جدوجہد کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے ۔
جدوجہد کہانی ہے ایک کمپیوٹر انجینئر کی جو کریٹیو دماغ کا حامل تھا ۔ اُس نے مستقبل کا کمپیوٹر بنایا لیکن حکومت وقت نے اُس کی کوئی پزیرائی نہیں کی ۔ تو اُس کو ایک اور شخص ملا جس نے اُس سے اُس کے دماغ کی خریدنے کا سودا کیا ، اور اُس کی زندگی کے 4 خرید لیئے ۔ کس لیئے ؟ ۔ کمپیوٹر انجینئر نے اُس کے لیئے آخر ایسا کیا کام کیا۔ دیکھتے ہے کہانی پڑھ کر ۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
جدوجہد قسط نمبر 04
لفٹ پانچویں فلور پر جیسے روکی میں اپنے دل کی دھڑکن پر قابو پا کر گیلری پار کرتے ہوئے۔ میری حالت دوبارہ ایسی تھی جیسے کسی قاتل کی پہلے قتل کے وقت ہوتی ہے۔۔۔ دھڑکن 120 کی رفتار سے چل رہی تھی اور پھر صبا نے 526 نمبر کمرے کی بیل بجائی۔ دروازہ کھلنے کا انتظار میں اس وقت میرا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ خاموشی میں بھی اس کی اواز سنی جا سکتی تھی۔۔۔
جب درواذہ کھلا لیکن سامنے بل گیٹس نہیں تھا وہ کوئی اور شخص تھا بالکل اجنبی پہلی دفعہ دیکھا ہوا تھا۔ چہرہ بل گیٹس کا تو نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ بل گیٹس کی میں نے ہزاروں تصویریں دیکھی ہوئی تھی۔۔ ہر نیوز پیپر میں ہر ارٹیکل میں میں ان کا کوئی ارٹیکل مس نہیں کرتا تھا نہ ہی ان کا کوئی انٹرویو مس کرتا تھا۔۔۔ انہیں میں اچھے سے پہچانتا تھا صرف میں ہی نہیں ہر وہ شخص جو کمپیوٹر کی دنیا سے واسطہ رکھتا ہے۔۔۔
لیکن پھر میں خود ہی مسکرا دیا کہ بھلا بل گیٹس صاحب مجھے دروازے پر لینے کیوں آئیں گے ہو سکتا ہے کہ یہ ان کا کوئی نوکر ہو۔۔۔ پھر وہ آدمی بھی ایک طرف ہٹ گیا۔
صبا اور میں اس کے بغل سے ہوتے ہوئے ایرانی مخملی کالین سے گزرتے ہوئے شاندار ڈرائنگ روم میں پہنچے۔ سامنے دیکھا تو وہاں ایک اور شخص بھی بیٹھا ہوا تھا ظاہر تھا کہ وہ لوگ ضرور بل گیٹس کا سٹاف ہوں گے۔۔۔ کیونکہ اکثر بڑے لوگ اپنے آگے پیچھے لوگ رکھتے ہیں۔۔۔ اور وہ کمرہ نہیں ایک عالی شان محل جیسا تھا یہ کوئٹہ کلب کا سب سے مہنگا کمرہ یا مہنگا سویٹ اسے کہا جا سکتا تھا۔
وہاں موجود شخص نے سامنے سے کہا ۔۔۔بیٹھیے۔
میں نے بیٹھنے کے بجائے صبا کی طرف اپنے آپ کو گھمایا اور اس سے سوال کیا ۔۔۔بل گیٹس صاحب کہاں ہیں.؟
صبا نے چہرے پہ بناوٹی مسکان لاتے ہوئے بڑے پیار سے مجھے کہا ۔۔۔بیٹھ جاؤ وہ آتے ہی ہوں گے۔
میری نظر اسی سویٹ کے اندر ایک اور دروازے پر پڑی جو شاید ان کے بیڈ روم کا دروازہ تھا یہی سوچتے ہوئے میں قیمتی صوفے پہ بیٹھ گیا۔ وہ اس دروازے سے آئیں گے یہی میرے دماغ میں چل رہا تھا۔۔۔۔ پھر ایک شخص نے بیڈ روم سے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا اور وہ کوئی اور شخص تھا۔۔ ایک دفعہ پھر مجھے غصہ اگیا اور میرا غصہ ساتھویں آسمان پہ تھا اور پہنچتا بھی کیوں نہ میں بڑی امید سے آیا تھا مگر سامنے بیٹھا ہوا شخص بھی بل گیٹس نہیں تھا۔
