Teacher Madam -77- اُستانی جی

اُستانی جی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین مکمل کہانیوں میں سے ایک زبردست کہانی ۔۔اُستانی جی ۔۔ رائٹر شاہ جی کے قلم سے سسپنس رومانس اور جنسی کھیل کے جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔  آنٹیوں کے شوقین ایک لڑکے کی کہانی ، میں   آپ   سے    ایک  بڑے    مزے  کی  بات   شئیر کرنا   چاہتا  ہوں   اور  وہ  یہ کہ    کراۓ  کے   گھر   میں  رہنے  کے  بھی   اپنے  ہی   مزے  ہیں ۔ وہ  یوں  کہ  ایک  گھر  سے  جب  آپ  دوسرے  گھر میں   شفٹ  ہوتے  ہیں  تو  نئئ  جگہ   پر  نئے   لوگ  ملتے  ہیں   نئئ  دوستیاں  بنتی  ہیں ۔ اور ۔ نئئ۔ نئئ ۔  (امید   ہے  کہ آپ لوگ میری بات  سمجھ   گئے  ہوں  گے ) اُس لڑکی کہانی   جس کا  بائی   چانس   اوائیل  عمر  سے   ہی  پالا میچور عورتوں  سے  پڑا  تھا ۔ یعنی  کہ اُس کی  سیکس  لائف  کی  شروعات  ہی  میچور   قسم  کی   عورتوں  کو چودنے  سے  ہوئی  تھی۔اور  پھر سیکس کے لیے   میچور  عورتیں  ہی  اُس کا  ٹیسٹ  بن  گئ ۔ اُس کو   کسی  لڑکی سے زیادہ میچور  آنٹی کے ساتھ زیادہ مزہ آتا تھا۔ کیونکہ میچور لیڈیز سیکس کی ماسٹر ہوتی ہیں نخرہ نہیں کرتی اور کھل کر مزہ لیتی بھی ہیں اور مزہ دیتی بھی ہیں۔ اور یہ سٹوری جو میں  آپ کو  سنانے  جا  رہا  ہوں  یہ بھی  انہی  دنوں  کی  ہے۔  جب   آتش  تو    ابھی لڑکپن      کی   سرحدیں  عبور کر رہا  تھا  لیکن  آتش  کا  لن  اس   سے  پہلے  ہی  یہ   ساری  سرحدیں    عبور کر  کے  فُل    جوان  ہو  چکا  تھا ۔ اور پیار  دو  پیار  لو  کا  کھیل  شروع  کر  چکا  تھا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Teacher Madam -77- اُستانی جی

 لیکن میں نے بڑی مشکل سے اپنی اس سوچ  سے  پیچھا  چھُڑایا  اور  دل  ہی  دل میں کہا کہ راحیلہ بس مجھے جانتی ہے اور اس کے ساتھ میرے  ایسے ویسے کوئی تعلق نہ ہیں ۔۔۔ ویسے بھی  ارمینہ میرا انتظار کر رہی ہو گی ۔۔۔ اور پھر راحیلہ کا نظارہ دیکھنے لگا۔۔۔۔ وہ بدستور ۔۔۔اپنی چوت میں انگلیاں گھماتے ہوئی ۔۔۔ دھیمے دھیمے چلا رہی تھی ۔۔۔ مجھے لن چاہیئے ۔۔لن ۔۔۔لن ن  ن ن ن ن ن ن۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ف۔ اس کی یہ سیکسی اور دلکش سسکی سُن کر میرے دماغ پر منی سوار ہو گئی       اور  میں آپے سے باہر ہو گیا ۔اور بے وقوفی کی انتہا کرتے ہوئے ۔ راحیلہ کے کوٹھے پر اتر گیا ۔۔۔۔۔ میرا لن تو پہلے ہی کھڑا تھا ۔۔۔  سو جلدی سے شلوار کا آزار بند کھولا اور ۔۔۔۔ راحیلہ کے سامنے  اپنے بڑے سے لن کو لہراتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔ اس کے بارے میں کیا خیال ہے میڈم ۔۔۔۔۔۔۔مجھے  یوں  اچانک اپنے سامنے دیکھ کر راحیلہ کی آنکھیں آخری حد تک پھیل گئیں ۔