قسط نمبر 01
ارمان خان سو کر اٹھا اٹھ کر بستر پر بیٹھا ہی تھا کہ اُس کی نظر بیڈ کے ٹھیک سامنے لگے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر پڑی، وہ بری طرح چونک گیا ۔ اور اُس کے حلق سے چیخ نکلی، کہ یہ کیا ہوا بجلی کی رفتار سے اس کے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پہنچے اور وہ پھٹی پھٹی انکھوں سے اپنے عکس کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کسی انجان ادمی کو دیکھ رہا ہو ۔
اُفففففففف یہ کیسے ہو سکتا ہے؟۔۔۔اُس کے منہ سے یہ لفاظ خودبخود ہی نکلے۔ اور بیڈ سے کود کر سیدھا شیشے کے پاس پہنچا ۔۔۔کیسے ہو سکتا ہے یہ ؟۔۔ یہ داڑھی یہ مونچھیں یہ سر کے بال بھلا ایک ہی رات میں اتنے لمبے کیسے ہو گئے نہیں یہ چہرہ میرا نہیں ہو سکتا۔
ارمان خان بے وقوفوں کی طرح بڑبڑاتا جا رہا تھا اور اپنے اپ سے سوال پوچھتا جا رہا تھا لیکن حالات اس کی سمجھ سے کوسوں دور تھے ۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ایک ہی رات میں اس کے بال اتنے لمبے اور اس کی داڑھی اتنی لمبی کیسے ہو ہوگئی۔
ارمان نے اپنے داڑھی اور بال نوچنے کی کوشش کی لیکن ایک دلخراش چیخ اس کی حلق سے نکل گئی کیونکہ بال اور داڑھی اصلی تھی۔ وہ پریشان ہو گیا ، بھوکلاہٹ میں اس نے کمرے کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ کمرہ تو اسی کا ہے اسے اچھی طرح یاد تھا کہ رات کو وہ اچھا بھلا اپنے بستر پر سویا تھا کل ہی اس نے شیو کی تھی لیکن اس وقت اس کا چہرہ اور اس کے بال ایسے ظاہر ہو رہے تھے کہ جیسے مہینوں سے اس نے نہ شیو کی ہو اور نہ ہی بال بنائے ہو۔ پاگلوں کی سی حالت ہو گئی تھی۔
ارمان حلق پھاڑ کر چیخا ۔۔۔بخت او بختو کہاں مر گیا ہے تو، جلدی ادھر آ
بریڈ پر مکھن لگاتے بختو کے ہاتھ سے چھری چھوٹ گئی ایسا لگا اسے جیسے مالک نے پکارا ہو مگر کہاں بھلا مالک کہاں سے پکارے گا ان کا تو چار سال سے پتہ ہی نہیں جانے کہاں چلے گئے تھے ۔ اس نے اپنے کانوں کا بھرم سمجھا اور چھری اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اواز دوبارہ آئی۔
بختو او بختو کہاں مر گیا تو؟۔۔ آواز تھی اور ضرور ارمان کی ہی تھی ۔ بختو کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ چار سال بعد آخر آواز اس نے کیسے سن لی؟۔۔
وہ تیز رفتاری سے اٹھا اور بھاگتا ہوا سیدھا ارمان کے بیڈ روم کی طرف گیا۔ یہ دو کمروں کا چھوٹا سا فلیٹ تھا دو کمروں کی دوری اس نے کچھ ہی پلوں میں عبور کی اور سیدھا دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوا ارمان کے بیڈ روم کا دروازہ صرف بند ہی نہیں تھا بلکہ اس کو باہر سے ایک بہت بڑا تالا بھی لگا ہوا تھا ۔ ارمان کی آواز لگاتار ارہی تھی، اور اب تو وہ اندر سے زور زور سے دروازہ بھی پیٹ رہا تھا۔
