Teacher Madam -70- اُستانی جی

اُستانی جی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین مکمل کہانیوں میں سے ایک زبردست کہانی ۔۔اُستانی جی ۔۔ رائٹر شاہ جی کے قلم سے سسپنس رومانس اور جنسی کھیل کے جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔  آنٹیوں کے شوقین ایک لڑکے کی کہانی ، میں   آپ   سے    ایک  بڑے    مزے  کی  بات   شئیر کرنا   چاہتا  ہوں   اور  وہ  یہ کہ    کراۓ  کے   گھر   میں  رہنے  کے  بھی   اپنے  ہی   مزے  ہیں ۔ وہ  یوں  کہ  ایک  گھر  سے  جب  آپ  دوسرے  گھر میں   شفٹ  ہوتے  ہیں  تو  نئئ  جگہ   پر  نئے   لوگ  ملتے  ہیں   نئئ  دوستیاں  بنتی  ہیں ۔ اور ۔ نئئ۔ نئئ ۔  (امید   ہے  کہ آپ لوگ میری بات  سمجھ   گئے  ہوں  گے ) اُس لڑکی کہانی   جس کا  بائی   چانس   اوائیل  عمر  سے   ہی  پالا میچور عورتوں  سے  پڑا  تھا ۔ یعنی  کہ اُس کی  سیکس  لائف  کی  شروعات  ہی  میچور   قسم  کی   عورتوں  کو چودنے  سے  ہوئی  تھی۔اور  پھر سیکس کے لیے   میچور  عورتیں  ہی  اُس کا  ٹیسٹ  بن  گئ ۔ اُس کو   کسی  لڑکی سے زیادہ میچور  آنٹی کے ساتھ زیادہ مزہ آتا تھا۔ کیونکہ میچور لیڈیز سیکس کی ماسٹر ہوتی ہیں نخرہ نہیں کرتی اور کھل کر مزہ لیتی بھی ہیں اور مزہ دیتی بھی ہیں۔ اور یہ سٹوری جو میں  آپ کو  سنانے  جا  رہا  ہوں  یہ بھی  انہی  دنوں  کی  ہے۔  جب   آتش  تو    ابھی لڑکپن      کی   سرحدیں  عبور کر رہا  تھا  لیکن  آتش  کا  لن  اس   سے  پہلے  ہی  یہ   ساری  سرحدیں    عبور کر  کے  فُل    جوان  ہو  چکا  تھا ۔ اور پیار  دو  پیار  لو  کا  کھیل  شروع  کر  چکا  تھا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Teacher Madam -70- اُستانی جی

اس کہ یہ  بات  مجھے  کچھ مناسب سی   لگی اور  میں نے  ہاں کر دی پھر اس کے بعد ہم نے کچھ کورڈ  وغیرہ طے کئے اور پھر کچھ دیر کے بعد میں جانے لگا  تو جاتے جاتے مجھے  یاد آیا  تو میں نے اس سے کہا کہ ارمینہ جی  یہ چور کا کیا چکر ہے ؟  میری بات سُن کر وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ کچھ خاص نہیں بس ارصلا کو مطمئن کرنے کے لیئے امی نے یہ ڈرامہ کیا تھا ۔۔۔ اور اس کی بات سن کر میں بھی ہنس پڑا اور  وہاں سے اپنے دوستوں کی طرف چلا گیا ۔۔۔ ۔۔۔۔

         پھر راستے میں خیال آیا کہ ارمینہ کو کہہ تو دیا ہے کہ میں اس کے پاس چھت پر آجایا کروں گا لیکن  اس کے چھت پر جاؤں گا کیسے ؟ ۔۔۔ کیونکہ ارمینہ لوگوں  کا  گھر ہمارے گھر کے  سامنے  والی  گلی میں  تھا  اپنی گلی  والی سائیڈ میں ہوتا  تو  کوئی  پراوہ  نہ تھی ۔۔۔  یہ سوچ کر میں راستے سے  ہی   واپس  ہو گیا  اور پھر ارمینہ والی  گلی کا  سروے کرنے لگا ۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ ارمینہ والی  گلی کے سارے ہی گھروں کی چھتیں آپس میں ملی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔ اور  میں اس خیال سے ارمینہ کے گھر کے ساتھ ملے ہوئے گھروں کا  جائزہ  لینے  لگا  کہ  بوقتِ ضرورت کس گھر کی چھت پر  چڑھ کے  ارمینہ کی چھت پر پہنچا جا سکتا ہے کچھ دیر کی تگ و دو کے بعد آخر کار   مجھے  وہ گھر مل ہی گیا ۔۔۔ یہ چوہدری اشرف صاحب  کا گھر تھا  جس کی عقبی  سائیڈ پر  گٹر  اور پانی کا  پائپ  ساتھ ساتھ لگا  ہوا تھا ۔۔۔ گٹر والا پائپ  غالباً  ان  کے چھت کے واش  روم  کا  تھا اور پانی  والا پائپ ان کی پانی والی ٹینکی سے آ رہا تھا ۔۔۔۔ کچھ دیر تک  جائزہ لینے کے بعد میں نے چوہدری اشرف صاحب کے گھر کو فائنل کر لیا  وہ  ا س لیئے بھی کہ چوہدری صاحب کے بال بچے  نہ تھی اور وہ  دونوں میاں بیوی بے اولاد تھے ۔۔۔ اور ویسے بھی  وہ لوگ جلدی سونے کے عادی تھی ۔۔۔ اس لیئے اگر چڑھتے  وقت تھوڑا  بہت  شور ہو بھی جائے  تو ان  کے اُٹھنے  کی کوئی  امید  نہ تھی ۔۔۔ ان سے آگے  مرزا صاحب کا  مکان تھا ۔۔۔ان کے گھر میں  میاں بیوی اور دو تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے ۔۔۔۔ پھر اس سے آگے شیخ صاحب کا  گھر تھا ۔۔۔شیخ صاحب کے ہاں نفری تھوڑی  زیادہ تھی   اس میں شیخ صاحب  ان  کی پہلی  بیوی اور۔۔۔۔۔ دوسری    بیوی کے ساتھ  ساتھ  ان  کی ایک  بیٹی  اور بیٹا بھی  رہتے  تھے ۔۔۔ بیٹا تو شیخ صاحب کے ساتھ کام پر جاتا تھا اور بہت کم محلے میں نظر آتا تھا جبکہ ان کی بیٹی کو میں نے ایک دو  دفعہ ہی  دیکھا تھا ۔وہ شکل سے تو  کافی شریف اور اپنے کام سے کام  رکھنے  والی لڑکی   لگتی تھی ۔ گویا  ہر طرف ۔۔۔ راوی چین ہی چین  لکھتا تھا ۔۔۔

