Unique Gangster–134– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -134

میں فضی کے گھر کے مہمان خانے میں جیسے ہی پہنچا تو میں وہاں پر بیڈ پر لیٹتے ہی سو گیا شام کے قریب میری آنکھ کھلی۔۔۔

میری آنکھ جیسے ہی کھلی تو میں نے اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے دیکھا تو سامنے فضی کھڑی تھی جس کے ساتھ دو ملازمائیں بھی کھڑی تھی۔۔ 

دونوں کے ہاتھ میں کھانا تھا وہاں پر ایک ٹیبل پڑا ہوا تھا جسے کھینچ کر انہوں نے میرے آگے رکھا اور سارا کھانا اس پر لگا دیا۔۔

کھانا لگانے کے بعد فضی نے دونوں نوکرانیوں کو باہر جا کر رکنا کا کہا۔اس کے بعد فضی میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ معافی چاہتی ہوں پریشانی کی وجہ سے آپ کےلیے کھانا یہاں لے کر آئی ہوں

میں بولا۔۔۔ تو اس میں کیا ہے

وه بولی۔۔۔ بات تو کچھ نہیں پر تم برا ناں ماننا کہ

ابھی وه آگے بات کر پاتی اس سے پہلے ہی میں اس سے بولا۔۔۔ یار چھوڑو یہ فضول باتیں اور یہ بتاؤ یہاں پر حاکم کی حویلی کونسی ہے

وه بولی۔۔۔ کیوں اتنی جلدی کیا ہے

میں بولا۔۔۔ جلدی تو کوئی نہیں پر کام ختم بھی کرنا ہے

وه بولی۔۔۔ پر وه تو کہیں غائب ہے پولیس بھی اس کے پیچھے ہے پر اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا بابا بتا رہے تھے کہ وه کہیں دور چلا گیا ہے

میں بولا۔۔ ایسے لوگ کہیں نہیں جاتے

ایسے لوگوں کو بل سے باہر نکالنا مجھے اچھے سے آتا ہے

وه بولی۔۔۔ ایک بات بتاؤں

میں بولا۔۔۔ ہاں کیوں نہیں ۔جو بھی تمہارے دل میں ہے بتاؤ ۔۔

وه بولی۔۔۔ وه بات یہ ہے کہ حاکم کی بیٹی میری دوست ہے پلیز اسے کوئی نقصان مت پہنچانا اس کا اس معملے سے کوئی تعلق نہیں ہے

میں اس کی بات پر کھل کھلا کر ہنسا جسے دیکھ کر وه بولی۔۔ اس طرح کیوں ہنس رہے ہو

 میں بولا۔۔ یار تمہاری بات ہی ہنسنے والی ہے

بھلا میں اسے کیوں نقصان پہنچاؤں گا اور ویسے بھی میں لڑکیوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا تم بےفکر رہو۔۔۔

میری بات سن کر فضی مسکراتی ہوئی باہر چلی گئی اور میں کھانے پر ٹوٹ پڑا میں نے کھانے کے ساتھ خوب انصاف کیا۔۔ کھانا کھانے کے بعد کچھ لمحے فضی کی بات پر سوچنے کے بعد میں حویلی سے باہر نکل گیا اور جا کر محلے میں اپنے طریقے سے اس کی ریکی کی لیکن مجھے کچھ خاص معلومات حاصل نہیں ہوئی۔۔

اور میں تھک ہار کر واپس آ گیا۔

اگلا ایک ہفتہ میں اسی طرح کھجل خوار ہوتا رہا تب جا کر مجھے ایک ترکیب سوجھی کہ حاکم کو بل سے باہر کیسے نکالا جاۓ۔۔۔

میں روز صبح نکلتا حاکم کی تلاش میں اور روز ہی خالی ہاتھ واپس آ جاتا۔۔

ان سات دنوں میں جو بات میری سمجھ میں آئی تھی وه یہ تھی کہ حاکم کی پولیس سے ان دنوں بن نہیں رہی اور اس کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر میں ان ہتھے چڑھ گیا تو میرا کام تمام ہو جاۓ گا۔۔

میں نے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ فضی کے باپ سے کہاآپ اپنا کیس واپس لے لو پہلے تو ہمارے بیچ تھوڑی بحث ہوئی آخر فضی کے کہنے پر وه مان گے اور اگلی صبح انہوں نے اپنا کیس واپس لے لیا۔۔۔

کیس کے واپس ہوتے ہی اگلے تین دن  کے بعد حاکم اپنے گھر واپس آ گیا۔۔۔

جس رات وه واپس آیا اس رات اس نے اپنی حویلی میں ہوائی فائرنگ کی اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ میرے دشمنوں نے مجھ سے ڈر کر اپنا کیس واپس لے لیا۔۔۔

کہتے ہیں انسان جب غرور میں آتا ہے تو اپنی اوقات بھول جاتا ہے یہی حال حاکم کا بھی تھا۔۔۔

