The Game of Power-71-طاقت کا کھیل

طاقت کا کھیل

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے  رومانس ،ایکشن ، سسپنس ، تھرل ، فنٹسی اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک  ایکشن سے بھرپور کہانی، ۔۔ طاقت کا کھیل/دی گیم آف پاؤر ۔۔یہ  کہانی ہے ایک ایسی دُنیا کی جو کہ ایک افسانوی دنیا ہے جس میں شیاطین(ڈیمن ) بھی ہیں اور اُنہوں نے ہماری دُنیا کا سکون غارت کرنے کے لیئے ہماری دنیا پر کئی بار حملے بھی کئے تھے  ۔۔لیکن دُنیا کو بچانے کے لیئے ہر دور میں کچھ لوگ جو  مختلف قوتوں کے ماہر تھے  انہوں نے ان کے حملوں کی  روک تام  کی ۔۔

انہی میں سے کچھ قوتوں نے دنیا کو بچانے کے لیئے ایک ٹیم تیار کرنے کی زمہ داری اپنے سر لے لی ۔ جن میں سے ایک یہ  نوجوان بھی اس ٹیم کا حصہ بن گیا اور اُس کی تربیت  شروع کر دی گئی۔ یہ سب اور بہت کچھ پڑھنے کے لئے ہمارے ساتھ رہیں ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

طاقت کا کھیل قسط نمبر -- 71

تھامس کی بٹالین کے دو جوان آگے بڑھ کر مورگن کو پکڑنے لگے تو مورگن خود ہی کھڑا ہو گیا اور ان کو ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے بولا: میں کوئی مجرم نہیں ہوں جو مجھے اس طرح لے کر جاؤ گے  ۔۔۔ میں خود تمہارے ساتھ جا رہا ہوں ورنہ تم جتنے بھی ہو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔ میں پلک جھپکتے ہی تم سب کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں تو اس لیے

””بی کیئرفل”” 

مورگن کی بات سن کر تھامس بھی اندر سے ڈر گیا تھا پر اپنے ڈر کو چھپاتے ہوۓ  اس نے اپنے لوگوں سے رکنے کو کہا اور پھر مورگن سے کہا کہ :آؤ کار میں بیٹھو ہمیں جانا ہے اور باقی لوگوں سے کہا کہ ان سارے جانوروں کی لاشوں کو ٹرکوں میں لاد دو  ۔۔اوپر سے آرڈر ہے کے ناسا کے سائنٹسٹ نے  ان پر ریسرچ کرنی ہے کہ یہ کیا چیز تھی۔۔۔ اور ہاں ایک چیز کا دھیان رکھنا کہ گلوز استعمال کرنا اور کوئی بھی ان کے ساتھ مت رکنا ان کو صرف اندر لوڈ کرنا اور دوسری گاڑیوں میں آنا ہو سکتا ہے کہ اس سے کوئی ری ایکشن پیدا ہو جائے۔۔

یہ سب کہنے کے بعد تھامس کے ساتھ مورگن گاڑی میں بیٹھا اور  دونوں بیس کیمپ کی جانب روانہ ہو گئے جو کے کچھ فاصلے پر ہی موجود تھی ۔۔یہ بیس کیمپ نیٹو آرمی کے زیر کمان تھی ۔۔ابھی وہ لوگ آدھے راستے میں ہی پہنچے تھے کہ تھامس کا فون بج اٹھا جس میں اسے ہدایات دی گئی کے کچھ دیر تک سائنٹسٹ پہنچ جائیں گے ۔۔ہدایت کے سنتے ہی اس نے ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے کا آرڈر دے دیا ۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہیں دوسری طرف

حال (موجودہ دن )

نازش ساری رات یاسر کو پٹیاں کرتی رہی اور جب  بھی  پانی کا ٹمپریچر نارمل ہوتا وہ دوبارہ ٹھنڈا پانی بھر کر لاتی اور اسی طرح یاسر کو پٹیاں کرنے لگ جاتی۔

