جدوجہد کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے ۔
جدوجہد کہانی ہے ایک کمپیوٹر انجینئر کی جو کریٹیو دماغ کا حامل تھا ۔ اُس نے مستقبل کا کمپیوٹر بنایا لیکن حکومت وقت نے اُس کی کوئی پزیرائی نہیں کی ۔ تو اُس کو ایک اور شخص ملا جس نے اُس سے اُس کے دماغ کی خریدنے کا سودا کیا ، اور اُس کی زندگی کے 4 خرید لیئے ۔ کس لیئے ؟ ۔ کمپیوٹر انجینئر نے اُس کے لیئے آخر ایسا کیا کام کیا۔ دیکھتے ہے کہانی پڑھ کر ۔
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
جدوجہد قسط نمبر 06
ازلان بولا چلو مان لیتے ہیں کہ سچ وہی ہے جو تم کہہ رہے ہو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمیں تمہارے اس پروجیکٹ سے کوئی مطلب نہیں ہے سمجھا ہم تمہیں یہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ کنٹریکٹ کر کے تم اپنے پروجیکٹ کو بغیر کسی کے مدد کے خود بنا سکتے ہو ۔۔ سوچو اگر ایک بار تم نے مستقبل کا کمپیوٹر بنا لیا تو دنیا میں کیا پوزیشن ہوگی تمہاری تمہارا بنایا گیا شاہکار بل گیٹس کے بنائے گئے تمام کمپیوٹر اور پروگرامز کے تابوت میں اخری کیل کا کام کرے گا جو اج دنیا کے ہر گھر اور افس کی زینت بنے ہوئے ہیں ان کی جگہ سب تمہارے کمپیوٹر لے لیں گے اور ان کی اتنی کمائی تمہارے پاس ائے گی کہ کہ تم خود کل کے بل گیٹس بن سکتے ہو
میں اس کی بات ہے سن کے شدید حیران ہوا اور دل میں خوشی بھی پھوٹ رہی تھی میں نے اس سے کہا آپ نے تو ایک ہی جھٹکے میں مجھے سارے خواب دکھا دیے
اس نے جواب دیا کیا ہم نے کچھ غلط کہا ہے
میں نے پھر سے اس کو جواب دیا نہیں غلط تو نہیں کہا ہے سچ تو ہے جو سب آپ نے کہا وہ بالکل حقیقت کے قریب ہے بالکل ایسا ہی ہونے والا ہے لیکن اب میرے خواب کو چھوڑیے اور اپنے خواب کی بات کریں
ازلان ملک حسا اور اس نے کہا کہ میں تم سے ایک بہت خاص چیز بنوانا چاہتا ہوں
میں نے پوچھا کیسی چیز
اس نے جواب دیا کہ اس بارے میں ابھی کچھ بتایا نہیں جا سکتا
میں نے بھی صاف الفاظ میں کہہ دیا اور بغیر جانے میں آفر قبول نہیں کر سکتا
اس نے مجھے دیکھا اور کہا یہ ٹھیک ویسی ہی بات ہوئی مسٹر ارمان جیسے تمہارے اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے عہدے داروں کے بیچ ہوئی تھی اگر ہم نے تمہیں یہی بتا دیا کہ ہم تم سے کیا کارنامہ کروانا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس اپنا کچھ نہیں بچے گا کیونکہ تم خود سب من حالاتوں سے گزر چکے ہو میں یہی امید کروں گا کہ تم میری مجبوری کو سمجھو گے
میں سوچ میں ڈوب گیا کہ جو وہ سب باتیں کہہ رہا تھا وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا میرے ساتھ بھی تو یہی سب کچھ ہو چکا ہے میں اپنے دماغ میں ہر اینگل ہر بات کو سوچتے ہوئے پھر سے اس سے بولا لیکن جب تک آپ مجھے بتائیں گے نہیں کہ اپ مجھ سے کیا کروانا چاہتے ہیں تب تک میں کیا کر پاؤں گا
