دنیا صرف انسانوں سے بھری ہوئی نہیں ہے اور نہ ہی یہ دنیا اکیلی ہے ۔ اس دنیا کے ساتھ کئی دُنیائیں اور بھی ہیں جہاں مختلف مخلوقات رہتی ہیں۔ جن میں جنات ، شیاطین اور خلائی مخلوق کے بارے میں ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔
طاقت کاکھیل کہانی بھی ایک ایسی ہی دُنیا کی ہے جو کہ ایک افسانوی دنیا ہے جس میں شیاطین بھی ہیں اور اُنہوں نے ہماری دُنیا کا سکون غارت کرنے کے لیئے ہماری دنیا پر ایک حملہ بھی کیا۔ لیکن دُنیا کو بچانے کے لیئے ایک جادوئی قوتوں کے ماہر نے اُن کے ابتدائی حملے کو تو ناکام بنا دیا۔ لیکن دنیا اُس شیطانی مخلوق کے آئیندہ حملے سے محفوظ نہ ہوئی۔
تو کچھ قوتوں نے دنیا کو بچانے کے لیئے ایک ٹیم تیار کرنے کی زمہ داری اپنے سر لے لی ۔ جن میں ایک اس نوجوان کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اور اُس کی تربیت شروع کر دی گئی۔
اس نوجوان کے والدین کا ان کے بچپن میں ہی انتقال ہوگیاتھا۔اور اُس کو اُس کی دوسری ماں نے محنت مشقت کر کے پالا لیکن وہ بھی داغ مفارقت دے گئی۔ اور دنیا سے لڑنے کے لیئے اُس کو اکیلا اُس کی منہ بولی بہن کے ساتھ چھوڑ دیا ۔جس کے بارے میں اُس کی ماں نے کہا تھا کہ اگر ہوسکتے تو اُس لڑکی سے شادی کر کے اپنا گھر بسالو اور وعدہ لے لیا تھا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
قسط نمبر 04
ہیلو دوستوں کیا حال احوال ہیں آپ سب کا امید ہے سب خیریت سے ہوں گے۔میں ہوں آپ کا دوست اور بھائی سٹوری سٹار ۔۔میں آپ کے لئے لایا ہوں ایک نیو جاندار سٹوری ۔۔
طاقت کا کھیل /The Game of Power
میری نظر میں تو یہ ایک جاندار سٹوری ہے ویسے بھی اپنی لسی کو کون کھٹا کہتا ہے مگر آپ کا ریویو دیکھ کر ہی پتا چلے گا کے سٹوری چلنے کے قابل ہے یا نہیں ۔۔۔یہ سٹوری باقی سٹوریز سے تھوڑی مختلف ہو گی۔۔اس میں کچھ حقیقت سے مختلف ہو گا ۔۔یہ سٹوری فینٹسٹک اور ایڈوینچر سے بھر پور ہو گی ۔۔تو ٹائم ضائع کرنے کی بجائے چلتے ہیں سٹوری کی جانب کرداروں کے نام آگے آگے جیسے جیسے آئیں گے آپ کو پتا چلتے جائیں گے ۔
************************
جیسے ہی میں اپنی گلی میں داخل ہوا تو سامنے کا نظارہ دیکھ کر میں تھوڑا سا پریشان ہو گیا سامنے گھر کے دروازہ کے باہر ماہی اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوۓ کھڑی تھی جبکہ کچھ لوگ بھی گھر کے پاس کھڑے تھے ۔۔کچھ انہونی کا احساس ہونے پر میں تیزی سے گھر کی جانب لپکا ۔۔ماہی کی بھی مجھ پر نظر پڑ چکی تھی وہ دوڑتے ہوۓ میرے پاس آکر میرے گلے لگ گئی ۔۔میں نے اسے باہوں میں بھر کر پیار سے سہلا کر پوچھا کے کیا ہوا ہے تو وہ روتے ہوۓ بولی “اااام ۔۔۔۔۔امی کی ۔۔۔۔ہنہہ ۔۔ امی کی طبیعت کافی بگڑ گئی ہے وہ وہ آپ کو بلا رہی ہے ” اس کی بات سن کر میں پیار سے اس کر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولا ” تو اس میں اتنا پریشان ہونے والی کونسی بات ہے سب ٹھیک ہو جائے گا تم پریشان مت ہو ” میری بات سن کر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔میں نے ماہی کو اسی طرح گود میں اٹھائے گھر کی جانب بڑھا اور گھر میں داخل ہو کر اسے نیچے اتار کر امی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔کمرہ میں داخل ہوا تو وہاں محلے کی چند خواتین موجود تھی ۔۔