جب نازش تھک ہار کر بیٹھ جاتی تو ماہی یہ ڈیوٹی نبھاتے ہوۓ یاسر کو  پٹیاں کرنے لگ جاتی۔۔۔ دونوں ساری رات جاگتی رہی اور یاسر کو پٹیاں کرتی رہی پر اس سب کا  یاسر کو کچھ بھی فرق نہیں پڑ رہا تھا ۔۔ اس کا جسم ابھی بھی ایسے ہی بخار کی شدت سے  ابل رہا تھا۔۔

دونوں کے دماغ میں یہ خیال بالکل بھی نہیں آیا کہ یاسر کو کسی ہسپتال لے جانا چاہیے۔۔۔ کیونکہ جب بھی ان کے دماغ میں یہ خیال آنے لگتا تو کمرے میں ہی موجود بگلی ان کے دماغ کو ریڈ کرتے ہوۓ یہ خیال کو مٹا دیتی ۔۔کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ یاسر اس حالت میں ہاسپٹل جائے اور اس کا راز کسی پر کھل جائے۔۔ بگلی یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ اگلے چوبیس  گھنٹے یاسر کی یہی حالت رہی گی۔۔ چوبیس  گھنٹے گزرنے کے بعد یاسر کو ہوش آ جائے گا۔۔

اور سچ میں ایسا ہی ہوا تھا  ۔۔جیسے ہی چوبیس گھنٹے گزرے تو یاسر کو تھوڑا  تھوڑا ہوش آنا شروع ہوگیا تھا ۔۔پر وہ اب بھی غنودگی سی کیفیت میں تھا ۔۔یاسر کو غنودگی کی کیفیت میں دیکھ کر  نازش نے ایک پانی کا گلاس بھرا اور یاسر کے منہ پر کچھ چھینٹے مارے ۔۔جس سے یاسر کچھ ہوش میں آیا اور اٹھتے ساتھ ہی اس  نے پانی مانگا ۔۔۔

جیسے ہی میرا دماغ تھوڑا سمجھنے کے قابل ہوا تو میں نے دیکھا پاس میں بیٹھی نازش جس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس ہے نازش نے وہ گلاس میری جانب بڑھا دیا ۔۔اس وقت مجھے شدید پیاس محسوس ہو رہی تھی ۔۔اس لئے گلاس کو منہ کے ساتھ لگاتے ہوۓ میں ایک ہی سانس میں  اسے خالی کر گیا تھا ۔۔پر میری پیاس اب بھی نہیں بجھی تھی جس کا اظہار کرتے ہوۓ میں نے ایک اور گلاس پانی مانگا  تو ماہی نے فورا دوسرا گلاس مجھے پکڑا دیا میں نے وہ بھی خالی کر دیا تھا ۔۔

میرا سر بھاری بھاری محسوس ہو رہا تھا۔۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے  میرے سر پر کچھ بہت بڑا وزن ہو ۔۔۔آنکھیں بمشکل میں کھول پا رہا تھا جبکہ جسم اب بھی تپ رہا تھا۔

اور میرے ماتھے سے پسینے کی بوندیں بہتی ہوتی ہوئی نیچے کی طرف آ رہی تھیں۔۔۔

ماہی نے جب میری یہ حالت دیکھی تو وہ رونے لگ پڑی ۔۔۔ میں اس کے قریب ہوتے ہوۓ اسے کھینچ کر اس کو اپنے سینے سے لگاتے ہوۓ  اس کی کمر کو سہلا کر بولا:  تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بس معمولی سا بخار ہے تھوڑی دیر میں اتر جائے گا ۔

