جدوجہد کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے ۔
جدوجہد کہانی ہے ایک کمپیوٹر انجینئر کی جو کریٹیو دماغ کا حامل تھا ۔ اُس نے مستقبل کا کمپیوٹر بنایا لیکن حکومت وقت نے اُس کی کوئی پزیرائی نہیں کی ۔ تو اُس کو ایک اور شخص ملا جس نے اُس سے اُس کے دماغ کی خریدنے کا سودا کیا ، اور اُس کی زندگی کے 4 خرید لیئے ۔ کس لیئے ؟ ۔ کمپیوٹر انجینئر نے اُس کے لیئے آخر ایسا کیا کام کیا۔ دیکھتے ہے کہانی پڑھ کر ۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
جدوجہد قسط نمبر 07
کہ تبھی اچانک سے میں آگ بگولہ ہو کر چلایا اور غصے میں بولا کہ مجھے کوئی کنٹریکٹ سائن نہیں کرنا مجھے میری مرضی کی بنا غرض اٹھایا گیا
میرے اتنے چلانے کے بعد بھی ازلان بڑے تحمل سے بیٹھا رہا اور اس نے کہا
ازلان ۔ زبردستی نہیں کی جائے گی تمہارے ساتھ نہیں کرنا چاہو تو جس طرح لائے گئے ہو ویسے ہی واپس پہنچا دیے جاؤ گے بنا کسی کو پتہ لگے
یہ کہنے کے بعد ازلان اس پنجرے نما کمرے سے باہر چلا گیا اور میں خیالوں میں ڈوب گیا تقریبا 30۔1 گھنٹے کی گہری سوچ کے بعد میں اپنا فیصلہ کر چکا تھا
اور اس وقت میں ایک آفس نما کمرے میں موجود تھا جس کی اونچی ریوالونگ چیئر پر ملک ازلان بیٹھا ہوا تھا جس سے دو گھنٹے پہلے میں ٹھکرا چکا تھا اس وقت میں اسی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کیونکہ ان دو گھنٹوں میں جو جلوے میں نے اس کے دیکھے تھے میں ان سے نظر انداز نہیں کر سکتا تھا صبا کے ساتھ میں مٹیلک رولز رائل میں میں یہاں تک آیا تھا اور جب میں یہاں آ رہا تھا تو راستے کی چکا چون دیکھ کر میں حیران ہوا کہ کیا پاکستان میں موجود بھی کوئی ایسا شہر ہو سکتا ہے کہ جہاں پر اتنی سہولیات کے ساتھ لوگ رہ رہے ہوں اور یہ بالکل ہی الگ دنیا تھی اور اپنے سارے خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے صبا سے آخر پوچھ ہی لیا
میں ۔ صبا کیا یہ ساری دولت ملک ازلان کی ہی ہے
صبا نے مسکراتے ہوئے میری بات کا جواب دیا
صبا ۔ ہاں یہ سب انہی کا ہے
یہ سن کر میرا دماغ ایک دفعہ پھر گھوم گیا کہ جس شخص کے ساتھ میں اتنا برا رویہ اپنا رہا ہوں اور کل سے دو سے تین دفعہ میں اسے غنڈا اور موالی بھی کہہ چکا ہوں اخر وہ کتنے پیسے والا ہے
میں نے اپنے حوصلے کو اکٹھا کیا اور صبا سے ایک دفعہ پھر پوچھا
میں ۔ہم جہاں ہیں یہ پاکستان کا کون سا حصہ ہے
میرے سوال پر صبا کا لہجہ اس دفعہ بہت ہی سخت ہو گیا اور اس نے مجھے کہا
صبا ۔ اس بات کو جاننے کی یہاں رہنے والوں میں سے کوئی شخص بھی کوشش نہیں کرتا اور مستقبل میں تم بھی اگر یہاں رہے تو تم بھی یہ کوشش مت کرنا ملک صاحب کو کسی کا ایسا کرنا بالکل پسند نہیں اور یہاں موجود کوئی شخص بھی ایسا کوئی کام نہیں کر سکتا جو ملک صاحب کو پسند نہ ہوں کیونکہ یہاں پہ موجود ہر شخص ان کا ایمپلائی ہے