ارمان صاحب اتنا تو ہم بھی سمجھتے ہیں لیکن وہ سب باتیں ہیں آپ کو وقت انے پر پتہ چل جائیں گی
میں نے سگریٹ کا ایک لمبا کش کھینچا تاکہ اس کا دھواں میرے دماغ کو چلانے کا کام مسلسل کرتا رہے اور میں نے سوچا کہ اس کی آفر ان حالات میں قبول کرنی بھی چاہیے یا نہیں پھر میں بولا اپ کو کیسی یقین ہے کہ جو چیز آپ بنوانا چاہتے ہیں وہ میں کر پاؤں گا
یہ اچھا سوال کیا تم نے ازلان ملک مسکراتے ہوئے بولا تمہارے پچھلے ٹریک ریکارڈ کو دیکھ کر تم نے جو مستقبل کا کمپیوٹر تیار کر لیا ہے جو آج کے زمانے میں صرف لوگ سوچ رہے تھے لیکن تم نے بنا لیا انہی سب باتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ تم وہ بنا سکتے ہو جو ہمارے دماغ میں ہے یہ میرا صرف اور صرف تم پر یقین ہے اور میرے پاس کچھ نہیں یقین کرنے کے سوا
میں نے سگریٹ کے دو اور لمبے کش لیے اور اب میرا دماغ 105 پرسنٹ پر چلنے شروع ہو گیا اور میں نے وہ سوال کر دیا جس کو سن کر ایک دفعہ ازلان بھی چونک اٹھا میں نے اس سے پوچھا کہ ہم مان کر چلتے ہیں کہ ان چار سال میں میں اپ کا کام پورا نہیں کر پایا تو اس حالات میں کیا ہوگا یعنی کام پورا نہ کر پانے کی صورت میں کیا میں دوبارہ سے اپنے لیے یا کسی اور کے لیے کام کرنے کے لیے آزاد ہوں گا یا نہیں اور کیا کام نہ ہونے کی صورت میں مجھے میری قیمت ملے گی یا نہیں
ازلان ملک مسکرایا اور اس نے کہا میں اس سوال کو ہی کب سے سوچ رہا تھا کہ تم یہ سوال کب کرو گے اس کا مطلب ہے کہ تم دماغی طور پر تقریبا تیار ہو چکے ہو ہماری آفر کو ایکسیپٹ کرنے کے لیے تو سنو مسٹر ارمان کے نہ صرف تم ازاد ہو کے بلکہ میں تمہیں پورا سو کروڑ روپے بھی دوں گا ازلان نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا کنٹریکٹ میں یہ نہیں لکھا جائے گا کہ ان چار سال میں تم ہمارے لیے کیا کام کر رہے ہو بلکہ صرف یہ لکھا جائے گا کہ چار سال تم صرف ہمارے لیے کام کرو گے اس کے بدلے میں ہم تمہیں اتنے پیسے دیں گے اور چار سال بعد تم ازاد ہو جاؤ گے
اس کی آفر کو ہر اینگل سے سوچنے کے بعد اور پرکھنے کے بعد میں نے ایک اور بات کہی جو اس نے پہلے سے ہی سوچ رکھی ہوئی تھی میں نے ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط اور ہے کہ میں ادھی رقم پہلے لوں گا
ازلان مسکرایا اور اس نے اپنے سگار سے کش لیتے ہوئے کہا کنٹریکٹ سائن ہوتے ہوئے وقت ہی اپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی جائے گی
اب کی بار میں نے زیادہ سوچنا مناسب نہیں سمجھا اور فورا بولا اگر ایسا ہے تو یہ سودا مجھے منظور ہے
