Unique Gangster–140– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -140

خواجہ صاحب۔۔۔ نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں ہے میں تو تمہیں اپنی ان بیٹیوں سے بھی زیادہ مانتا ہوں تم نے جو میرے لیے کیا ہے وہ ایک بیٹا بھی اپنے باپ کے لیے نہیں کرتا۔۔۔

میں بولا۔۔۔  یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں انکل میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے

خواجہ صاحب۔۔۔ یہی تو تمہارے اندر ایک ایسی خاصیت ہے جو ڈھونڈنے سے بھی لوگوں میں نہیں ملتی

اتنا کہہ کر خواجہ صاحب نے مجھے گلے سے لگا لیا۔۔۔

کچھ دیر مجھے گلے لگا کر پھر میرے ساتھ باتیں کرتے رہے اور میں نے بیٹھ کر ناشتہ کیا ابھی میں ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ اندر سے نمرہ تیار ہو کر آگئی اور مجھے دیکھتے ہی بولی۔۔۔ بدھو کہیں کے ابھی تک کھا رہے ہو میں تیار ہو کر بھی آ گئی اور تم ابھی تک کھانے میں لگے ہوئے ہو۔۔۔

میں بولا۔۔  مہارانی صاحبہ میں نے کھانا کھا لیا ہے میں صرف تمہارا انتظار کر رہا تھا کہ کب مہارانی صاحبہ نکلتی ہیں اور ان کا خادم انہیں شاپنگ کروانے لے جاتا ہے۔

نمرہ بولی۔۔۔

نمرہ بولی۔۔۔  تو پھر چلو دیر کس بات کی ہے ۔

میں نے بھی اور وقت ضائع کرنا ضروری نہیں سمجھا اور نمرہ کو اپنی بائیک کے پیچھے بٹھا کر وہاں سے سیدھا مارکیٹ روانہ ہو گیا۔

اگلا ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ بہت زیادہ مصروفیت میں گزرا ۔میں نے نمرہ کو اس کی مرضی کے مطابق طرح طرح کی شاپنگ کروائی۔ اور ساتھ میں، میں نے اسے ناصرہ کے لیے بھی سوٹ لینے کو کہا۔ پہلے تو اس نے انکار کیا لیکن بعد میں وہ مان گئی اور اس کے لیے بھی ہم نے دو سے تین سوٹ خرید لیے۔۔۔

خواجہ صاحب کی فیملی میری اپنی فیملی تھی یہ وہ لوگ تھے جب میں یہاں آیا تھا اور میرے سر پر اس وقت چھت نہیں تھی ان لوگوں نے مجھے سہارا دیا تھا اور کبھی بھی مجھے یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ میں ان کا کرایہ دار ہوں بلکہ مجھے ہر وقت یہی باور کروایا کہ میں ان کی فیملی کا ایک ممبر ہوں۔

شاپنگ کرنے کے بعد جب ہم لوگ گھر پہنچے تو اس وقت ناصرہ اور اس کی کزن بھی سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔

مجھے اور نمرہ کو ایک ساتھ دیکھ کر اس کے چہرے پر خوشی کم اور بےیقینی زیادہ تھی کیونکہ وہ ایکسپیکٹ نہیں کر رہی تھی کہ میں یہاں موجود ہوں۔ تو ناصرہ مجھے دیکھ کر چلائی سلطان تم یہاں ؟

تم کب آئے اور آنے سے پہلے بتایا کیوں نہیں؟

میں بولا۔ میں تو تین چار گھنٹے کا آیا ہوا ہوں پر جناب کا خود کچھ آتہ پتہ نہیں ہے ۔

ناصرہ تیزی سے آگے بڑھتی چلی آئی اور مجھے ہگ کرنے لگی۔

ناصرہ کی اس اوپن حرکت پر مجھے جھٹکا  لگا۔ لیکن آس پاس دیکھ کرخواجہ صاحب اس وقت موجود نہیں تھے ۔ مگر پھر بھی باقی تو تھے ہی۔

چند سیکنڈ بعد جب مجھ سے الگ ہوئی تو اس کی کزن اور نمرہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی اسے تو کبھی مجھے دیکھ رہی تھیں۔  نمرہ  زیادہ حیران نہ ہوئی اور تیزی سے کمرے میں  شاپنگ بیگز ہاتھ میں لئے چلی گئی۔

ناصرہ  نے اپنی کزن کا یوں مجھے گھورتا ہوا دیکھ کر محسوس کر لیا تھا اور اس سے بولی ایسے آنکھیں پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہو۔ یہ وہی سلطان ہے جس کے بارے میں، میں نے بتایا تو تھا۔

ناصرہ  پھرمجھ سے بولی۔ یہ میری کزن سمینہ ہے یہ میرے ماموں کی بیٹی ہے اور میری شادی تک یہیں میرے پاس رہے گی اور یہ میری سب سے بیسٹ فرینڈ ہے۔

