The Game of Power-83-طاقت کا کھیل

The Game of Power

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے  رومانس ،ایکشن ، سسپنس ، تھرل ، فنٹسی اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک  ایکشن سے بھرپور کہانی، ۔۔ طاقت کا کھیل/دی گیم آف پاؤر ۔۔یہ  کہانی ہے ایک ایسی دُنیا کی جو کہ ایک افسانوی دنیا ہے جس میں شیاطین(ڈیمن ) بھی ہیں اور اُنہوں نے ہماری دُنیا کا سکون غارت کرنے کے لیئے ہماری دنیا پر کئی بار حملے بھی کئے تھے  ۔۔لیکن دُنیا کو بچانے کے لیئے ہر دور میں کچھ لوگ جو  مختلف قوتوں کے ماہر تھے  انہوں نے ان کے حملوں کی  روک تام  کی ۔۔

انہی میں سے کچھ قوتوں نے دنیا کو بچانے کے لیئے ایک ٹیم تیار کرنے کی زمہ داری اپنے سر لے لی ۔ جن میں سے ایک یہ  نوجوان بھی اس ٹیم کا حصہ بن گیا اور اُس کی تربیت  شروع کر دی گئی۔ یہ سب اور بہت کچھ پڑھنے کے لئے ہمارے ساتھ رہیں ۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

طاقت کا کھیل قسط نمبر -- 83

اس کی بات سن کر پروفیسر لوگن بولے :ٹھیک ہے تم آگے  چلو میں تمھارے پیچھے  آتا ہوں ویسے بھی ہمارا کام  ختم ہو گیا ہے۔

اتنا کہنے کے بعد پروفیسر لوگن اپنے کاغذات سمیٹ کر اس پیون کے ساتھ چانسلر کے روم کی جانب بڑھ گیا ۔۔

پروفیسر چانسلر کے روم میں جیسے ہی داخل ہوا تو چانسلر بولے : تمہارے لیے ایک سرپرائز تھا اس لیے تمہیں اتنی جلدی میں بلانا پڑا۔۔  تم نے جس ٹرپ کے لیے درخواست دی تھی وہ منظور ہو چکی ہے تم کل ہی اپنے ٹرپ پر روانہ ہو سکتے ہو سارا انتظامات  یونیورسٹی برداشت کرے گی اور تم (پیرو) جا کر جنگل کا وزٹ کر سکتے ہو۔۔۔ تم اپنے سات بہترین ریسرچر سٹوڈنٹ کے نام اور ان کے پاسپورٹ جمع کروا دینا یونیورسٹی  ان کا ویزہ لگا دے گا ۔۔

پروفیسر لوگن۔ یہ تو آپ نے بہت ہی اچھی خبر دی پر کیا ہم برازیل نہیں جا سکتے ؟

چانسلر۔برازیل جانا تھوڑا مشکل ہے وہاں کے لیے سرکار نہیں مانی پر پیرو کے لیے سرکار مان چکی ہے ویسے بھی برازیل کے بعد دوسرا بڑا رقبہ ایمازون جنگل کا پیرو کے مقام پر ہی ہے تو تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے کے وہاں پر تمہیں ریسرچ کے لئے کافی مواد مل جائے گا ۔۔

پروفیسر لوگن۔ٹھیک ہے میں اپنی ٹیم تیار کرنے کے بعد آپ کو بتاتا ہوں۔

چانسلر۔ میں انتظار کروں گا ۔۔

پروفیسر لوگن چانسلر کے روم سے نکلا اور ليب کی طرف روانہ ہو گیا ۔۔ جہاں وہ کچھ دیر پہلے ہی موجود تھا۔

پروفیسر لیب میں داخل ہوا تو سب بچے بے صبری سے پروفیسر کا ہی انتظار کر رہے تھے۔۔۔ جن میں کیتھرین بھی شامل تھی۔ کیتھرین وہی لڑکی تھی جو یاسر کی ٹیم میٹ تھی۔۔۔