*****
ارمان کی نیند ٹوٹی آنکھیں ابھی ٹھیک سے کھلی بھی نہیں تھی کہ عادت کے مطابق ایک زوردار انگڑائی لینے کے بعد زور سے آواز لگائی بختو او بختو لیکن ہر روز کی طرح بختو کی آیا مالک والی جانی پہچانی آواز نہیں آئی جب مجھے بختو کی جانب پہچانی آواز نہ ائی تو میں نے اپنی آنکھیں پوری طرح سے کھولی اور میں بری طرح سے چوں گیا اپنے کمرے میں نہیں تھا میں یہ کمرہ عام کمروں جیسا نہیں تھا سٹیل کا بنا ہوا اتنا یہ کمرہ اتنا محفوظ تھا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں اتنا محفوظ کمرہ کوئی نہیں دیکھا تھا انسانی ضرورت کی ہر چیز نظر ارہی تھی وہاں مگر کوئی نہ ہی کھڑکی اور نہ دروازہ نظر آ رہا تھا لیکن روشنی پتہ نہیں کہاں سے آ رہی تھی اپنے کمرے میں سویا تھا میں تو پھر یہاں کیوں اور کیسے آگیا میں میرے ذہن میں سینکڑوں سوال چل رہے تھے میں بے وقوفوں کی طرح کمرے میں موجود ہر چیز کو دیکھ رہا تھا پھر حلک پھاڑ کے میں چیخا کوئی ہے کوئی ہے یہاں
اور اچانک کمرے میں کسی لڑکی کی بہت ہی میٹھی آواز گونجی گھبراؤ مت ارمان اپ بالکل محفوظ جگہ پر ہیں میں نے چونک کر ایک دم کمرے کی چھت کی طرف دیکھا اواز وہیں سے ائی تھی وہاں ایک جالی جیسا سپیکر لگا ہوا تھا بری طرح حیران میں کچھ دیر اسپیکر کو دیکھتا رہا اور پھر چیخا کون ہو تم اور کہاں ہو
جواب میں انسانی نہیں بلکہ ایک مشین کی سرسراہٹ کی آواز ابھری میں نے آواز کی طرف ایک دم مڑ کر دیکھا تو سٹیل کی دیوار میں ایک دروازہ ابھر ایا تھا اور اس میں سے اذلان اندر داخل ہوا جسے دیکھتے ہی میں ایک دم بھڑک اٹھا
ارمان : یہ کیا حرکت ہوئی آپ نے مجھے کڈنیپ کیا ہے آپ نے تو کہا تھا کہ اپ ایک بزنس مین ہیں یہ تو موالیوں والی حرکت سے بھی اگے ہو گیا
ازلان: کیسی باتیں کر رہے ہیں ارمان صاحب اگر اپ رات والی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچیں تو ہمارا سودا اپ نے منظور کیا تھا اور کنٹریکٹ کے لیے ہمیں آج یہاں ملنا تھا
:ارمان : میرا دماغ خراب ہوتا جا رہا تھا اور میں نے چیختے ہوئے پوچھا یہ کون سا طریقہ ہوا ملنے کا مجھے یہاں کڈنیپ کر کے لایا گیا ہے
ازلان بولا : یہ کیسا کڈنیپ ہوا ارمان صاحب کہ نہ کوئی دماغی اور نہ ہی کوئی جسمانی تکلیف آپ کو ہوئی
ارمان : نہیں آپ بزنس مین نہیں ہو سکتے آپ بالکل ایک موالی ہیں ویسے ہی موالی جیسا جو مجھ جیسے ٹیلنٹڈ لوگوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں میں بن بنا چکا تھا اور میں پتہ نہیں کیا کیا اناپ شناب بکتا رہا اور میں نے کہا مجھے تمہارے لیے کام نہیں کرنا ہے
ازلان پھر سے بولا اتنی جلدی اتنے بڑے نتیجے پر مت پہنچو دوست موالی تم جیسے ٹیلنٹڈ لوگوں کو ٹارچر کر کے ان سے زبردستی کام نکلواتے ہیں کام کے بدلے 100 کروڑ نہیں دیتے ہم نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ تمہیں ہمارے ٹھکانے کا پتہ چلے مجھے بولنے کا موقع دیے بغیر ازلان بولتا گیا دو طریقوں سے یہ ہو سکتا تھا پہلا وہی جو ہم نے اپنایا دوسرا یہ تھا کہ تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ کر یہاں لایا جاتا لیکن ہم سمجھتے ہیں اسے تمہیں جسمانی اور ذہنی تکلیف ہوتی اس لیے ہم نے یہ طریقہ چنا تو میں پتہ بھی نہیں لگا اور