میں ۔ آخر ملک ازلان کام کیا کرتا ہے
میرے اس سوال پر صبا نے مجھے گھورا اور اس نے مجھے کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور گاڑی میں خاموشی چھا گئی اور اس کے بعد کا منظر تو میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ میں ملک ازلان کے آفس میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا اور ملک ازلان اپنی ریوالونگ چیئر پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے مجھ سے سوال پوچھ رہا تھا کہ بولو کیا چاہتے ہو
ابھی ازلان نہیں اتنا ہی کہا تھا کہ دروازہ کھلا اور دروازے میں سے تین لوگ اندر ہیں اور الگ الگ صفحوں پر اذلان کی اجازت کے ساتھ بیٹھ گئے
اور ایک دفعہ پھر سے ازلان نے بولنا شروع کیا اور کہا
ازلان ۔ محفل کے آداب ہیں کہ جب کوئی نیا شخص دوسری جگہ پر آتا ہے تو اس کا تعارف کروایا جاتا ہے اس لیے میں تمہیں اپنے ان تین بہت خاص لوگوں سے ملوانا چاہتا ہوں
یہ کہنے کے ساتھ ہی اس نے ایک لمبے گنجے لمبی ناک والے آدمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا
یہ ہیں ڈاکٹر ایمل خان اور یہ سنتے ہی ڈاکٹر ایمل اپنی جگہ سے اٹھے اور میری طرف آئے اور میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور دوبارہ جا کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے میں نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ ازلان کے اتنے خاص آدمی مجھے اتنا پروٹوکول کیوں دے رہے ہیں پھر ازلان نے ایک چھوٹے قد کے ٹگنے انسان کی طرف اشارہ کیا اور کہا ان سے ملے مسٹر ارمان یہ ہیں مسٹر سراج یہ ہمارے کمپیوٹر انجینیئر ہیں اور ہماری کمپیوٹر لیب کا ہر چارج انہی کے پاس ہے اور پھر سے وہی منظر دوبارہ سے پیش آیا کہ سراج اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا میرے صوفے کے قریب آیا اور اس نے آ کر مجھ سے ہاتھ ملایا اور واپس جا کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اس کے بعد ازلان نے پھر سے بولنا شروع کیا اور ایک باڈی بلڈر نما شخص کی طرف اشارہ کیا اور کہا ان سے ملو ارمان یہ ہیں مسٹر سائمن اور یہ سافٹ ویئر انجینئرنگ کی دنیا کے ایک نایاب ہیرے ہیں یہ کمپیوٹر میں آئے کسی بھی وائرس کو بآسانی ہٹا سکتے ہیں اور کسی کمپیوٹر ایسا وائرس بھی ڈال سکتے ہیں کہ وہ بچے نہیں برباد ہو جائے اور اس کا ڈیٹا نکلنے کے قابل ہی نہ رہے اور اس کے بعد وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا
جن تین آدمیوں سے اس وقت میں ملا تھا یہ تینوں آدمی مختلف ممالک کے تھے ڈاکٹر ایمل افغانستان سے مسٹر سراج بنگلہ دیش سے اور مسٹر سائمن کسی یورپین کنٹری سے تعلق رکھتے تھے
جب کمرے میں موجود ہر شخص اپنا تعارف کروا چکا تو میرا تعارف ازلان نے ان سے کروایا اور کہا
