Teacher Madam -29- اُستانی جی

اُستانی جی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین مکمل کہانیوں میں سے ایک زبردست کہانی ۔۔اُستانی جی ۔۔ رائٹر شاہ جی کے قلم سے سسپنس رومانس اور جنسی کھیل کے جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔  آنٹیوں کے شوقین ایک لڑکے کی کہانی ، میں   آپ   سے    ایک  بڑے    مزے  کی  بات   شئیر کرنا   چاہتا  ہوں   اور  وہ  یہ کہ    کراۓ  کے   گھر   میں  رہنے  کے  بھی   اپنے  ہی   مزے  ہیں ۔ وہ  یوں  کہ  ایک  گھر  سے  جب  آپ  دوسرے  گھر میں   شفٹ  ہوتے  ہیں  تو  نئئ  جگہ   پر  نئے   لوگ  ملتے  ہیں   نئئ  دوستیاں  بنتی  ہیں ۔ اور ۔ نئئ۔ نئئ ۔  (امید   ہے  کہ آپ لوگ میری بات  سمجھ   گئے  ہوں  گے ) اُس لڑکی کہانی   جس کا  بائی   چانس   اوائیل  عمر  سے   ہی  پالا میچور عورتوں  سے  پڑا  تھا ۔ یعنی  کہ اُس کی  سیکس  لائف  کی  شروعات  ہی  میچور   قسم  کی   عورتوں  کو چودنے  سے  ہوئی  تھی۔اور  پھر سیکس کے لیے   میچور  عورتیں  ہی  اُس کا  ٹیسٹ  بن  گئ ۔ اُس کو   کسی  لڑکی سے زیادہ میچور  آنٹی کے ساتھ زیادہ مزہ آتا تھا۔ کیونکہ میچور لیڈیز سیکس کی ماسٹر ہوتی ہیں نخرہ نہیں کرتی اور کھل کر مزہ لیتی بھی ہیں اور مزہ دیتی بھی ہیں۔ اور یہ سٹوری جو میں  آپ کو  سنانے  جا  رہا  ہوں  یہ بھی  انہی  دنوں  کی  ہے۔  جب   آتش  تو    ابھی لڑکپن      کی   سرحدیں  عبور کر رہا  تھا  لیکن  آتش  کا  لن  اس   سے  پہلے  ہی  یہ   ساری  سرحدیں    عبور کر  کے  فُل    جوان  ہو  چکا  تھا ۔ اور پیار  دو  پیار  لو  کا  کھیل  شروع  کر  چکا  تھا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Teacher Madam -29- اُستانی جی

جو  بار بار میری طرف  میری طرف للچائی ہوئ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مجھے  وہیں ۔کھڑے کھڑے اپنے ساتھ لے جائیں ۔۔ اسی دوران  انہوں نے  اسی وقت مجھ سے نکاح بھی  کرنا چاہا لیکن جرگہ نے انہیں  اس بات کی اجازت نہ دی اور حکم دیا کہ سب سے پہلے دا جی کی رہائی ہو گی پھر اس کے بعد کوئی اور بات ۔۔۔

       اس جرگے کے ایک ماہ بعد دا جی گھر آ گئے اور پھر انہوں نے اپنا ٹال چچا کے نام کر دیا اور خود یہاں پنڈی میں جانے کی تیاری کرنے لگے  جس نے میری فیملی نے پنڈی کے لیئے ٹرین میں بیٹھنا تھا اسی دن صبع صبع میرا قبل میرا نکاح قاسم خان سے ہو گیا ۔۔۔

