Teacher Madam -28- اُستانی جی

اُستانی جی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین مکمل کہانیوں میں سے ایک زبردست کہانی ۔۔اُستانی جی ۔۔ رائٹر شاہ جی کے قلم سے سسپنس رومانس اور جنسی کھیل کے جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔  آنٹیوں کے شوقین ایک لڑکے کی کہانی ، میں   آپ   سے    ایک  بڑے    مزے  کی  بات   شئیر کرنا   چاہتا  ہوں   اور  وہ  یہ کہ    کراۓ  کے   گھر   میں  رہنے  کے  بھی   اپنے  ہی   مزے  ہیں ۔ وہ  یوں  کہ  ایک  گھر  سے  جب  آپ  دوسرے  گھر میں   شفٹ  ہوتے  ہیں  تو  نئئ  جگہ   پر  نئے   لوگ  ملتے  ہیں   نئئ  دوستیاں  بنتی  ہیں ۔ اور ۔ نئئ۔ نئئ ۔  (امید   ہے  کہ آپ لوگ میری بات  سمجھ   گئے  ہوں  گے ) اُس لڑکی کہانی   جس کا  بائی   چانس   اوائیل  عمر  سے   ہی  پالا میچور عورتوں  سے  پڑا  تھا ۔ یعنی  کہ اُس کی  سیکس  لائف  کی  شروعات  ہی  میچور   قسم  کی   عورتوں  کو چودنے  سے  ہوئی  تھی۔اور  پھر سیکس کے لیے   میچور  عورتیں  ہی  اُس کا  ٹیسٹ  بن  گئ ۔ اُس کو   کسی  لڑکی سے زیادہ میچور  آنٹی کے ساتھ زیادہ مزہ آتا تھا۔ کیونکہ میچور لیڈیز سیکس کی ماسٹر ہوتی ہیں نخرہ نہیں کرتی اور کھل کر مزہ لیتی بھی ہیں اور مزہ دیتی بھی ہیں۔ اور یہ سٹوری جو میں  آپ کو  سنانے  جا  رہا  ہوں  یہ بھی  انہی  دنوں  کی  ہے۔  جب   آتش  تو    ابھی لڑکپن      کی   سرحدیں  عبور کر رہا  تھا  لیکن  آتش  کا  لن  اس   سے  پہلے  ہی  یہ   ساری  سرحدیں    عبور کر  کے  فُل    جوان  ہو  چکا  تھا ۔ اور پیار  دو  پیار  لو  کا  کھیل  شروع  کر  چکا  تھا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Teacher Madam -28- اُستانی جی

ساری برادری ان سے ناطہ توڑ گئی تھی ایسے میں   ایک  فرید ہی ان کے کام آیا ۔۔۔۔ وہ کسی طرح  ان کو  بتا دیتا تھا کہ آپ  لوگ فلاں وکیل کے پاس پہنچو  میں  بعد میں آتا   ہوں  تو جب یہ لوگ وہاں  پہنچتے تھے تو فرید پہلے سے ہی  وہاں موجود ہوتا تھا  جس کی وجہ سے بقول مرینہ اس کی عزت بہت دفعہ صرف  فرید  کی وجہ سے   بچی  تھی  ۔کیونکہ  وہ جس  بھی وکیل کے پاس جاتے تو اس کی سب سے پہلے نگاہ اس کی جوانی پر جاتی تھی ۔۔۔اور  ہر کوئی اس کی جوانی کو ہی دیکھتا تھا  ۔قصہ مختصر  جب سیشن کورٹ  سے ان کے والد کی ضمانت خارج ہوگئی تو ان لوگوں نے ہائی کورٹ جانے کی ٹھانی ۔۔۔۔ فرید کا ایک کلاس فیلو تھا جس کا والد حیدر آباد کا مشہور   وکیل تھا  اور جو صرف ہائی کورٹ کے کیس لیتا تھا  ۔۔۔ فرید نے منت سماجت کر کے ان کے والد سے ٹائم لیا اور مرینہ اور اس کی امی وقتِ مقررہ پر وکیل صاحب کے آفس پہنچ گئیں ۔اور انہیں والد کے قتل کیس کی فائیل دے دی ۔

 انہوں نے ساری فائل پڑھنے کے بعد مرینہ  اور اس کی والدہ کو بتایا کہ ان لوگوں نے آپ کا کیس اتنا پکا  بنایا  ہوا  ہے کہ آپ کے والد کی ہائی کورٹ سے بھی ضمانت ہونا بہت مشکل ہے ۔۔۔ اور ان کے پوچھنے پر مزید بتاہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے خیال میں اس کیس میں ان کے والد کا بچنا بہت مشکل ہے ۔۔۔۔ ان کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔مرینہ کہتی ہے وکیل صاحب کے منہ سے سزائے موت کا سُن کر  دونوں ماں بیٹی کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی تھی  اور وہ دونوں خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور وہیں رونے لگ گئیں ۔۔۔۔ تبھی فرید نے وکیل صاحب سے پوچھا کہ انکل ۔۔۔ کوئی اور  طریقہ ہے جس سے ان کے والد کی  جان بخشی ہو سکے؟؟  تو انہوں نے کہا ہاں ایک ہے اگر آپ کر سکو۔۔ تو۔۔ دکیل صاحب کی بات سے ہماری کچھ ڈھارس بندھی اور ہم دونوں ماں بیٹی نے رونا دھونا چھوڑ کر ان سے پوچھا کہ وہ کیا طریقہ ہے؟؟  تو اس نے بتایا کہ ۔۔وہ ہے  قصاص !! اگر آپ لوگ مقتول کے خاندان کو  خون بہا  ادا  کر دیں  تو آپ کے بندے کی جان بخشی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔ ورنہ دوسری صورت میں آپ کا بندہ پھانسی پربھی  لٹک سکتا ہے  ۔۔۔ پھانسی کا نام سُن کر ہم دونوں کی جان نکل گئی ۔۔۔ جیسا کہ میں نے  پہلے بھی بتایا تھا کہ مجھے اپنے والد سے بہت محبت ہے اس لیے میں نےتہیہ کر لیا تھا  کہ میں ہر صورت اپنے والد کی جان   بچاؤں گی ۔۔۔ چنانچہ ہم نے اپیل کا فیصلہ مؤخر کر دیا ۔ویسے بھی دا جی(  ابو)  کو جیل میں گئے ہوئے  سات آٹھ  ماہ   تو ہو ہی  چکے تھے  اور میرا خیال تھا کہ چاچا لوگوں کا غصہ اب کافی حد تک ٹھنڈا ہو چکا ہو گا یہ سوچ کو ہم نے  صُلع کے لیئے بھاگ دوڑ شروع کر دی ۔۔مرینہ کہتی ہے کہ فیصلہ کرنے کے بعد وہ سب سے پہلے اپنے والد کے پاس گئے  اور ان سے وکیل صاحب سے  ملاقات اور ان کی رائے سے آگاہ کیا  ۔۔ سارا ماجرا سُننے کے بعد ظاہر ہے دا جی   کافی پریشان ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی وہ صلع کے لیئے کسی طور بھی راضی نہ ہو رہے تھے لیکن جب امی نے ان کو اپنی چھوٹی چھوٹی بچیویوں  کا واسطہ دیا اور بتلایا کہ ان کے اندر ہونے کے ساتھ ہی ٹال  پر ان کے ملازموں نے ان کو بہت ہی کم پیسے دیئے ہیں اور ذیادہ تر  ملازم چچا کے ساتھ مل گئے ہیں  اور پھر امی نے  اس کے ساتھ  ہی  ان کو جزباتی بلیک میل بھی کیا تو دا جی  یہ ساری صورتِ حال  جان کر صُلع کے لیئے راضی ہو گئے ۔ ابا کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد ہم لوگ دادا کے چھوٹے بھائی جو ابھی زندہ تھے کے پاس گئے ۔۔۔ اور ان کو ساری بات سنا کر مدد کی درخواست کی۔ ۔۔اندر سے تو وہ بھی چچا  لوگوں کے  حق میں تھے لیکن شکر ہے کہ انہیں ہماری درد بھری داستان سن کر ہم پر رحم آ گیا  اور  انہوں نے ہمیں اپنی مدد کا یقین دلا دیا اور ۔۔۔۔ کچھ دن بعد آنے کا کہا ۔۔۔ اس کے  بعد انہوں نے چچا اور اس کے سالوں کے ساتھ صلع کے لیئے کوششیں کرنا شروع کر دیں ۔۔۔۔ اس بات کے دس پندرہ دنوں کے بعد ایک دن چھوٹے دادا    ہمارے گھر آئے اور بتایا کہ وہ لوگ صلع کے لیئے تیار ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ صلع کے لیئے  تین شرطیں پیش کر رہے ہیں ۔۔اور۔ وہ تینوں شرطیں خاصی ذلت آمیز تھیں ۔جنہیں سن کر میرا تو خون کھول اُٹھا  ۔ لیکن ہماری پوزیشن ایسی تھی کہ ۔۔۔ ہم انکار نہ کر سکتے تھے ان کی پہلی شرط یہ تھی کہ ۔۔۔جیل سے رہائی کے بعد ۔ ابا  یہ علاقہ چھوڑ  دیں اور  بطور تاوان  اپنا   ٹال چچا  کے حوالے کردیں۔۔۔ تیسری شرط ونی کی تھی کیونکہ مرنے والے کا  بڑا بھائی اس کا  وارث تھا جو کہ ایک خاصہ خوشحال متمول   اور کافی  اثر  و  رسوخ   والا  آدمی  تھا اور  جس کا حیدرآباد میں    ٹرانسپورٹ کابہت بڑا کاروبار تھا  نام اس کا قاسم تھا لیکن خاندان کے سب چھوٹے بڑے اس کو قاسم چاچا کہتے تھے اس کیس میں سارا خرچہ قاسم چا چا ہی کر رہا تھا جبکہ مرینہ کے  چچا تو بس برائے نام ۔۔۔