دنیا صرف انسانوں سے بھری ہوئی نہیں ہے اور نہ ہی یہ دنیا اکیلی ہے ۔ اس دنیا کے ساتھ کئی دُنیائیں اور بھی ہیں جہاں مختلف مخلوقات رہتی ہیں۔ جن میں جنات ، شیاطین اور خلائی مخلوق کے بارے میں ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔
طاقت کاکھیل کہانی بھی ایک ایسی ہی دُنیا کی ہے جو کہ ایک افسانوی دنیا ہے جس میں شیاطین بھی ہیں اور اُنہوں نے ہماری دُنیا کا سکون غارت کرنے کے لیئے ہماری دنیا پر ایک حملہ بھی کیا۔ لیکن دُنیا کو بچانے کے لیئے ایک جادوئی قوتوں کے ماہر نے اُن کے ابتدائی حملے کو تو ناکام بنا دیا۔ لیکن دنیا اُس شیطانی مخلوق کے آئیندہ حملے سے محفوظ نہ ہوئی۔
تو کچھ قوتوں نے دنیا کو بچانے کے لیئے ایک ٹیم تیار کرنے کی زمہ داری اپنے سر لے لی ۔ جن میں ایک اس نوجوان کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اور اُس کی تربیت شروع کر دی گئی۔
اس نوجوان کے والدین کا ان کے بچپن میں ہی انتقال ہوگیاتھا۔اور اُس کو اُس کی دوسری ماں نے محنت مشقت کر کے پالا لیکن وہ بھی داغ مفارقت دے گئی۔ اور دنیا سے لڑنے کے لیئے اُس کو اکیلا اُس کی منہ بولی بہن کے ساتھ چھوڑ دیا ۔جس کے بارے میں اُس کی ماں نے کہا تھا کہ اگر ہوسکتے تو اُس لڑکی سے شادی کر کے اپنا گھر بسالو اور وعدہ لے لیا تھا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
قسط نمبر 06
ہیلو دوستوں کیا حال احوال ہیں آپ سب کا امید ہے سب خیریت سے ہوں گے۔میں ہوں آپ کا دوست اور بھائی سٹوری سٹار ۔۔میں آپ کے لئے لایا ہوں ایک نیو جاندار سٹوری ۔۔
طاقت کا کھیل /The Game of Power
میری نظر میں تو یہ ایک جاندار سٹوری ہے ویسے بھی اپنی لسی کو کون کھٹا کہتا ہے مگر آپ کا ریویو دیکھ کر ہی پتا چلے گا کے سٹوری چلنے کے قابل ہے یا نہیں ۔۔۔یہ سٹوری باقی سٹوریز سے تھوڑی مختلف ہو گی۔۔اس میں کچھ حقیقت سے مختلف ہو گا ۔۔یہ سٹوری فینٹسٹک اور ایڈوینچر سے بھر پور ہو گی ۔۔تو ٹائم ضائع کرنے کی بجائے چلتے ہیں سٹوری کی جانب کرداروں کے نام آگے آگے جیسے جیسے آئیں گے آپ کو پتا چلتے جائیں گے ۔
************************
ابھی ہم غار کے کنارے پر ہی پہنچے تھے کے پیچھے سے زور دار آواز کے ساتھ غار گرنا شروع ہو گئی تھی ۔۔میں نے اپنے قدموں میں تیزی لاتے ہوۓ باہر کی طرف دوڑ لگا دی اس دوران زوہیب کے قدم لڑکھڑا سے گئے اور وہ گرنے والا تھا مگر میں اس کو اپنے ساتھ گھسیٹ لایا ۔۔جوں ہی ہم دونوں غار سے باہر نکلے پیچھے پوری غار ہی زمین بوس ہو گئی ۔۔ہم دونوں کی ٹانگیں کانپ رہی تھی ۔۔ابھی ابھی ہم موت کے منہ سے بچ کر نکلے تھے ۔۔میری حالت تھوڑی بہت کچھ بہتر تھی مگر زوہیب کی حالت ابتر تھی ابھی وہ ایک حادثہ سے سنبھلا نہیں تھا کے یہ دوسرا حادثہ اس کو نچوڑنے کے لئے کافی تھا ۔۔بھاگنے کی وجہ سے ہماری سانس پھولی ہوئی تھی ۔۔کوئلے کی کان کے اندر اس وقت نوے مزدور کام رہے تھے جو مختلف غاروں میں تھے ۔۔غار کے بیٹھنے (گرنے ) کی وجہ سے سبھی اندر دب گئے تھے ۔۔دھماکا کافی زور دار ہوا تھا ہمیں یقین تھا کے اس کی آواز دور تک سنی گئی ہو گی ۔۔ہر طرف دھواں اور گرد و غبار تھا ۔۔
