The Game of Power-66-طاقت کا کھیل

طاقت کا کھیل

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے  رومانس ،ایکشن ، سسپنس ، تھرل ، فنٹسی اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک  ایکشن سے بھرپور کہانی، ۔۔ طاقت کا کھیل/دی گیم آف پاؤر ۔۔یہ  کہانی ہے ایک ایسی دُنیا کی جو کہ ایک افسانوی دنیا ہے جس میں شیاطین(ڈیمن ) بھی ہیں اور اُنہوں نے ہماری دُنیا کا سکون غارت کرنے کے لیئے ہماری دنیا پر کئی بار حملے بھی کئے تھے  ۔۔لیکن دُنیا کو بچانے کے لیئے ہر دور میں کچھ لوگ جو  مختلف قوتوں کے ماہر تھے  انہوں نے ان کے حملوں کی  روک تام  کی ۔۔

انہی میں سے کچھ قوتوں نے دنیا کو بچانے کے لیئے ایک ٹیم تیار کرنے کی زمہ داری اپنے سر لے لی ۔ جن میں سے ایک یہ  نوجوان بھی اس ٹیم کا حصہ بن گیا اور اُس کی تربیت  شروع کر دی گئی۔ یہ سب اور بہت کچھ پڑھنے کے لئے ہمارے ساتھ رہیں ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

طاقت کا کھیل قسط نمبر -- 66

جن  کے سر کے اوپر ایک ٹوپی سی بنی ہوئی تھی جبکہ  باقی ایسے ہی تھے ۔۔۔کمانڈر میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنے سبھی سپاہیوں کو سنبھال رہے تھے جو کے تقریبا تیس کے لگ بھگ تھی۔

ادھر سے اس کی ڈارک آرمی اور وہ آدمی مجھ سے لڑنے کےلیے آگے بڑھے ادھر میں اور میرے ساتھ یہ جو آٹھ لوگوں تھے  ہم بھی آگے بڑھنا شروع ہو گئے ۔۔میرے پاس لڑنے کے لیے ایک بھالا موجود تھا جس کو   مضبوطی سے پکڑتے ہوۓ  چمپ مار کر میں نے بھالا ایک کے سینے میں پیوست کر دیا۔۔

پیچھے سے ایک نے مجھ پر وار کیا جو سیدھا میری کمر پر تھا۔ لیکن اس کے ہاتھ میں موجود  تلوار میرے جسم کو چیر نہ سکی میرا جسم اتنا مضبوط ہو چکا تھا ۔۔ میری جلد ایسی محسوس ہو رہی تھی جیسے ڈایناسور کی ہو میں واپس مڑا اور میں نے بھالا اس کی گردن میں ڈال کر اس کو ہوا میں اٹھا کر بھالے کو نیچے کھینچا تو وہ ہوا میں ہی تحلیل ہو کر غائب  ہو گیا۔۔

اس کے ساتھ ہی میں اس  ڈارک آرمی کے جھنڈ میں گھس گیا . میں بھالے کو ایک طرف پھینکتا تو وہ کسی نہ کسی کے سینے میں گھس جاتا لیکن اگلے ہی پل میں انونٹری سے بھالے کو دوبارہ نکال لیتا کیونکہ انونٹری میں موجود سامان جہاں بھی چلا جائے یا کوئی بھی کھینچ لے وہ واپس آپ کے سٹوریج میں خود بخود آجاتا ۔۔جس وجہ سے  مجھے بھالا وہاں سے اٹھانا نہیں پڑ رہا تھا  اور میں اسکی آرمی کو زیادہ سے زیادہ ختم کر پارہا تھا ۔۔