لیکن ایک بات جو میں نے نوٹ کی کہ اس کمرے میں بیٹھا ہوا ہر شخص اس شخص سے مختلف تھا یہ ایک بہت ہی کمال کی پرسنلٹی کا آدمی تھا ۔مہنگا سوٹ اور زبردست مہنگے جوتے اور اچھے سے بنے ہوئے بال منہ میں ایک سگار اور ہاتھ میں ایک مہنگا سا سیل فون پکڑے ہوئے وہ شخص آرام سے چلتا ہوا میرے قریب آیا اور میں اس کی شخصیت کی آمد پر ایک دم کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ کیونکہ اس کی شخصیت مرغوب کرنے والی تھی۔۔ کمرے میں موجود دونوں شخص اس کے استقبال میں کھڑے تھے گردنیں جھکائے ہوئے اور اس بات سے بالکل یہی ظاہر ہوا کہ جیسے یہی ان سب کا مالک ہو۔
وہ ایک 50 – 45 سال کا ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا سفید سوٹ اور اسی کے ساتھ کی میچنگ کی ٹائی پہنی ہوئی تھی اور جس کے اوپر پن جس پر ڈائمنڈ بھی لگی ہوئی تھی ساتھ میں چمچماتے براؤن جوتے پہن رکھے تھے اور ساتھ میں چھ فٹ لمبا قد جسامت ایسے جیسے باڈی بلڈر ہو کل ملا کر دیکھنے سے ہی پتہ لگ رہا تھا کہ وہ آدمی واقعی ہی ایک امیر آدمی ہے۔
اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور پہلی دفعہ اس کے منہ سے کوئی لفظ نکلے۔
٫ ازلان ملک کہتے ہیں ہمیں۔
اس شخص میں جیسے جادو تھا کہ میرا ہاتھ اپنے آپ ہی اٹھتا چلا گیا اور میں نے اس سے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا نہ چاہتے ہوئے بھی۔۔ کیونکہ مجھے اس وقت تک احساس ہو گیا تھا کہ مجھے یہاں جھوٹ بول کے لایا گیا ہے ۔بل گیٹس سے ملاقات نہیں ہونے والی تھی میری۔ اس کی شخصیت کی طرح ہی اس کا ہاتھ بھی مضبوط تھا۔ لوہے کی طرح مضبوط ہاتھ۔
ازلان کے ہاتھ میں ہاتھ لیتے ہوئے میں نے ہمت کر کے پوچھا ۔۔۔بل گیٹس صاحب کہاں ہیں۔؟
اذلان نے جواب دیا۔۔۔ تمہیں بل گیٹس نے نہیں بلکہ ہم نے بلایا ہے۔
مجھے اس کی بات سن کے شدید غصہ آیا اور میرا غصہ ساتویں آسمان پر تھا ایک ہی جھٹکے میں۔ میں صبا کی طرف تیزی سے مڑا اور زوردار گرجدار آواز میں اس سے پوچھا۔
کہ یہ کیا بےہودگی ہے تم نے تو کہا تھا۔
میں اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ازلان نے میری بات بیچ میں کاٹ دی
اس نے وہی کہا۔۔۔ جو ہم نے کہنے کے لیے بولا تھا۔
میں پھر سے گرجا۔۔۔ تم کون ہوتے ہو مجھے یہاں دھوکے سے بلانے والے۔
کہنے کے ساتھ ہی میں ازلان پر جھپٹ پڑا لیکن پہنچ نہیں پایا۔ اس سے پہلے ہی کمرے میں موجود دونوں آدمیوں نے مجھے دبوچ لیا نہ جانے کیا کیا غصے میں چیختا چلاتا رہا میں اور ان کے چنگل سے نکلنے کے لیے کوشش کرتا رہا لیکن وہیں دوسری طرف ازلان بڑے سکون سے کورٹ کی جیب میں ایک قیمتی سگار نکالا اور ہیرے جڑا لائٹر سے اسے سلگا کے صوفے پہ ایسے بیٹھ گیا جیسے اسے پتہ ہی نہ ہو یہ کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔
اور تب تک کش لگاتا رہا جب تک کہ میں تھک نہ گیا۔۔ ازلان شاید اسی وقت کا انتظار کر رہا تھا وہ صوفے سے اٹھا اور چہل قدمی کرتے ہوئے بولا۔۔۔ جھٹکا تو لگا ہے تمہارے دماغ کو لیکن اتنا بوکھلانے کی ضرورت نہیں ہے غنڈے موالی نہیں ہے ہم لوگ ۔۔
یہ حرکت غنڈوں موالیوں جیسی نہیں تو اور کیا ہے مجھے بل گیٹس کے نام پر یہاں پر بلایا گیا اور اس کے بعد میرے ساتھ ایسا سلوک کہ تمہارے باڈی گارڈز نے مجھے ابھی تک جکڑ کے رکھا ہوا ہے ۔۔۔میں نے جواب دیا۔
میری بات کو بیچ میں کاٹتے ہوئے ازلان پھر سے بولا
کیا تم بل گیٹس کا نام لیے بغیر یہاں صبا کے ساتھ آتے۔؟
میں پھر سے گرجا بالکل نہیں کسی قیمت پہ نہیں۔
ازلان نے بڑے ہی تحمل سے جواب دیا ۔۔۔بس اسی لیے استعمال کیا بل گیٹس کا نام۔
اور میں نے کہا۔۔۔ تو کیا تم اسے شریفوں والی حرکت کہتے ہو۔
اس نے پھر تحمل سے جواب دیا۔۔۔ شریفوں والی نہیں ہے تو غنڈو جیسی بھی نہیں ہیں موالیوں والی حرکت اگر ہوتی تو تمہیں کہیں سے رسیوں سے باندھ کر تمہاری آنکھوں پہ پٹی باندھ کر تمہیں دو چار گھونسے لاتے مار کر تمہاری عزت کی دھجیاں اڑا کر یہاں باندھ کر بٹھایا ہوتا اور میں تم سے بات کر رہا ہوتا۔۔۔
اس دفعہ اس کی بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ جس شخصیت کا وہ مالک تھا جتنے مہنگے سوٹ میں وہ رہ رہا تھا جس طرح کے باڈی گارڈز تھے وہ بالکل یہ سب کر بھی سکتا تھا کیونکہ ایسے لوگوں کے تعلقات بہت ہوتے ہیں لیکن پھر بھی میں نے اپنے حوصلے کو جمع کیا اور اسے ایک اور سوال کیا۔۔۔
تمہارے یہ باڈی گارڈز اس سے الگ کیا کر رہے ہیں۔
اس نے میری بات کو پھر سے بیچ میں کاٹا اور بہت تحمل سے ایک دفعہ پھر اپنے جواب سے مجھے خاموش کر دیا۔
اس نے کہا۔۔۔ یہ تمہیں ٹھوک پیٹ نہیں رہے ہیں بلکہ صرف پکڑ رکھا ہے کیونکہ تم غنڈے موالیوں کی طرح حرکتیں کر رہے تھے تم نے مجھ پہ حملہ کرنا چاہا اسی لیے انہوں نے تمہیں پکڑا ، اگر تمہیں ایک شریف آدمی کی طرح پیش آتے تو یقیناً یہ بھی ایک شریف آدمی کی طرح پیش آتے اور آرام سے تمہیں بات کرنے دیتے لیکن پہل تم نے کی اس لیے تم ابھی تک ان کے چنگل میں ہو۔۔۔
اس دفع میں قدر نرم لہجے سے بولا۔۔۔ آخر کیا چاہتے ہو تم مجھ سے۔۔،
وہ ہلکا سا مسکرایا اور اس نے پھر سے کہا ۔۔۔یہی بتانے کے لیے تمہیں یہاں بلایا تھا لیکن اس طرح نہیں پہلے تم آرام سے صوفے پر بیٹھو تاکہ ٹھنڈے دماغ سے آرام سے بیٹھ کے بات ہو۔
میں چپ تھا اور ماحول کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہی وقت تھا جب ازلان نے کہا