 یہ تو تھی ارمینہ کی صورتِ حال ۔۔۔۔۔اب میں آپ کو ندا میم  کی بات سناتا  ہوں اگلے  دو تین  دن کے بعد جب  میں ندا میم کے گھر گیا تو  وہ  بڑے تپاک سے ملیں   انہوں نے  مجھے گلے سے لگا کر ایک بھر پور کس دی اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ کیا یاد کرو گے میں نے تمھارا کام کر دیا ہے اور پھر  انہوں نے مجھے  وہیں ٹھہرنے کو  کہا اور خود اندر چلی گئیں      اور جب  وہ  واپس آئیں تو  ان کے  ہاتھ  میں میرا  استانی  جی ناول تھا ۔۔۔۔۔مجھے ہاتھ میں  پکڑاتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔۔ اُف کس قدر گرم  اور غضب کا  ناول  ہے یہ۔۔۔۔ تو  میں نے ان سے پوچھا میڈم آہپ نے اسے  پڑھا ہے تو وہ کہنے  لگیں ۔۔۔۔ ہاں ایک دفعہ  نہیں بلکہ  تین دفعہ پڑھا  ہے ۔۔۔۔ پھر انہوں  نے کہا کہ یار اس مصنف  (وحی وہانوی )  کا  کوئی  اور ناول ہو تو وہ  ضرور لیتے آنا ۔۔۔پھر انہوں نے مجھے نئے ناول کے ساتھ ساتھ  استانی جی والے ناول کا دوبارہ کرایہ دیا ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میڈم آپ اس  ناول کا  کرایہ  پہلے  ہی مجھے دے چکیں   تو  وہ کہنے لگیں کوئی بات نہیں ۔۔۔ اور پھر مجھے جانے کے لیئے کہا اور میں  نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے میڈم زیبا سے میرے بارے میں بات کر لی تھی تو کہنے لگیں  ہاں تمھارا یہ   کام تو میں نے جب  زیبا  گاؤں میں  تھی تب ہی کر دیا تھا ۔۔۔۔ پھر وہ   مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں کہ  ہر چند کہ میں نے تمھاری   اجازت  تو لے  لی ہے  ۔۔۔۔لیکن پھر بھی تم ایک دو دن صبر کر لو تو بہتر ہو گا ۔۔۔ ان کی بات سُن کر میں نے ان کو آنکھ مارتے ہوئے کہا ،۔۔۔۔میڈم یہ تو بتائیں کہ مجھے اور کن کن چیزوں  میں مزید صبر کرنا پڑے گا اور پھر بھوکی نظروں سے ان کے مموں کی .. طرف دیکھنا لگا ۔۔۔۔  وہ میری بات سمجھ گئیں اور بولیں تم کو تو بس ہر وقت میرے بریسٹ ہی چوسنے ہوتے ہیں اور پھر انہوں نے مجھے ٹھہرنے کا اشارہ  کیا اور خود گلی میں جھانک کر ایک نظر باہر کی طرف دیکھا اور  پھر کنڈی لگا کر واپس آگئیں اور میرے پاس آ کر  بولی اندر آ جاؤ۔۔۔اور میں ان کے پیچھے پیچھے اندرچلا گیا ۔۔۔