مجھ پر نظر پڑتے ہی امی کے پاس بیٹھی دو خواتین اٹھ کر مجھے جگہ دیتے ہوۓ سائیڈ پر ہو گئیں ۔۔میں امی کے پاس بیٹھ گیا ۔۔ان کی آنکھیں بند تھی ۔۔کمزوری کی وجہ سے چہرہ پیلا زرد پڑا ہوا تھا ۔میں نے امی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا تو انہوں نے آنکھیں کھول کر میری جانب دیکھا ۔۔امی کی آنکھوں میں اس وقت مایوسی تھی ۔۔شائد انہیں آنے والے وقت کا پتا چل گیا تھا یا وہ جان گئی تھیں کے وہ اپنے بچوں کی کوئی مدد نہیں کر پائیں گی ۔۔ایک لمحے کے لئے انہوں نے میری جانب دیکھا اور پھر دوبارہ اپنی پلکیں گرا کر آنکھیں بند کرتے ہوۓ نقاہت زدہ آواز میں بولی ” یاسر بیٹا ۔۔۔۔۔میں تم سے ۔۔۔۔کچھ بات کرنا چاہتی ہوں اکیلے میں “اتنا بولتے ہوۓ بھی ان کی سانس پھول گئی تھی ۔۔کمرہ میں موجود خواتین نے یہ بات سنی تو بنا کچھ کہے خاموشی سے اٹھ کر باہر نکل گئی ۔۔ان کے جاتے ہی میں پیار سے امی کا ہاتھ سہلاتے ہوۓ بولا ” جی امی کہیں میں سن رہا ہوں “
وہ بولیں : یاسر مجھ سے وعدہ کرو کے جو بات میں تمہیں بتاؤں گی وہ صرف ہمارے بیچ میں ہی رہے گی اور تم اس پر بنا کوئی اعترض کئے عمل کر کے پورا کرو گے ۔۔
میں بولا : امی آپ کو وعدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے آپ کی ہر بات میرے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے آپ بولیں میں سن رہا ہو اور میں اس پر ہر حال میں عمل کروں گا ۔۔۔
وہ بولیں : نہیں یاسر ! تم بس وعدہ کرو تا کے مجھے تسلی رہے اور میں سکون سے مر سکوں
ان کی بات سن کر میں تڑپتے ہوۓ بولا : کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔ مریں آپ کے دشمن ابھی تو آپ نے ہمارے ساتھ لمبی زندگی گزارنی ہے ۔۔ابھی تو ہم نے بہت سی خوشیاں ساتھ میں دیکھنی ہے ۔۔
میری بات سن کر ان کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ آگئی وہ خود کو سنبھالتے ہوۓ گہری سانسیں لینے لگی ۔۔ان کے چہرے پر بھی تھکاوٹ کے آثار نظر آرہے تھے ۔۔میں چاہ رہا تھا کے وہ جلدی سے اپنی بات مکمل کر کے آرام کریں زیادہ بولنا ان کے لئے سہی نہیں تھا ۔۔
وہ بولی : مجھے پتا ہے آگے کیا ہو گا اور شائد میں وہ سب دیکھنے کے لئے نہ رہوں اس لئے تم وعدہ کرو مجھ سے کے میری بات پر عمل کرو گے ۔۔
میں بولا : میں وعدہ کرتا ہوں آپ جو بولیں گی میں اس پر عمل کرو گا اور یہ بات صرف ہمارے بیچ ہی رہے گی ۔۔
وہ بولی : یاسر ! ماہی تمہاری سگی بہن نہیں ہے ۔۔
