Teacher Madam -71- اُستانی جی

اُستانی جی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین مکمل کہانیوں میں سے ایک زبردست کہانی ۔۔اُستانی جی ۔۔ رائٹر شاہ جی کے قلم سے سسپنس رومانس اور جنسی کھیل کے جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔  آنٹیوں کے شوقین ایک لڑکے کی کہانی ، میں   آپ   سے    ایک  بڑے    مزے  کی  بات   شئیر کرنا   چاہتا  ہوں   اور  وہ  یہ کہ    کراۓ  کے   گھر   میں  رہنے  کے  بھی   اپنے  ہی   مزے  ہیں ۔ وہ  یوں  کہ  ایک  گھر  سے  جب  آپ  دوسرے  گھر میں   شفٹ  ہوتے  ہیں  تو  نئئ  جگہ   پر  نئے   لوگ  ملتے  ہیں   نئئ  دوستیاں  بنتی  ہیں ۔ اور ۔ نئئ۔ نئئ ۔  (امید   ہے  کہ آپ لوگ میری بات  سمجھ   گئے  ہوں  گے ) اُس لڑکی کہانی   جس کا  بائی   چانس   اوائیل  عمر  سے   ہی  پالا میچور عورتوں  سے  پڑا  تھا ۔ یعنی  کہ اُس کی  سیکس  لائف  کی  شروعات  ہی  میچور   قسم  کی   عورتوں  کو چودنے  سے  ہوئی  تھی۔اور  پھر سیکس کے لیے   میچور  عورتیں  ہی  اُس کا  ٹیسٹ  بن  گئ ۔ اُس کو   کسی  لڑکی سے زیادہ میچور  آنٹی کے ساتھ زیادہ مزہ آتا تھا۔ کیونکہ میچور لیڈیز سیکس کی ماسٹر ہوتی ہیں نخرہ نہیں کرتی اور کھل کر مزہ لیتی بھی ہیں اور مزہ دیتی بھی ہیں۔ اور یہ سٹوری جو میں  آپ کو  سنانے  جا  رہا  ہوں  یہ بھی  انہی  دنوں  کی  ہے۔  جب   آتش  تو    ابھی لڑکپن      کی   سرحدیں  عبور کر رہا  تھا  لیکن  آتش  کا  لن  اس   سے  پہلے  ہی  یہ   ساری  سرحدیں    عبور کر  کے  فُل    جوان  ہو  چکا  تھا ۔ اور پیار  دو  پیار  لو  کا  کھیل  شروع  کر  چکا  تھا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Teacher Madam -71- اُستانی جی

لیکن بظاہر مسکراتے ہوئے کاو ۔۔ربا جی وہ اسی مصنف کی کوئی اور ناول ہے ؟ تو ربا سر ہلاتا ہوا  بولا ۔۔۔ بلکل ہے اورپھر وہ دراز سے ایک ناول نکال کر مجھے دیتے ہوئے بولا ۔۔۔ کیا یاد کرو گے یہ لو ۔۔۔ یہ وحی وہانوی صاحب کا سب سے بیسٹ ناول ہے میں نے بڑی بے صبری سے اس کے  ہاتھ سے  وحی وھانوی ناول پکڑا ۔۔اور اس کا ٹائٹل  دیکھا تو  وہاں  ہیرؤین    لکھا تھا   چنانچہ میں نے ربے کے ہاتھ  سے  وہ ناول  پکڑا اور سیدھا میڈم کے گھر پہنچ گیا۔۔۔ اور ان کے گھر کی دستک دی تو جواب میں میڈم خود نکلی اور پھر میرے ہاتھ سے ناول لیتے ہوئے  بولی ۔۔۔ابھی جاؤ ۔۔۔۔ کل آنا کہ مہمان آ گئے ہیں ۔۔۔ میڈ م کی بات سُن کر میں منہ لٹکائے گھر واپس آگیا ۔۔۔۔

اگلے دن جمعہ تھا اور  ہمیں سکول سے چھٹی تھی (اس زمانے میں جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی) اس لیئے امی نے   صبع صبع  ہی  وہ  آرڈر جاری کردیا  جو  وہ  ہر جمعہ کی  صبع کیا کرتی تھیں ۔۔۔اور  وہ  یہ کہ خبردار تم  نے کہیں نہیں جانا ۔اس کی وجہ تھی کہ ۔۔ ہم لوگوں نے جمعہ بازار سے ہفتے بھر کی شاپنگ کرنی ہوتی تھی  ۔۔اور میں بطور قلی کے ان کے ساتھ  جایا کرتا تھا ۔۔ چنانچہ جمعہ کے بعد ہم لوگ ہاتھ میں تھیلے وغیرہ پکڑے  گھر سے نکل کر  جمعہ بازار کی طرف چل پڑے ۔ ( جو کہ کمیٹی چوک کے ساتھ اور  کہکشاں سینما کے سامنے لگتا تھا ) ابھی ہم جمعہ  بازار  میں  داخل  ہی  ہوئے  تھے کہ  وہاں پر ہمیں   امی  کی ایک گہری سہیلی  بختو خالہ  نظر  آ گئی  جسے دیکھ کر میرا  تو  سارا  مُو ڈ  ہی خراب  ہو گیا ۔۔  وجہ اس کی یہ تھی  کہ  اس  سے پہلے  تو مجھے صرف اپنے  ہی گھر کی خریداری  کے لیئےلیا  گیا  سامان اُٹھا نا  تھا  جبکہ اب اس محترمہ کا بھی  سامان  اُٹھانا  پڑنا  تھا ۔۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا اس سے بھاگا بھی نہ جاتا تھا ۔اس لیئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔۔  بختو  خالہ نے جیسے ہی امی کو دیکھا   تو  وہ ان کے ساتھ لپٹ ہی  گئی اور پھر  کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد  دونوں نے طے کیا کہ وہ اکھٹے ہی چیزیں  خریدیں گی کہ اس طرح دکاندار اشیاء کو مزید سستا  کر دے گا ۔۔۔ یہ طے کر کے دونوں خواتین  نے خریداری شروع کر دی  اور آہستہ آہستہ میرے ہاتھوں میں سامان سے بھرے شاپروں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔۔

پھر ایک وقت  وہ بھی آیا کہ میرے ہاتھوں میں شاپر اور کندھے پر آلو پیاز سے بھرے توڑے رکھے ہوئے تھے اور میں اپنی قسمت کو ستا ۔۔۔۔اور دل ہی دل میں بختو خالہ کو گالیاں دیتا  ہوا   ان  کے پیچھے پیچھے جا  رہا ۔۔۔  کہ اچانک میں نے ایک جانی پہچانی سی آواز سُنی  جو کہ  بختو خالہ کا حال احوال دریافت کر رہی تھی ۔۔۔۔  اور جیسے ہی  میرے کانوں میں یہ آواز گونجی ۔۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ آواز تو  میری  سُنی  ہوئی  ہے اور میں نے اک زرا سر اُٹھا کر دیکھا تو۔۔۔۔وہ ۔۔وہ ۔۔۔ جوزفین عرف جولی کی آواز تھی  جس کے گھر میں نے مرینہ کو  چودا  تھا ۔۔۔۔ جو اب میری امی کے ساتھ  رسمی حال چال پوچھ رہی تھی ۔۔ اسے دیکھتے ہی   میں نے جلدی سے اپنا  سر مزید  نیچے کر لیا  اور ان  سے  تھوڑا  ہٹ کر کھڑا ہو  کر ان کی گفتگو سننے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔ جولی ۔۔بختو خالہ سے کہہ رہی تھی کہ دیکھ لو خالہ اتنے دن ہو گئے ہیں اور آپ نے  ابھی تک میرا سوٹ سی کر نہیں دیا ۔۔۔اس پر بختو خالہ جو کہ گھر میں سلائی کڑھائی کا کام بھی کرتیں تھیں کہنے لو  کر لو بات ۔۔۔ بیٹا  میں آپ کا سوٹ کیسے سیتی ۔۔۔ جبکہ  آپ نے ابھی تک اپنے  ناپ  کا سوٹ تو  مجھے  دیا  ہی نہیں  ہے ۔۔۔

بختو خالہ کی بات سُن کر جولی نے اپنے سر پر ہاتھ  مارا ۔۔اور بولی ۔۔۔۔ او۔۔۔سوری خالہ میں تو بھول ہی گئی تھی ۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔ خالہ ابھی میرے ساتھ چلو ۔۔ اور ناپ والا سوٹ لے جاؤ ۔۔۔ تو خالہ اس سے کہنے لگی ۔۔۔۔  ابھی تو بہت مشکل ہے بیٹا ۔۔۔ کہ میں نے جمعہ بازار سے   کافی  خریداری کرنی ہے ۔۔۔تم ایسا کرو کہ کل چکر لگا لو ۔۔ تو  جولی کہنے لگی  چکر تو میں  لگا  لوں لیکن خالہ یہ سوٹ  مجھے کل شام  تک ہر حال میں چایئے کہ مجھے ایک بچے کی  سالگرہ کی پارٹی میں جانا  ہے تو بختو خالہ کہنے لگی  تو بیٹا جیسا کہ آپ جانتی ہے میری  ابھی کافی خریداری باقی ہے تو تم جلدی سے ناپ والا سوٹ لے آؤ ۔۔۔ میں تم کو یہیں ملوں گی ۔۔۔ پھر مزید بولی ۔۔۔ ویسے بھی جمعہ بازار سے مکھا سنگھ اسٹیٹ دور ہی کتنی ہے ۔۔۔۔ خالہ کی بات سُن کر جولی ۔۔۔۔سوچ میں پڑ گئی اور بولی ۔۔۔۔میرے لیئے  یہ کام بہت مشکل ہے خالہ۔۔۔ دیکھ نہیں رہی کس غضب کی گرمی پڑ رہی ہے ۔۔۔۔اور میں   پہلے ہی میں بڑی مشکل سے یہاں پہنچی ہوں ۔۔۔ جولی کی بات سُن کر بختو خالہ   روکھا  سا جواب دیتے ہوئے بولیں ۔۔۔ اگر یہ بات ہے تو  پھر۔۔بیٹا  کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔خالہ کا روکھا سا جواب سُن کر جولی روہانسی ہو گئی اورکہنے لگی ۔۔۔۔  خالہ پلیز میری بات سمجھنے کی کوشش کریں  مجھے  وہ سوٹ ہر  حال میں    چاہیئے ۔۔۔۔ ابھی ان کی تکرار جاری تھی کہ میری امی نے ان کے بیچ  میں  دخل در معقولات کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ بخت بیگم اس بے چاری کی  مجبوری  کو سمجھو اور بیٹی کے ساتھ جاؤ ۔۔۔ ہم تمھارے آنے تک یہیں  انتظار کریں گے  تم ۔جاؤ اور ۔۔ جلدی سے   بیٹی کے  کے ناپ والے کپڑے لے آؤ ۔۔۔

