The Game of Power-28-طاقت کا کھیل

طاقت کا کھیل

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے  رومانس ،ایکشن ، سسپنس ، تھرل ، فنٹسی اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک  ایکشن سے بھرپور کہانی، ۔۔ طاقت کا کھیل/دی گیم آف پاؤر ۔۔یہ  کہانی ہے ایک ایسی دُنیا کی جو کہ ایک افسانوی دنیا ہے جس میں شیاطین(ڈیمن ) بھی ہیں اور اُنہوں نے ہماری دُنیا کا سکون غارت کرنے کے لیئے ہماری دنیا پر کئی بار حملے بھی کئے تھے  ۔۔لیکن دُنیا کو بچانے کے لیئے ہر دور میں کچھ لوگ جو  مختلف قوتوں کے ماہر تھے  انہوں نے ان کے حملوں کی  روک تام  کی ۔۔

انہی میں سے کچھ قوتوں نے دنیا کو بچانے کے لیئے ایک ٹیم تیار کرنے کی زمہ داری اپنے سر لے لی ۔ جن میں سے ایک یہ  نوجوان بھی اس ٹیم کا حصہ بن گیا اور اُس کی تربیت  شروع کر دی گئی۔ یہ سب اور بہت کچھ پڑھنے کے لئے ہمارے ساتھ رہیں ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

طاقت کا کھیل قسط نمبر -- 28

میں نے دیوار پر لگنے سے پہلے اپنی شیلڈ آن کر لی تھی اس لیے مجھے گاڑی اور دیوار کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں ہوا۔

میں ایک دم اٹھنے لگا تو رانی نے مجھ سے کہا کہ تم لیٹے رہو ایسے ایک دم اٹھنا بھیڑ میں خطرے سے خالی نہیں ہے وہ لوگ تمہارے بارے میں کیا سوچیں گے۔

جس گاڑی نے تجھے ہٹ کیا تھا وہ فورا ہی یہاں سے رفو چکر ہو گیا ہے۔ اس نے بھی سوچا ہوگا کہ اب اس جگہ رکنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

جس لڑکی کو میں نے سائیڈ پر کیا تھا وہ ابھی بھی اپنے دونوں ہاتھ سر پر لیے ایسے کھڑی تھی جیسے وہ گاڑی مجھے نہیں اسے لگی ہو پھر ایک دفعہ اس نے دیکھا اور پھر جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ بھاگتی ہوئی میری طرف آئی ۔

وہ جیسے ہی میرے قریب آئی تو میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور بے ہوشی کا ناٹک کرنے لگا۔ دیوار پر لگنے سے مجھے چوٹ لگ گئی تھی میرے سر سے خون بھی بہنا شروع ہو گیا تھا لیکن مجھے ہیلتھ سپارک کی وجہ سے اتنی مدد ضرور ملی تھی کہ میری ہیلتھ اٹومیٹک ریکور ہو رہی تھی۔ مجھے شیلڈ کا یہ فائدہ ہوا تھا کہ میں ایک بہت بڑے حادثے سے بچ گیا تھا یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا تھا کے میں اب تک شاک میں تھا کہ اتنے بڑے ایکسیڈنٹ کے بعد میری کوئی بھی ہڈی کیوں نہیں ٹوٹی۔

ہڈی کی تو بات ہی چھوڑیں مجھے تو اس حادثے کے بعد ہاسپٹل کے بیڈ پر ہونا چاہیے تھا لیکن میں تھا کہ اب بالکل ریکور ہو گیا تھا میرے سر پر ایک چھوٹی موٹی چوٹ آئی تھی۔۔

وہ لڑکی میرے قریب آئی اور آ کر بیٹھ گئی ساتھ کھڑے لوگوں میں سے کسی سے اس نے پانی کی بوتل مانگی اور پانی کو میرے چہرے کے اوپر ڈالا جس سے میں ہوش میں آیا۔ بے ہوش تو میں پہلے بھی نہیں تھا لیکن ہوش میں آنے کا ناٹک کیا۔

میرے سر سے بہنے والا خون میرے سارے کپڑے بھگو کر رکھ دیئے تھے۔

میری نظر جب اس لڑکی کے چہرے پر پڑی تو وہ بالکل گڑیا جیسی لگ رہی تھی۔ اتنی زیادہ پیاری تھی کہ اسے ہاتھ لگانے سے ہی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کہیں وہ میلی نہ ہو جائے۔

