Unique Gangster–143– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -143

میں اس کی بات کا جواب دے پاتا اس سے پہلے ہی اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور ان کو کس کرنے لگ گئی۔ پہلے تو میں نے تھوڑی سی مداخلت کی لیکن پھر مجھے بھی ان کےنرم ہونٹوں کا احساس ہوتے ہی مزہ آنے لگا اور میں بھی اس کا ساتھ دینے لگا۔

کسنگ کرتے کرتے میری حالت بےقابو ہونے لگی اور میرے ہاتھ خود بخود اس کی کمر پر رینگتے ہوئے اس کے چوتڑوں  تک پہنچ گئے اور دبانے  لگے۔ میرے ہاتھ بدستور بے قابو ہوچکے تھے۔

ابھی میں  ان کی گانڈ دراڑ میں ہاتھ پھیر ہی رہا تھا کہ اچانک سے دروازے پر دستک ہوئی۔

اور یہ آواز سنتے ہی ہم ہوش میں آگئے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر شرماتے ہوئے الگ ہوگئے۔ 

صبیحہ ڈر کے مارے پیچھے ہوگئی تو میں اس سے بولا۔ اب کیا ہوا پہلے تو بڑی تیز بن رہی تھی اب نکل گئی ساری ہوا۔

وه شرما کر باہر کوتیزی سے قدم  اٹھاتے ہوئے جانے لگی۔

اور میں اس کی گانڈ میں پھنسی قمیض کو دیکھتا رہا جو میں نے پھنسائی تھی ۔

میری نظریں بدستور صبیحہ کی مٹکاتی  ہوئی گانڈ پر جمی تھی جو ہر قدم  پر تھرکتی تھی۔

اس نے جب دروازہ کھولا تو اس کی بہن باہر کھڑی تھی۔

علینا جب اندر آئی تو اس کی نظر مجھ پر پڑی  تو وه بولی۔ آپ کب آئے

میں بولا۔

بس ابھی ابھی آیا، تم کہاں تھی۔ یہ سوال میں نے جان بوجھ کر پوچھا تاکہ اس کو ہم پر شک نہ  ہوجائے۔

وه بولی۔ کہیں نہیں بس بازار تک گئی تھی، کچھ چیزیں لانی تھی کیونکہ آج ہم لوگوں کا B.B.Q  کرنے کا پلان ہے۔

میں بولا۔ واہ پھر تو اور بھی مزہ آجاۓ گا اچھا تم ایسا کرو تم بناؤ سب کچھ میں ذرا تمہاری باجی کو بازار لے کر جا رہا ہوں۔ مجھے کچھ چیزیں لینی ہیں جس کی مجھے سمجھ نہیں ہے۔

وه بولی۔ ٹھیک ہے جاؤ پر یاد رکھنا آج شام کا کھانا آپ نے یہاں پر کھانا ہے۔

میں بولا۔ اوکے ڈیل  ڈن

اتنے میں صبیحہ بھی تیار ہو کر آگئی تو میں اسے بائیک کے پیچھے بٹھایا اور ہم بازار چل دیئے۔

جہاں پہ کمپیوٹر وغیرہ اور الیکٹرانکس قسم کی  چیزیں ملتی تھی۔

ہم دونوں بائیک پر بیٹھ کر پلازے کی طرف رواں دواں تھے۔ پلازے کے پارکنگ  ایریا میں پہنچ کر جیسے ہی ہم بائیک کو پارکنگ میں کھڑا کر کے پلازے کے اندر جانے لگے تو ہمارے سامنے یکے بعد دیگرے تین گاڑیاں آ کر رکیں۔ سب سے پہلی گاڑیوں میں سے گارڈز نکلے ان کے نکلنے کے بعد ایک 45 سے 50 سالہ شخص نکلا جو کہ سوٹ بوٹ میں تھا اس کے پیچھے اس کی بیگم نکلی وه بھی کافی خوبصورت لباس میں موجود تھی۔ وه آدمی میری طرف بڑھا اور مجھ سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولا۔ کیا ہم دو منٹ بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔

میں بولا۔ آپ کون ہیں میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔

وه آدمی کچھ بول پاتا اس سے پہلے ایک لڑکی بولی۔ یہ میرے امی ابو ہیں۔

میں جھنجھلاہٹ سے بولا۔ اب تم کون ہو؟

وہ لڑکی اپنے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور میری طرف بڑھ رہی تھی اور میں اسے پہچاننے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ اور اس کا میک اپ اس کا اصلی چہرہ چھپا رہا تھا۔ وہ لڑکی میرے پاس آئی اور اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے بولی لگتا ہے تم نے مجھے پہچانا نہیں۔

میں اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا نہیں مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے آپ کو پہلے کہاں دیکھا ہے۔

وہ بولی۔ میں ربیکا

میں اپنے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے بولا۔ لیکن مجھے کچھ یاد نہیں ہے لگتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔

اتنا بول کر میں پلٹ کر جانے لگا تو وه بولی۔ آپ نے میری جان بچائی تھی اور میرا علاج بھی کروایا تھا اور پھر مجھے گھر بھی بھجوایا تھا۔