ہی  صرف  اپنے کینے کی وجہ سے اس کیس میں پیش پیش  تھے ۔۔۔ قاسم  چاچا کی  بیوی کافی عرصہ پہلے فوت ہو چکی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ قاسم خان جس کی اس وقت عمر بلا مبالغہ 70 کے قریب ہو گی اور یہ ونی  قاسم چا چا کے ساتھ ہونی تھی  ۔۔۔ چھوٹے  دادا کی شرطیں سُن کر ہم نے ان سے کچھ ٹائم مانگا اور پھر مشورہ کے لیئے دا جی کے پاس  جیل چلے گئے ۔۔۔ پہلی  دو شرطوں پر تو انہوں نے  کوئی خاص رسپانس نہ دیا لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ میری  ونی قاسم چاچا کے ساتھ ہونی ہے ۔۔۔ تو وہ تڑپ اُٹھے اور بولےان بے غیرتوں کو اتنی بھی شرم نہیں آیہ کہ  قاسم خان تو مجھ سے بھی 10۔15 سال بڑا ہےاور میری بیٹی اس کی پوتی کے برابر ہے   میں بھلا اپنی پیاری بیٹی کو اس کے ساتھ کیسے ونی کر دوں؟؟  ۔۔۔۔ پھر میں نے ہمت کی اوردا جی کو سمجھایا کہ اس کے بغیر  اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے  اور پھر ان سے  کہا کہ دا جی  آپ نے مجھے کسی نہ کسی  کے ساتھ تو بیاہنا تھا   نا ۔تو آپ سمجھ لو کہ میرا نصیب ہی یہی تھا ۔ میری قربانی سے کم از کم باقی لوگ تو سکھی ہو جائیں گے اور ان کو بتایا کہ میری  بہنیں جوان ہو رہیں ہیں ان کے سر پر آپ کا سایہ بہت ضروری ہے ۔۔۔ میری بات سُن کر وہ کافی  دیر تک چپ رہے ۔۔۔ماحول کافی سوگوار ہو گیا تھا  ۔ میں امی اور دا جی (ابو) ہم  تینوں ہی  رو رہے تھے اور میں نے پہلے دفعہ اپنے دا جی کو  یوں  بچوں کی طرح روتے ہوئے دیکھا تھا  وہ ۔۔۔۔ ساری بات  سمجھتے تھے لیکن ۔۔۔ میری ونی کے لیئےوہ  کسی بھی طور  بھی راضی نہ ہو رہےتھے ۔ پھر میں نے ان کو ذور  دے کر بتلایا کہ دا  جی میں آپ کے لیئے ونی ہونے کے لیئے خوشی سے راضی ہوں آپ پلیز میری فکر نہ کریں   ۔۔۔

میری بات سُن کر وہ پھر سے رونے لگے اور بولے ۔۔۔ بیٹا میری غلطی کی سزا تم کیوں جھیلو؟ لیکن میں نے اور  امی نے منت سماجت کر کے ان کوبڑی ہی مشکل  منا  لیا کہ اس کے بغیر اور کوئی چارہ بھی نہ تھا اور میرا خیال ہے یہ بات وہ بھی اچھے طرح سے سمجھتے تھےخیر ان کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہم وہاں سے چھوٹا دادا کے گھر گئیں اور ان کو ساری صورتِحال بتائی ۔۔۔ سُن کر انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن ایک دفعہ وہ خود بھی دا جی سے ملنا چاہیں گے  کہ مردوں کی بات اور ہوتی ہے اور عورتوں کی بات اور ۔۔۔۔ ان کی یہ بات سُن کر مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن جبر کر گئی اور ہم ماں بیٹی وہاں سے گھر آگئے ۔۔۔۔ دوسرے یا تیسرے دن چھوٹے دادا ۔۔۔ دا جی کے پاس جیل گئے اور ان سے ساری باتیں ڈسکس کیں اور پھر دا جی کی منظوری کے بعد اگلے جمعہ کو ان کے گھر ہمارے  خاندان کا جرگہ ہوا ۔۔۔ جس میں ابا کی طرف سے میں اور امی پیش ہوئیں ۔۔۔ ساری شرطیں پہلے ہی سے طے تھیں لیکن اس کے باوجود جرگے کے سامنے یہ ساری شرطیں ایک دفعہ پھر رکھی گئیں اور جرگے کے سامنے چھوٹے دادا نے دا جی  کی ضمانت دی ۔۔۔ اور یوں سارے معاملات  طے ہو گئے جرگہ میں ظاہر ہے  قاسم چاچا بھی موجود تھا  ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُستانی جی ۔۔ کی اگلی  یا  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page