Unique Gangster–185– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -185

نواب بولا۔۔  تو دکھاؤ نا غصہ تمہیں روکا کس نے ہے پر تمہاری دشمنی میرے ساتھ ہے تم جو کرنا چاہتے ہو میں حاضر ہوں میں باقی سب کو یہاں سے بھیج دیتا ہوں تم میرے ساتھ وہ کر لو جو تمہارا دل چاہتا ہے بے شک اپنے بھائی کا بدلہ لے لو لیکن میری بیٹی کو یہاں سے جانے دو۔۔

شیخ دلاور کمینی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔۔ اب آیا ناں اونٹ پہاڑ کے نیچے یہی خوف تو تمہارے چہرے پر دیکھنا چاہتا تھا کہ تم گڑگڑا کر مجھ سے بھیک مانگو ۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

میں نے اپنی بائیک کو فل سپیڈ میں بھگایا ہوا تھا اور جب میں شیرا لوگوں کے پاس پہنچا تو شیرا مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا بہت دیر کردی تم نے آنے میں سلطان اب تک تو ہو سکتا ہے نواب حیات نے شیخ دلاور کا کام تمام کر دیا ہوگا۔۔۔

میں بولا۔۔۔ کچھ نہیں یار بس اپنے کچھ لوگوں کو محفوظ مقام پر پہچنے گیا تھا اس لیے ہی کافی لیٹ ہو گیا ہوں۔

جیدا بولا۔۔ . اب باتوں میں ٹائم ضائع مت کرو یہ پکڑو اور چلو۔۔

جیدے نے ایک نائن ایم ایم پسٹل میرے ہاتھ میں پکڑا دیا جسے میں نے فورا اپنی پینٹ کے بیلٹ میں پھنسا لیا اور اپنی بائیک کو سٹارٹ کر ان کے پیچھے چل پڑا کچھ دیر بائیک کو دوڑانے کے بعد ہم ایک کالونی میں پہنچے پھر بائیک کو ایک جگہ کھڑا کر آگے ہم پیدل ہی چل پڑے کچھ ایک دو گلیاں کراس کرنے کے بعد ہم ایک بنگلے کے باہر پہنچے تو وہاں کچھ لاشیں پڑی ہوئی تھی اور بنگلے کا مین دروازہ کھلا ہوا تھا۔

شیرا میری جانب دیکھتے ہوئے بولا لگتا ہے یہاں پر کام ختم ہو چکا ہے۔

میں بولا۔۔ پھر بھی ہمیں ایک دفعہ اندر جا کر چیک کر لینا چاہیئے ۔۔

 میں نے اپنا پسٹل نکال کر اس کو تیار حالت میں کر لیا۔ میں سب سے آگے تھا اور باقی وہ چاروں میرے پیچھے پیچھے تھے۔ چاروں اس لیے کیونکہ پانچویں بندے کو ہم بائیک کے پاس کھڑا کر کے آئے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو ہم واپس آئیں اور یہاں پر ہماری بائیک ہی موجود نہ ہو۔۔

ہم آرام آرام سے چلتے ہوئے آگے ایک کمرے کے پاس پہنچے تو اندر سے ایک آدمی بھاری آواز میں بولا دیکھو شیخ دلاور تم نے جیسے کہا تھا میں نے ویسے کر دیا ہے میں نے ان لوگوں کو واپس بھیج دیا ہے اب میں یہاں پر اکیلا ہوں تو تم میری بیٹی کو جانے دو تم نے جو کرنا ہے میرے ساتھ کرو بے شک مجھے جان سے مار دو میری یہ آخری نشانی ہے اسے چھوڑ دو۔

اندر ایک ساتھ دو آدمیوں کے ہنسنے کی آواز آئی اور پھر دلاور شیخ بولا۔۔ لگتا ہے نواب صاحب پچھلی عمر میں پاگل ہو گئے ہو تم نے یہ کیسے مان لیا کہ میں تم دونوں کو یہاں سے زندہ جانے دوں گا پہلے تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہاری بیٹی کا ریپ کروں گا اور پھر تمہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔۔

میں نے پسٹل پر اپنی پکڑ مضبوط کرتے ہوئے دروازے کو دھکا لگایا اور جب دروازہ کھلا تو سامنے ہی جلاد رانا سمن پر بندوق تانے ہوئے کھڑا تھا میں نے اندر گھستے ہی گولی چلا دی جو سیدھی جلاد رانا کے سر سے پار ہوتی ہوئی پیچھے جا کر دیوار میں لگی۔

جلاد رانا گولی لگنے کے بعد وہیں اپنے سر کو پکڑے ہوئے پیچھے دیوار کے ساتھ لگا اور وہیں پر ہی اس کی موت ہو گئی۔ یہ کھیل کچھ ہی سیکنڈوں کا تھا جس کے چلتے جلاد رانا کو پتا نہیں چلا اور اس کا کام تمام ہو گیا ۔۔