پروفیسر اندر داخل ہوتے ساتھ ہی بولا :لو تو سٹوڈنٹ جس چیز کی ہم نے درخواست دی تھی ہماری درخواست یونیورسٹی نے منظور کر لیا ہے ۔۔اب ہم اپنے ٹرپ پر جا سکتے ہیں لیکن صرف ایک مسئلہ ہے کہ ہم برازیل کی جگہ (پیرو) جا رہے ہیں۔۔۔

(آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ پیرو کیا ہے پیرو بھی ایک ملک ہے جس طرح پاکستان ہے انڈونیشیا ہے انگلینڈ ہے امریکہ ہے یہ بھی ایک ملک ہے ایمازون کا دوسرا بڑا حصہ مطلب 13 فیصد حصہ اسی ملک میں ہی موجود ہے۔ )

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایمازون کا جنگل ہی کیوں تو وہ اس لئے کیونکہ  ایمازون دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے جو 9 ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔۔جس کا بشمول

60 فیصد رقبہ برازیل میں

 13 فیصد پیرو میں

10 فیصد کولمبیا میں

7 فیصد وینزولا میں

5 فیصد ایکواڈور میں

4 فیصدلولیوا میں

3 فیصد گیانا میں

2 فیصد سرنيم میں

اور 1 فیصد فرینچ گیانا میں ہے ۔۔

ایمازون کا جنگل اتنا بڑا ہے کہ ان نو  ملکوں میں پھیلا ہوا ہے جس کا سب سے بڑا رقبہ تو برازیل میں ہے لیکن اس کا 13 فیصد رقبہ پیرو میں بھی موجود ہے۔۔

پروفیسر لوگن۔ہمیں وہاں جانے کے لیے سات لوگوں کی ٹیم بنانی ہے ۔۔مطلب صرف سات لوگوں کی ہی اجازت ملی ہے ساتھ لیجانے کی ۔۔ ان سات لوگوں کے نام یہ رہے اور یہ لوگ آج ہی مجھے اپنا پاسپورٹ بھی جمع کروائیں۔

اس کے بعد پروفیسر نے ان سٹوڈنٹ کے نام لئے جن میں ۔۔ “لائم ،  املی،  اسبیلا،   ایڈم ،  چارلی ،  بیلا،  “کیتھرین  شامل تھے ۔ ۔پھر پروفیسر نے مزید کہا” اور کیتھرین ہی تم سب کی لیڈر ہوگی جو تم سب سے ہونہار اور پھرتیلی ہے۔۔۔ تو اب تم سب لوگ جاؤ اور جا کر اپنے پاسپورٹ  وغیرہ چانسلر کے روم میں جمع کرواؤ ہم کل ہی نکل رہے ہیں۔۔ “

سٹوڈنٹ  کا یہ سننا تھا کہ سب ہی خوشی خوشی اپنے ہاسٹل کی طرف بھاگے یہاں پر ایسی ایکٹیوٹی کا ہونا نارمل بات تھی ۔۔اس لیے سب کے پاسپورٹ ہاسٹل میں ہی موجود تھے۔۔ سب نے پاسپورٹ اٹھایا اور چانسلر کی روم میں جمع کروا دیئے جس کے بعد چانسلر نے ان کے ویزے لگوا کر کل کے لیے ان کی ٹکٹیں وغیرہ بک کروا دی جو کہ یونیورسٹی کے ذریعے ہی ایک سپیشل جیٹ کے ذریعے پیرو جا رہے تھے۔۔

 ٹرپ پر جانے کے لیے چار لڑکیاں سلیکٹ ہوئی تھی جبکہ لڑکوں میں صرف تین ہی سلیکٹ ہو پائے تھے۔۔۔  ان سب میں بھی دو تو ایسے ہی تھے تو جو کیتھرین کو بالکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔۔ جیسے ہی ان دو کا نام کیتھرین کے ساتھ آیا تو ان کے چہرے پر ایک رونق دوڑ گئی وہ بھی اپنے دل ہی دل میں کچھ پلان کیے ہوئے تھے کہ کیتھرین کو کسی طرح سبق سکھانا ہے۔۔