ہم دونوں وہیں زمین پر بیٹھ گئے ۔۔چند لمحوں بعد ہماری حالت میں کچھ سدھار آیا تو زوہیب تشکر بھری نظروں سے میری جانب دیکھنے لگا ۔۔اس کے ہونٹ کچھ کہنے کے لئے پھڑ پھڑا رہے تھے وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر الفاظ اس کے منہ سے نہیں نکل رہے تھے آخر کار خود کو سنبھال کر وہ بولا ” تمہارا شکریہ یاسر ممممم ۔۔۔میں ” ابھی وہ بات مکمل کر پاتا کے ہمیں ایک طرف سے لوگوں کی آواز سنائی دینے لگی ۔۔شائد گاؤں والے اسی طرف آرہے تھے ۔۔ہم دونوں تیزی سے کھڑے ہو کر آوازوں کی سمت بڑھ گئے ۔۔ابھی چند قدم ہی لئے ہوں گے کے ہمیں گاؤں والے نظر آئے وہ کافی تعداد میں تھے ۔۔سب کو اپنے پیاروں کی فکر تھی ۔۔ہمارے پاس پہنچتے ہی سب ہم سے اندر موجود مزدوروں کے بارے میں پوچھنے لگے پر ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔آخرکار گاؤں والوں میں سے ایک شخص آگے بڑھ کر سب کو خاموش ہونے کا بول کر ہماری جانب متوجہ ہو کر بولا ” بیٹا میں تم دونوں پر کوئی زیادہ دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا ۔۔اگر تم لوگ مناسب سمجھو تو ہمیں یہ بتا دو کے یہاں کیا ہوا تھا ” ان کی بات سن کر زوہیب میری جانب دیکھنے لگا ۔۔میں گہری سانس لے کر بولا ” انکل ہم کھانا کھا رہے تھے کے اچانک ہی زور دار دھماکہ کی آواز سنائی دی۔۔ڈر کی وجہ سے میں نے زوہیب کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی ابھی ہم غار کے کنارے پر ہی پہنچے تھے کے پیچھے سے غار گرنا شروع ہو گئی تھی ۔۔با مشکل خود کو گھسیٹ کر ہم جوں ہی باہر آئے پیچھے سے پوری غار بیٹھ گئی ” میری بات مکمل ہوتے ہی گاؤں سے آئے لوگوں میں موجود خواتین کی چیخیں بلند ہو گئی ۔۔ان سب کو پتا تھا کے اس طرح کے حادثات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔۔مرد حضرات تیزی سے آگے بڑھ کر ہاتھوں کی مدد سے ملبہ ہٹانے لگے ۔۔اتنے میں ایک آدمی تیزی سے بھاگ کر گیا اور کھدائی کے اوزار اٹھا لیا ۔۔
قیامت کسے کہتے ہیں یہ مجھے اسے دن پتا چلا جب نوے افراد غار کے اندر دب گئے تھے ہر طرف قیامت صغریٰ تھی ۔۔لوگ دیوانہ وار کھدائی کر رہے تھے ۔۔میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا تھا جبکہ اس دوران زوہیب لوگوں کو پانی پلانے لگ گیا تھا ۔۔ابھی مجھے چند لمحے ہی ہوۓ تھے کے زوہیب میرے پاس آیا اور میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے روکتے ہوۓ بولا ” تمہاری بہن پاگلوں کی طرح اس بھیڑ میں تمہیں ڈھونڈ رہی ہے ۔” اس کی بات سن کر میں اوزار وہیں رکھ کر اس طرف بڑھا تو دور سے ہی مجھے ماہی نظر آگئی ۔۔اس کی بھی نظر مجھ پر پڑ گئی ۔۔وہ دیوانہ وار بھاگتی ہوئی میرے طرف آئی اور میرے پاس پہنچتے ہی مجھ سے لپٹ کر ہچکیاں لیتے ہوۓ رونے لگ پڑی ۔۔اس کو روتا دیکھ کر میں اسے تسلی دینے لگا ۔۔روتے ہوۓ وہ بولی ” مممممم ۔۔۔۔میں دددددددد۔ ۔ڈر گئی تھی بھیا ۔۔۔۔مممم۔ ۔۔اممممم ۔۔۔