بختو حیران پریشان آخر چار سال بعد مالک اچانک کہاں سے لوٹ ائے اور آئے تو آئے ، لیکن بند کمرے میں کیسے پہنچ گئے؟۔ جس کو اس نے روز کی طرح صاف صفائی کر کے تالا لگایا تھا۔ بختو حیران پریشان ابھی اس پہیلی کو سلجھانے کی کوشش کر ہی رہا تھا، کہ ایک دفعہ پھر زور سے دروازہ بجا اور اندر سے آواز آئی
ارے او بختو کہاں مر گیا ہے تو کیوں دروازہ نہیں کھول رہا اور یہ دروازہ باہر سے کیوں بند ہے ، ہے کہاں تو بختو؟
بختو نے اسی وقت فورا جواب دیا۔۔۔ ہاں مالک میں یہی ہوں ۔
یہ الفاظ صرف اس کے حلق سے اتنے ہی نکل پائے۔
تو دروازہ کیوں نہیں کھولتا۔۔ ارمان نے کہا
ابھی کھولتا ہوں۔۔۔ بختو نے بوکھلاہٹ میں جواب دیا ۔
بختو بھاگ کر سینٹر ٹیبل سے چابی لایا اور تالے میں لگا کر گھما دی اور تالا کھل گیا۔ دروازہ کھلتے ہی ارمان اس کے سامنے تھا ۔
ارمان نے کہا ۔۔۔کیا ہوا کمرہ اس طرح سے بند کیوں کیا تو نے؟
میں تو صفائی کر کے روز ہی باہر سے تالا لگاتا ہوں مالک لیکن اپ کمرے کے اندر کہاں سے آگئے ۔۔۔بختو نے کہا
اور یہ سن کر ارمان چونک گیا ۔۔۔کمرے کے اندر کہاں سے آگیا مطلب ؟۔۔۔ارمان نے حیرانی سے سوال کیا
میں تو روز ہی کمرے میں سوتا ہوں۔
سوتے تھے مالک لیکن پچھلے چار سال سے کہاں سوئے ہیں اپ یہاں؟
چار سال سے کیا بک رہا ہے ۔۔۔ارمان نے پریشانی سے سوال کیا۔۔۔ کل رات ہی تو سویا تھا میں یہاں ۔
بختو یہ سن کر حیران پریشان ہو گیا کہ کل رات ؟۔۔بختو جو کچھ دیکھ رہا تھا، سب کچھ اُس کے سامنے ہوتے ہوئے بھی وہ اس پہ یقین نہیں کر پا رہا تھا۔
دیکھ کیا رہا ہے؟۔۔۔ ارمان نے کہا ۔۔۔اور یہ کیا کہا تو نے کہ چار سال سے میں یہاں سویا ہی نہیں ہوں ؟۔
آپ سونے کی بات کر رہے ہیں مالک، چار سال سے نظر ہی کہاں آئے ہیں آپ کسی کو۔
ارمان نے کہا۔۔۔ کیا بک رہا ہے تو اور یہ رات ہی رات میں میرے بال اتنے کیسے بڑھ گئے ؟
کیا آپ کو ایسا لگ رہا ہے کہ اپ پچھلی ہی رات اس کمرے میں سوئے تھے ۔اور اب جاگے ہیں ؟بختو نے کہا
ارمان نے جواب دیا ۔۔۔ہاں۔۔لیکن اگر ایسا سوچ رہا ہوں تو کیا غلط ہے؟آج تاریخ کیا ہے 25 اگست تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں 24 اگست کو سویا تھا۔
بختو اپنے مالک کو دیکھ رہا تھا کہ ان کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے بختو نے ہلکا سا مسکرا کر ارمان کی طرف دیکھا اور اس سے کہا
کہ سال بھی تو پوچھ لو مالک کہ اس وقت کون سا سال چل رہا ہے ۔
ارمان نے فورا سے جواب دیا۔۔۔آج 25 اگست 2000 ہے ۔
لیکن بختو ہنسا اور اس نے کہا ۔۔۔نہیں مالک آج 2000 نہیں، آج 25 اگست تو ہے لیکن آج 25 اگست 2004 ہے ۔
یہ کیا بک رہا ہے تو۔۔۔ ارماں نے جھپٹ کر جلدی سے بختو کے گریبان کو پکڑا ۔۔۔پاگل سمجھتا ہے مجھے بھلا چار سال بھی کوئی سوتا ہے کیا۔