میں بولا۔ کیا تم ہشمت خان کی بیٹی ربیکا ہو۔

وه بولی۔ ہاں میں ہی ہشمت خان کی اکلوتی بیٹی ہوں۔

میں بولا۔آئی ایم سو سوری میں نے تمہیں بلکل بھی پہچانا نہیں تم اس وقت کیسی دکھتی تھی اور آج ۔۔۔

وه اپنے والدین سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولی۔ ممی پاپا یہ ہیں سلطان

اس کا باپ ہاتھ آگے بڑھتے ہوۓ بولا۔ جی مجھے پتہ ہے جس نے میری بیٹی کی جان بچا کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔

میں بولا۔ انکل آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ایسا کہہ کر آپ مجھے شرمنده تو نہ کریں۔

وه بولا ۔ کیا اب ہم کہیں بیٹھ پر بات کر سکتے ہیں۔

میں بولا۔ پر اس وقت میرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ابھی بات کر ہی رہا تھا کہ وه آدمی بولا۔ یہ بھی میری بیٹی جیسی ہے یہ بھی کچھ دیر ہمارے ساتھ بیٹھ جاۓ گی کیوں بیٹی۔

صبیحہ بولی۔ جی انکل کیوں نہیں مجھے کوئی اعترض نہیں ہے آپ جتنا مرضی چاہیں۔ ٹائم لے لیں۔

انکل بولے۔ ہاں برخوردار اب تو تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے ناا۔

میں بولا۔ چلیں انکل بیٹھ کر ہی بات کرتے ہیں۔

انکل بولے۔ یہ پلازه میرا ہی ہے آؤ آفس میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔

یہ پلازه چھ منزلہ عمارت پر مشتمل تھا اور انکل کا آفس تھرڈ فلور پر تھا۔

ہم سب پلازے کے اندر داخل ہوئے اور وہاں سے لفٹ میں سوار ہو کر تھرڈ فلور پر پہنچ گے۔

وہاں سے انکل ہمیں اپنے آفس لے گئے۔

آفس بڑا ہی شاندار بنا ہوا تھا پیسہ اپنی طاقت دکھا رہا تھا ہر چیز بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ ہم وہاں بیٹھے ہی تھے کہ انکل نے اپنے کیبن سے گھنٹی بجائی تو ایک آدمی اندر آیا انکل نے اسے کچھ کہا تو وه آدمی اس وقت وہاں سے جی اچھا کہتے ہوئے نکل گیا۔

انکل بولے۔ ہاں تو بیٹا جی آپ یہاں کس کام سے آئے تھے تو میں نے انکل سے کہا۔ کچھ سامان لینا تھا تو انکل بولے۔کیسا سامان ؟

میں بولا۔ کچھ لیپ ٹاپ کچھ کیبل ایک اچھا سرور اور سی سی ٹی وی کیمرے وغیرہ۔

انکل بولے ۔ ہاہاہاہاہا بیٹا اتنا سارا سامان کس لیے

میں بولا۔ بس کچھ ضرورت تھی۔

انکل نے پاس کھڑے ایک گارڈ کو اپنی طرف مخاطب کیا اور اس سے کہا کہ اوپر جاؤ جو ہماری بڑی شاپ ہے ان سے کہو کہ وہ اپنا ایک آدمی یہاں بھیجے مجھے کچھ کام ہے۔

میں بولا۔ انکل اس سب کی کیا ضرورت ہے میں کر لوں گا۔

انکل بولے۔ بیٹا آپ ابھی یہاں بیٹھو ہمارے ساتھ یہ جو ہماری لاڈلی ہے ناا۔ یہ ہر وقت تمہیں یاد کرتی رہتی ہے۔ کہ ایک بار تم سے مل سکے ۔ اور کچھ باتیں کر سکے۔ اور تمہارا شکریہ ادا کر سکے۔

میں بولا۔ آپ خواہ مخواہ میں مجھے اتنی عزت دے رہے ہیں میں ایک بہت عام سا انسان ہوں اور آپ اتنے بڑے لوگ ہیں اور میں عام سا کالج کا سٹوڈنٹ ہوں کچھ سامان چاہیے تھا تو اس لیے یہاں چلا آیا۔

وه بولے۔ بیٹا کوئی بھی انسان پیسے سے بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا۔ اسے بڑا بناتے ہیں اس کے اخلاق۔۔۔

آنٹی بولی۔ یہ تو تمہارا بڑا پن ہے جو تم ایسا کہہ رہے ہو یہ ہم سے پوچھو کہ۔۔۔ تم  ہمارے لیے کیا ہو۔

جب سے میں نے ہوش سنبھالا تھا صرف ڈرپوک ہونے کےطعنے ہی سنےتھے، آج اتنی عزت مل رہی تھی وه بھی اتنے بڑے آدمی سے تو سب کچھ عجیب لگ رہا تھا۔ بچپن سے ہی نفرت سہی تھی۔ گھر میں قید ہو کر رہ گیا تھا ۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page