اس نے مجھے سہارا دے کر کھڑا کیا اور اپنا موبائل نکال کر کسی کو کال کرنے لگی تو میں نے اس سے کہا کہ میں ٹھیک ہوں آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے

وہ بولی۔۔ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ابھی آپ کو میرے سامنے کار نے ہٹ کیا ہے آپ نے میری جان بچانے کی خاطر خود کی جان کو خطرے میں ڈالا ہے۔

میں بولا۔۔۔ کوئی بات نہیں جی وہ گاڑی بالکل آپ کو ہٹ کرنے والی تھی لیکن مجھ سے جو ہو سکا وہ میں نے کیا۔ آپ بتائیں آپ ٹھیک ہیں آپ کو لگی تو نہیں۔

میری اس بات سے وہ قربان جانے والی نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ دیکھیں آپ کو میرے ساتھ چل کر ٹریٹمنٹ تو کروانے یی پڑے گی ورنہ مجھ کو بالکل اچھا نہیں لگے گا۔۔

میں بولا۔۔  نہیں جی میں نہیں جاؤں گا ہاسپٹل وہ بنا سوچے سمجھے انجیکشن لگا دیتے ہیں اور مجھے انجیکشن سے بہت ڈر لگتا ہے میں تو کبھی بھی نہیں جاؤ ہاسپٹل ۔

میری اس بات سے وہ کھلکھلا کر ہنسی اور بولی تم کس دنیا میں رہ رہے ہو تمہیں پتہ ہے تم نے آج کیا کیا ہے تم نے میری جان بچائی ہے اور وہ بھی بالکل جب وہ کار مجھے ہٹ کرنے والی تھی اور اب تم ایک چھوٹے سے انجیکشن سے ڈر رہے ہو۔۔

میں بولا۔۔۔ ہاں جی مجھے تو ڈر لگتا ہے میں تو انجیکشن سے بہت ڈرتا ہوں میں تو کبھی بھی ہاسپٹل نہیں گیا۔

وہ بولی۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے میں تم سے وعدہ کرتی ہوں وہ لوگ تمہیں انجیکشن نہیں لگائیں گے تم بس میرے ساتھ جا کر پٹی کروا لو اس کے بعد تم جہاں کہو گے میں تمہیں وہاں چھوڑ دوں گی۔

اتنے میں ایک گاڑی ہمارے پاس آ کر رکی اور اس میں سے ایک ڈرائیور نکلا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔

ہاں جلدی سے گاڑی میں بیٹھو

اس کے بعد میں اس لڑکی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا اور اس کے ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی گاڑی کچھ سڑکیں کراس کرتی ہوئی ہاسپٹل پہنچی اور پھر مجھے ہاسپٹل کے ایمرجنسی میں لے جایا گیا جہاں ایک نرس نے پہلے میرے زخم کی اچھے سے صفائی کرنے کے بعد اس پر پٹی لگا دی۔۔ جس کا بل اس لڑکی نے ہی دیا کیونکہ میں تو اپنا پرس گھر پر ہی رکھ کر باہر نکلا تھا۔۔۔

میں ہاسپٹل سے باہر نکل کر جب اس کی گاڑی کے قریب پہنچا تو اس کا ڈرائیور میرے لیے ایک نئی شرٹ لے کر آیا تھا وہ لڑکی میرے قریب آئی اور بولی تم شرٹ کو تبدیل کر لو اس پر سارا خون لگا ہوا ہے تمہارے گھر والے دیکھیں گے تو پریشان ہو جائیں گے۔۔

 مجھے بھی اس کی بات مناسب لگی اور میں نے اپنی خون آلود شرٹ کو اتار کر اس نئی شرٹ کو پہن لیا۔

میں نے بھی نوٹس کیا جب میں شرٹ اتار رہا تھا تو وہ لڑکی بڑے غور سے میرے جسم کا جائزہ لے رہی تھی۔۔

