The Game of Power-32-طاقت کا کھیل

طاقت کا کھیل

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے  رومانس ،ایکشن ، سسپنس ، تھرل ، فنٹسی اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک  ایکشن سے بھرپور کہانی، ۔۔ طاقت کا کھیل/دی گیم آف پاؤر ۔۔یہ  کہانی ہے ایک ایسی دُنیا کی جو کہ ایک افسانوی دنیا ہے جس میں شیاطین(ڈیمن ) بھی ہیں اور اُنہوں نے ہماری دُنیا کا سکون غارت کرنے کے لیئے ہماری دنیا پر کئی بار حملے بھی کئے تھے  ۔۔لیکن دُنیا کو بچانے کے لیئے ہر دور میں کچھ لوگ جو  مختلف قوتوں کے ماہر تھے  انہوں نے ان کے حملوں کی  روک تام  کی ۔۔

انہی میں سے کچھ قوتوں نے دنیا کو بچانے کے لیئے ایک ٹیم تیار کرنے کی زمہ داری اپنے سر لے لی ۔ جن میں سے ایک یہ  نوجوان بھی اس ٹیم کا حصہ بن گیا اور اُس کی تربیت  شروع کر دی گئی۔ یہ سب اور بہت کچھ پڑھنے کے لئے ہمارے ساتھ رہیں ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

طاقت کا کھیل قسط نمبر -- 32

میں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر عذرا کی شلوار کے اندر ڈال دیا اور ان کی گانڈ کو مسلنے لگا۔ جبکہ عذرا مجھے مسلسل منع کر رہی تھی لیکن مجھ پر ان کی باتوں کا کوئی بھی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ ان کے منع کرنے کے باوجود میں نے انہیں کھینچ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔ میں نے انہیں لے جا کر اپنی چارپائی پر پھینکا اور اور اگلے پل ان کے کپڑے بھی اتار پھینکے اور اپنے کپڑے بھی اتار دیئے۔

میں نے اپنے لن کو پکڑ کر جیسے ہی عذرا کی پھدی پر رکھا تو۔۔

تو اتنے میں میرے پیچھے ایک چیخ بلند ہوئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو نازش کھڑی ہوئی تھی۔

نازش اندر آئی اور اتنے میں عذرا میرے نیچے سے نکل کر اس کے پیچھے چلی گئی اور روتے ہوئے بولی۔۔ مجھے اس درندے سے بچا لو یہ میری عزت لوٹنا چاہتا ہے۔

میں ہکا بكا عذرا چاچی کا بدلتا ہوا روپ دیکھ رہا تھا اتنے میں نازش آگے بڑھی اور میرے منہ پر ایک تھپڑ دے مارا اور چارپائی سے اپنی ماں کے کپڑے اٹھا کر اپنی ماں کو دیئے ۔۔۔

 میں نے نازش کی آنکھوں دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔نازش کے پیچھے کھڑی عذرا چاچی نے جلدی سے کپڑے پہن کر نازش کو کھینچ کر پیچھے کیا اور بولی ہم اسے آج ہی گھر سے نکال دیتے ہیں۔۔

نازش بولی۔۔۔ نہیں ماں اسے ہم گھر سے نہیں نکالیں گے اس کی صرف یہی سزا ہے کہ آج سے اس سے کوئی بھی بات نہیں کرے گا۔۔

اتنا کہنے کے بعد نازش اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ میں ہکا بکا ننگا وہیں چارپائی پر بیٹھا گیا۔ اور اس مکار عورت کی مکاری کو دیکھ رہا تھا جس نے پل بھر میں مجھے بیگانہ کر دیا۔آج سچ میں بڑوں کا قول سچ ہو گیا تھا کے عورت کی مکاری کے آگے کوئی بھی مرد کھڑا نہیں ہو سکتا ۔۔۔

ان کے جانے کے کچھ لمحوں بعد میں نے بھی اپنے کپڑے پہنے اور وہیں پر لیٹ گیا اور مجھے انتظار تھا اس گھڑی کا کے یہ ماں بیٹی کرتی ہیں اگر انہوں نے آج جو واقعہ ہوا اگر انہوں نے ماہی کو بتا دیا تو ماہی میرے بارے میں کیا سوچے گی ۔کے اس کا بھائی اپنے سے بڑی عورتوں کا شوق رکھتا ہے۔یہی سب کچھ میں سوچ رہا تھا۔۔ ۔