ازلان ۔ میرے قابل دوستوں ان سے ملیں یہ ہیں مسٹر ارمان خان یہ کمپیوٹر انجینئرنگ کی دنیا کے ایک نایاب بادشاہ ہیں لیکن بدقسمتی سے ابھی تک انہیں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں مل سکا کہ جہاں یہ اپنے ہنر دکھا سکیں اسی لیے آج یہ یہاں موجود ہیں کہ ہم انہیں وہ موقع دیں کہ یہ اپنا ہنر تراش کر ہمیں ایک نایاب چیز بنا کر دے سکیں
ان تینوں کی نظریں میری طرف تھی اور وہ مجھے دیکھ رہے تھے کہ یہ عام سا دیکھنے والا آدمی ہے کون جس کی ملک ازلان اتنی تعریفیں کر رہا ہے
جب تعارف کا دور ختم ہوا تو ازلان نے پھر سے اپنی کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے بڑے ہی تحمل سے پوچھا
ازلان ۔تو کیا جواب ہے تمہارا مسٹر ارمان کیا تم ہمارے ساتھ کنٹریکٹ سائن کرنا چاہتے ہو اگر کرنا چاہتے ہو تو ہم خوشی خوشی تمہارے ساتھ 400 کروڑ میں کنٹریکٹ سائن کریں گے ہم 400 کروڑ میں تمہارے چار سال خریدیں گے اس کے بعد تم اپنی مرضی کے مالک ہو گے اور 400 کروڑ کے مالک بھی ۔
ازلان کی بات سن کے میں بہت کنفیوز تھا میں کوئی فیصلہ نہیں لے پا رہا تھا اور اس موقع پر مجھے اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے تو وہ ہے سگریٹ
میں ۔ کیا میں یہاں سگریٹ پی سکتا ہوں
یہ سنتے ہی ازلان مسکرایا اور اس نے کہا
ازلان ۔ ضرور ارمان تم کچھ بھی کر سکتے ہو
یہ کہنے کے ساتھ ہی ازلان نے ایک بٹن دبایا اور کمرے میں دو خوبصورت دوشیزہ ہیں داخل ہوئیں اور ان کے ہاتھ میں ایک ٹری تھی جس ٹرے میں ایک ہیرے جڑا ہوا لائٹر اور اس میں میری ہی برینڈ کی سگریٹ بنسن پڑی ہوئی تھی ان میں سے ایک لڑکی آگے آئی اور اس نے پیکٹ کھولا سگریٹ میرے ہونٹوں سے لگائی اور اپنے ہاتھ سے لائٹر کو جلاتے ہوئے سگریٹ کو جلا دیا
سگریٹ کا پہلا لمبا کش کھینچنے کے بعد میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کچھ سکون محسوس کیا اور اسی سکون کے دوران میں نے اپنے سوچ کے گھوڑوں کو دوڑنے سے روکا کیونکہ میں اس کمرے میں آنے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ لے چکا تھا
میں ۔ میں اپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے اور یہ کنٹریکٹ سائن کرنے کے لیے بالکل تیار ہوں
ازلان ۔ شاباش ہمیں ایک سمجھدار آدمی سے یہی امید تھی اور تم ہمیشہ ہماری امیدوں پر پورے اترے ہو
یہ کہنے کے بعد اس نے اپنے دراز کو کھولا اور اس میں سے ایک کنٹریکٹ پیپر باہر نکالا جو کمپیوٹر سے ٹائپ کیا ہوا تھا اور اس سے میرے سامنے رکھا اور مجھ سے بولا
ازلان ۔ اسے دھیان سے پڑھ لو
میں نے اس کی بات سن کر کنٹریکٹ پیپر اٹھایا اور اسے پڑھنا شروع کیا ہر چیز زبردست تھی لیکن اس کے آخری کچھ لائنیں پڑھ کر میرا رنگ پیلا پڑ گیا اور وہ کنٹریکٹ پیپر میرے ہاتھ سے پھسل کر زمین پر گر گیا اور میں نے کہا
