Teacher Madam -12- اُستانی جی

اُستانی جی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین مکمل کہانیوں میں سے ایک زبردست کہانی ۔۔اُستانی جی ۔۔ رائٹر شاہ جی کے قلم سے سسپنس رومانس اور جنسی کھیل کے جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔  آنٹیوں کے شوقین ایک لڑکے کی کہانی ، میں   آپ   سے    ایک  بڑے    مزے  کی  بات   شئیر کرنا   چاہتا  ہوں   اور  وہ  یہ کہ    کراۓ  کے   گھر   میں  رہنے  کے  بھی   اپنے  ہی   مزے  ہیں ۔ وہ  یوں  کہ  ایک  گھر  سے  جب  آپ  دوسرے  گھر میں   شفٹ  ہوتے  ہیں  تو  نئئ  جگہ   پر  نئے   لوگ  ملتے  ہیں   نئئ  دوستیاں  بنتی  ہیں ۔ اور ۔ نئئ۔ نئئ ۔  (امید   ہے  کہ آپ لوگ میری بات  سمجھ   گئے  ہوں  گے ) اُس لڑکی کہانی   جس کا  بائی   چانس   اوائیل  عمر  سے   ہی  پالا میچور عورتوں  سے  پڑا  تھا ۔ یعنی  کہ اُس کی  سیکس  لائف  کی  شروعات  ہی  میچور   قسم  کی   عورتوں  کو چودنے  سے  ہوئی  تھی۔اور  پھر سیکس کے لیے   میچور  عورتیں  ہی  اُس کا  ٹیسٹ  بن  گئ ۔ اُس کو   کسی  لڑکی سے زیادہ میچور  آنٹی کے ساتھ زیادہ مزہ آتا تھا۔ کیونکہ میچور لیڈیز سیکس کی ماسٹر ہوتی ہیں نخرہ نہیں کرتی اور کھل کر مزہ لیتی بھی ہیں اور مزہ دیتی بھی ہیں۔ اور یہ سٹوری جو میں  آپ کو  سنانے  جا  رہا  ہوں  یہ بھی  انہی  دنوں  کی  ہے۔  جب   آتش  تو    ابھی لڑکپن      کی   سرحدیں  عبور کر رہا  تھا  لیکن  آتش  کا  لن  اس   سے  پہلے  ہی  یہ   ساری  سرحدیں    عبور کر  کے  فُل    جوان  ہو  چکا  تھا ۔ اور پیار  دو  پیار  لو  کا  کھیل  شروع  کر  چکا  تھا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Teacher Madam -12- اُستانی جی

  ان خواتین کو دیکھ کر میں نے ان کے لیئے جگہ خالی کی اور میں جو ارصلا کے بیڈ کے پاس کھڑا تھا وہاں سے ہٹ کر تھوڑا پیچھے کھڑا ہو گیا جبکہ ان خواتین میں سے کچھ تو پاس پڑی کرسی پر اور کچھ ارصلا کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں  اب صورتِ حال یہ تھی کہ ہمارے آگے لیڈیز بیٹھی بڑی ہمدردی سے ارصلا کے ساتھ پیش آئے واقعات کو ۔۔۔۔کچھ ماسی اور کبھی ارصلا کی زبانی سن رہیں تھیں جبکہ میں اس سے تھوڑی دور کھڑا تھا میرے سے کچھ فاصلے پر ارمینہ کھڑی تھی اب میں نے ایک نظر لیڈیز  اور ماسی کو دیکھا تو وہ سب آپس میں بزی نظر آئیں  ۔ ۔ ۔ پھر میری دماغ میں ایک بات آئی اور ۔۔۔۔ میں ان لیڈیز کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ تھوڑا      کھسک کر ارمینہ کے پاس  کھڑا ہو گیا ارمینہ نے بھی ایک نظر میری اس جسارت کو دیکھا لیکن کچھ نہ بولی نہ ہی اس نے کوئی ہل جل کی۔۔۔۔  یہ دیکھ کر میں تھوڑا  سااور اس کی طرف  بڑھ گیا اور ۔پھر  ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ کرتے کرتے میں ارمینہ کے ساتھ بلکل  جُڑ کر کھڑا ہو گیا – اور پھر ایک نظر لیڈیز کی طرف دیکھا تووہ   بڑے   زور  و شور سے باتیں کرنے میں لگی ہوئیں تھیں ان کا جائزہ لینے کے بعد میں نے کھڑے کھڑے  اپنا  ایک باتھ ارمینہ کے ہاتھ سے ہلکا سا ٹچ کر دیا  اور پھراس کے ردِعمل کا  جائزہ  لینے  لگا  اور پھر جب وہاں سے کوئی رسپانس نہ ملا تومیں نے ایک قدم آگےبڑھنے کا فیصلہ کیا  اور دوبارہ  اپنا  ہاتھ  اس کے ہاتھ کے ساتھ ٹچ کر دیا ۔۔۔اور ارمینہ کے ردِ عمل کا انتظار کرنے لگا لیکن جب وہاں سے کوئی ردِعمل نہ آیا تو  ۔