ان کی بات سن کر میرے اوپر چھت ٹوٹ پڑی میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی جانب دیکھی جا رہا تھا ۔۔ایسے لگ رہا تھا جسے جسم سے جان نکل گئی ہو ۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کے آخر امی نے ایسے کیوں کہا ۔۔مجھے اس طرح حیران دیکھ کر وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوۓ بولیں ” میں تمہاری حیرانگی سمجھ سکتی ہوں ۔۔میری بات سن کر تمہیں شاک لگا ہو گا پر یہ سچ ہے تم اس وقت بہت چھوٹے تھے جب تمہاری امی کا انتقال ہوا تھا ۔۔” ان کے منہ سے یہ سن کر میں ان کی بات کاٹتے ہوۓ بولا ” کیا مطلب میری امی کا انتقال ہوا تھا ؟ میری ماں تو آپ ہیں نا پھر آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں “
وہ درد بھرے تاثرات سے بولیں : یاسر درمیان میں مت ٹوکو میں تمہیں پوری بات بتاتی ہوں وہ سنو پہلے ۔۔میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے آگے کی پہلیاں تم خود سلجھا لو گے مجھے یقین ہے ۔۔
یاسر تب تم تین سال کے تھے جب تمہاری امی کا انتقال ہو گیا تھا ۔۔تم کسی سے بھی نہیں سنبھلے جا رہے تھے ۔۔میں تمہاری امی کے انتقال پر یہاں آئی تھی اس وقت ماہ رخ دو ماہ کی تھی ۔۔تم اسے دیکھ کر خاموش ہو جاتے تھے ۔۔مجھے بھی تم اچھے لگتے تھے میں ہر وقت تمھارے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔ ایک مہینہ یہاں رہنے پر تمہاری حالت میں کافی سدھار آگیا تھا ۔۔تمھارے ابو نے دلدار سے بات کی کے نازیہ کو کچھ عرصے کے لئے یہیں چھوڑ دو۔دلدار کو تو بہانہ مل گیا تھا مجھے چھوڑنے کے لئے میں ان کی بیوی تھی مگر وہ کسی اور کو پسند کرتے تھے ۔۔انہوں نے ماہ رخ کا بھی خیال نہ کیا اور تمھارے ابو پر الزام لگا کر کہا کے بچے کا تو صرف بہانہ ہے اصل میں تم نازیہ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہو ۔۔یہ سن کر تمھارے ابو کو بھی طیش آگیا تھا اور بات ہاتھ پائی تک جا پہنچی تھی اسی غصہ میں دلدار نے مجھے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا تھا ۔۔تمھارے ابو مجھے اپنے ساتھ لے کر یہیں آگئے تھے اور پھر کچھ وقت بعد انہوں نے مجھ سے شادی کر لی تھی ۔۔” اتنا بول کر وہ گہری گہری سانسیں لینے لگی میں جلدی سے اٹھ کر پاس ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی ڈال کر لایا اور امی کو پلانے لگا ۔۔دو گھونٹ پانی پینے کے بعد وہ واپس ٹیک لگا کر لیٹ گئی اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوۓ بولیں “ابھی میرے پاس ٹائم نہیں ہے ۔۔اپنے وعدہ پر قائم رہنا ۔۔میں چاہتی ہوں کے تم میرے مرنے کے بعد ماہ رخ کا خیال رکھنا اور اگر آگے زندگی میں اسے کوئی اور پسند نہ آیا اور وہ تمھارے ساتھ ہی رہنا چاہیے تو تم اس سے شادی کر لینا ۔۔بولو منظور ہے نا میری بات ۔۔اپنا وعدہ نبھاؤ گے نہ تم “
امی کی بات سن کر میرا دماغ ماؤف ہو گیا تھا میں کیا کہتا مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا چند لمحوں بعد ہی امی کی سانسیں اکھڑنے لگی ۔۔ان کی بگڑتی حالت دیکھ کر میں انہیں تسلی دیتے ہوۓ بولا ” امی میں سب کچھ کرو گا جو آپ کہو گی وہ کرو گا بس آپ اپنا دھیان رکھیں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔۔میں وعدہ کرتا ہو کے میں ماہی کا ہمیشہ دھیان رکھوں گا اور اگر اس نے چاہا اور اس کی مرضی شامل ہوئی تو میں اس سے شادی بھی کر لو گا بس آپ ٹینشن نہ لیں ” اتنا سنتے ہی امی کے جسم نے زور دار جھٹکا کھایا اور وہ وہیں پر بے جان ہو گئی ۔۔