اور وہ پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔اس کا خوبصورت      سا چہرہ  جو پہلے ہی لال تھا ۔۔۔ اب لال بھبوکا   ہو  چکا  تھا ۔۔۔۔۔  پھر اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے جلدی سے اپنی شلوار پہنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کرتا اس  کے حلق سے ایک خوفناک چیخ  برآمد ہوئی ۔۔۔۔۔۔ چورر۔ر۔ر۔ر۔۔ر۔ر۔ر ۔۔۔ اور پھر جیسےاس کو چیخون کا  دورہ سا پڑ گیا  ۔۔۔ اور وہ پوری قوت سے  چلاتی گئی۔۔ چلاتی گئی۔۔۔۔ چور چور چور۔۔۔۔۔۔ چوررررررررر۔۔۔۔۔۔ راحیلہ نے جب مسلسل چور چور کہنا  شروع کر دیا تو مجھے جیسے ہوش آ گیا  …اس لیئے میں نے بجلی کی سی پھرتی اپنی شلوار   اوپر  کی اور جلدی سے اس  آزار  بند باندھا   ۔اور ۔جوتے  ہاتھ میں پکڑے   اور دل ہی دل میں خود کو گالیاں دیتا  ہوا     واپس گھوما ا ور   راحیلہ  کے سامنے دیوار  پر جا   چڑھا    ۔۔ اب چونکہ معاملہ زندگی اور موت کا بن گیا تھا ۔۔ اس لیئے آناًفاناً ۔۔۔شیخ صاحب کی دیوار سے  چھلانگ  لگا  دی ۔۔  مجھے  بھاگتے ہوئے دیکھ  کر راحیلہ  نے مجھے پکڑنے کی زرا بھی کوشش نہ کی بلکہ  وہ کسی تنویمی  عمل کے زیرِ  اثر  بس چیخوں پہ چیخیں   ہی  مارتی  جا  رہی تھی  اور جیسے جیسے میرے کانوں میں راحیلہ کی چیخیں کی آوازیں  سنائی پڑتیں ۔۔ میں اور تیزی سے بھاگنے لگتا  ۔۔۔راحیلہ کی چھت سے چوہدری صاحب کا چھت  تھوڑا   ہی  تو دور تھا ۔۔ چنانچہ میں  بھاگنے کا ورلڈ ریکارڈ بناتا  ہوا  اگلے  ہی منٹ میں چوہدری اشرف  صاحب  کی چھت  پر  پہنچ چکا  تھا    ۔۔یہاں پہنچ کر میں نے مُڑ کر دیکھا تو  پیچھے ابھی بھی خیریت تھی   کیونکہ یہ  رات کے پچھلے پہر کا وقت  تھا  اور اس  وقت لوگ گہری نیند  میں ہوتے  ہیں اور کسی بھی شخص کو  گہری نیند سے اُٹھ کر بیدار ہونے ۔۔۔۔  حالات کو سمجھنے ۔۔۔اور پھر بستر سے اُٹھ کر   باہر آنے ۔۔۔اور۔۔  شور کی سمت کا  تعین کرنے ،……اور پھر دوڑ کر  متعلقہ  سمت  کی طرف جانے میں   میرے حساب سے  ۔۔۔ کم از کم تین  سے چار منٹ درکار ہوتے ہیں  ۔۔  ۔۔۔ اور یہی  تین چار   منٹ میری بچت کا  سامان  تھے چوہدری صاحب کی  دیوار پر چڑھ کر ایک دفعہ پھر میں نے شیخ صاحب کے گھر کی طرف نگاہ ڈالی ۔۔ تو ۔۔۔ابھی بھی وہاں ۔خیریت ہی نظر آئی ۔۔۔لیکن مجھے اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ  اگر میں چند سیکنڈز  میں  نیچے  نہ گیا   تو  پھر کوئی  خیریت  نہیں رہنی ۔۔۔ چنانچہ میں نے  چوہدری صاحب کی گٹر لائین  کا پائپ  پکڑا  اور ۔۔۔ نیچے اترنے سے پہلے ایک دفعہ پھر   میں  نے  راحیلہ کی چھت کی طرف دیکھا   اور دل ہی دل میں ایک مشہور شعر کا  دوسرا  مصرعہ پڑھا  کہ”  بڑے  بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم  نکلے” اور اس کے ساتھ ہی خود کو  بےشمار گالیوں سے بھی نوازا  ۔۔۔ کہ   راحیلہ کو بھلا  لن  دکھانے کے   ایڈوینچر  کی   کیا  ضرورت تھی ۔۔۔ اور پھر تیزی  سے نیچے  اترنا  شروع  ہو گیا  ۔۔۔ نیچے اتر کر میں نے  اپنے پیروں میں جوتی پہنی اور  کسی ایکشن سے پہلے  جھانک کر گلی میں دیکھا ۔ تو محلے میں ہلکی ہلکی ہل چل نظر آئی ۔۔اکا  دکا  گھروں کی لائیٹس جلنا  شروع  ہو گئیں تھیں ۔۔۔اور اس سے پہلے کہ سارے گھروں کی لائیٹس جلتیں ۔اور لوگ باہر نکلنا شروع ہوتے  ۔۔میں  نیواں  نیواں   ہو کر  وہاں  سے نکل گیا ۔۔۔

 جس وقت میں نے  گھر کے اندر قدم رکھا   اس وقت تک محلے میں ہلا  گلا  شروع  ہو  چکا  تھا  ۔۔لیکن   میں اس ہلے گلے  کو نظرانداز کرتے ہوئے   سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور بستر  پر جا کر  لیٹ  گیا  اور     ابھی  میں  اس  حادثے کے بارے  سوچ  ہی  رہا  تھا  ۔۔۔کہ    امی کمرے میں  داخل  ہوئیں  انہیں  دیکھ  کر میں نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔۔ اور سوتا  بن گیا ۔ وہ میرے قریب آئیں اور مجھے ہلا کر  بولیں ۔۔۔اُٹھو ۔۔۔۔۔۔ تو میں نے آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھےی کی ادا کاری کرتے ہوئے کہا ۔۔کیا ہوا ؟ تو وہ کہنے لگیں پتہ مجھے بھی نہیں ۔۔لیکن محلے میں کافی شور مچا  ہوا  ہے ۔زرا باہر جا کر پتہ کرو کہ یہ شور کیسا  ہے ؟۔۔ تومیں نے بستر سے اُٹھتے  ہوئے  ان سے کہا  اچھا  میں دیکھتا ہوں اور ڈھیلے ڈھیلے  قدموں سے باہر چلا گیا ۔۔۔  دیکھا  تو محلے  کے  مرد حضرات  بایرنیں  پہنے آنکھیں ملتے ہوئے ۔ایک دوسرے  سے ۔ کیا  ہوا ؟؟ ۔۔کیا ہوا ؟؟ ۔۔کی رٹ لگائے جا رہے تھے  جبکہ خواتین  اپنی اپنی چھتوں پر چڑھی تجسس بھری نگاہوں سے   نیچے گلی میں  ادھر  ادھر  دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔ میں نے تھوڑی دیر تک  حالات  کا  جائزہ  لیا    پھر باقی لوگوں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی ایک دو سے پوچھا کہ کیا ہوا ؟۔تو  وہ کہنے  لگا ۔۔ہونے  کا  تو  پتہ نہیں البتہ  اس طرف (شیخ صاحب کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )  چور چور کی بڑی آوازیں آ رہیں تھیں اوراس بات پر سب متفق تھے کہ وہ  چور چور کی آوازیں سن کر اُٹھے  تھے   اس سے آگے  کیا  ہوا کسی کو کچھ  معلوم نہ تھا۔۔۔۔ اسی دوران میری نظر ماسی کی چھت پر پڑی تو  وہاں ارمینہ کھڑی تھی گھڑی دو گھڑی  ہماری آنکھیں  چار ہوئیں  تو  اس  نے ماسی سے نظر بچا کر  آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ سے   پوچھا کہ  کیا  یہ  چور چور کا  شور   تمھارے  لیئے  تھا؟؟  ۔۔۔ تو  میں نے  اسے اشارے  سے  بتا  دیا کہ جی  یہ  شور  میرے  لیئے  ہی تھی لیکن میں  بچ کر آ  گیا ۔۔۔  میرا اشارہ  سمجھتے   ہی  اس نے  بڑے تشکر سے آسمان کی طرف دعا کے لیئے  ہاتھ اُٹھا ئے … اور پھر   غالباً شکر ادا کر کے اس نے  وہ  اٹھے  ہوئے ہاتھ  اپنے   منہ پر ہاتھ  پھیرے اور پھر  بڑی  ہی محبت بھری نظروں سے  مجھے  دیکھنے  لگی۔۔۔اور اس کی  یہ ادا   دیکھ کر میں ارمینہ پر  دل و جان  سے فدا  ہو گیا ۔۔

