Unique Gangster–111– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -111

اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر میرے لن کو پکڑ لیا اور پینٹ کی زپ کھول کر اسے باہر کی جانب نکل لیا۔ اور اس کو اوپر نیچے کر کے دیکھنے لگی۔ میں چپ چاپ کھڑا رہا۔ اجالا کے ہاتھ میں لن دیکھ سحرش ایک دفعہ پھر آگے بڑھی اور بولی ۔ مجھے بھی دکھاؤ کہیں سچ میں کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔ میں بولا۔ تم رہنے دو پہلے ہی درد ہو رہی ہے مجھے۔ پر وه بولی۔ نہیں کرتی اب میں کچھ صرف مرہم ہی لگاؤں گی۔ میں بولا۔ کیسا مرہم

وه بولی۔ پیار کا مرہم

میں بولا۔ رہنے دو مجھے نہیں لگوانا

پر سحرش نے تب تک میرا لن ہاتھ میں پکڑ لیا تھا اور میں کچھ آگے بول پاتا اس نے میرا لن اپنے منہ میں لے لیا۔ اور اس پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔

میں بولا۔ یہ تم کیا کر رہی ہو چھوڑو مجھے میں لیٹ ہو رہا ہوں ۔ پر وه کہاں ماننے والی تھی اس کے منہ کی گرمی نے میرا لن کھڑا کر دیا۔ میں نے کھینچ کر لن اس کے منہ سے باہر نکالا تو اب میرا درد بلکل غائب تھا۔ اور سحرش کی آنکھوں میں شہوت صاف صاف نظر آ رہی تھی۔ پر مجھے اب کالج بھی جانا تھا۔ لیکن وه میرا لن چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ پھر کیا تھا اس نے مجھے کھینچ کر بیڈ پر کر لیا اور میں نے اگلے 30 منٹ اس کی جم کر چودائی کی جس سے اس کا تین بار پانی نکلا۔ اور پھدی کی حالت بھی کافی خراب ہو گئی۔ اسی ساری کروائی میں اجالا نے تھوڑا بہت ہی حصہ لیا جیسے کہ سحرش کے بوبز مسلنا اس کی پھدی کا دانہ مسلنا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اتنے میں باہر سے سونیا کی آواز آئی وه بولی۔ ناشتہ  لگ گیا ہے جلدی سے آجاؤ پر مجھے تو نہانا تھا تو وہیں اسی روم کے واشروم میں گھس گیا۔ اور غسل کیا اور پھر جب باہر آیا تو مشی اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔ میرے باہر نکلتے ہی بولی۔ دل نہیں بھر رہا کیا رات کو کوئی کمی رہ گئی تھی جو اب صبح صبح ہی شروع ہو گئے ہو۔

میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اور سر نیچے کر  کےباہر نکل آیا اور آ کر ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ مشی کو لگا کے میں اس کی بات سے غصہ ہوں تو وه کمرے سے باہر آئی اور آ کر سیدھا میری گود میں بیٹھتے ہوے بولی۔ کیا مجھ سے ناراض ہو

میں بولا۔ نہیں تو

وه بولی ۔ تو میری بات کا جواب کیوں نہیں دیا۔

میں بولا۔ بس ایسے ہی کوئی جواب تھا نہیں اور ویسے بھی دل کیسے بھر سکتا ہے تم سب اپنی حرکتیں دیکھو تم بھی ابھی آ کر میری گود میں بیٹھ گئی ہو اور نواب صاحب پھر سر اٹھا رہے ہیں۔

وه بولی۔ خود پر کنٹرول رکھو سلطان

میں بولا۔ کیسے رکھ لوں اتنی ہاٹ گرل جب سیدھا آ کر بیٹھی ہو تو کسے صبر آتا ہے۔ اچھا چھوڑو مجھے پہلے ہی دیر ہو رہی ہے۔ مجھے کالج جانا ہے۔

وه بولی۔ ٹھیک ہے جاؤ پھر وه میری گود سے اٹھی تو میری گال پر ایک کس کر وہیں کھڑی ہو گئی اور اتنے میں سونیا بھی آگئی میں نے اسے بھی ایک کس دیا اور بائیک کو بھاگتا ہوا کالج چل دیا۔ بائیک صبح صبح اسد کھڑی کر گیا تھا۔ جو ساری رات پارٹی میں تھا صبح اس کا موڈ بھی اکھڑا اکھڑا سا تھا جو مجھے سونیا کی زبانی پتہ چلا۔

