Unique Gangster–186– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -186

شیرا اپنا ضبط کھو کر کچھ بولنے لگا تو نواب حیات نے اشارے سے اسے بولنے سے منع کر دیا۔

شیخ دلاور اپنا سر نیچے کر پریشان حالت میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا۔

کچھ دیر بعد ہاتھوں میں تین بیگ پکڑے ہوئے نيدا اور بشی اندر داخل ہوئے۔ یہ دونوں بھی شیرا کے ساتھی تھے جن میں نوید عرف نيدا اور بشیر عرف بشی شامل تھے۔

نيدا اندر داخل ہوتے ہوئے بولا۔۔ تین بیگ ملے ہیں ایک میں سونا ہے جبکہ دو میں پیسے ہیں سونے والا بیگ چھوٹا ہے۔۔

نیدا تینوں بیگ نیچے رکھتے ہوئے بولا بس اب ان کا کیا کرنا ہے۔۔

 میں بولا۔۔  ان کو لے چلو میں آتا ہوں

دلاور شیخ خوشی سے بولا کیا تم اب میری جان بخش دو گے۔۔

 میں بولا ہاں اگر تم تمنا کو واپس لا سکتے ہو تو میں تمہاری جان ضرور بخش دوں گا۔ جو کچھ تم نے تمنا کے ساتھ کیا ہے تم جیسے درندے کو تو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور باقی رہی بات جو جو تمہارے ساتھ شامل ہے جلد ہی ان کی ملاقات تم سے ہوگی وہ بھی بہت جلد تمہارے پاس اوپر پہنچ جائیں گے میں کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑنے والا چاہئے اس کے لیے مجھے میری جان ہی کیوں نہ گوانی پڑے۔۔

کہنے کے ساتھ ہی میں نے دلاور شیخ کے ہاتھ کو پکڑ کر توڑ دیا۔اور وہ زور سے چیخنے لگا ایک ایک کرکے میں نے دلاور شیخ کے سارے جسم کی ہڈیوں کا کچومر بنا دیا اور وہ چیختا چلاتا رہا اور معافیاں مانگتا رہا پر میں نے اس کے ایک نہ سنی جب میں اپنا کام تمام کر چکا تو اس کے پاس بیٹھ کر بولا کیسا لگا میرا سرپرائز وہ کچھ نہ بولا بس درد کی وجہ سے چیختا چلاتا رہا۔میں اس کے چہرے کو پکڑ کر بولا بہت شوق ہے نا تجھے سرپرائز دینے کا تو میرے پاس ایک اور سرپرائز ہے تیرے لئے میں ایک دم اس کے اٹھا اور اپنے پسٹل کو اس کے سر پر تان کر ٹرگر پر انگلی دبا دی جس سے ایک بریسٹ فائر ہوا اور گولی دلاور شیخ کے سر کا کچومڑ بناتے ہوئے پیچھے نکل گئی۔۔

شیرا اور جیدا اس کام کے بعد باہر نکل گئے جبکہ نواب حیات اور اس کی بیٹی سمن ابھی بھی میری طرف ہی دیکھ رہے تھے۔

میں آگے بڑھا اور سمن کے پاس کھڑے ہوتے ہوے بولا۔۔۔ کیا تم ٹھیک ہو میں معافی چاہتا ہوں تم میرے گھر میں تھی اور تم پر یہ حملہ ہوا۔۔

سمن بولی۔۔۔ نہیں اس میں آپ کی غلطی نہیں ہے

نواب حیات بولا۔۔۔ ہاں بیٹا سمن ٹھیک کہہ رہی ہے اس میں تمہاری نہیں بلکہ میری غلطی ہے نہ ہی میں بار بار فون کرتا اور نہ ہی وہ لوگ اس تک پہنچتے اور اس نے بتایا کہ تمہاری ایک دوست بھی وہاں زخمی ہوئی ہے تو اب اس کی طبیعت کیسی ہے

میں بولا۔۔۔ وہ ابھی ہاسپٹل میں ہے میرا ان کے ساتھ صبح کے بعد کوئی بھی رابطہ نہیں ہوا ان سے رابطہ کرنے سے پہلے میں ان کو نپٹانا چاہتا تھا جنہوں نے اسے اس حال میں پہنچایا تھا

سمن بولی۔۔۔ ہاں باجی ٹھیک کہہ رہی تھی تم سب سے الگ ہو۔۔

میں بولا۔۔۔ کیا تم اپنے بابا کے ساتھ چلی جاؤ گی یا کچھ دن ہمارے پاس رکو گئی اگر تم کچھ دن ہمارے پاس رکتی ہو تو تم میری دوستوں کو ٹریننگ دے سکتی ہو۔۔