جب سے وه واپس آیا تھا میں اسی ٹائم سے اس کا پیچھا کر رہا تھا مجھے ایک موقع چاہیے تھا جہاں وه ایک غلطی کرے۔۔

پوری رات میری اسی طرح انتظار کرتے گزر گئی۔۔۔

 صبح کا اجالا پھیلنا شروع ہو گیا۔۔

دن کے دس بجے حاکم اپنی جیپ سے حویلی میں سے نکلا تو میں اس کی حویلی کے قریب ہی انتظار کر رہا تھا۔۔۔

حاکم کے ساتھ دو گارڈ اور ایک ڈرائیور جیپ میں موجود تھے ۔۔۔

حاکم سے ایک گارڈ نے پوچھا کہ سردار کہاں جانا ہے

تو اس نے جواب دیا کہ پہلے قبضے والی جگہ پر چلو اس کے بعد آگے چلتے ہیں

اس کی بات سن کر میرے دماغ میں ایک پلان آیا

تو اس پلان پر عمل کرنے کےلیے حاکم کے نکل جانے کے بعد میں چھپ کر اس کے گھر میں گھس گیا۔۔

میں نے جائزہ لیا تو اس کے گھر میں سوائے ملازموں کے اور کوئی بھی گارڈ موجود نہیں تھا۔۔

جو میرے لیے بڑی ہی خوش آئیند بات تھی۔۔

میں حال میں سے ہوتا ہوا سیدھا اندر گھسا تو سامنے ڈائننگ ٹیبل پر ایک عورت لڑکی اور اس کے ساتھ ایک آدمی بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔۔

اور ان کے سر پر ایک ملازمہ کھڑی ناشتہ لگا رہی تھی۔

میں نے اندر گھستے ساتھ ہی اونچی آواز میں بولا۔۔۔ خبردار اگر کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلا تو ورنہ وه نقصان کا ذمدار خود ہو گا

میری بات سن کر حاکم کا بیٹا بولا۔۔ کون ہو تم

میں بولا۔۔۔ میں جو بھی ہوں یہ معنی نہیں رکھتا معنی یہ رکھتا ہے کہ مجھے کیا چاہیے

وه بولا۔۔۔ لگتا ہے تمہیں نہیں معلوم اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ تم اس وقت کس کے گھر میں موجود ہو تو تم یہ غلطی کبھی بھی مت کرتے

میں بولا۔۔۔ خاموش ایک دم خاموش ورنہ

وه اکڑ کر بولا۔۔۔ ورنہ کیا کر لو گے ہیں بتاؤ ذرا

اتنا بول کر وہ میری طرف بڑھا تو میں بولا جیسے تمھاری مرضی میں نے اپنے پسٹل کا رخ اس کی طرف کیا اور ٹریگر دبا دیا۔

ٹریگر کے دبانے کی دیر تھی کہ پسٹل سے ایک گولی نکلی جو سیدھی حاکم کے بیٹے کی ٹانگ سے پار ہو گئی۔۔

گولی لگنے کی دیر تھی کہ وہ درد سے چلاتا ہوا وہیں زمین پر گر گیا۔۔

اس کے ساتھ ہی کمرہ ایک دفعہ چیخوں سے گونج اٹھا۔۔

یہ چیخیں درد سے بھی زیادہ کراہ والی تھیں۔۔ کیونکہ یہ چیخیں حاکم کی بیوی اور اس کی بیٹی کی تھی۔۔

جو اپنے بیٹے اور بھائی کی حالت دیکھ کر ان کے منہ سے نکلی تھیں۔۔

میں ایک دفعہ پھر چلا کر بولا۔۔۔ اب میری بات دھیان سے سنو اگر اپنی خیریت چاہتے ہو تو میرا کوئی ارادہ تو نہیں تھا گولی چلانے کا لیکن تم لوگوں نے مجھے مجبور کیا ۔۔ اب ذرا جلدی سے جاؤ اور جائیداد کے سارے کاغذات لے کر جلدی سے آؤ ایسا ناں ہو اگلی گولی۔۔

 آگے آپ خود سمجھدار ہو

میری بات سن کر حاکم کی بیوی بھاگتی ہوئی اندر گئی اور بہت ساری فائليں اٹھا کر لائی اور میرے سامنے رکھ دیں۔۔

اور میرے سامنے گڑگڑاتی ہوئی بولی تمہیں جو بھی چاہیے لے جاؤ پر ۔۔۔۔۔کے واسطے میرے بیٹے کو اب اور کچھ مت کرنا۔۔۔

میں اس لڑکی کی جانب دیکھتے ہوے بولا۔۔۔ تابندہ نام ہے ناں تمہارا ان ساری فائلوں کو اٹھاؤ اور میرے ساتھ چلو

اس کی ماں آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ رہی تھی

تو میں ان سے بولا کہ میں آپ کی بیٹی کو کچھ بھی نہیں کروں گا۔۔

وه بولی۔۔۔ میرے بیٹی کو مت لے جاؤ اگر یہ بات کسی کو پتہ لگ گی تو ہم جیتے جی مر جائیں گے۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page