گو کہ میرا نکاح صبع صبع ہی ہو گیا تھا لیکن میں نے لڑ بھڑ کر اس وقت تک رُخصتی سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک میرے والدین گاڑی پر بیٹھ کر چلے نہیں جاتے۔ چنانچہ میری یہ خواہش  مان لی گئی اور وہ لوگ چھوٹے دادا کو وہاں چھوڑ کر واپس چلے گئے ۔۔ جانے سے پہلے امی مجھے ایک طرف لے گئیں اور کہنے لگیں دیکھو میری بچی یہ جو باتیں میں تم سے کر رہی ہوں ان کو غور سے سنو اور  انہیں اپنے پلو سے باندھ لو اور پھر انہوں نے مجھے   شادی کے متعلق بہت معلومات دیں جن میں سے کافی ساری باتوں کا مجھے  پہلے سے ہی علم تھا  ان باتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھے ایک بات پر خاصہ زور دیا اور وہ بات یہ تھی کہ میں ہر ممکن اپنے خاوند کا دل جیتنے کو کوشش کروں انہوں نے بتلا یا کہ تم جہاں جا رہی ہو وہ سب تمھارے اور تمھارے باپ کے دشمن لوگ ہیں وہ تم پر ہر ممکن سختی کریں گے اور تم کو ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے   لیکن تم نے ہمت نہیں ہارنی ۔۔۔ کسی طرح بھی ہو اپنے  خاوند کا دل جیتنا ہے اور اس کو اپنی مُٹھی میں کرنا ہے تبھی تمھارا گزارا ہو گا ورنہ یہ لوگ تم کھا جائیں گے اور خاص طور پر کہا کہ چاہے کچھ بھی ہو تم نے ہمت نہیں ہارنی ۔۔۔ میں نے بڑے غور سے  ماں کی باتیں سنیں اور ان کو یقین دلایا کہ میں ان پر دل و جان سے عمل کروں گی۔۔۔۔ اور بوجھل دل کے ساتھ ان کو رخصت کیا جسے ہی دا جی لوگ گھر سے سٹیشن کے لیئے نکلے چھوٹے دادا جی نے مجھے ساتھ لیا اور قاسم چاچا کے گھر چھوڑ آئے ۔۔۔ قاسم چاچا کی حویلی میں  نوکر چاکروں کے علاوہ چار لوگ رہتے تھے جن میں ایک تو دا جی کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا اور اب کل تین لوگ تھے ایک قاسم چاچا ۔ دوسرا ان کی بہن صنوبر ۔۔۔ جس کو ہم صنوبر پھوپھو کہتے تھے  صنوبر پھوپھو  ایک بھاری  بھر کم عورت تھی  لیکن  حیرت کی بات ہے کہ یہ موٹاپا  ان  پر بہت جچتا  تھا  اور اس موٹاپے میں بھی  وہ بڑی  ہی خوبصورت    اور دلکش نظر آتیں تھیں۔ میں نے  اپنی زندگی میں بہت کم ایسی  لیڈیز دیکھیں ہیں جن پر موٹاپا سجتا ہو ۔۔ صنوبر پھوپھو  کوئی پینتالیس  چھیالس سال کی ۔۔۔ ہوں گی اور یہ بیوہ تھیں ان کی ایک بچی تھی جس کی شادی کراچی میں ہوئی تھی اور وہ کبھی کبھی ملنے آتی تھی دوسری شخصیت جو قاسم چاچا کے گھر میں رہتی تھی وہ ان کا چھوٹا بھائی ہمت خان تھا ۔۔۔ جو کبھی کھبار ہی گھر آتا تھا  قاسم چاچا کا  ٹرانسپورٹ  کا کام عملاً اس نے ہی سنبھالا ہوا تھا ۔۔ سننے میں آیا تھا کہ وہ ایک لوفر  بندہ تھا ۔۔۔لیکن اس کو ہم نے کم ہی گھر پر دیکھا تھا وہ زیادہ تر ٹرانسپورٹ اڈے پر اپنے بنائے ہوئے ڈیرے  پر ہی پایا جاتا تھا ۔اورلڑکوں کا زیادہ شوقین تھا  اسی وجہ سے اس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی ۔۔ قاسم چاچا کی دوسری بہن  جو کہ میری چاچی  بھی لگتیں تھیں اوروہ اپنے کے گھرمیں  رہتی تھیں نہایت ہی  خبیث خاتون ہیں چاچا کو دا جی کے خلاف ابھارنے میں اس کا  مین کردار تھا ۔