امی کے بعد اااآپ کو نہیں کھو سکتی۔۔۔چلیں یہاں سے میرے ساتھ آپ اب یہاں کام نہیں کریں گے ” ماہی کی باتوں سے ہی پتا چل رہا تھا کے وہ کتنی ڈری ہوئی ہے ۔۔چند لمحوں بعد ہی جب اس کی حالت کچھ سنبھلی تو وہ مجھ سے الگ ہو کر میرا ہاتھ پکڑ کر بولی ” بھیا چلیں یہاں سے آپ اب یہاں کام نہیں کریں گے “اس کی بات سن کر میں مسکراتے ہوۓ بولا “اگر یہاں کام نہیں کروں گا تو کماؤ گا کیسے اور تمہیں ڈاکٹر کیسے بناؤ گا ؟”
وہ بولی : مجھے کچھ نہیں پتا بس آپ یہاں کام نہیں کریں گے چلیں یہاں سے “
اس کو ضد کرتا دیکھ کر میں نے بھی اس وقت بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ وہ ڈری ہوئی تھی اور اسکے ساتھ گھر کی جانب روانہ ہو گیا ۔۔ہمارے پیچھے پیچھے زوہیب بھی آرہا تھا ۔۔میں نے پیچھے مڑ کر اس کی جانب دیکھا تو وہ بولا ” میں بھی اب یہاں کام نہیں کرنا چاہتا گھر جا کر سب کچھ بتانا ہے “اس کی بات سن کر میں نے اثبات میں سر ہلا کر حامی بھری اور گھر کی جانب نکل گیا ۔۔
گھر پہنچ کر ماہی خود کچن میں جا کر میرے لئے پانی لا کر مجھے دیتے ہوۓ بولی ” آپ اب وہاں کام نہیں کریں گے ۔۔کوئی بھی دوسرا کام کر لینا پر وہ نہیں ” اس کی بات سن کر میں سوچ میں ڈوب گیا ۔۔پریشانی میرے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی ۔۔مجھے پریشان دیکھ کر وہ میرے پاس بیٹھ کر میرے ہاتھ پکڑ کر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولی ” بھیا آپ جوان ہے اور محنت کرتے ہیں آپ کو کوئی بھی کام مل جائے گا اس لئے اب آپ وہاں کام نہیں کریں گے ۔۔زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ کے ہر فیصلہ میں آپ کا ساتھ دو گی میں ۔۔جانتی ہوں کے میں چھوٹی ہوں مگر حالات نے مجھے وقت سسے پہلے بڑا کر دیا ہے اور بہت کچھ سمجھنے لگی ہوں ۔۔اب ان فالتو پریشانیوں کو زہن سے جھٹک دیں میں۔ کچن میں کچھ کھانے کو دیکھتی ہوں اگر ہوا تو لاتی ہوں دونوں مل کر کھانا کھائیں گے “
اس کی بات سن کر میرے ہونٹوں پر پھیکی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔اس نادان کو کیا پتا کے کام ملنا کتنا مشکل ہے اور وہ بھی میری طرح کے بندے کو جس کی تعلیم بھی برائے نام مڈل تک کی ہے ۔۔۔ماہی صبح کی بچئی ہوئی سوکھی روٹی لے آئی جو ہم دونوں نے مل کر کھا لی ۔۔ روٹی کھانے کے بعد ماہی اندر کمرے میں چلے گئی اپنی پڑھائی کرنے کے لئے جبکہ میں وہیں چار پائی پر لیٹ کر آرام کرنے لگا ۔۔اپنی سوچ میں ڈوبا کب میں نیند کی وادیوں میں کھو گیا مجھے پتا ہی نہ چلا میں نے سوئے ہوۓ خواب دیکھا جس میں وہی رات والی بلی تھی پر عجیب بات یہ تھی کے وہ مجھ سے بات کر رہی تھی وہ کہہ رہی تھی ” تمہیں پریشان ہونے کی۔ ضرورت نہیں ہے سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔کوشش کرو کے کسی دوسرے شہر چلے جاؤ جہاں تم آرام سے کام کر سکو تمھارے لئے جانے کا بندوبست خود ہی ہو جائے گا ” اتنا بول کر وہ آگے بڑھی اور اپنی لمبی سی زبان نکال کر میرے چہرے پر پھیری تو میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔۔چند لمحوں کے لئے میں خواب کے ہی زیر اثر رہا مگر پھر کسی کی آواز کو سن کر مجھ سے غنودگی جاتی رہی ۔۔آواز دروازہ کھٹکھٹانے کی تھی ۔۔اندر سے ماہی نکل کر باہر آئی اور دروازہ کی جانب بڑھی تو میں اس کو روکتے ہوۓ بولا ” تم ٹہرو میں دیکھتا ہوں “