میں جب ان کو ختم کر رہا تھا تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ سب میرے سامنے کیڑے مکوڑے ہوں۔۔۔ان کو مارتے ہوۓ میری سپیڈ کافی تیز تھی ۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کے وہ سسٹم ہولڈر مجھ سے خود لڑنے کے بجائے انہیں کیوں بھیج رہا ہے ۔۔یہ سب کچھ لڑتے ہوۓ میرے ذہن میں چل ہی رہا تھا کے ایک چیخ وہاں گونج اٹھی ۔۔۔میں نے چیخ کی سمت  دیکھا تو میرے دو آدمی ٹکڑوں میں وہاں کٹے پڑے تھے۔

وہ آدمی اور اس کے دونوں کمانڈر جنہوں نے ان دونوں کو ٹکڑوں میں کاٹا تھا مجھے دیکھتے ہوئے میری طرف بڑھنے لگے تو سامنے سے میرے تین لوگ آ گئے ان لوگوں نے جب ان پر وار کیا تو میرے آدمیوں نے سامنے اپنی تلوار سے ان کا وار روکا اور دوسرے ہاتھ سے ان کے چہرے پر ایک ایک مکا رسید کر دیا ۔

پر  ان پر ان کے مکوں کا کوئی بھی اثر نہیں ہوا اور اگلے ہی پل انہوں نے تلوار ان کے پیٹ میں گھسا کر اوپر سر کی جانب سے نکال لی اور یہ تینوں بھی یہیں  ختم ہو گئے۔۔

میں نے پیچھے مڑ کر بھالا زور سے پکڑا اور اس کو گیمبلن تھرو کی طرح زور سے سامنے کی طرف پھینکا تو ایک ساتھ پانچ ڈارک آرمی کے ممبروں کے سینوں کو چیرتا ہوا بھالا پیچھے کی طرف چلا گیا اور اگلے ہی پل میں نے بھالے کو انونٹری سے دوبارہ  نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔

اور اسی طرح کرتے کرتے کچھ ہی دیر میں میرے آٹھوں بندے ختم ہو گے لیکن دوسری جانب بھی صرف تین  ہی بچئے تھے۔

جن میں ایک وہ سسٹم والا خود تھا جبکہ  دو وہ کمانڈر تھے اس کے ۔۔

سپینو سمائش کا ٹائم ختم ہونے میں  صرف پانچ منٹ باقی تھے۔۔ مجھے جو بھی کرنا تھا ان پانچ منٹوں میں کرنا تھا ۔۔مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ میں ان پانچ منٹوں میں کچھ کر سکوں گا۔۔

میرے ہاتھ میں ابھی بھی بھالا موجود تھا جو خون سے لت پت تھا۔ جو اس کی ڈارک آرمی کو ختم کرتے کرتے پورا بھالا خون سے بھر چکا تھا اور اب بھی جب میں نے اسے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا تو اس کے منہ سے کچھ خون کی بوندیں اب بھی زمین پر گر رہی تھیں۔۔

وہ میری طرف دیکھ کر ہنسا اور پھر اگلے ہی پل وہ وہاں سے غائب ہو گیا۔ اس کے غائب ہوتے ہی اس کے دونوں کمانڈر مجھے مارنے کے لیے میری طرف بڑھے پر میں ان کمانڈر کو توجہ دینے کے بجائے اسے ڈھونڈنے میں مصروف تھا جو وہاں سے غائب ہو گیا تھا ۔۔

ابھی میں اپنا ذہن ایک سمت لگا پاتا اور اس کے دونوں کمانڈروں سے لڑ پاتا کے  ایک زوردار تلوار کا وار میری کمر پر ہوا جس نے  پیچھے  سے میری کمر کو چیر دیا۔

میں پیچھے مڑنے لگا تو اتنے میں اس کے دونوں کمانڈروں نے میرے پاس پہنچتے ہوۓ  میرے پیٹ میں  تلواریں گھسا کر زور سے باہر کھینچ کر دونوں نے ایک ایک وار میری ٹانگوں پر کر دیا  جس کی وجہ سے میں وہیں گر گیا۔۔