ایک لمحے کے لئے تو میں بےجان ہو کر رہ گیا مگر اگلے ہی لمحے میرے منہ سے زور دار چیخ نکل گئی ۔۔میں چیختے ہوۓ امی کو جھنجوڑ کر اٹھانے لگا ۔۔پر مرنے والا کہاں اس طرح اٹھ پاتے ہیں ۔۔میری چیخیں سن کر باہر کھڑی خواتین بھی اندر آگئی تھیں ۔۔ان کے ساتھ ماہی بھی تھی امی کی حالت دیکھ کر وہ دیوانہ وار بھاگتے ہوۓ میرے پاس آئی اور مجھ سے لپٹتے ہوۓ بولی ” بھائی امی کو کیا ہوا ۔۔یہ ۔۔۔ییییییہ ۔۔۔اس طرح خاااااممممموش کیوں ہیں ۔۔۔ببببہ . بب بھائی ۔۔” اتنے بولتے ہی زور دار چیخ کے ساتھ اس کا جسم میرے اوپر آگرا میں نے بوکھلا کر اس کی جانب دیکھا تو وہ صدمہ کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی ۔۔قیامت کس کو کہتے ہیں یہ مجھے اس دن پتا چلا ۔۔شام تک میں جو مستی میں گلشن چاچی کی چودئی دیکھ رہا تھا اب وہ ساری مستی نکل چکی تھی ۔۔ایک طرف امی ہمیں چھوڑ کر چلی گئی تھیں تو دوسری جانب ماہی بھی بے ہوش ہو گئی تھی ۔۔میں ماہی کا چہرہ تھپتپاتے ہوۓ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا کے اتنے میں ایک خاتون آگے بڑھی اور گلاس میں تھوڑا سا پانی لے کر اپنی ہتھیلی میں لے کر ماہی کے چہرے پر پھینکے لگی ۔۔چند لمحوں بعد ہی ماہی کی پلکوں میں جنبش ہوئی اور وہ کسمساتے ہوۓ میرے اوپر سے اٹھ گئی ۔۔ایک دو لمحوں کے لئے تو وہ ارد گرد دیکھتی رہی مگر جیسے ہی اسے سب یاد آیا اس کے منہ سے دلآویز چیخ بلند ہوئی ۔۔ماہی کی آہ بقا اور میری حالت دیکھ کر خواتین کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے ۔۔ابھی میری اتنی عمر نہیں تھی کے میں سب سمجھ سکتا ۔۔
چند خواتین نے آگے بڑھ کر امی کو اٹھا کے ایک طرف لے گئی ۔۔میں چیختے ہوۓ اس جانب بڑھنے لگا تو ایک عورت جو کے ہمارے ساتھ ہی دوسرے گھر میں رہتی تھی اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر اپنی آغوش میں لے کر آہستہ سے میری پیٹھ تھپتپتے ہوۓ کہا وہ انہیں غسل کے لئے لے گئی ہیں۔ ۔باہر صحن میں بھی کچھ مرد حضرات آگئے تھے ۔۔ان میں سے ایک کے ہاتھ میں شاپر میں کفن موجود تھا ۔۔محلے والوں کو ہمارے حال کا اچھے سے پتا تھا اس وقت میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کے میں اپنی امی کی تدفین کر سکو ۔۔اس آدمی نے وہ شاپر ایک عورت کی جانب بڑھایا اور پھر واپس مڑ کر چند لڑکوں کو اپنے ساتھ لے کر قبرستان کی جانب نکل گیا قبر کھودنے کے لئے ۔۔۔۔انہی سبھی ہنگاموں میں رات کب آنکھوں میں کٹی پتا ہی نہ چلا ہمیں ۔۔میں اور محلے کی ایک عورت ماہی کو سنبھالنے میں لگے ہوۓ تھے ۔۔وہ بار بار بے ہوش ہو جاتی تھی ۔۔اس پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے ۔۔عورتیں امی کو غسل دے کر انہیں کفن پہنا کر باہر لے آئیں تھیں۔ ۔۔صبح سورج کی کرنیں پڑتے ہی چند مرد ہمارے گھر میں داخل ہوۓ اور امی کی چار پائی کو اٹھا کر قبرستان کی جانب بڑھ گئے ۔۔اس دوران میں بھی ان کے ساتھ چل رہا تھا اور ایک طرف سے کندھا دیا ہوا تھا ۔۔