میں ۔ نہیں نہیں یہ اخری کچھ لائنیں مجھے بہت خطرناک لگ رہی ہیں اور یہ شرط میں بالکل نہیں مان سکتا
ازلان ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ارمان یہ شرط تو ماننی پڑے گی اگر شرط نہیں مانو گے تو ہمارا سودا کیسے ہو پائے گا
میں ۔ اور اگر سودا نہ ہوا تو اس کے بعد کیا ہوگا میرے ساتھ
ازلان ۔ کیا مطلب میں تمہاری بات کا مطلب نہیں سمجھا لیکن پھر بھی میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ سودا منظور ہو یا نہ ہو جس طرح تم رات کے اندھیرے میں اپنے فلیٹ سے چپ چاپ یہاں لائے گئے ہو اسی طرح تم دوبارہ اپنے فلیٹ پر پہنچا دیے جاؤ گے بغیر کسی تشدد اور جسمانی خروش کے میرا ذہنی تشدد کچھ کم ہوا مجھے پتہ نہیں کیوں بار بار اندر سے یہ فیلنگز آ رہی تھی کہ میرے ساتھ زبردستی ہو رہی ہے لیکن اس کا اتنا ٹھنڈا جواب سن کر مجھے ایک دفعہ پھر تحمل ہوا میں نے دوبارہ سے اپنے احساسوں اور جذبوں کو قابو کیا اور سگریٹ کا ایک لمبا کش لگا کر میں نے اس سے پوچھا
میں ۔ لیکن آپ ایسا کیوں کرنا چاہتے ہیں یہ شرطیں بہت سخت ہیں
اذلان ۔ بار بار ایک ہی سوال ارمان اور ایک ہی جواب سیدھی اور صاف بات ہے ہم نہیں چاہتے کہ جو چیز ہم بنانا چاہتے ہیں اس کے کنٹریکٹ یا اس کی سیکرٹریسی کسی تک پہنچے اور یہ سیدھی اور صاف بات ہے تم بھی تو یہی چاہتے ہو کہ جو چیز تم بنانا چاہتے ہو وہ صرف تم ہی بناؤ ہم وہ چیز نہیں بنا سکتے لیکن تم میں ہم نے وہ چیز دیکھی ہے کہ تم ہمارا سپنا پورا کر سکتے ہو اس لیے ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ شرط لازمی ہوں
میں ۔ پر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو چیز میں بناؤں گا آپ اسی کو مجھ سے ہی سیکرٹ رکھنا چاہتے ہیں
اس دفعہ ازلان کا چہرہ غصے سے سرخ پڑ گیا جس نے دیکھ کر کمرے میں موجود ہر شخص ڈر سے کانپنے لگا اور اس نے جو لفظ کہے وہ سن کر میرے بھی رونٹے کھڑے ہو گئے
ازلان ۔ تم نہیں بناؤ گے ارمان تم ہمارے لیے کام کرو گے اور کبھی بھی ہمارے پروجیکٹ کو اپنا نام دے کر نہیں پکارو وہ ہمارا سپنا ہے ہمارا پروجیکٹ ہے جس کی ہم تمہیں قیمت ادا کر رہے ہیں اس لیے جب بھی اس کا نام لو گے تو یہی کہو گے کہ ملک ازلان کا پروجیکٹ
کچھ پلوں کے لیے پورے کمرے میں خاموشی چھا گئی
اور اس خاموشی کو میں نے ہی توڑا ایک اور سوال کر کے
میں ۔ مطلب مستقبل میں مجھے ہی پتہ نہیں ہوگا کہ میں نے آپ کے لیے کیا کام کیا ہے میں نے یہاں پہ چار سال میں آپ کے لیے کیا کیا بنایا ہے یہ مجھے بالکل پتہ نہیں ہوگا
ازلان ۔ یہ ضروری ہے مسٹر ارمان اگر تم کو یہ شرط منظور ہوں تو ہی سودا ہوگا ورنہ نہیں
میں سوچ میں پڑ گیااور ایسی گہری سوچ میں ڈوب گیا کہ کافی دیر تک فیصلہ نہیں کر پایا اور اپنے ہاتھ میں موجود سگرٹ کے لمبے لمبے کش لگاتا رہا جب سگریٹ ختم ہوئی اور اس نے میرے ہاتھ کو ہلکا سا جلایا تو اسے میں نے ایسٹرے میں کچھ چل دیا اور بولا