درد کی شدت سے میں  تڑپ رہا تھا ۔۔۔میرے ہاتھ سے بھالا  چھوٹ چکا تھا ۔۔۔ایسے لگ رہا تھا جیسے میرا آخری وقت آن پہنچا ہو ۔۔کہتے ہیں مرتے ہوۓ انسان کو اپنی پوری زندگی کسی فلم کی طرح نظر آتی ہے ۔۔۔اس وقت میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا تھا ۔۔۔میرے دماغ میں میری پوری زندگی کسی  فلم  کی طرح چل رہی تھی۔۔۔میری زندگی میں ایسا کوئی خاص کارنامہ نہیں تھا جس سے میں مطمئین ہو کر مر سکوں ۔۔میرے پیچھے ماہی کا کیا ہو گا یہ سوچ میرے درد میں مزید اضافہ کر رہی تھی ۔۔کیا یہی اختتام تھا ۔۔کیا میں یہیں مرنے والا تھا ۔۔کیا میرے پیچھے ماہی ایک بار پھر بے آسرا ہونے والی تھی ۔۔کیا مجھے ایک موقع اور نہیں مل سکتا تھا صرف ایک موقع کی تلاش تھی مجھے جس سے میں سب کچھ بدل دیتا ۔۔میں طاقت ور بن کر سبھی مشکلات کا مقابلہ کر پاتا ۔۔میرے ذہن میں رہ رہ کر یہی سب سوچیں چل رہی تھیں ۔۔میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے پر  وہ تینوں رکے نہیں ۔۔۔ ان تینوں نے میرے جسم کا ایسا کوئی بھی حصہ نہیں چھوڑا جہاں پر وار نہ کیا ہو میرا پورا جسم زخمی ہوا پڑا تھا ۔۔لیکن میرا دماغ اب بھی کام کر رہا تھا ۔۔میں اب بھی سوچ رہا تھا کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود میں زندہ کیسے ہوں۔۔کیا سسٹم مجھے زندہ رکھنا چاہتا ہے ۔۔کیا سسٹم مجھے موت دیکھا کر بتانا چاہتا ہے کے مجھے طاقت ور بننا ہے ۔۔۔آخر سسٹم مجھ سے کیا چاہتا ہے ۔۔میرے ذہن میں رانی کی بھی آوازیں گونج رہی تھیں ۔۔وہ کچھ کہہ رہی تھی پر اس کی آواز بہت مدھم تھی ۔۔میرے ذہن میں اس وقت سوچوں کا ایک طوفان تھا جبکہ وہ  تینوں مجھ سے دور کھڑے میری بے بسی پر مسکرا رہے تھے میرے تڑپنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے ۔۔۔میں زمین پر پڑا ہوا تڑپ رہا تھا کے اچانک میرے کانوں میں اس کی آواز پڑی۔۔

وہ بولا:تجھ سے کہا تھا ناں کہ میرے غلام بن جاؤ میں تمہاری جان بخش دونگا پر تم نہیں  مانے۔ لہذا اب بھگتو  اپنے انجام کو ۔۔

اتنے کہتے ہی اس نے اپنے دونوں کمانڈروں کو مجھے ختم کرنے کے  آرڈر دیئے تو وہ میری طرف آئے اور  انہوں نے مجھے اٹھا کر ایک لکڑی کے تنے پر پٹکا ۔۔سسٹم ہولڈر پیچھے مڑ کر اپنی تلوار کے پاس جا کر اسے اٹھا کر میرے پاس آتے ہوۓ بولا : ہمارے یہاں کچھ اچھا کرنے سے پہلے کسی کی بالی دی جاتی ہے اور  آج کی بالی میں تمہارے خون سے دوں گا۔۔۔تمہیں ختم کرنے کے بعد میں  تمھاری دنیا کو ختم کروں گا۔۔

طاقت کا کھیل /The Game of Power

کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی۔

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے دیئے گئے لینک کو کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page