پھر اس لڑکی نے مجھے میری بتائی ہوئی جگہ پر اتارا اور وہاں سے چلی گئی جب میں اپنے گھر کی طرف جانے لگا تو مجھے خیال آیا میں نے تو اس کا نام تک نہیں پوچھا۔ اگلے ہی پل سوچا میں نے کون سا اب اس سے دوبارہ ملنا ہے جو اس کا نام پوچھتا۔۔

گھر پہنچا تو سب میرے سر پر پٹی دیکھ کر چونک گئے۔ خاص کر ماہی اس کی تو آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور وہ بھاگتی ہوئی آئی اور سب کے سامنے میرے سینے سے لگ کر رونے لگی۔

میں نے بڑی مشکل سے اسے تسلی دی اور پھر اسے بتایا کہ میں جب واپس آرہا تھا تو کیلے کے چھلکے سے میرا پاؤں پھسلا اور مجھے یہ چوٹ لگ گی۔

اگر میں اسے سچ بتا دیتا کہ مجھے گاڑی نے ہٹ کیا ہے تو اس نے مجھے سارا دن گھر سے باہر نکلنے ہی نہیں دینا تھا۔۔

اس کے بعد میں نے سب کے ساتھ مل کر ناشتہ کیا جب کام پر جانے کی باری آئی تو زوہیب کے چاچا نے کہا کہ زوہیب کو دوسری جگہ کام مل گیا ہے جہاں اس جاب سے تنخواہ تھوڑی زیادہ ہے ابھی وہاں پر صرف ایک ہی آدمی کی گنجائش تھی۔ میں نے زوہیب کو وہاں پر رکھوا دیا ہے جیسے ہی اور جگہ خالی ہوئی تو تمہیں بھی وہاں رکھوا دیں گے۔۔۔

میں نے ہاں میں گردن ہلا دی اور کام کی طرف نکل پڑا۔

میرے دماغ میں ان کی بات یہ سن کر مجھے مایوسی تو بہت ہوئی کہ انہوں نے اپنے لڑکے کو تو ایک اچھی جگہ پر رکھوا لیا لیکن میرے بارے میں سوچا تک نہیں۔

 مجھے بھی اس چین کی جاب سے بس اتنے ہی پیسے ملتے تھے جس سے میں تھوڑی بہت اپنی ضروریات پوری کر لیتا تھا۔ جب سے میری جاب لگی تھی میں نے اپنے دونوں کمروں کا کرایہ دینا بھی شروع کر دیا تھا۔۔

اور گھر خرچ کے لیے پیسے الگ سے دیتا تھا تاکہ میں کسی پر بوجھ نہ بنوں۔ مجھے اپنی بہن ماہی کو ڈاکٹر بنانا تھا اور اس کے لیے مجھے بہت زیادہ پیسے چاہیے تھے لیکن پیسے تھے کہ جمع ہو ہی نہیں رہے تھے۔

 میں انہی سوچوں کے درمیان کام پر پہنچ گیا اور  وہاں سب نے بھی مجھ سے یہی پوچھا کہ تمہارے سر پر چوٹ کیسے لگی تو میں نے انہیں بھی جھوٹ موٹ کا بہانہ بنا کر بتا دیا اور ہم سب  کام پر لگ گئے۔۔۔

آج اتوار کا دن تھا اور رش کافی زیادہ تھا آرڈر پر آرڈر آ رہے تھے اور ہم کام میں مگن تھے چھٹی والے دن آرڈر زیادہ ہوتے تھے فیملیاں گھر پر ہوتی تھی اور انہیں کچھ نہ کچھ پارٹیاں کرنی ہوتی تھیں۔۔۔

تقریبا ابھی 10 بجے کا ٹائم ہوا تھا کہ مجھے کسی نے کہا کہ تمہیں میڈم آفس میں بلا رہی ہیں۔ میں نے میڈم کے بارے میں سن رکھا تھا لیکن انہیں کبھی دیکھا نہیں تھا ان کے بارے میں یہ بات ہر زبان عام تھی۔ کہ وہ  بہت ہی زیادہ سخت ہیں آئے روز وہ کسی نہ کسی ملازم کو کام سے نکال دیتی تھی اسے کام چوری بالکل بھی پسند نہیں تھی اور آج مجھے بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے کام کا آج آخری دن ہو۔۔

طاقت کا کھیل /The Game of Power

کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی۔

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے دیئے گئے لینک کو کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page