میں نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے زوہیب کھڑا تھا ۔اسے سامنے دیکھ کر میں حیرانگی سے اس کی جانب دیکھتے ہوۓ بولا ” تتم ! خیریت تھی اس وقت تم یہاں۔ کیسے ؟”
وہ بولا :: یاسر بھائی خیریت ہی ہے بس ابو اور امی آپ سے ملنا چاہ رہے تھے تو میں نے کہا میں بلا لاتا ہوں “
میں بولا :: مجھ سے ملنا چاہتے ہیں پر کیوں ؟
وہ بولا : بھائی آپ نے میری جان بچائی اور میری عزت بھی وہ انچارچ میرے ساتھ زبردستی کر رہا تھا ۔۔
اس کی بات سن کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی میں بولا : پر تمہاری پہلی بار تو نہیں تھی ۔۔کیونکہ پہلی بار جس کے ساتھ یہ کام ہوتا ہے اس کو بہت درد ہوتا ہے جبکہ تم اس کا آرام سے لے چکے تھے ۔
وہ بولا : آپ کی بات ٹھیک ہے بھائی پر تب میں نے اپنی مرضی سے کیا تھا اور پہلی بار مجھے بھی درد ہوا تھا مگر اس کے بعد مجھے اس کام میں مزہ آتا تھا پر وہ انچارچ زبردستی کر رہا تھا میرے ساتھ جس کی وجہ سے مجھے اس سے گھن آرہی تھی ” یہ بات اس نے نظریں جھکا کر کہیں تو میں اس کے سر کے بالوں کو سہلاتے ہوۓ بولا ” کوئی بات نہیں میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری بات ویسے بھی تمہاری اپنی زندگی ہے میں اس میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔۔تم روکو میں ماہی کو بتا دو پھر چلتے ہیں تمھارے گھر ” میری بات سن کر وہ خوش ہو گیا ۔میں اندر کمرہ میں گیا تو ماہی اپنی کتابیں لے کر بیٹھی ہوئی پڑھ رہی تھی مجھے کمرہ میں داخل ہوتا دیکھ کر وہ کتاب بند کرتے ہوۓ بولی ” جی بھیا کوئی کام تھا کیا ؟”
میں بولا : نہیں شہزادی بس میں باہر جا رہا ہو تو تم دروازہ اندر سے بند کر دینا میرے واپس آنے تک باہر نہیں نکلنا میں کچھ کھانے کو بھی لے آؤ گا ۔۔
وہ بولی : بھائی آپ کہاں جا رہے ہیں “
میں بولا : زوہیب آیا ہے اس کے ابو مجھ سے ملنا چاہ رہے ہیں بس وہی جانا ہے ۔
وہ بولی : زوہیب ! جہاں تک مجھے پتا ہے آپ کا ایسا کوئی دوست نہیں تھا اور اس کے ابو کیوں ملنا چاہتے ہیں آپ سے ؟
میں بولا : ہاں زوہیب میرا آج ہی دوست بنا ہے اور جہاں تک بات اس کے ابو کے ملنے کی ہے وہ جاؤں گا تو پتا چلے گا ۔اب اگر اجازت ہو تو میں جاؤں محترمہ ” میں نے مزاخیہ انداز میں کہا تو اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔اس کے بعد میں باہر نکل کر زوہیب کے ساتھ اس کے گھر کی جانب روانہ ہو گیا جبکہ ماہی نے دروازہ کو اندر سے کنڈی لگا لی تھی ۔۔
دوستوں زوہیب کے گھر میں ٹوٹل پانچ افراد تھے ۔
گلزار زوہیب کے والد جو کے اپاہج ہیں
صابرہ بیگم زوہیب کی والدہ
شمائلہ زوہیب کی بڑی بہن
کرن زوہیب کی چھوٹی بہن جبکہ پانچواں زوہیب خود ۔