دوستوں قبرستان میں ساری رسومات پوری کرنے کے بعد امی کو دفنا کر وہ سبھی لوگ کچھ دیر تک وہیں کھڑے رہے مگر پھر اپنے گھروں کی جانب بڑھ گئے ۔۔ویسے بھی کسی کے مرنے سے دنیا نہیں رکتی سب کچھ چلتا رہتا ہے کسی کو فرق نہیں پڑتا ۔۔اگر کسی کو کچھ فرق پڑتا ہے تو وہ اس مرنے والے کے اپنے ہوتے ہیں جنھیں ان کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔۔مجھے اس وقت سب سے زیادہ دکھ اس بات کا تھا کے میں دوبارہ کبھی بھی اب امی کو دیکھ نہیں پاؤں گا ۔۔پتا نہیں میں کتنی دیر وہاں بیٹھا رہا اگر وہ شخص میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے نہ اٹھاتا تو شائد میں رات تک قبرستان میں ہی رک جاتا۔۔ دن کے بارہ بج رہے تھے جبکہ امی کی تدفین صبح چھ بجے ہوئی تھی ۔۔وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ ہماری طرح غریب قبرستان کا گورگن تھا ۔۔اس نے مجھے قبرستان میں ہی موجود اپنے کمرے کی جانب لے جا کر وہاں بیٹھایا اور مٹکے سے گلاس میں پانی بھر کر مجھے پینے کو دے دیا ۔۔چند گھونٹ بھرنے کے بعد ہی میں نے گلاس اسے واپس تھما دیا تھا ۔۔چند لمحے ہمارے بیچ خاموشی چھائی رہی ۔۔پر اس خاموشی کو اس نے توڑتے ہوۓ گلہ گهنگار کر مجھے اپنی جانب متوجہ کیا اور بولے ” دیکھو بیٹا کسی کے مرنے سے دنیا نہیں رکھتی ۔۔اگر میں کہوں کے میں تمہارا درد سمجھ سکتا ہوں تو یہ میں صرف بکواس کرو گا کیونکہ جس پر گزرتی ہے اسی کو پتا ہوتا ہے ۔۔پر اس طرح خود کو نڈھال کر لینا کہاں کی عقلمندی ہے ۔۔مرنے والوں کے بعد سب کچھ خود ہی سنبھالنا پڑتا ہے ۔۔کیا انہوں نے تمہیں کچھ نہیں کہا تھا ۔۔کیا تمہیں کچھ نہیں سنبھالنا ۔۔”
ان کی بات سن کر مجھے امی کا وعدہ یاد آگیا اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں کے سامنے ماہی کا چہرہ آگیا میں ایک جھٹکے سے اپنی جگہ sسے کھڑا ہوا تو گورگن میری کیفیت سمجھ کر میرے پاس آیا اور مجھے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ بولا ” بیٹا سب کچھ خود ہی کرنا پڑتا ہے اپنے آپ کو ٹوٹنے نہ دینا ورنہ یہ دنیا والے تمہیں گدھ کی طرح نوچ کھائیں گے “
ان کی بات سن کر میں کچھ بول تو نہیں پایا مگر آنکھوں میں تشکر کے تاثرات لئے اثبات میں سر ہلا کر قبرستان سے باہر نکل کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گیا ۔۔جیسے ہی میں گھر کے پاس پہنچا مجھے ماہی کی چیخ سنائی دی ۔۔میں بھاگتے ہوۓ گھر کے اندر داخل ہوا تو سامنے ماہی کو دو عورتیں پکڑ کر سنبھال رہی تھی مگر وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوۓ یہی کہے جا رہی تھی کے “چھوڑو مجھے امی کے پاس جانا ہے ۔۔ چھوڑو دو مجھے میری امی کی طبیعت خراب ہے انہیں میری ضرورت ہے ” ماہی کی حالت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے پر اس وقت میں رو نہیں سکتا تھا ۔۔میں نے اپنی آنکھیں صاف کی اور ماہی کے پاس جا کر اسے گلے سے لگا کر اس کی کمر سہلا کر اسے تسلی دینے لگا ۔۔میرے گلے لگتے ہی ماہی ہچکیاں لینے شروع ہو گئی تھی ۔۔۔آہستہ آہستہ اس کی حالت نارمل ہوتی گئی اور کچھ دیر بعد ہی وہ بلکل۔ خاموش ہو گئی ۔۔