جب مجھے رات کے کھانے پر ماہی بلانے آئی تو میں نے بہانہ کر دیا کے میں آفس میں پارٹی تھی وہاں سے کھانا کھا کر آیا ہوں۔اور میں نے ماہی کو بولا جا کر کھا آو اور وہ کھانا کھانے چلی گئی۔جب ماہی کھانا کھا کر میرے روم میں آئی۔اور مجھے سے دن بھر جو ہوا وہ بتانے لگی۔ لیکن جو واقعہ کچھ دیر پہلے ہوا اس بارے میں ماہی نے کوئی نہیں۔اب مجھے پکا یقین ہو گیا۔کے ان دونوں ماں بیٹی نے ماہی کو کچھ نہیں بتایا ابھی تک۔اور خوش مزاجی سے ماہی کے ساتھ بات کرتا رہا۔لیکن میرے دل کے اندر طوفان مچا ہوا تھا۔اور میں نے ماہی کو کچھ پتا نہیں چلنے دیا ۔ کافی دیر باتیں کرنے کے بعدجب ماہی سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔

 تو میں عذرا چاچی سے بدلہ لینے کا پلان کرنے لگا کیونکہ اس نے میری عزت کے ساتھ کھیلا تھا ہم دونوں کے درمیان جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ ہم دونوں کی رضا مندی سے ہو رہا تھا مجھے پہلے بھی اسی نے اس موڑ پر لایا تھا اور اب جب موقع آیا ساتھ دینے کا تو وہ ایسے پھر گئی جیسے ساری غلطی صرف میری ہو۔۔۔

انہی ساری سوچوں کے درمیان میری پوری رات بیت گئی صبح جب میں اٹھا۔ تو میں وہیں سے فریش ہوا اور کپڑے پہن کر سیدھا آفس کی جانب  نکل گیا۔۔ آج میں پارک میں بھی نہیں گیا تھا  سارا دن موڈ خراب رہا تھا عجیب سی بیزاری چھائی ہوئی تھی جسم پر ۔۔

اس دوران آدھے راستے میں مجھے سسٹم کی جانب سے نوٹیفیکشن بھی ملا تھا جس میں کہا گیا تھا کے ” آپ نے آج ڈیلی مشن روٹین کے حساب سے مکمل نہیں کیا۔۔ اگر آپ نے ڈیلی روٹین پوری نہ کی تو پنلٹی کے طور پر آپ سے بیس پوائنٹ کاٹ لئے جائیں گے ۔” پر الجھے ہونے کی وجہ سے میں زیادہ توجہ نہیں دے پایا تھا ۔۔ صورت حال کا ادرک مجھے تب ہوا جب سسٹم کی جانب سے پوائنٹ کاٹنے کا نوٹیفیکشن ملا ۔۔

اپنے آفس پہنچ کر سب سے پہلے  میں نے زوہیب کو کال کر کے کہا کے  وہ ماہی کو بتا دے کہ کام زیادہ ہونے کی وجہ سے میں آج جلدی آفس آگیا ہوں ۔۔خوا مخوا وہ پریشان نہ ہو ۔۔

کام پر جلدی آنے کی وجہ سے اتنا گھما گہمی نہیں تھی صبح صبح کا ٹائم تھا رات کی شفٹ والے ملازم ابھی تک اپنا کام سر انجام دے رہے تھے اکا دکا کسٹمر موجود تھے ۔۔میں نے زیادہ کسی طرف دھیان نہ دیتے ہوۓ ملازموں سے سر سری سا حال احوال لے کر اپنے کیبن کی جانب بڑھ کر اس میں داخل ہو کر کرسی پر گرنے والے انداز میں بیٹھ کر اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگ پڑا ۔۔میں جتنا سوچتا جاتا اتنا ہی الجھتا جا رہا تھا ۔۔آخر تنگ آکر سبھی سوچوں کو ذہن سے جھٹک کر آنکھیں بند کر کے آرام کرنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔اس دوران رانی نے بھی مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی پر میرا موڈ دیکھ کر زیادہ کچھ نہیں کہا اور دو گھنٹوں کے لئے سلیپ موڈ میں چلی گی تھی ۔۔