جیسے ہی ہم اس کے گھر پہنچے تو سبھی صحن میں
چارپائیوں پر بیٹھے ہوۓ تھے ۔۔مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کی دونوں بہنیں اٹھ کر اندر چلی گی ۔۔میں نے ان کے پاس جا کر رسمی کلمات کہے جس کا زوہیب کے والد نے جواب دیا جبکہ اس کی ماں نے آگے بڑھ کر میرے سر پر پیار دیا اور مجھے دوسری چار پائی پر بیٹھا کر خود میرے پاس بیٹھ گئی ۔۔ان کا گرم جسم میرے ساتھ لگ رہا تھا جو مجھے محسوس ہو رہا تھا ۔۔چند لمحے ہمارے درمیان خاموشی چھائی رہی ۔۔اس خاموشی کو زوہیب کے والد نے ہی توڑا اور بولے ” بیٹا میں تمہارا شکر گزار ہوں کے تم نے میرے بیٹے کی جان بچائی ۔۔میرا اکلوتا بیٹا ہے یہ گھر کی سبھی ذمداری اس نے سنبھالی ہوئی ہے ۔۔مجھے اس نے بتایا کے کیسے تم نے اس کو انچارچ سے بچایا اور کیسے تم اسے غار سے باہر لائے اس کے لئے میں تمہارا احسان مند رہوں گا ہمیشہ “
ان کی بات سن کر میں بولا : نہیں انکل ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ تو میرا فرض تھا ۔اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا میں تب بھی یہی کرتا
زوہیب کے والد زوہیب کی والدہ۔ کی طرف دیکھتے ہوۓ بولے : دیکھا کتنا اچھا ہے یہ لڑکا ۔۔اس کام کو یہ اپنا فرض سمجھ رہا ہے اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا ” اتنا بول کر وہ میری جانب دیکھتے ہوۓ بولے ” بیٹا میرے مالی حالات تمھارے سامنے ہیں مگر پھر بھی اگر تمہیں میری مدد چاہئے ہو تو شرمانا مت بے جھجھک بول دینا ۔۔ویسے بھی ہم ایک دو دن میں یہ گھر خالی کر کے شہر چلے جائیں گے ۔۔یہاں اتنے کام نہیں ہے کے ہمارا گزرا ہو سکے ۔۔شہر میں زوہیب کسی فیکٹری میں کام کر لے گا جبکہ اس کی امی لوگوں کے گھر میں کام کر لے گی جس سے ہمارا گزارا ہو جائے گا اور اس کی بہنیں بھی پڑھ لیں گی ” ان کی بات سن کر میرے زہن میں جھماکا ہوا میں ان کی جانب دیکھتے ہوۓ بولا ” انکل اگر برا نہ منائیں تو ایک بات عرض کر سکتا ہوں ؟”
وہ بولے : ہاں ہاں بیٹا کہو کیا کہنا چاہتے ہو تم ۔۔
میں بولا : انکل یہاں پر اب ہمارا کوئی بھی نہیں اور میں بھی کسی شہر جانے کا سوچ رہا تھا ۔۔اگر ہم آپ کے ساتھ چلے جائیں تو۔ اس طرح ہمیں بھی مدد مل جائے گی اور میں آپ کی مدد بھی کر دو گا سامان وغیرہ اٹھانے میں ۔۔وہاں بس کچھ ٹائم لگے گا تب تک میں اپنی اور اپنی بہن کے لئے کوئی مکان ڈھونڈ لو گا کرائے پر یا پھر ہم مل کر کرائے کا مکان خرید لیں گے ۔۔جس سے آپ کو بھی بچت ہو جائے گی اور ہمیں بھی آسرا رہے گے ۔۔ویسے بھی میں پورا دن کام پر ہوں گا تو گھر میں بہن کے اکیلے ہونے کا ڈر نہیں ہو گا مجھے ۔”میری بات سن کر زوہیب کا چہرہ کھل اٹھا مجھے اس وقت تو سمجھ نہ آئی مگر بعد میں پتا چل گیا وہ آگے جا کر آپ لوگوں کو پتا چل جائے گا جبکہ زوہیب کے ابو چند لمحے سوچ کر زوہیب کی والدہ کی جانب دیکھا تو انہوں نے آنکھوں سے کوئی۔ اشارہ کر دیا جسے سمجھ کر وہ بولے ” بلکل بیٹا یہ تو اچھا رہے گا اس طرح زوہیب بھی وہاں خود کو اکیلا نہیں سمجھے گا جبکہ تمہاری بہن کو بھی مزید دو بہنیں مل جائیں گی ” ان کی بات سن کر میں خوش ہو گیا ۔۔