میں ۔ پر جو چیز اپ میرے ساتھ کرنا چاہتے ہیں اس کا میرے دماغ پر کوئی غلط اثر تو نہیں پڑے گا نا
اس دفعہ جواب دینے والا شخص منفرد تھا
ڈاکٹر ایمل ۔ نہیں برخوردار تمہارے دماغ پر بال برابر بھی نہیں اثر ہوگا ان چار سالوں میں تمہارا دماغ اتنی ہی سپیڈ سے کام کرے گا جتنا اج کر رہا ہے ہم اس کا ایکسپیریمنٹ پہلے کر چکے ہیں اور اگر اس سے ہمارے اس ایکسپیریمنٹ کو نقصان ہوتا تو ہم اس کا استعمال تم پر کبھی بھی نہ کرتے کیونکہ تم ہمارا مستقبل کا اثاثہ ہو
میں ۔ میں ابھی کی نہیں میں چار سال بعد کی بات کر رہا ہوں
ازلان ۔ اس بارے میں تمہیں پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ اس دوائی کا ایکسپیریمنٹ بہت سے لوگوں پر کر چکے ہیں تو یہ بالکل بھی خطرناک نہیں ہوگی کہ ہم تمہیں گارنٹی دیتے ہیں
ازلان کی بات سن کر اب میرے پاس بولنے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا میں نے اس ٹرے میں سے ایک اور سگریٹ نکالی اور جلدی جلدی اس کو ختم کیا لمبے لمبے کش میرے جسم میں اور میرے دماغ میں سکون پہنچا رہے تھے اور سگریٹ ختم کرنے کے بعد میں نے اسے عیش ٹرے میں مسئلہ اور میں نے ان کی طرف اپنا رخ کرتے ہوئے کہا ا ایم ریڈی ۔۔۔۔۔۔
ویری گڈ کہنے کے ساتھ ہی ازلان کے چہرے پر ایسی چمک ابھری جو بچوں کے چہرے پر اس وقت آتی ہے جب ان کو ان کا من مانگا کھلونا مل جاتا ہے
میں ۔ لیکن میری اس سے پہلے ایک شرط ہے
ازلان ۔ ہمیں تمہاری ہر شرط منظور ہے
میں ۔ پہلے میری شرط تو سن لیں
اذلان ۔ تم جو بھی بولو گے ہمیں منظور ہے بولو تمہیں کیا چاہیے
میں ۔ میں اپنے کنٹریکٹ کی آدھی رقم ابھی اور اسی وقت اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنا چاہتا ہوں آدھی رقم ملنے کے بعد میں آپ کے ساتھ کنٹریکٹ سائن کروں گا
میری بات سن کر اذلان مسکرایا اور اس نے اپنے ٹیبل پر پڑے لیپ ٹاپ کو کھولا اور لیپ ٹاپ کو کھول کر میری طرف گھماتے ہوئے کہا
ازلان ۔ ہمارا اکاؤنٹ کھلا ہے تم دوسری ونڈو میں اپنا اکاؤنٹ کھول لو اور ہمارے اکاؤنٹ سے اپنے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کر لو
جب میں نے لیپ ٹاپ اپنی طرف گھمایا اور اس کے اکاؤنٹ کو دیکھا تو اکاؤنٹ میں موجود پیسے دیکھ کر میری انکھیں چندیا گئیں اور مجھے اپنی انکھوں پر یقین نہ ہوا۔۔۔۔
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Struggle –07– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –06– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –05– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –04– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –03– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –02– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