میں نے اس کی بات کو بیچ میں کاٹا اور اس سے پوچھا کیوں چاہتے تھے تم ایسا یہ تو کوئی بزنس مین والا کام نہ ہوا
دوست ہمارے دو طریقے ہیں کام کرنے کے ہم نہیں چاہتے کہ کنٹریکٹ کے دوران تم کسی باہر کے آدمی سے ملو یہ ہم نے اس لیے کیا کیونکہ ہمیں ہمارے پروجیکٹ کی سیکرسی چاہیے تھی
میں نے ایک دفعہ پھر اس کی بات کو بیچ میں ٹوکا تو آپ کو یہ ڈر ہے کہ میں آپ کے پروجیکٹ کے بارے میں کسی کو بتا دوں گا
ازلان نے بڑے تحمل سے میرے سوال کا جواب دیا سوال یہ نہیں ہے کہ تم کسی کو کچھ بتاؤ گے بات یہ ہے کہ ہم ایسا رزق ہی کیوں لیں تم کسی کو کچھ بتا سکو یا کوئی کسی قسم کی چالاکی سے تم سے کچھ اگلوا سکے اذلان کہتا گیا بات سمجھنے کی کوشش کرو ارمان تم خود ایک انجینیئر ہو تمہیں تو ایسی باتوں کو پہلی نظر میں سمجھ لینا چاہیے جیسے تم نہیں چاہتے کہ تمہارا پروجیکٹ کسی کو پتہ لگے
میں پھر سے بولا تو اس کا مطلب تو یہی ہے کہ چار سال تک میں تمہاری قید میں رہوں گا اور اس دفعہ ازلان کے منہ سے نکلے لفظوں نے مجھے ایک شدید جھٹکا دیا اس نے بہت ہی صاف گوئی سے کام لیا اور اس نے کہا
ہاں بالکل اس بات کا یہی مطلب ہے کہ ان چار سالوں میں نہ تم کسی سے ملو گے اور نہ ہی کسی سے کوئی رابطہ کرو گے
میرے ہوش اڑ گئے کہ یہ کیا ہو گیا ہے جس کام کو لے کر میں انتہائی خوش تھا اسی کام کے لیے مجھے قید ہونا پڑے گا اور اس کی آواز نے ایک دفعہ پھر مجھے اپنی طرف کھینچ لیا
ویسے یہ قید بالکل ویسی نہیں ہے جیسے عام قید ہوتی ہے یہ بالکل ایسا ہی ہوگا کہ تم کسی پرانے زنگ الود پنجرے میں نہیں بلکہ کسی سونے کے پنجرے میں رہ رہے ہو جسے ازلان ایمپائرز کہا جاتا ہے
تم سن کے حیران ہو گئے یہ کیسا شہر ہے جسے میں نے بنایا ہے یہاں کی ٹوٹل آبادی صرف پانچ ہزار ہے تم ان پانچ ہزار لوگوں میں سے کسی کے ساتھ بھی مل سکتے ہو دوستی کر سکتے ہو ہاں نہیں ہو سکتا تو صرف ایک کام نہیں ہو سکتا کہ تم ازلان ایمپائر کی سرحد سے باہر جاؤ اگر اسے تم قید سمجھتے ہو تو پھر تمہارے لیے یہ قید ہی ہے
میں قدر حیران اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا مطلب یہ شہر تمہارا بسایا ہوا ہے اور یہاں جتنے بھی لوگ ہیں وہ سب تمہارے ایمپلائیز ہیں
ازلان : تم ان باتوں کو چھوڑو ان باتوں سے تمہارا کوئی مطلب نہیں ہے
میں : پر کیوں
ازلان : ارمان دیکھو ساری باتوں کو ایک ساتھ سمجھنے کی کوشش نہ کرو نہیں تو تمہاری سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا اور نہ ہی یہ ممکن ہے یہاں رہو گے تو آہستہ آہستہ سب باتیں پتہ لگ جائیں گی