ماہی کو سنبھالتے اور مہمانوں کو رخصت کرتے ہوۓ دن کے تین بج رہے تھے کل رات سے ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا ۔۔پڑوسیوں کے گھر سے سالن اور روٹی آگئی تھی مگر ہم دونوں کا دل نہیں تھا کھانے کو ۔۔رونے کی وجہ سسے ماہی کی آنکھیں لال انگارہ بنی ہوئی تھیں ۔۔اسے اندر کمرے میں چار پائی پر بیٹھا کر میں باہر کچن میں آیا اور پڑوسیوں کی بھیجی ہوئی سالن روٹی نکال کر اندر لے جا کر ماہی کو کھلانے لگا پہلے تو وہ انکار میں سر ہلاتی رہی مگر پھر میرے سمجھانے اور اس شرط پر راضی ہوئی کے میں بھی اس کے ساتھ نوالے لوں گا ۔۔بمشکل تھوڑی سی روٹی کھانے کے بعد میں نے اسے چار پائی پر لیٹا دیا اور خود برتن اٹھا کر باہر کچن میں رکھ آیا ۔۔امی کا نہ ہونے کی وجہ سے گھر قبرستان کا منظر پیش کر رہا تھا ۔۔ہر طرف سناٹے کا راج تھا ۔۔گورگن کی بات ٹھیک تھی کے کسی کے مرنے سے کسی کو فرق نہیں پڑتا ۔۔محلے والے سبھی اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے تھے ۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف رات کا اندھیرا چھا چکا تھا گھر میں بلکل خاموشی کا راج تھا میں باہر برآمدہ میں ٹیک لگا کر بیٹھا تھا ۔۔ اندھیرا ہونے کے باوجود نہ میں نے اور نہ ہی ماہی نے گھر کی لائٹ جلائی تھی ۔۔وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے نیند کی تھوڑی جھپکی لے لی تھی کسی آواز سے میں اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا اور ارد گرد نظر دوڑا کر آواز کی نوعیت کو جاننے کی کوشش کر رہا تھا چند لمحے دیکھنے کے بعد جب کچھ نظر نہ آیا تو میں اندر کمرہ میں ماہی کی جانب بڑھ گیا ۔۔وہ سیدھی لیٹی چھت کو گھور رہی تھی ۔۔میں اس کے پاس جا کر چار پائی پر بیٹھتے ہوۓ اس کے sسر کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسے سلانے کی کوشش کرنے لگا ۔۔میری حرکت دیکھ کر اس نے ناراضگی سے میری جانب دیکھا تو میں نے نیچے جھک کر اس کے ماتھے پر لب رکھ کر کہا ” سو جاؤ گڑیا تمہاری طبیعت خراب ہو جائے گی ” میری بات سن کر اس نے کچھ کہنے کی بجائے آنکھیں موند لی ۔۔۔کچھ دیر بعد ہی وہ گہری سانس لیتے ہوۓ نظر آئی ۔۔اس کو سویا ہوا دیکھ کر میں اپنی چارپائی پر آیا اور سیدھا لیٹ کر چھت کو تکتے ہوۓ امی کی باتوں پر غور کرنے لگا ۔۔مرنے سے پہلے انہوں نے مجھے جوکہا تھا کے ماہی میری سگی بہن نہیں ہے ۔۔پر یہ کیسے ہو سکتا ہے اور یہ دلدار کون تھا جس کا امی ذکر کر رہی تھیں ۔۔بیشک انہوں نے کہہ دیا تھا کے میں ان کا سگا بیٹا نہیں ہو پر میرے لئے وہ سگی ماں سے بھی بڑھ کر تھیں ۔۔انہی خیالات میں کب نیند کی دیوی مجھ پر مہربان ہو کر مجھے اپنے ساتھ لے گئی مجھے خبر ہی نہ ہو سکی ۔۔رات کے تیسرے پھر کسی آواز کی وجہ سے میری آنکھ کھلی ۔میں نے سامنے دیکھا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملتے ہیں اگلی اپڈیٹ میں
جاری ہے
طاقت کا کھیل /The Game of Power
کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