چھوڑ دو ارمان کو۔
اور فوراً ہی باڈی گارڈز نے مجھے چھوڑ دیا اور دو دو قدم پیچھے ہٹ کر دوبارہ سے کھڑے ہو گئے۔
ازلان پھر بولا۔۔۔ ارمان صوفے پر بیٹھ جاؤ۔
جیسے ہی گارڈز نے مجھے چھوڑا میرا حوصلہ ایک دفعہ پھر سے بڑھ گیا کہ ایک دفعہ پھر سے میں صوفے پہ بیٹھے بغیر ہی دوبارہ سے گرجا۔
تو کیا تم کموا سکتے ہو مجھ سے اتنا پیسہ کیا تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارا یہ قیمتی سوٹ تمہارا ٹائپن جس پر ڈائمنڈ لگا ہوا ہے اور تمہارا ڈائمنڈ سے جڑا ہوا لائٹر دیکھ کر میں تمہارے جھانسے میں پھنس جاؤں گا تم بل گیٹس نہیں ہو بے شک تم عربوں کے مالک ہو سکتے ہو لیکن میں یہ کیسے یقین کر لوں کہ جو صبا نے کہا تھا کیا تم واقعی وہ کر سکتے ہو کیا تم مجھے اتنے پیسے کما کے دے سکتے ہو۔۔؟
اس دفعہ ازلان کے چہرے پہ ہلکی سی شکن آی اور اس نے مجھ سے پوچھا۔۔۔ ارے ایسا کیا کہہ دیا صبا نے اصل میں صبا کو ہم نے اجازت دی تھی کہ وہ جو بھی چاہے اتنی میں ڈیل کر سکتی ہے۔
میں نے ازلان کی بات کو بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔سو کروڑ کہے ہیں اس نے ۔
مجھے لگا تھا کہ 100 کروڑ کا سن کے شاید اس کا ارادہ بدل جائے لیکن اس کے جواب نے مجھے ایک دفعہ پھر سے انتہائی شش و پنج میں مبتلا کر دیا۔۔۔
ہا ہا ہا ہا صرف 100 کروڑ ارے صبا تم تو بہت تیز نکلی ہم نے تو یہ ڈیل سوچا تھا کہ 400 کروڑ میں ہو گی لیکن تم نے ایک بہت ہی انتہائی مہارت کے ساتھ 100 کروڑ میں فائنل کیا ہمیں منظور ہے 100 کروڑ روپے ہم تمہیں دیں گے۔۔،
میں پھر سے ایک دفعہ بولا ۔۔۔مجھے مفت میں امپریس کرنے کی کوشش مت کرو کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے سو کروڑ کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔۔
اس دفعہ ازلان کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی سگار سے ایک کش لگانے کے بعد بولا۔۔۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ دنیا میں اکیلا بل گیٹس ہی ایسا آدمی ہے جو کسی کو اتنا پیسہ دے سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے مسٹر ارمان اس ملک میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں جو اس سے زیادہ پیسہ دینے کو تیار ہیں۔۔۔۔
میں پھر سے بولا ۔۔۔تو کیا تم ملک ریاض ہو یہاں آصف زرداری ہو یا نواز شریف ہو کہ تمہارے پاس اتنا پیسہ ہے
اس دفعہ اس کے چہرے کے تاثرات ایک دم بدلے اور وہ بلکل سیریس ہو کے میری آنکھوں میں دیکھتا ہوا کہنے لگا۔۔۔۔ یہ سب بتانا میں تمہیں ضروری نہیں سمجھتا لیکن اتنا سمجھ لو کہ ہم وہ رقم تمہیں دے سکتے ہیں جو صبا نے ہاں کی ہے اور وہ رقم دے کر ہم تم پہ کوئی احسان نہیں کریں گے بزنس مین ہے ہم رقم لگانے سے پہلے اس سے زیادہ کمانے کا پلان ہم بنا چکے ہیں۔۔۔