اس کی یہ باتیں سننے کے بعد میں اچھے سے جان چکا تھا کہ جتنا اس شخص کے بارے میں میں نے سوچا تھا یہ اس سے کہی زیادہ طاقتور اور رئیس آدمی تھا بھلے ہی وہ منہ سے نہ کہے مگر یہ شہر اسی کا بسایا ہوا تھا اتنی دیر میں پہلی بار میری نظر اس کے لباس پر گئی ہرن کی کھال سے بنا بہت ہی خوبصورت نائٹ گاؤن پہنا ہوا تھا وہ پیروں میں بھی اس کی کھال کی بنی چپل میں ہی خاموشی کو دیکھتے ہوئے ازلان نے اپنے گاؤں کی جیب میں سے میری برانڈ کی سگرٹ نکالی اور مجھے سگریٹ کا پیکٹ پکڑاتے ہوئے کہا
میرے خیال سے میرے دوست اس وقت تمہیں اس کی سخت ضرورت ہے
میں اس وقت شدید پریشانی کے عالم میں تھا کہ اپنی من پسند چیز کو اپنے سامنے ہوتے ہوئے بھی میں نے فوراً ہاتھ اگے نہ بڑھایا اور میں صرف ازلان کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا
اس خاموشی کو اذلان نے توڑا اور کہا لے لو دوست مجھے معلوم ہے کہ آنکھ کھلتے ہی تمہیں سب سے پہلے سگرٹ چاہیے میں حیران ہوں کہ تم نے بغیر سگریٹ کے اتنی بات کیسے کر لی اذلان بڑی معنی خیز مسکان کے ساتھ بولا
اور میں نے نہ چاہتے بھی اس کے ہاتھ سے پیکٹ لے لیا ازلان نے اپنے گاؤن کی دوسری جیب میں ہار ڈال کر وہی ہیروں سے جڑا لائٹر نکال کے میرے کو دیتے ہوئے کہا رکھ لو یہ تمہارے کام ائے گا
جس وقت میں سگریٹ جلانے میں مصروف تھا تو اسی وقت میرا دھیان ازلان کی طرف ہی تھا اس نے اس کمرے میں موجود شیشے کے ٹیبل کے اوپر سے ایک ریموٹ کو اٹھایا اور اس کا بٹن دبایا بٹن کا دبانا تھا کہ کھلے دروازے سے دو لڑکیاں ایک خوبصورت ٹرالی کو چلاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں لڑکیوں کے لباس بہت ہی مختصر تھے اور یہ لڑکیاں پاکستان سے نہیں بلکہ پڑوسی ملک افغانستان سے تھی
ازلان نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ارمان تمہیں بستر پر چائے پینے کی عادت ہے نا تو لو حاضر ہے تمہاری چائے
میں حالات کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ تبھی ازلان نے ریموٹ کا ایک بٹن اور دبایا اور سرسراہت کی آواز کے ساتھ کمرے میں ایک اور دروازہ نمودار ہو گیا
یہ باتھ روم ہے ازلان نے بتایا اور یہ ریموٹ یہاں کی کنجیالماری میں تمہارے ناک کے کافی کپڑے ہیں جب فریش ہو جاؤ تو صباح کے ساتھ تمہیں آفس آنا ہے کنٹریکٹ وہیں سائن ہوگا میں کچھ کہہ پاتا کہ تبھی اچانک سے
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Struggle –07– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –06– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –05– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –04– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –03– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –02– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