اتنا ہی کہہ پایا تھا ارمان کہ اس کی نظر دیوار پہ لگے سامنے کیلنڈر پر گئی اور اس پہ 2004 پڑھ کر ارمان بری طرح چونک گیا اور ایک جھٹکے سے پختو کے گریبان کو چھوڑ دیا۔ چار سال بعد کا کیلنڈر بھلا کیوں کوئی چھاپے گا ؟کیا کیا ہے یہ پہیلی؟
ارمان کی نظر اس کیلنڈر پر ایسے ٹکی ہوئی تھی جیسے وہ اپنی ہی لاش کو دیکھ رہا تھا ۔اس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی ۔ادھر بختو کی بھی حالت اس طرح تھی کہ وہ کچھ بھی بول نہیں پا رہا تھا۔
ارمان نے کہا ۔۔۔کیا چکر ہے یہ بختو کیا ہوا تھا مجھے سب بتا ۔
بخت نے کہا ۔۔۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں پتہ مالک کہ اس رات آپ عام راتوں کی طرح 12 بجے سے لیٹ آئے تھے ، قریب دو بجے۔ میں نے کھانے کے لیے پوچھا آپ نے انکار کرتے ہوئے کہا ، کہ کھانا کھا کے آئے ہیں۔ اس رات آپ نے اور راتوں کے بجائے زیادہ شراب پی رکھی تھی، لیکن اتنے نشے میں بھی نہیں تھے کہ ہوش ہی نہ ہو۔ بہت خوش تھے آپ، اور آپ نے بڑے پیار سے میرے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہا کہ۔۔ بختو مجھے معلوم ہے کہ تو میرے کمزور دنوں میں میرا وفادار رہا ہے، لیکن اب فکر نہ کر ہمارے دن پھر سے پلٹنے والے ہیں۔ میں تجھے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھوں گا تو میرا ایماندار نوکر ہے ، اور تو ہمیشہ میرے ساتھ میرے ہی سائے میں رہے گا۔
ارمان کے ذہن میں کچھ دھندلی دھندلی سی یادیں ابھرنا شروع ہوئیں اس نے بخت سے کہا۔۔۔ بختو مجھے ٹھیک سے بتا اور میں نے کیا کیا کہا تھا۔ یاد کر کے بتا شاید اسی سے میری سمجھ میں آئے کہ کیا ہوا تھا آخر اس رات میرے ساتھ ۔
بختو نے جواب دیا ۔۔۔خاص تو ایسا کچھ نہیں ہوا تھا، لیکن آپ ضرورت سے زیادہ مجھے پیار کر رہے تھے، میں نے سوچا شاید آپ کچھ زیادہ ہی پی کر آئے ہیں اس لیے ایسا کر رہے ہیں ۔ اس کے بعد آپ کمرے میں سونے چلے گئے تھے اسی کمرے میں جس میں پورے چار سال بعد آج آپ نکلے ہیں۔
تو اگلی صبح یعنی 25 اگست 2000 کی صبح میں تجھے کمرے میں نہیں ملا؟۔ تو ، تو نے کیا سوچا کہ میں کہاں چلا گیا؟۔ تجھے کچھ اندازہ ہے۔
مجھے کیا کسی کو بھی اندازہ نہیں مالک کہ آپ کہاں چلے گئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اپ کی قیمتی رائے کا طلبگار ملتے ہیں دوسری اپڈیٹ میں اپنی قیمتی رائے دے کے بتائیے گا ضرور کہ کیسا رہا
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Struggle –07– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –06– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –05– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –04– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –03– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –02– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