امی کی بات سُن کر بخت  بیگم کو  اچانک ایک آئیڈیا  سوجال  اور  وہ  امی کو مخاطب کر کے کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹی کا مسلہ ایک طرح حل ہو سکتا ہے ۔کہ جس  میں  نہ مجھے ان کے گھر جانا پڑے گا اور  نہ ہی  بیٹی  کو گھر  سے ناپ  والا  سوٹ  لانا  پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی بات  سُن کر  امی کے ساتھ ساتھ جولی نے  بھی خالہ کی طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ وہ کیسے ؟  تو  بخت بیگم نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ ایسے بہن کہ تمھارا  بیٹا اگر  جولی  بیٹی کے ساتھ ان کے گھر چلا ج ائے تو ؟ ان کی بات سُن کر امی نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگیں لیکن  پھر ہمارے  سامان  کا کیا  ہو گا ؟ اتنا  سامان کون اُٹھائے گا ؟؟ ۔۔۔۔۔بخت بیگم کا  یہ آئیڈیا   جولی کو اس قدر پسند آیاکہ اس نے جلدی سے کہا کہ خالہ آپ اپنا  یہ سامان رکشہ پر لے جائیں اور اس کے ساتھ ہی اس نے  اپنے پرس کو کھولا اور اس میں سے ۔۔۔کچھ پیسے  نکال کر بختو خالہ کو دیئے جو انہوں نے تھوڑی سی  ہچکچاہٹ کے بعد قبول کر لیئے ۔۔۔۔ اور مجھ سے کہنے لگیں ۔۔بیٹا  سامان رکھ کے باجی کے ساتھ چلا جا ۔۔تو میں ایک نظر امی کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگیں بیٹا بخت بیگم جو کہہ رہیں ہیں وہ کرو ۔۔۔ امی کی بات سُن کر میں نے اپنے کندھے پر لدے آلو بیاز کے توڑے اور شاپر    زمین  پر رکھے اور اس کے بعد اپنی قمیض  کی اُلٹی سائیڈ سے اپنے چہرے پر آئے پسینے کو صاف کیا اور جولی کے ساتھ چل پڑا۔۔۔۔

مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ جولی نے ابھی تک میرے ساتھ کسی قسم کی شناسائی کا اظہار نہ کیا تھا ۔۔۔لیکن پھر جلد ہی میری  یہ حیرت دور ہو گئی ۔۔ کیونکہ جیسے ہی ہم  جمعہ بازار سے واپس ۔۔۔۔ مکھا سنگھ اسٹیٹ کے پاس پہنچے ۔۔۔ جولی نے میری طر ف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔ مرینہ کیسی ہے ؟ تو  میں  نے بھی  بنا کسی گھبراہٹ کے ان سے کہہ دیا کہ ۔۔۔وہ تو جی چلی بھی گئیں ۔۔۔  میری بات سُن کر وہ تھوڑا  چونکی ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔اوہ  ہاں ۔۔۔ اس نے مجھے  بتایا تھا ۔۔۔پھر اس کے بعد اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی ۔۔۔ اور پھر چلتے چلتے  ہم جولی کے گھر پہنچ گئے ۔۔۔۔ دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے پرس سے چابی نکالی اور گیٹ کھول کر کہنے لگی ۔۔۔۔ اندر آ جاؤ۔۔۔ اور میں جولی کے پیچھے  چلتے  ہوئے گھر کے اندر   داخل ہو گیا اور اس نے  مجھے  ڈرائینگ روم  میں بیٹھنے کو کہا تو میں نے جواب دیا کہ باجی آپ جلدی سے ناپ والے کپڑے دے دو ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی اتنی گرمی سے آئے ہو  ۔۔کچھ ٹھنڈا  ونڈا  تو  پی لو ۔۔۔۔۔ اور پھر اس نے مجھے صوفے پر بیٹھنے  کا  اشارہ کیا اور یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی کہ میں تمھارے لیئے ٹھنڈے کا بندوبست کرتی ہوں ۔۔۔ اور میں سامنے صوفے  پر بیٹھ کر جولی کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُستانی جی ۔۔ کی اگلی  یا  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page