دلاور شیخ آنکھیں پھاڑے ہوئے میری طرف دیکھ رہا تھا اور بالکل یہی حال نواب حیات کا بھی تھا وہ بھی میری طرف ایسے ہی دیکھ رہا تھا لیکن جہاں دلاور شیخ کے چہرے پر خوف تھا وہیں نواب حیات کے چہرے پر سکون تھا۔۔

دلاور شیخ اپنی پسٹل کو جب مجھ پر تانے لگا تو اتنے میں شیرا اور جیدا اس کے سر پر پہنچ چکے تھے انہوں نے اپنے پسٹل اس کے سر پر تان لیے اور دلاور شیخ نے اپنا پسٹل نیچے پھینک دیا جبکہ نواب حیات جلدی سے آگے بڑھا اور اپنی بیٹی کو ان رسیوں سے کھولنے لگا جب اس کے منہ سے ٹیپ ہٹائی گئی تو سمن لگاتار کھانسنا شروع ہو گئی میں جلدی سے آگے بڑھا اور میں نے پاس میں پڑے ہوئے جگ سے ایک پانی کا گلاس ڈال کر سمن کو پکڑایا اور وہ اسے پینے لگی۔۔

سمن کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہ رہے تھے وہ پانی پیتے ہوئے کچھ پانی پی رہی تھی اور کچھ پانی اس کے  اوپر گر رہاتھا۔۔

میں ایک دم واپس مڑا  دلاور شیخ کے منہ پر ایک کے بعد لگاتار تین سے چار تھپڑ جڑ دیئے اور پھر اس کو بالوں سے پکڑ کر نیچے زور سے ٹیبل پر اس کا سر مارتے ہوئے بولا۔۔۔ تم خود کو بہت بڑا ڈون سمجھ رہے تھے تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ تم عورتوں پر ہاتھ اٹھا رہے ہو کیا یہی تمہاری مردانگی ہے تمہیں اب  پتہ چلے گا کسی کے گھر پر ہاتھ ڈالنے سے کیا ہوتا ہے تمہاری ہمت کیسی ہوئی میرے گھر پر ہاتھ ڈالنے کی آج تمہارا میں وہ حال کروں گا کہ آگے کوئی بھی میرے گھر کی طرف دیکھنے سے پہلے لوگوں کی سانسیں اٹک جائیں گے کہ ان کے ساتھ ان کا انجام کیا ہوگا۔ مجھے آنے میں زیادہ دیر تو نہیں ہوئی کیونکہ صبح ہی تم نے میرے گھر پر حملہ کیا تھا اور اب میں تمہارے سامنے موجود ہوں۔ اور اس لڑکی تمنا کو تم نے بہت برے طریقے سے مارا ہے اس کا تو الگ ہی حساب ہوگا۔۔

دلاور شیخ گڑگڑاتے ہوئے بولامیں نے تمنا کو نہیں مارا تمنا کو کسی اور نے مارا ہے تمنا تو ہمارے ہاتھ ہی نہیں لگی تھی تو پھر ہم اسے کیسے مارتے۔۔

میں بولا۔۔۔ بکواس ناں کر بہن چود میرے منہ سے توں بہت کچھ سنے گا خود ہی مجھے کال کر کے سرپرائز کے بارے میں بات کرتے ہو اور پھر اگلے ہی پل یہ بہن پیش کر رہے ہو کیسے ڈؤن ہو تم میں نے تو تمہارا بہت نام سنا تھا تم تو ایک گلی کے کتے سے بھی زیادہ ڈرپوک نکلے.

دلاور شیخ بولا۔۔۔ ہاں میں ہوں ڈرپوک پلیز مجھے مارنا مت تم جو چاہو گے میں وہ دینے کو تیار ہوں ۔۔

میں اس کے منہ پر ایک اور تھپڑ جڑا اور پھر اس سے بولا کیا دے سکتا ہو تم تمھاری اوقات کیا ہے دینے کی ۔۔

دلاور شیخ بولا۔۔۔ میرے پاس تمہاری سوچ سے زیادہ پیسہ اور سونا ہے تم چاہو تو مجھ سے وہ لے لو لیکن بدلے میں میری جان بخشی کر دو۔۔

میں بولا ۔۔۔ کہاں ہے سونا پیسہ

دلاور شیخ نے اپنی پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور ایک چابی نکال کر میری طرف بڑھائی اور ہاتھ کے اشارے سے کمرے کا پتا بتایا ہے۔ میں نے وہ چابی پاس میں کھڑے ایک بندے کو پکڑائی اور اس سے کہا کہ جاؤ لے کر آؤ دیکھتے ہیں کہ اس کی جان کی قیمت کے برابر سونا پیسہ ہے یا نہیں۔۔

شیرا اور نواب حیات میری طرف ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں نے کوئی بہت بڑا گناہ کر دیا ہو۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page