Unique Gangster–151– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -151

 میری بات سن کر اماں کی آنکھوں میں آنسو نکل آئے اور وہ آگے بڑھ کر میرے ماتھے پر لب رکھ کر انہیں  چومتے ہوئے بولی۔“”دیکھو تو میرا سلطان کتنا بڑا ہو گیا ہے۔ کیا یہ وہی سلطان ہے جسے میں نے بڑی مشکل سے گھر سے دور بھیجا تھا۔ اور اب دیکھو کتنی بڑی بڑی باتیں کرنے لگ گیا ہے مجھے تم پر فخر ہے بیٹا۔۔۔

ماں بار بار میرا ماتھا اور میری گالیں چوم رہی تھی اور اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر ہمنا اندر آئی اور میری ماں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی آپ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہی ہیں۔۔

میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا کہ چپ رہو  اور ڈاکٹر ہمنا چپ چاپ ہو کر میرے بیڈ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔

میری ماں اوپر اٹھی اور ڈاکٹر ہمنا کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ یہ میرا بیٹا ہے کیا مجھے اپنے بیٹے کا چہرہ چومنا منع ہے کیا ۔۔

ڈاکٹر ہمنا نے پہلے میری طرف دیکھا تو میں نے آنکھوں سے اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ ماں ٹھیک کہہ رہی ہیں

پھر ڈاکٹر ہمنا بولی آنٹی جی میں نے ایسا کب کہا میں جب اندر آئی تو آپ سلطان کے پاس بیٹھی تھیں اور میں نے پہلے کبھی آپ کو یہاں پر دیکھا بھی نہیں اس لیے ایسے پوچھا۔ اگر میری کوئی بات آپ کو بری لگی ہو تو میں معذرت چاہتی ہوں

ماں بولی۔۔۔ نہیں بیٹا میں نے کیوں ناراض ہونا ہے تم نے تو میرے بیٹے کی جان بچا کر مجھے پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔

ڈاکٹر ہمنا بولی۔۔۔ نہیں آنٹی جی ایسا مت کہیے ایسا کہہ کر مجھے شرمندہ مت  کرئے ۔

میں بولا۔۔۔ ماں آپ کن باتوں کو لے کر بیٹھ گئی ہیں یہ ڈاکٹر ہمنا ہیں ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھے سے جانتے ہیں۔

اں بولی۔۔۔ پتہ ہے مجھے تو نے کئی بار اس کا ذکر کیا ہے میرے ساتھ لیکن میں  تو اس سے پہلی بار ملی رہی ہوں ناں۔۔

میں کچھ بولتا اس سے پہلے ہی ڈاکٹر ہمنا نے اپنے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے اشارہ کیا کہ تم خاموش رہو اور میں بالکل خاموش ہو کر رہ گیا۔۔۔

اگلے 20 سے 25 منٹ میری ماں اور ڈاکٹر ہمنا کے درمیان طرح طرح کی باتیں ہوتی رہی جن میں سب سے بڑا موضوع میری صحت کے متعلق تھا۔

پھر میں بولا ماں تم تھک گئی ہوگی۔اتنا لمبا سفر طے کر کےتم ابھی گھر چلی جاؤ صبح آ جانا اگر آنے کی ضرورت ہوئی تو ورنہ میں خود کو سنبھال لوں گا۔۔

ماں بولی۔۔۔ میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی تم یہاں پر اکیلے ہو گے اور میں تمہیں چھوڑ کر  گھر چلی جاؤں میرے دل کو سکون کیسے آئے گا 

میں بولا۔۔۔ میں یہاں پر اکیلا نہیں ہوں۔ یہاں پر بہت سے لوگ ہیں جو میری تیمارداری کرنے کے لیے کافی ہیں تم میری بات مانو اور گھر چلی جاؤ اور گھر میں رہ کر آرام کرو

ماں بولی۔۔۔ بیٹا میں وہاں پر اکیلی کیا کروں گی

میں بولا۔۔۔ آپ وہاں پر اکیلی نہیں ہوں گی وہاں پر بہت سے لوگ ہیں جو آپ کی خاطرداری کریں گے

ماں بولی۔۔۔ میں سمجھی نہیں تمہاری بات وہاں پر بہت سے لوگ

میں بولا۔۔۔ آپ جاؤ آپ کو سب سمجھ آ جائے گی۔۔

ڈاکٹر ہمنا بولی۔۔۔ سلطان ٹھیک کہہ رہا ہے آنٹی جی آپ یہاں ہسپتال میں ایسے ہی پریشان ہوں گی یہاں پر آپ کا کوئی کام نہیں ہے آپ گھر جاؤ ابھی علیزے  جانے والی ہے تو آپ اس کے ساتھ چلی جاؤ ۔۔۔