٭٭٭٭٭

وہاں سے آنے کے بعد میں نے کافی دیر سوچا لیکن مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ زوہیب کےلیے ایسا میں کیا کروں کہ وہ وہاں پر نوکری کرنا چھوڑ دے اور کسی اور جگہ پر نوکری کر لے ۔۔۔اسے میں اپنے ساتھ بھی نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس کو ساتھ رکھنے سے میرے لیے مسئلہ ہو سکتا تھا۔۔۔

انہی سوچوں کے بیچ مجھے نیند نے آ گھیرا اور میں نیند کی وادیوں میں چلا گیا ۔۔صبح حسب معمول میری آنکھ کھلی اور میں ورزش  کرنے کے لیے پارک چلا گیا ۔۔آج پارک میں ریشم بھی آئی ہوئی تھی اور اس نے پہلے سے زیادہ ٹائٹ لباس پہنا ہوا تھا۔۔۔وہ  میرے آگے آگے چلتی ہوئی جان بوجھ کر اپنی کمر مٹکا مٹکا کر مجھے اپنے حسن کا نظارہ کروا رہی تھی۔۔

واپسی پر جب ہم دونوں ساتھ میں آرہے تھے تو میں ریشم سے تھوڑا مذاق کرتے ہوئے بولا۔۔ میڈم جی ایک بات پوچھوں ؟

ریشم بولی۔ ہاں پوچھو اس میں  اجازت والی کونسی بات ہے ہم دوست ہیں اور دوستوں میں اجازت وغیرہ کی ضرورت نہیں  ہوتی۔۔۔

میں بولا۔۔آپ نے اتنا ٹیٹ لباس پہنا ہےجس میں ایسے لگ رہی ہیں جیسے آپ نے کچھ پہنا ہی ناں ہو

ریشم بولی۔تو تم مجھے تاڑ رہے تھے ۔۔

میں بولا۔تو اور کیا کرتا آپ  نے لباس ہی ایسا پہنا ہے کہ میں تاڑے بغیر رہ ہی نہیں سکا ۔۔

ریشم بولی۔اچھا تو کیا دیکھا تم نے

میں بولا۔بہت کچھ پر  بتا نہیں سکتا۔

ریشم بولی۔۔بہت گھنے میسنے ہو گئے  ہو تم

میں بولا۔نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں بس  جو دل میں تھا وہ بتا دیا۔۔۔۔

باتوں کے دوران ہی ریشم اور میں دونوں گھر کے پاس پہنچ گئے تھے ۔۔ریشم کو رخصت کرنے کے بعد میں نے گھر میں آکر ناشتہ کیا اور نازش اور ماہی سے ملنے کے بعد کام پر روانہ ہو گیا۔۔

کام پر سارا دن مصروفیت بھرا رہا اس دوران ایک بار میں  میڈم کے روم میں بھی گیا تھا جہاں کام کے مطلقہ تھوڑی بہت بات چیت ہوئی اور پھر میں واپس اپنے آفس میں آ گیا تھا ۔۔

آفس میں فارغ اوقات میں زیادہ تر لیلی کے مطلق ہی سوچتا رہا اور اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا رہا ۔۔ اس کے پاس بہت کمال  کی سکل موجود تھیں جو میرے بہت کام آسکتی تھیں ۔۔

٭٭٭٭

وہیں دوسری طرف۔

چین کے ایک سرکاری دفتر میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔۔۔ایک  آفیسر جس کا نام  چنگ سا تھا وہ  اپنے آفس میں ہیڈ کرسی پر بیٹھا اپنے سب کلیک کی کلاس لے رہا تھا ۔۔

طاقت کا کھیل /The Game of Power

کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی۔

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے دیئے گئے لینک کو کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page