Unique Gangster–187– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -187

میری آنکھوں میں آنسو دیکھتے ہوئے شیرا نے اپنے دونوں ہاتھ بڑھا کر میرے سر کو پکڑا اور پھر میرے ماتھے پر ایک بوسہ دیتے ہوئے بولا۔۔ شیر کی آنکھوں میں آنسو اچھے نہیں لگتے کیا کوئی یقین کرے گا کہ یہ وہی شیر ہے جو ابھی اندر دھاڑ رہا تھا اور یہاں بھیگی بلی بنا ہوا ہے اسے ہی تو رسپیکٹ اور پیار کہتے ہیں۔۔

شیرا اور اس کے ساتھی جب اجازت لے کر چلے گئے تو

نواب حیات  میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ جیسا تمہارے بارے میں سنا تھا اس سے کئی گناہ بڑھ کر پایا تم واقعی میں ایک اچھے انسان ہو ۔۔

تو کیا میں تمہیں گھر ڈراپ کر دو اگر تمہیں برا نہ لگےکیونکہ تمہارے پاس یہ تین بیگ ہیں اور اس طرح اکیلے بائیک پر جانا تمہارے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔

میں بولا۔۔۔ نہیں ٹھیک ہے میں چلا جاؤں گا اور ویسے بھی میں اکیلا کہاں ہوں میرے ساتھ سمن بھی تو جاۓ گی۔

نواب حیات بولا۔۔۔ ٹھیک ہے جیسے تمھاری مرضی بیٹا میں اور سمن بائیک پر بیٹھے۔ ایک چھوٹا اور بڑا بیگ سمن نے پکڑ لیا اور ایک بیگ میں نے آگے ٹینکی پر رکھ لیا۔۔

نواب حیات بھی وہاں سے اپنی لاہور والی کوٹھی پر روانہ ہو گیا جبکہ سمن میرے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہو گئی راستے میں سمن نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔ آج ایک بار پھر تم نے میری جان بچائی ہے اگر تم وقت پر نہ آتے تو وہ مجھے بابا کے سامنے رسوا اور ذلیل کر دیتے اور میرے بابا یہ بات برداشت نہ کر پاتے اور اس دنیا سے چلے جاتے۔

میں بولا۔۔۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے یہ تو جب مجھے پتہ لگا کہ تم زندہ ہو ورنہ میری دوستوں نے تو مجھے یہ بتایا تھا کہ تم مار دی گئی ہو۔

وہ بولی۔۔۔ ہاں ان لوگوں کو ایسا ہی لگنا تھا کیونکہ ان لوگوں نے آکر میرے سر پر وار کیا تھا جس سے میں وہیں پر بے ہوش ہو گئی تھی۔ اور ویسے لبنی باجی کی طبیعت اب کیسی ہے وہ کافی زخمی ہو گئی تھی۔۔

میں بولا۔۔۔ میں ان کی طرف ابھی نہیں گیا صبح سے ہی اس جھمیلے میں پھنسا ہوں اب جا کر فارغ ہوا ہوں تو صبح پہلے ٹائم ہی ان کی طرف چکر لگاؤں گا میں نے یہاں سے گھر کو بھی دوسری جانب شفٹ کر دیا ہے ابھی یہاں آنے سے پہلے میں سبھی کو وہاں چھوڑ کر آیا ہوں۔۔

وہ بولی۔۔۔ مجھے معاف کر دینا میری وجہ سے تم سب کو مصیبت جھیلنا پڑی۔۔

میں بولا۔۔۔ تمہاری وجہ سے کہاں مصیبت ہوئی ہے مصیبت تو میں نے خود پال رکھی تھی جو ایک نہ ایک دن تو ہونی تھی ویسے بھی اچھا ہے اب شہر سے باہر شفٹ ہو گیا ہوں لیکن بس ایک غلطی ہو گئی کہ میری ایک دوست زخمی ہو گئی اور ایک کو میں نے بہت سمجھایا کہ وہ گھر میں ہی رہے لیکن اس نے میری بات نہیں مانی اور اس کتے کے ہاتھوں بے رحمی سے ماری گئی کل پوری رات مجھے اسے بچانے میں گزر گئی اور آج وہ اس دنیا میں ہی نہیں رہی مجھے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے۔۔

وہ بولی۔۔۔ پر میں ایک بات جانتی ہوں کہ وہ اوپر جا کر بھی خوش ہوگی کیونکہ تم نے اس کے قاتل کو اتنی جلدی اس کے پاس بھی بھیج دیا۔۔

میں بولا۔۔۔ ابھی کہاں ابھی تو مجھے وہ لوگ تلاش کرنے ہیں جن کو کال کرنے کے بعد وہ ان کے پاس گئی تھی جن لوگوں نے اسے ورغلا کر اپنے پاس بلایا تھا اور پھر اسے دوستی کا جھانسا دے کر جان سے مار دیا اور اتنی بے دردی سے بھی کوئی اس طرح کر سکتا ہے۔ میں تو یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔

وہ بولی۔۔۔ لبنی باجی سچ ہی کہتی ہیں کہ آپ کی زندگی میں آرام کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ آپ ہر وقت صرف دوسروں کی مدد کرنے میں ہی لگے رہتے ہیں

میں بولا۔۔۔ دوسرے کہاں ہیں یہ سبھی تو میرے اپنے ہیں جب اپنا کوئی رہا نہیں تو ان کو ہی اپنا مان لیا۔۔

وہ بولی۔۔۔ میں آپ کے بارے میں زیادہ جانتی تو نہیں لیکن اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ آپ کسی بہت بڑے حادثے سے گزر رہے ہیں جو چیز آپ کی زبان بیان کرتی ہے وہ آپ اپنے چہرے پر نہیں آنے دیتے اور جو چیز آپ کے چہرے پر ہے وہ آپ کی زبان بیان نہیں کرتی میں کئی دفعہ آپ کو دیکھ کر الجھ سی جاتی ہوں۔۔

میں بولا۔۔۔۔ کچھ چیزیں سمجھ میں نہ ہی آئیں تو بہتر ہیں ہر چیز اگر سمجھ میں آنے لگ جائے تو زندگی اور زیادہ الجھ جاتی ہے۔۔

وہ بولی۔۔۔ ہاں یہ بات بھی تمہاری ٹھیک ہے کچھ چیزوں سے انجان رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔۔

باتوں کے دوران ہی ہم شہر سے کافی باہر نکل کر اپنی حویلی پر پہنچ چکے تھے جہاں اس وقت صبح ہونے کے آثار صاف نظر آ رہے تھے میں بھی جلدی سے اندر گھسا اور سب لڑکیاں ابھی بھی چیزوں کو سیٹ کرنے میں ہی لگی ہوئی تھی تو میں ان سے بولا تم سب نے آرام کیوں نہیں کیا یہ تو ہم صبح بھی کر سکتے تھے۔

مشال بولی۔۔۔ یہ سوال تو ہم آپ سے بھی کر سکتے ہیں کہ آپ نے آرام کیوں نہیں کیا ہمیں یہاں چھوڑنے کے بعد واپس کیوں چلے گئے جب آپ آرام نہیں کر سکتے تو ہم کیسے آرام کر سکتی ہیں۔۔۔

اتنے میں پیچھے سے سمن بھی اندر داخل ہوئی تو وہ بولی۔۔ کیا باتیں ہو رہی ہے۔۔

سمن کو سامنے دیکھ کر سبھی لڑکیاں اتنی زیادہ خوش ہوئی اور اچھلتی ہوئی جا کر سمن کے گلے لگ گئیں پھر سبھی کے چہروں پر جب میری نظر گئی تو وہاں پر آنسو بھی جھلک رہے تھے۔۔

میں نے گلا کھنگار کر ایک دفعہ اسد کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان کو ایک کمرے میں آرام کرنے کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

میں اسد کے کمرے میں گیا تو وہ وہاں پر کروٹیں بدل رہا تھا مجھے دیکھتے ہی وہ اپنی چارپائی سے اٹھ کھڑا ہوا اور میری طرف لپکا۔ مجھے گلے لگاتے ہوئے بولا کیا تم ٹھیک ہو۔

میں بولا۔۔۔ ہاں میں ٹھیک ہوں اور صحیح سلامت ہوں  تمہارے سامنے کھڑا ہوں تو  ابھی آرام کر لو صبح ہونے والی ہے پھر ایک ساتھ ہی کالج جائیں گے۔

اسد بولا۔۔۔ یار میرا ایک مسئلہ ہے مجھے نئی جگہ پر نیند نہیں آتی اگر تم برا نہ مانو تو میں بھی تمہارے ساتھ باہر چل سکتا ہوں۔۔

میں بولا۔۔۔ کیوں نہیں ہے اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے آؤ آ کر باہر بیٹھتے ہیں۔

پھر اسد اور میں کمرے سے باہر نکل کر آئے اور وہاں لگے صوفوں پر بیٹھ گئے سبھی لڑکیاں ابھی بھی کام میں لگی ہوئی تھی اور سارا سامان سمیٹ رہی تھیں۔۔

باہر آ کر میں نے سب سے کھانے کا پوچھا تو سبھی نے کہا کہ ہم نے تو ابھی تک کچھ بھی نہیں کھایا اور کئی لڑکیوں نے تو یہ بھی کہا کہ ہمارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔

میں بولا۔۔۔ تو بنایا کیوں نہیں کھانا بنا لیتی نا۔۔

مشال بولی۔۔۔ ابھی کچن سیٹ کیا

میں بولا۔۔۔ یار وہ تو پہلے کرنا تھا۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page