نواب حیات بولا۔۔۔ ہاں بیٹا تم جب تک چاہو یہ تمہارے پاس ہی رکے گی میں اس کو اپنے ساتھ نہیں لے جاؤں گا۔ اور ویسے بھی تم نے مجھ سے بڑھ کر اس کی حفاظت کی ہے ایک نہیں بلکہ دو بار اس کی جان بچائی ہے

میں بولا۔۔۔ نہیں انکل وہ تو میرا فرض تھا اور ویسے بھی مجھے دکھ تو اس بات کا ہے کہ ان لوگوں نے میرے گھر پر حملہ کیا اور سمن کو وہاں سے اٹھا کر لائے۔۔۔

نواب حیات بولا۔۔۔ اور تم نے کون سا کم کیا ہے تم بھی آئے اور تم نے اپنا بدلہ لے لیا۔ پر بیٹا تمہیں اسے جان سے نہیں مارنا چاہئے تھا اس طرح خون خرابے کی اتنی عمر میں لت لگ جانا بہت بری بات ہے۔۔۔

میں بولا ۔۔ آپ نے آج صبح صبح ٹی وی اور اخباروں میں یہ تو پڑا ہوگا کہ ایک لڑکی کی بہت بے دردی سے موت ہوئی ہے جس کے اعضاء کاٹے گئے ہیں تو میں اسے کیسے زندہ چھوڑ سکتا تھا وہ لڑکی میری دوست تھی اور میری ہی پناہ میں تھی میں خود حیران ہوں کہ ایک ساتھ دو جگہ میرے ساتھ یہ کیسے ہو گیا کہ وہ دونوں جگہ جانے میں کامیاب ہو گیا اس لیے اس سانپ کا سر کچلنا ضروری تھا ورنہ یہ سانپ اور زیادہ خطرناک ہو سکتا تھا۔۔

نواب حیات بولا۔۔ ہاں ایسے لوگوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے تم نے ٹھیک کیا۔

ہم تینوں جب وہاں سے باہر نکلے تو سامنے شیرا اور اس کے لوگ کھڑے تھے۔۔ ان کے ہاتھوں میں ابھی بھی وہ بیگ موجود تھے جو اندر سے ہمیں ملے تھے ۔۔بیگ پر نظر پڑتے ہی میں ان سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولاان تینوں بیگ میں سے  ایک بیگ تم رکھ لو اور باقی مجھے دے دومیری بات سن کر شیرا جواب دیتے ہوۓ بولاہم یہ بیگ نہیں رکھ سکتےاتنا کہہ کر اس نے وہیں پر ایک بیگ کھولا  اور  اس میں سے صرف چند نوٹوں کی  گڈیاں نکال کر اپنے پاس رکھتے ہوۓ  تینوں بیگ میرے سامنے رکھ دیئے۔

میں  شیرا کی جانب  دیکھتے ہوۓ جھنجلا کر بولایار  اب یہ کیا ہے ؟ کم ازکم  ایک بیگ تو تم لوگ رکھ سکتے ہو ۔

  وہ بولا : نہیںہمیں پیسوں کی اتنی خاص ضرورت نہیں ہے  آپ کے اتنے اصرار پر رکھ رہا ہوں اگر ضرورت پڑی تو آپ سے یا ماسٹر سے رابطہ کر لیں گے باقی  آپ ماسٹر سے پوچھ لیں  میں اچھے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے  کوئی بھی پیسہ نہیں لیتا۔۔ اور ویسے بھی آپ کے ساتھ کام کرنے میں مجھے مزہ آرہا ہے۔۔۔ کیونکہ آپ بھی وہی کام کر رہے ہیں جو میں نے کرنے کی ٹھانی تھی۔۔۔ لیکن میرے پاس اتنی پاور نہیں تھی۔

اس کی بات سن کر میں شرمندہ ہوتے ہوۓ سر۔ کھجاتے ہوۓ بولا : ایسی کوئی بات نہیں ہے اور نہ ہی بات پاور کی ہے ۔۔ بس تم جیسے اچھے لوگوں کا ساتھ ہو تو آدمی کچھ بھی کر سکتا ہے ۔

شیرا بولا :یہ تو تمہارا بڑا پن ہے ورنہ  میں نے تمہارے بارے میں جو معلومات نکالی ہیں جن سے  مجھے تمہیں جاننے کا موقع  ملا اس سے یہی پتا چلا کہ جو کام تم کر رہے ہو وہ کرنا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔۔اور  ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں کہ تم جب بھی اپنا بدلہ لینا چاہو مجھے اپنے پیچھے کھڑا پاؤ گے۔۔ میں کبھی بھی بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں چاہے تو آزما لینا بیشک میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے اس سب میں ۔۔۔

شیرا کی بات مجھے اتنی دل کو لگی کہ میں نے آگے بڑھ کر اس کو گلے سے لگا لیا اور ایک زوردار جپھی ڈالنے کے بعد جب میں اس سے الگ ہوا تو میری آنکھوں میں آنسو تھے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page