اندر جا کر انہوں نے مجھے اپنے  گلے سے لگا  لیا اور  بولیں ایک تو  تم ہمیشہ ہی    غلط  ٹائم پر آتے ہو تو میں نے ان سے کہا کہ میڈم آپ  نے خود  مجھے اس  ٹائم آنے کو کہا تھا تو  وہ   کہنے لگیں  ہاں  مانتی  ہو ں کہ میں نے کہا تھا لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ اس ٹائم  گھر میں مہمانوں نے آنا ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے اپنا  منہ میرے آگے کیا اور میرے ہونٹوں سے ہونٹ ملا لیئے ۔۔۔ اور پھر ندا  میڈم میرے ہونٹ چوسنے لگیں ۔۔۔ اور مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میڈم کے نرم ہونٹ میرے ہونٹوں  کے ساتھ ہمیشہ کے لیئے  پیوست ہو گئے ہیں تاہم  ان کی کسنگ  کا یہ  دورانیہ  بہت مختصر رہا ۔۔۔ پھر انہوں نے میرے ہونٹوں سے ہونٹ ہٹا کر بڑی ہی گرسنہ نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں  ۔۔۔ پتہ نہیں کیا بات ہے کہ تم اور تمھارا  یہ شاندار ۔۔۔۔۔( لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ۔۔۔۔ مجھ سےکیسے  اتنے  بچتے  جا  رہے  ہو ۔۔۔۔ پھر وہ اپنی قمیض اوپر کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ لیکن آخر کب تک؟ ایک  نہ  ایک  دن  تو  بکرے کی ماں ۔۔۔۔۔ چھری تلے آئے گی ۔۔۔اتنی دیر میں انہوں نے اپنی قمیض اور برا کو چھاتیوں  سے  ہٹا کر اس کو ننگا کر دیا تھا ۔۔۔۔ اور اب میرے سامنے ان کی ننگی  چھاتیاں  ان کے سینے پر  تنی ہوئیں نظر آ رہی تھیں ۔۔۔ اور ان حسین چھاتیوں  کے اکڑے ہوئے  براؤن  سے نپل ان کے  بھاری مموں پر عجیب سی بہار دکھا رہے تھے  ۔۔۔ پھر انہوں نے مجھے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ آجاؤ  میرے راجہ۔۔۔ اور  میری  بھاری چھاتیوں کا گرم دودھ       پی  لو۔۔ ان کی بات سُن کر میں آگے بڑھا اور ان کی ایک چھاتی پر اپنا منہ لگا کر ان کا اکڑا ہوا نپل     ہونٹوں میں ے لیا اور ان کا  دودھ چوسنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ ان کے براؤن شیپ اکڑے ہوئے موٹے موٹے نپل میرے ہونٹوں کے بیچ آ کر مجھے مزے کی دینا سے ہمکنار کر رہے تھے ۔۔۔۔ کچھ دیر تک اپنی چھاتیاں چسوانے کے بعد انہوں نے بمشکل میرا منہ اپنے مموں سے ہٹایا اور بولی ۔۔اب بس بھی کرو ۔۔۔ اور پھر جیسے ہی میں نے ان کی چھاتیوں سے اپنا منہ ہٹایا ۔۔انہوں نے اپنی قمیض نیچے کر لی ۔۔۔ اور میرے ساتھ ساتھ چل پڑیں اور دروازے سے نکلتے ہوئے ایک دفعہ پھر انہوں نے مجھے پکی تاکید کی کہ میں وحی وہانوی  کا ناول ضرور  لیتا آؤں ۔۔چنانچہ  پیسے  اور ناول ہاتھ میں پکڑے میں ربے کے پاس چلا گیا  کہ جس نےوالد صاحب کی وفا ت کے بعد آج  ہی دکان کھولی تھی ۔۔  اسے دیکھتے  ہی میں نے سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہا ربا  جی آپ کے والد صاحب کی وفات کا بڑا افسوس ہو اہے  تو وہ قدرے غصے سے کہنے لگا ۔۔۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے بتا  ۔۔ناول لایا ہے تو اس کی بات سُن کر میں نے بڑی فرمانبرداری سے اپنی  شلوار کی ڈب سے استانی جی ناول نکالا اور ربے کے حوالے کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر اسے خوش آمدانہ لہجے میں کہا کہ۔۔ وہ ربا جی اسے واپس کرنے کے لیئے میں نے آپ کی دکان پر کافی پھیرے مارے تھے ۔۔۔ لیکن ہر دفعہ آپ کی دکان بند ملتی تھی ۔۔۔ پھر بڑی ہی غم ذدہ سی شکل بنا کر اس سے بولا ۔۔۔ ربا جی آپ کے والد صاحب کو کیا ہوا تھا ۔۔۔ تو وہ اسی تلخی سے بولا تمھارا سر ہوا تھا ۔۔ ناول تم نے جمع کروا دیاہے اور کچھ چیز لینی  ہے تو مزید  پیسے نکال ورنہ یہاں  سے چلتا پھرتا نظر آ ۔۔۔۔بڑا آیا میرا  ہمدرد ۔۔۔ربے کا روکھا  سا جواب سُن کر میں نے دل ہی  دل میں  اسے دوسو گالیاں دیں ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُستانی جی ۔۔ کی اگلی  یا  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page