میری بات سن کر ماہی روتے ہوۓ بولی۔۔۔

ااااآپ ۔۔۔۔آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں بھیا کل صبح سے آپ سو رہے ہیں اور ابھی آکر آپ اٹھے ہیں۔۔ ابھی دوسری صبح ہونے والی ہے۔۔۔ چوبیس  گھنٹوں سے زیادہ آپ سوتے رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ بس معمولی سا  بخار ہے اتر جائے گا جبکہ آپ کا جسم بالکل آگ کی طرح تپ رہا ہے۔۔۔

اس کی بات سن کر میں اسے تسلی دیتے ہوۓ بولا : میں اب بلکل ٹھیک ہوں یہ تو اگلے ایک گھنٹے میں اتر جاۓ گا۔۔

اتنے میں باہر دروازے پر دستک ہوئی اور نازش دروازہ کھولنے باہر کی طرف چلی گئی۔۔

جبکہ ماہی میری طرف دیکھتے ہوے بولی۔۔ آپ کو پتا ہے بھائی میں اور نازش ساری رات نہیں سوئی ہے ۔۔بلکہ آپ کے  پاس ہی کھڑی رہی ہے اور آپ کے  سر پر دونوں ٹھنڈی  پٹیاں کرتی رہی ہے ۔۔

اس کی بات سن میں مسکراتے ہوۓ بولا : مجھے کیسے پتہ ہوگا میں تو سو رہا تھا ۔۔

ماہی بولی۔:بھائی آپ کو پتا ہے کیا نازش آپی بہت اچھی ہیں ۔

میں بولا :  ہاں بلکل اس میں کوئی شک نہیں ہے کے وہ بہت اچھی ہیں۔ ۔۔

اتنے میں نازش کمرے میں داخل ہوئی تو  اس کے ساتھ ایک اور بلا کی خوبصورت اور حسین  لڑکی تھی ۔۔جسے میں عورت تو نہیں کہہ سکتا لڑکی ہی کہنا مناسب ہو گا  کیونکہ اس کی عمر چھبیس سے اٹھائیس سال کے درمیان ہو گی ۔۔۔

اس کی خوبصورتی میں یہاں بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔۔اس کی  آنکھوں کی خوبصورتی اور اس کے چہرے کی معصومیت اسے کسی پرستان کی شہزادی کہنا ہی مناسب ہو گا ۔۔ہلکی سبز رنگ کی آنکھوں میں الگ قسم کی چمک تھی ۔۔

نازش بولی۔۔ یہ ہمارے پڑوس والی ٹیچر ہے انہوں نے ڈاکٹر کی پڑھائی کر رکھی ہے تو ابھی یہ کالج کے لیے نکل رہی تھی ۔۔میں نے ان سے کہا کہ ایک دفعہ ہمارے گھر سے ہو کر جانا تا کے آپ کو دیکھ سکے۔

نازش کی بات سن کر میں ہڑبڑا کر اس سے نظریں ہٹاتے ہوۓ  بولا۔:  تم نے خواہ مخواہ انہیں  تکلیف دی۔۔  اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔۔میں اب پہلے سے بہتر ہوں اور ٹھیک ہوں۔۔

وہ لڑکی بولی :  اس میں تکلیف والی کون سی بات ہے ۔۔۔ایک پڑوسی ہی دوسرے پڑوسی کے کام آتا ہے اور ویسے بھی یہ دونوں میری سٹوڈنٹ ہیں  تو اتنا تو ان کا حق بنتا ہے کہ میں ان کے کام آؤں اور اسی بہانے میری آپ سے آج  پہلی  ملاقات بھی ہو گئی ۔۔

میں بولا :  جی میرا کام ہی ایسا ہے کہ میں صبح ہوتے ہی کام پر چلا جاتا ہوں اور پھر شام کو ہی واپس لوٹتا ہوں شائد اسی وجہ سے کبھی آپ سے مل نہیں پایا ۔۔۔

طاقت کا کھیل /The Game of Power

کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی۔

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے دیئے گئے لینک کو کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page