اس کے بعد شہر جانے کے بارے گفتگو ہوئی اور انہوں نے کھانا کھانے کے لئے بہت زور دیا پر گھر میں بہن اکیلی ہے کا بہانہ کر کے میں نے منع کر دیا دو دن بعد کی روانگی کا پروگرام فائنل ہوا انہوں نے کہا کے ضروری سامان جو بھی ہو اسے پیک کر لینا ۔۔میں نے جانے کی اجازت طلب کی میں وہاں سے جب نکل رہا تھا تو انہوں نے ایک برتن میں مجھے سالن اور ساتھ میں روٹی پکڑا دی کے گھر جا کر اپنی بہن کے ساتھ کھا لینا ۔۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے نکل کر گھر آگیا ۔۔گھر پہنچ کر میں نے دروازہ کھٹکٹایا تو ماہی نے پوچھ کر دروازہ کھولا میرے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر وہ بولی ” کیا بات ہے بھائی بڑے خوش لگ رہے ہیں ” میں اسے کھانا پکڑاتے ہوۓ بولا ” بات ہی خوشی کی ہے تم کھانا نکالو میں ہاتھ منہ دھو لو پھر بات کرتے ہیں اس بارے میں ” میری بات سن کر وہ کچن کی جانب بڑھ گئی جبکہ میں ہاتھ منہ دھو کر اندر کمرہ میں چلا گیا چند لمحوں بعد ہی وہ کھانا لے کر اندر کمرہ میں آگئی ۔۔کھانا۔ کھاتے وقت اس نے دوبارہ وہی بات کی تو میں بولا ” میں زوہیب کے گھر گیا تھا وہ یہاں سے شہر شفٹ ہو رہے ہیں ۔۔میں نے انہیں کہا کے ہم بھی ساتھ جائیں گے تو وہ راضی ہو گئے دو دن بعد یہاں سے نکلنا ہے جو بھی ضروری سامان ہو وہ پیک کر لینا باقی یہیں بیچ دیں گے ” میری بات سن کر جہاں اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی وہیں وہ تھوڑا اداس ہو گئی تھی اس کو اس طرح دیکھ کر میں نے پوچھا کیا ہوا ہے تو وہ بولی ” بھائی یہاں ہم نے کتنا ٹائم ساتھ میں گزارا ہے یہاں امی کی یادیں ہیں جنھیں ہم چھوڑ۔ دیں گے “
اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لئے میرے دل بھی ٹھیس اٹھی مگر پھر خود کے جذبات کو قابو کر کے میں بولا ” تمہاری بات ٹھیک ہے مگر ہمیں آگے بھی بڑھنا ہو گا اور ویسے بھی امی ہمارے دل میں ہمیشہ رہیں گی ان کو یاد کرنے کے لئے ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے تم اداس مت ہو بس امی کی آخری خواہش کے بارے میں سوچو وہ چاہتی تھیں کے تم ڈاکٹر بنو شہر میں بڑے بڑے سکول ہیں ہم وہاں تمہارا داخلہ کروا دیں گے ” اتنا بول کر میں نے ایک گہری سانس لی اور دوبارہ بولا “تم ضروری سامان پیک کر لینا ہم دو دن بعد یہاں سے نکلیں گے ” میری بات سن کر اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔اس کے بعد ہم نے کھانا کھایا اور سو گئے اگلے دن ضروری سامان کو ہم نے پیک کیا اور باقی سامان کو بازار میں بیچ دیا جس سے ہمارے سفر کا خرچہ نکل آیا یہ اس سے اگلے دن کی بات ہے کے صبح صبح ہی زوہیب ہمارے دروازہ پر موجود دروازہ کھٹکتا رہا تھا۔۔میں نے جا کر دروازہ کھولا تو وہ بولا ۔۔۔.۔۔۔ ملتے ہیں اگلی اپڈیٹ میں
جاری ہے
طاقت کا کھیل /The Game of Power
کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