چھوٹے دادا جی مجھے صنوبر پھوپھو کے حوالے کر  کے خود باہر مردان خانہ میں چلے گئے ۔۔جہاں پر برادری کے اچھے خاصے لوگ جمع تھے  اور ایک جشن کا سماں تھا  ۔۔  یہ شام کا وقت تھا صنوبر پھوپھو  مجھے ایک کمرے میں لے گئیں  جو کہ کافی سجا ہوا تھا اور یہ  قاسم چاچا کا کمرہ تھا  وہاں جا کرمیرے منہ سے ویسے ہی نکل گیا کہ ۔۔۔۔کہ پھوپھو یہ تو قاسم چاچا کا کمرہ ہے ۔۔۔میری بات سن کر انہوں نے  فوراً  میرے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور بولی خبردار ۔۔ چاچا  وہ  شادی سے پہلے تھے اب وہ تمھارے شوہر اور  خان جی ہیں ۔۔۔۔اس لیئے آج سے تم ان کو خان جی کہا کرو گی ۔اور مجھے صنوبر پھوپھو کی بجائے صنوبر باجی کہو گی ۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے ایک سرخ رنگ کا دلہن والا جوڑا دیا اور بولی نہانے کے بعد  کر اسے پہن لینا ۔۔ اور میں جیسے ہی نہانے کے لیئے جانے لگی تو انہوں نے  میرے ہاتھوں میں  ایک بال صفا کریم پکڑائی ۔۔۔ تو میں نے ویسے ہی روا داری میں ان سے پوچھ لیئے کہ اس کا کیا کرنا ہے ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ وئی ۔۔!! تم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ آج تمھاری پہلی رات ہے اور تم بالوں والی ۔۔۔ کے ساتھ اپنے  خاوند کے  پاس جاؤ گی ۔۔؟  پھر بڑے معنی خیز لہجے میں بولیں میرا خیال ہےتم بات کو سمجھ گئی ہو گی  ۔۔ان کے کہنے پر مجھے یاد آیا کہ دا جی قتل کی بھاگ دوڑ میں میں بڑا عرصہ ہوا میں  تو اپنے نچلے  حصے کی صفائی کرناہی بھول گئی تھی یہ بات یاد آتے  ہی  میں نے صنوبر    پھو پھو کے ہاتھ  سے کریم لی اور واش روم میں گھس گئی ۔۔ واش روم میں  کپڑے اتارتے ہی دیکھا تو  سامنے ایک  قدِآدم  شیشہ لگا ہوا تھا چنانچہ ہینگر پر کپڑے لٹکاتے ہی میں  اس کے سامنے جا  کھڑی ہوئی  اور اپنا جائزہ لینے لگی ۔۔۔۔اسی دوران میر ی نظر اپنے کسے ہوئے بدن سے ہوتی ہوئی  اپنی چوت کی طرف گئی ۔۔۔۔ دا جی کےقتل کیس میں اسے  بھول   ہی گئی تھی ۔۔اب جو   دیکھا ۔تو۔۔ وہاں بالوں کا ایک  گھنا  جنگل اگا  ہوا تھا ۔۔۔۔ پھر میں نے اپنی   پھدی پر بڑھے ہوئے بالوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔ اور ان  میں انگلیاں پھیرنے لگی ۔۔ ۔۔پھر  اچانک ۔۔۔۔ مجھے صنوبر ۔۔۔۔ پھوپھو  کی کہی ہوئی یہ بات یاد آگئی کہ ۔ آج تمھاری پہلی رات ہے ۔۔یہ سوچ آتے ہی ۔میں نے ۔شرم سے سوچا ۔۔ اُف ۔ مجھے پہلے کیوں  نہ ۔ان بالوں  کو کاٹنا  یاد آیا ؟؟۔۔پھر میں نے سوچا کہ ۔ اگر  صنوبر پھوپھو مجھے کریم  نہ  دیتی  تو ؟؟ ۔۔۔ میں ایسی ہی ۔۔وہ کیا  سوچتے ؟؟۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی  شرم سے میرا چہرہ سُرخ ہو گیا  ۔۔ اور میں نے دل ہی دل میں صنوبر پھوپھو کا  شکریہ ادا کیا ۔۔۔ صنوبر پھوپھو کے ساتھ ہی مجھے ان کا کہا ہوا یہ فقرہ بھی یاد آ گیا کہ ۔ آج تمھاری سہاگ رات ہے ۔۔سہاگ رات۔۔۔۔۔ سہاگ رات کا یاد آتے   ہی میرے پورے جسم میں سنسنی  سی پھیل گئی اور ۔۔۔ میرے اندر کچھ عجیب سی فیلنگ بھرنے لگیں  ۔اور میں یہ  سوچ کر ہی   شرم سے  دوھری ہو گئی  ۔کہ آج رات ۔۔ میری ۔۔۔۔چوت ۔۔ ماری جائے گئی  یہ خیال  آتے ہی ۔۔۔ بے اختیار میرا ہاتھ اپنی بالوں والی  پھدی کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔اورمیں نے اپنی پھدی کے بالوں کو ایک طرف ہٹا  کر۔ چوت کے لبوں پر لے گئی   ۔۔۔ یہ لب آپس میں جُڑے ہوئے تھے  ۔۔ پھر میں نے انہیں انگلیوں کی مدد سے  کھول دیا ۔۔ ۔۔اور ۔۔ شیشے کے سامنے اپنی چوت کا معائینہ کرنے لگی ۔اُفف ف ۔ اندر یہ کتنی سُرخ تھی ۔ اور ۔میں اپنی سُرخ سُرخ پھدی کو دیکھ مست ہونے لگی ۔۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ہی میں نے  اپنی مڈل فنگرکو اپنی پھدی کے اندر ڈال دیا اور اسے  ادھر ادھر گھمانے لگی ۔۔آہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی  میرے اوپر ایک عجیب سا سرور  ۔چھانےلگا  خصوصاً یہ سوچ کر کہ ۔۔۔  آج اس پھدی میں قاسم چا چا کا  لن جائے گا ۔پتہ نہیں قاسم چا چا ۔۔۔ او ۔۔ خان جی کا لن کتنا  بڑا  ہو گا ۔۔۔ میری اس تنگ سی پھدی میں جا پائے گا بھی کہ نہیں ۔۔؟؟

یہ بات سوچ سوچ کر ۔۔۔۔میں مست ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر تک میں نے فنگرنگ کی ۔۔ پھر میں نے اپنے  غیر ضروری بالوں پر  کریم لگانا شروع کر دی ۔۔۔۔ کریم لگانے کے بعد اچانک خیال آیا کہ ۔۔۔ یہ لوگ تو ہمارے دشمن ہیں ۔۔ پھر میں ایسا کیوں سوچ رہی ہوں ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُستانی جی ۔۔ کی اگلی  یا  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page