ماں بولی۔۔۔ اب یہ علیزے کون ہے مجھے بھی کوئی کچھ بتائے گا

میں بولا۔۔۔۔ آپ ایک دفعہ گھر جاؤ آپ کو سب پتہ چل جائے گا آپ کی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں رہتی اور یہاں میرے ساتھ آپ اگر اس حالت میں رہیں گی تو آپ کی طبیعت اور زیادہ بگڑ جائے گی آپ میری بات مانیں اور گھر جائیں باقی کی باتیں ہم گھر پر بیٹھ کر ہی کر لیں گے۔جب میں ڈسچارج ہو کر گھر آؤ گا۔۔

ماں بولی۔۔۔ ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی

اتنا کہنے کے بعد ماں نے ایک دفعہ پھر میرا ماتھا چوما اور پھر ڈاکٹر ہمنا کے ساتھ باہر چلی گئی۔

٭٭٭٭٭٭

وہیں دوسری طرف ایک بنگلے کے ایک کمرے میں ایک لڑکی کے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لڑکی بلکل ننگی تھی۔ ایک اڈھیر عمر آدمی اس کے اوپر لیٹا ہوا تھا۔ لڑکی بہت بری طرح چلا رہی تھی لڑکی کی پھدی سے خون نکل رہا تھا اور وہ مرد اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا زور زور سے دھکے مار رہا تھا لڑکی کنواری تھی اس لیے اسے زیادہ درد ہو رہا تھا۔ یہاں تک کے درد کے چلتے وہ لڑکی بے ہوش ہو گئی اور مرد نے بھی اپنی منی کے قطرے اس کی پھدی میں چھوڑ دیئے تھے۔ وہ مرد لڑکی کے اوپر سے اٹھا اور اپنی دھوتی باندھتا ہوا باہر کی طرف جانے لگا تو اس کی نظر لڑکی کی ٹانگوں کے درمیان پڑی جہاں اس کی پھدی سے نکلنے والا خون بہہ بہہ کر  چادر اور اس لڑکی کے ٹانگوں پر لگ کر سوکھ چکا تھا۔

وہ شخص اپنا کیا ہوا کارنامہ دیکھ کر اپنے مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا کمرے سے باہر نکلا اور جا کر ایک  صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔ واہ رضیہ مزہ آ گیا کیا ہی خوبصورت اور بہترین مال پیش کیا تم نے آج ہمیں ہمارا دل خوش کر دیا مانگو کیا مانگتی ہو

رضیہ بولی۔۔۔ نہیں چوہدری صاحب میں نے کیا مانگنا  ہے میرے پاس آج جو کچھ بھی ہے یہ سب آپ کا ہی دیا ہوا ہے آپ کی مہربانیوں کی بدولت۔آپ کی مہربانیاں اگر اسی طرح مجھ پر بنی رہی تو ایسے اور بھی کئی مال میں آپ کو پیش کروں گی۔۔

چوہدری بولا۔۔۔ مکاری میں تمہارا کوئی جواب نہیں تم آج بھی ویسی ہی کمینی ہو جیسی پہلے دن تھی ٹھیک ہے سارا پیسہ تمہارے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائے گا۔۔

رضیہ کمینی ہنسی ہنستے ہوئے بولی۔۔۔ جب آپ کو سب پتہ ہے چوہدری صاحب تو پھر ہمیں بار بار کہہ کر شرمندہ کیوں کرتے ہو۔۔

چوہدری بولا۔۔۔ بس ایک بات ماننی پڑے گی تم جیسی مکار اور کمینی عورت میں نے آج تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ان بے سہارا اور بےچاری لڑکیوں کو کس طرح بہلا پھسلا کر لاتی ہو اس بات کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی اور یہ تمہارا راز بھی آج تک راز ہی ہے کسی کو پتہ تک نہیں چلا۔۔۔

رضیہ بولی۔۔۔ کیا کروں چوہدری صاحب میں ہر برا کام بھی پوری ایمانداری سے کرتی ہوں میں جو بات کہتی ہوں اس بات سے میں پیچھے نہیں ہٹتی ہوں ۔۔

 چوہدری بولا۔۔۔  تمہاری دوسری برانچ کا کیا بنا اور تمہاری دوست نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا وہ ابھی تک اس کو پورا نہیں کر رہی ۔ تمہارے کہنے پر میں اسے بہت مہلت دے چکا ہوں اب اور نہیں اسے میرا پیغام دے دینا کہ چوہدری کرامت بہت جلد تمہارے اڈے پر چکر  لگائے گا تب تک اس کا کام ہو جانا چاہیے۔۔ 

رضیہ بولی۔۔۔ ٹھیک ہے سرکار میں آپ کا حکم نامہ پہنچا دوں گی ویسے بھی آپ کے کام میں میں نے کبھی دیری کی ہے کیا ۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page