 اور پھر کچھ دیر بعد میں نے اپنا وہ ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ ۔ آہ ہ ہ   ہ ہ ہ ۔۔مزے کی بڑی ہی تیز لہر اُٹھی جو میرے سارے جسم میں سرائیت کر گئی  اور میں نے جلدی سے ارمینہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس پر   ہلکا  ہلکا مساج کرنے لگا ۔۔۔

پھر میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بظاہر عورتوں کی طرف متوجہ تھی  چنانچہ اب کی بار میں نےارمینہ  کی ایک انگلی کو پکڑا اور اس پر اپنی شہادت کی انگلی پھیرنی شروع کر دی اور دوبارہ  چوری چوری اس کی طرف دیکھا لیکن وہاں ایک طویل خاموشی تھی اوراس کہ  یہ خاموشی   میری  ہلہ شیری  میں مسلسل  اضافہ کر رہی تھی سو اب   میں نے ایک سٹیپ اورآگے  بڑھنے  کا سوچا  اور پھر میں نے تھوڑی جرات سے کام لیتے ہوۓ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور اسے دبا دیا اور پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ میں نے ان کا ہاتھ دبانے کے کچھ دیر بعد ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنا ہاتھ  ہولے ہولے  ان کی  ہپس پر لے گیا اور ان کی ہپس پر رکھ دیا آہ ۔ ۔ ہ ۔ ہ  کیا بتاؤں دوستو ۔ ۔ ۔  ۔ ان کی ہپس بڑی ہی نرم تھی اور اس کا لمس محسوس کرتے ہی  میری شلوار میں سرسراہٹ سی ہونے لگی اور ۔ ۔  ۔ ۔۔ لیکن  ابھی  میرے ہاتھ نے ان کی ہپس کوچھوا ہی تھا کہ وہ ایک دم تن گئی اور میرا ہاتھ پکڑ کرایک جھٹکے سے پرے   ہٹا  دیا ۔ ۔ ۔ ۔ اور ویسے ہی کھڑی رہی لیکن میں نے ہمت نہ ہاری  اور دوبارہ اپنا ہاتھ اس کی گانڈ  کی طرف بڑھایا ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس دفعہ وہ تیار تھیں اس لیئے جیسے ہی میرے ہاتھ نے اس کی ہپس کو چھوا ۔ ۔  ۔ تو اس نے اپنے ہاتھ میں  میرا ہاتھ پکڑ لیا

اور پھر ۔ ۔ میرے ہاتھ کی پشت پر ایک زور دار چٹکی کاٹ لی ۔ ۔ ۔ ۔ اُف ۔ف۔ف۔ف ۔  ۔ ۔ ارمینہ  نے اس قدر زور سے چٹکی کاٹی تھی کہ مجھے سچ مُچ نانی یاد آگئی اور میں نے بڑی مشکل سے اپنی چیخ کو ضبط کیا اور اپنے ہاتھ کو چھنکاتے ہوۓ بڑی مسکین سی شکل بنا کر  اس کی طرف دیکھا تو وہ  سامنے کی طرف منہ کر کے  ایسے دیکھ رہیں تھی کہ جیسا کچھ ہوا ہی نہیں تاہم جب اس کی نظر میری  رونے والی  شکل  پر  پڑی  تو میں نے دیکھا کہ ارمینہ اپنا منہ دوسری طرف کر کے مسکرا رہی تھی ۔ ۔ ۔ اب میں نے اس کی طرف دیکھنے ہوئے  اپنے  ہاتھ کو ملنا شروع کر دیا اور ایسے ری ایکٹ کیا کہ جیسے مجھے بڑا سخت  درد ہواہو (اور ہوا بھی تھا   لیکن اتنا نہیں جتنا کہ میں شو کر رہا تھا ) اور پھر جیسے ہی ارمینہ نے میری طرف دیکھا تو  میں نے اور زیادہ درد میں مبتلا  ہونے کی ایکٹنگ شروع کر دی اور خواہ مخواہ  برے برے  منہ بنا کراپنا چٹکی ولا  ہاتھ ملنے لگا ۔۔ ۔  ۔ میرا تیر نشانے پر لگا ۔ ۔