ایسا کون سا پلان ہے تمہارے دماغ میں میں نے حیران ہوتے ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔
بار بار اسی پر بات کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں پر تم ہو کہ ارام سے بیٹھنے تک کو تیار نہیں ہو بیٹھو تو سہی دوست کم سے کم سن تو لو ہماری بات یہ تو جان لو کہ ہم اس رقم کے بدلے تم سے کام کون سا لینے والے ہیں۔۔
اس بار یہ بات اذلان نے ایسے انداز میں کہی تھی کہ سیدھی میرے دل اور دماغ میں جا کر بیٹھ گئی میں نے سوچا بات تو ٹھیک ہے برائی کیا ہے سننے میں یہ تو بعد میں دیکھا جائے گا کہ 100 کروڑ دینے کی اس کی حیثیت ہے بھی یا نہیں لیکن یہ تو دیکھا جائے کہ یہ لایا یہاں پہ کیوں ہے مجھے میں ایسا کیا کام کر سکتا ہوں جس کے لیے اتنی بڑی رقم دینے کی بات کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔
پھر اس کے بعد میں بغیر کچھ بولے آگے بڑھا اور ایک صوفے پر بیٹھ گیا
ایسے ہوتے ہی ازلان نے کہا۔۔۔ شاباش یہ ہوئی نہ بات
اور پھر گردن گھما کر گارڈ کی طرف رغب دار آواز میں بولا۔۔۔ تم دونوں جا سکتے ہو تمہارا کام ختم ہو چکا ہے
اتنا کہنا تھا کہ وہ دونوں گارڈز کمرے سے باہر چلے گئے۔۔۔۔
میں نے گردن گھما کر صبا کی طرف دیکھا تو ازلان مسکرا کر میری طرف دیکھتا ہوا کہنے لگا۔۔۔ ارمان صاحب میاں بیوی میں کیسے کا پردہ صبا میری بیوی ہے۔۔،
مجھے ایک شدید جھٹکا لگا اور میں نے حیرت سے ایک دم پہلے ازلان اور پھر صبا کے چہرے کی طرف دیکھا لیکن صبا کی مسکراہٹ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ جو بات ازلان کہہ رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔
میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صبا کسی آدمی کی بیوی ہوگی اور وہ بھی اس آدمی کی جس آدمی کا نام اذلان ملک ہے اور جس کی عمر 45 سے 50 کے بیچ کی ہے کیونکہ صبا ایک نہایت ہی خوبصورت اور ایک چوبیس پچیس سال کی تھی۔۔۔۔ ازلان نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ہمیں معلوم ہے کہ تم نے مستقبل کے کمپیوٹر کا پروجیکٹ بنا لیا ہے۔۔۔، میں بری طرح چونک گیا لیکن ظاہر نہیں کیا اور اپنی ہمت جٹا کر ایک دفعہ پھر کہا ۔۔۔مستقبل کا کمپیوٹر میں سمجھا نہیں۔۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Struggle –07– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –06– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –05– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –04– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –03– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –02– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