میں بولا۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے کوئی تو تمہیں سنبھالنے والا ہونا چاہیے۔ 

وہ تھوڑا میرے قریب ہوئی اور میرے کان کے پاس اپنا منہ کرکےبولی۔  مجھے سنبھالنے کے لیے ایک آپ ہی کافی ہے لیکن تم ہو کہ ہم غریبوں کیلئے وقت ہی نہیں تیرے پاس۔

میں بولا۔ سنبھالنا تو ٹھیک ہے  مگر   میں چاہتا ہوں اب آپ پر کسی اور کا حق ہے تو یہ حق اسے ملنا چاہیئے۔

وه بولی۔ کچھ ہی دنوں میں میری شادی ہے تو تم جیسےبھی کر کے مجھے تھورا بہت وقت دو۔

میں  آخری لمحے آپ کے ساتھ بیتانا چاہتی ہوں۔ پتہ نہیں شادی کے بعد کبھی تم سے مل بھی پاؤں گی یا نہیں کیونکہ ہم لوگ شادی کے بعد یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔

میں بولا۔ ٹھیک ہے میں کوشش کروں گا لیکن وعدہ نہیں کرسکتا کیونکہ میں بہت زیادہ الجھا ہوا ہوں۔

اتنے میں پیچھے سے سمینہ کی آواز آئی۔۔۔ اوئے۔۔۔ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو ہم بھی یہاں کھڑے ہیں کچھ ہمارا ہی لحاظ کر لو۔

میں بولا۔ کچھ خاص نہیں یہ ہم بڑوں کی باتیں ہیں اور ان باتوں میں بچوں کی دخل اندازی اچھی نہیں ہوتی۔

 سمینہ قد کے لحاظ سے تھوڑی چھوٹی تھی۔ مگر پستانوں کا ابھاراس کے عمر سےکافی زیادہ لگ رہا تھا۔ میری بات سن کر اس کے ناک پر غصے کے تاثرات واضح ہوئے اور دوسری  طرف ناصرہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

تبھی ناصرہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر سمینہ کے قریب لے آئی۔ اور بولی۔ سمینہ پلیز یار تم نمرہ کے پاس  کمرے میں جاؤ اور اسے مصروف رکھو کچھ منٹس کیلئے ۔ پلیزززز مجھے سلطان سے کچھ بات کرنی ہے اوپر کمرے میں۔

سمینہ ہکا بکا  عجیب سی نظروں سے ناصرہ کو دیکھنے لگی اور میں بھی حیران تھا کہ سمینہ ہمارے بارے کیا سوچتی ہوگی۔

سمینہ کا گھورنا ایسے تھا  جیسے وہ ناصرہ  اور میرے متعلق بہت کچھ جان چکی ہے اور ابھی جیسا کہ ناصرہ کے ارادےبھی  بھانپ گئی تھی سمینہ۔

اوکے۔۔۔ کہہ کرسمینہ نے  سر ہلایا اور نمرہ کے پیچے  کمرے میں چلی گئی اور ناصرہ نے بنا وقت ضائع کئے میرا ہاتھ پکڑا اور اوپر لے جانے لگی۔

میں خود حیران تھا۔ ایک بار منع بھی کیا مگر وہ  جیسے سننا  ہی نہیں  چاہتی تھی۔

اوپر پہنچتے ہی ناصرہ  نے  مجھےگلے لگایا اور دیوانہ وار کسنگ کرنے لگی۔

میں پہلے تو مزاحمت کرتا رہا مگر ناصرہ کے ہونٹوں کی چوسائی نے میرے بھی اوسان خطا کئے۔ اور میں بھی ساتھ دینے لگا۔

چند سیکنڈ کسنگ کے بعد میرے ہاتھ ناصرہ کے کولہے پر رینگ رہے تھے۔ اور لن ٹائیٹ ہوکر ناصرہ کی رانوں میں رگڑ کھا رہا تھا۔

اچانک ناصرہ نے الگ ہوتے ہوئے میرے لنڈ کو پکڑ کر دبایا اوراپنی شلوار اور پینٹی اتار دی اور بیڈ پر گھوڑی بن گئی ۔اور مجھے جلدی  سے کرنے کو بولا۔

میری نظر جب ناصرہ کی گانڈ پر گئی تو حالت مزیدپتلی ہوگئی۔ 

سفیدروئی جیسی گانڈ نرم اور موٹے ملائم پھدی کے ہونٹ۔۔۔

اااففففف  کیا نظارہ پیش کر رہا تھا۔

ناصرہ کی پھدی ایک دم کلین شیو تھی ابھی تک اس پر کوئی بال نہیں آیا تھا۔

 پھدی سے بہتے پانی  سے پھدی کے ہونٹ پوری طرح بھیگ چکے تھے۔۔۔ ناصرہ کی پھدی کا منہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ ان کی گلابی پھدی کے ہونٹ  پھرپھرا رہے تھے اور اندر سے رس بہہ رہا تھا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page