 اور اس کے چہرے پر  مجھے کچھ تشویش کے آثار نظر  آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن وہ ایسے   ہی کھڑی رہی لیکن  کچھ  ہی دیر بعد مجھے ان کا ہاتھ اپنی چٹکی والی جگہ پر محسوس ہوا اور پھر ۔۔ یا حیرت ۔۔  یہ میں کیا محسوس کر رہا ہوں ۔۔اورپھر اس   نے اپنا نرم و نازک سا  ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا ۔  ۔ اور ۔  ۔ اور ۔ ۔ چٹکی والی جگہ پر مساج کرنے لگی ۔  ۔  اس کا یوں میرے ہاتھ پر اپنا نرم ہاتھ رکھ کر مساج کرنے سے  میری روح  تک تو  اس کی ۔۔۔۔  مسیحائی  نہ گئی ہاں لن ضرور تن گیا  جسے میں نے بڑی مشکل سے  قابو گیا  اور یہ بات بھی   اچھی طرح محسوس کر لی کہ ارمینہ ۔ ۔ ۔  راضی ۔ ۔ہے  ۔ ۔ ۔ یا یہ بھی  ہو سکتا ہے کہ یہ میری خوش فہمی ہو   جیسے  بقول شاعر ۔ ۔ ۔   زندگی تم نے کب وفا کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ اپنی خوش فہمی ہی بلا کی ہے ۔۔ ۔ ۔ اور اس بلا کی خوش فہمی    کا میں اور میرا لن دونوں  شکار ہو چکے تھے ۔ ۔   ابھی میں یہی  بات سوچ کر  انجوائے کر  رہا تھا کہ اچانک ماسی کی آواز سنائی دی وہ ارمینہ سے کہہ رہی تھی ارمینہ بیٹی مہمانوں کے لیئے چائے تو بنا لاؤ ۔ ۔  ۔ ہر چند کہ آنے والی لیڈیز نے بہت کہا کہ  چائے رہنے دیں ہم ابھی پی کے آئی  ہیں پر ماسی نہ مانی ۔۔۔۔اور ارمینہ کو جانے کا اشارہ کیا  اور میں نے ارمینہ کو کچن کی طرف جاتے دیکھ کر  دل ہی دل میں ماسی کو گالیاں سو کروڑ  گالیاں دینے لگا  کہ اگر ارمینہ کو تھوڑی دیر بعد کہہ دیتی  تو ۔۔  پر   ۔  ۔  مجھ غریب کی یہاں سننے والا کون تھا  ؟؟   سو چُپ چاپ  رہا اور  ماسی کی طرف دیکھ کر اسے منہ ہی منہ میں گالیاں دیتا رہا ۔

کچھ دیرتک  تو میں ایسے ہی منہ بسورے کھڑا  رہا ۔ ۔  ۔۔ پھر سوچا کہ آج کے لیئے اتنا ہی کافی ہے  اب گھر چلا  جائے  اور ابھی میں  جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک  ان میں سے ایک عورت مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔ ۔  ۔ بیٹا   زرا  ایک گلاس پانی تو پلا دینا   اس کی بات سُن کر ماسی مجھ سے بولی ہاں ہاں بچہ کچن میں جاؤ اور باجی  سے کہہ کر ایک ٹھنڈا گلاس پانی لے آؤ   میں  ماسی کی بات سُن کر کچن کی طرف چلا  گیا اور جب میں کچن میں داخل ہوا تو ارمینہ سنک  کے پاس کھڑی    چائے  والے   برتنوں کو ہنگال   رہی تھی  چانچہ میں نے اس کو ماسی کو پیغام دیا تو وہ کہنے لگی کولر  سے پانی لے جاؤ  تو میں نے اس سے کہا باجی  گلاس کہاں ہے ؟ تو وہ کہنے لگی اندھے ہو کیا نظر نہیں آ رہا  ۔۔ پھر وہ   سنک کے اوپر اشارہ کر کے بولی  دیکھو  کتنے  گلاس پڑے  ۔ ۔ ۔  ہیں ۔۔۔۔ واقعی میں نے نظر  اٹھا کر اوپر دیکھا تو ان کے سنک کے اوپر ایک شلف سی بنی ہوئی تھی اور اس میں  بڑی ترتیب سے  کانچ  و سٹیل کے جگ گلاس  رکھے ہوئے تھے ۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ شلف کے عین نیچے ارمینہ برتن  ہنگال رہی تھی اس لیئے میں نے اس سے کہاکہ باجی  زرا ہاتھ بڑھا کر مجھے گلاس تو  پکڑا دیں تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی خود پکڑ لو نا  ۔ ۔ اور پھر برتن  ہنگالنے  میں مصروف ہو گئی ۔ ۔  ۔ ۔۔  اس کی بات سُن کر میں نے ایک نظر حالات کا جائزہ لیا اور پھر اچانک  میرے  ۔ ۔ دماغ میں ایک چھناکا   سا ہوا اور  ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سارا نقشہ میرے ذہن میں آ گیا اور میں ارمینہ سے بولا ٹھیک ہے باجی میں خود ہی لے لیتا ہوں اور پھر میں چلتا  ہوا  اس کے عین پیچھے ہو لیا اور  اپنا ہاتھ شیلف کی طرف بڑھا دیا ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُستانی جی ۔۔ کی اگلی  یا  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page