 ادھر محلے کے لوگ آپس میں  قیاس آرائیں کرتے رہے کسی نےکہاکہ چور پچھلے محلے سے آیا  تھا  اور کسی نے کہا کہ وہ واردات کر کے نکل گیا ہے ۔غرض  جتنے منہ  تھے  اتنی   ہی   باتیں تھیں  ۔جبکہ حقیقت کیا  تھی  یہ بات صرف میں اور راحیلہ ہی  جانتے  تھے  راحیلہ سے یاد آیا ۔۔۔ کہ اس وقت تقریباً  سارا  محلہ ہی  اکھٹا  تھا لیکن  سب سے  زیادہ  حیرت انگیز  بات  یہ تھی کہ شیخ  صاحب  نہ  تو  خود  اپنے  گھر سے  باہر  نکلے  تھے اور نہ ہی ان کے ہاں کسی قسم کی  ہل چل کے آثار نظر آئے ۔۔پھر آہستہ آہستہ ۔۔  ایک دوسرے کو ہوشیار  رہنے  کی تاکید کرتے ہوئے سارے محلے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔۔۔ان کی دیکھا  دیکھی میں بھی اپنے گھر آ گیا اور بستر  پر  جاتے  ہی  سو گیا ۔۔۔

 اگلے دو تین دن تک   ہمارے محلے میں  اس رات والے واقعہ کی  بازگشت  سنائی دیتی رہی لیکن  کمال کی بات  یہ ہے کہ نہ تو شیخ صاحب نے اور نہ  ہی  ان کی فیملی میں سے کسی نے اس واقعہ کے بارے میں کوئی بات کی   اور نہ ہی اس  واردات  پر کوئی تبصرہ  کیا  اس لیئے  چور والی  بات  محلے کے  کاغزوں میں   پُراسرار   قرار  پائی  ۔۔۔   اس سے اگلے  دن چونکہ  مجھے میڈم  ندا نے  بلایا  ہوا  تھا  اس لیئے میں نے اپنا  بستہ سنبھالا اور میڈم کے گھر چلا گیا ۔۔۔ وہاں جا کر  دروازے  پر  دستک  دی تو میڈم  خود  باہر نکلیں   اور  مجھے اندر  لے گئیں اور جب میں میڈم کے پیچھے پیچھے ان کے گھر میں داخل ہوا تو  سامنے صحن میں کرسی  پر  ایک   خوبصورت اور گوری چٹی  خاتون کو  بیٹھے  ہوئے  دیکھا  اس  نے  آدھے   بازؤں  وال ی ڈھیلی  ڈھالی قمیض پہنی ہوئی  تھی   جس میں اس کی گوری گوری  بانہوں کے موٹے  مسلز   پھنسے ہوئے تھے ۔۔اور  وہ  ان مسلز میں     بڑی  اچھی  لگ  رہیں تھیں   وہ   خاتوں اتنی  سڈول تھی کہ اس سے آگے موٹاپے کی سرحد شروع  ہوتی ہے ۔اس خاتون کی خاص بات یہ تھی کہ  اس نے ایک ہاتھ میں سونے کی بارہ چوڑیاں جبکہ دوسرے ہاتھ میں سونے کے کنگن پہنے  ہوئے تھے ۔۔ جبکہ  کانوں میں بڑی بڑی بالیاں اور  اس نے گلے میں موٹی سی سونے کی چین پہنی ہوئی تھی ۔۔۔گویا  کہ وہ  خاتون  کیا تھی  امارت  کا   چلتا  پھرتا  اشتہار تھا  ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اُستانی جی ۔۔ کی اگلی  یا  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page