میں جیسے ہی کالج پہنچا تو سامنے ایک خوبصورت سی گاڑی کھڑی تھی گاڑی تو کیا ہی خوبصورت تھی گاڑی کے اندر سے نکلنے والا انسان اور بھی زیادہ خوبصورت تھا ۔ گاڑی کے اندر سے نکلنے والا انسان اور کوئی نہیں بلکہ میڈم ثوبیہ تھی۔ جس کا فگر دیکھ کر اچھے اچھے ہاتھ ہلانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ یہ تو پتہ نہیں کیسے پر اب میری سوچ بھی ایسے سوچنے پر مجبور ہو گئی تھی۔

میڈم گاڑی سے باہر نکلی اور انہوں نے اپنے بال جھٹک کر پیچھے کی جانب کیے۔ اور پھر ایک پونی سے ان کو باندھا جب وہ بالوں کو باندھ رہی تھی  تو میں نے کئی لڑکوں کو دیکھا جو آہیں بھر رہے تھے۔

لڑکوں کی تو کیا بات تھی میں نے خود کو بھی دیکھا تو میری پینٹ میں بھی تمبو بننے ہی والا تھا۔ لیکن پیچھے سے آتی ہوئی ایک آواز نے میرا دھیان اپنی طرف کھینچا۔ میں نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا۔ تو وہاں طاہر کھڑا تھا اور اس کے ساتھ دو اور بھی لڑکے کھڑے تھے۔

 طاہر بولا۔ کیوں بے کیسے آنکھیں  پھاڑے پھاڑے دیکھ رہا ہے آنکھوں سے چبا جائے گا کیا پہلے کبھی لڑکی نہیں دیکھی کیا۔

اس کے ساتھ والا لڑکا بولا جو شکل سے بدمعاش لگ رہا تھا اور ان کا باڈی کارڈ ٹائپ ہی تھا اور کالج میں پڑھتا تھا جس کی فیس وغیرہ یہ لوگ ہی ادا کرتے تھے۔ وہ اپنے مالک کی زبان میں بولا۔ کہاں سے دیکھی ہوگی ایسی لڑکی اس نے یہ لوگ جس جگہ سے آتے ہیں وہاں تو گندگی اور بدبو کے ڈھیر لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کی بات سن کر دوسرا لڑکا بولا۔ ان جیسے مڈل فیملی کے لوگوں نے کون سی لڑکی دیکھی ہوگی یہاں آتے ہی یہ صرف امیر لڑکیوں کو گھورنے کے لیے ہیں پتہ نہیں اس جیسے ٹٹ پنجیوں کو یہاں داخلہ کون دے دیتا ہے میرے بس میں ہوتا تو میں ان جیسوں کو یہاں گھسنے ہی نہیں دیتا۔

میں غصے میں ان تینوں کی جانب بڑھا۔ اور جا کر جب میں نے طاہر کا گریبان پکڑا تو پیچھے سے میڈم ثوبیہ کی آواز آئی۔ یہاں کیا ہو رہا ہے تو طاہر اپنی معصوم شکل بنا کر بولا۔ میڈم یہ لڑکا ہم سے بد تمیزی کر رہا ہے اور ہمیں مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ پھر کیا تھا میڈم ثوبیہ نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ میرے اوپر چڑھ گئی اس نے مجھے بہت ساری باتیں سنائی  جسے سن کر طاہر اور اس کے ساتھی مانو من مسکرا رہے تھے۔ آخر میں جاتے جاتے میڈم ثوبیہ نے مجھے یہ دھمکی دی کہ اگر تم نے دوبارہ یہ حرکت کی میں تمہیں کالج سے نکلوا دوں گی۔ اور وه وہاں سے مجھے انگلی دکھاتے ہوے اپنے کیمپس میں چلی گئیں ۔ میری یہ عزت افزائی کالج کے کافی سٹوڈنٹ نے دیکھی تھی۔ آج لگ رہا تھا جیسے میرا دن ہی خراب ہو۔ کیونکہ آج اسد بھی کالج نہیں آیا تھا۔ اور جب میں کلاس میں آ کر بیٹھا تھا تو سب لڑکے مجھے گھور رہے تھے۔ لیکن ایک چہرہ ایسا تھا جو مجھے ہمدردی کی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

لیکن میں خود الجھن کا شکار تھا۔ کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ پر جیسے تیسے کر کے بریک ہوئی اور میں وہاں سے اٹھ کر کنٹین میں آیا وہاں آ کر پتہ چلا کہ آج کومل بھی نہیں آئی۔

میں وہاں کچھ ٹائم ٹھہرا اور پھر وہاں سے میں نے گھر جانے کا پلان بنایا۔ میں وہاں سے اٹھ کر جیسے ہی پارکنگ میں آیا تو وہاں میری بائیک کے قریب ایک لڑکی کھڑی تھی اور وه بڑی شدت سے کسی کا انتظار کر رہی تھی۔ جس طرح وه ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ اور اپنی انگلیوں کو مڑوڑ رہی تھی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page