لگ بھگ تین گھنٹے بعد جب میڈم آئی تو میں اپنی کیبن سے نکل کر ان کے آفس کے باہر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ان کی کمنگ ان کی آواز آئی ۔۔ان کی اجازت ملتے ہی میں اندر داخل ہو کر بولا ” میم  مجھے پانچ دن بعد وہ والا مکان چاہیے جس کی آپ نے بات کی تھی مجھ سے “

میری بات سن کر وہ حیرانگی سے میری جانب دیکھتے ہوۓ بولیں “۔ خیریت تو ہے تم اس طرح یوں اچانک مکان کی بات کر رہے ہو ۔کیا کوئی مسئلہ در پیش ہے ؟

میں بولا:  ہاں میڈم بالکل خیریت ہے ۔۔بس کب تک کسی کے سر پر بوجھ بن کے رہوں گا تو میں نے سوچا خود ہاتھ پاؤں مار کر اپنے لئے الگ سا گھر ڈھونڈ لو کرائے پر  ۔۔

وہ بولیں :  یہ تو تم نے اچھا فیصلہ کیا جو اپنے گھر میں شفٹ ہو رہے ہو ۔باقی کرائے کی ٹینشن نہ لو وہ سب کمپنی کی ذمداری ہے ۔۔ویسے بھی میں نے وہ گھر دیکھا ہے وہ تمہارے رہنے کے قابل نہیں ہے۔۔ تم ہماری چین کے مینیجر ہو اتنے چھوٹے سے گھر میں رہتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔۔۔ کل میں چابیاں منگوا لوں گی  تم مجھ سے جاتے ہوئے وہ لے لینا  کل ۔

میں بولا: شکریہ میڈیم 

وہ بولی : شکریہ کی ضرورت نہیں یہ ہماری ذمداری ہے اور صرف ہم ہی نہیں ہر کمپنی اپنے منیجر کو سبھی سہولیات دیتی ہے ہم نے کوئی انوکھا کارنامہ انجام نہیں دیا ۔۔

ان کی بات پر میں ہاں میں گردن ہلانے کے سوا کچھ نہ بول پایا ۔۔

گھر کا مسئلہ حل کر کے میں واپس اپنے آفس کے کیبن میں آیا اور کام میں لگ گیا ۔۔پورا دن کام میں کب گزرا اس کا پتا ہی نہ چل سکا اس دوران میں نے ہلکی پھلکی سنیک کھا کر اپنی بھوک مٹا لی تھی ۔۔شام کو  وقت سے ایک گھنٹہ پہلے میں اپنا سبھی کام سمیٹ کر آفس سے نکل کر گھر کی جانب روانہ ہو گیا ۔

ابھی میں راستے میں ہی تھا کے  ایک دم سے بگلی میرے سامنے آ گئی اور مجھ سے بولی۔۔ آپ کو ابھی اپنی ٹیم کا ساتھ دینا ہوگا ۔۔آپ کی ٹیم اس وقت کافی مشکل میں پھنسی ہوئی ہے ۔۔امید ہے وہ سبھی ان حالات کا سامنا کر لیں گے مگر پھر بھی آپ کے وہاں ہونے پر ان کو سہولت مل جائے گی ۔اس لئے آپ کا جانا ضروری ہے ۔

بگلی کی بات سن کر میں حیرانگی سے اس کی جانب دیکھتے ہوۓ بولا ” تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ۔۔کوئی نشہ وشہ تو نہیں کرتی تم یا پھر کوئی جنگل میں کہی جڑی بوٹی تو نہیں کھا لی  جس کی وجہ سے تمہارا دماغ کھسک گیا ہو ۔

میری باتیں سن کر بگلی آنکھیں چوڑی ہو گئیں وہ حیرانگی سے میرے چہرے کی جانب دیکھتے ہوۓ بولی ” ماسٹر آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔آپ ۔۔۔؟”

میں اس کی بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوۓ بولا ” اور نہیں تو کیا تم رات کے وقت اچانک میرے سامنے آکر کہو کے میری ٹیم مشکل میں ہے تو میں اس کو کیا سمجھو بتاؤ نہ میں کسی کو جانتا ہوں نہ کبھی میں نے کوئی ٹیم بنائی اور تم سیدھا آکر یہی کہہ رہی ہو کے آپ کو ان کی مدد کرنی ہو گی ۔”

طاقت کا کھیل /The Game of Power

کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی۔

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے دیئے گئے لینک کو کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page